کین بہرنگ امریکہ کا ایک امیر شخص تھا۔ وہ کروڑوں ڈالر مالیت کی جائداد کا مالک تھا۔ نوے کی دہائی میں آئے دن اسکا نام forbes کی امیر ترین اشخاص کی فہرست میں جگہ پاتا رہا۔ ایک دن سان فرانسسکو کے قریب ایک غریب ترین علاقے میں اسکی بزنس میٹنگ تھی۔ وہ وہاں ایک شاپنگ مال تعمیر کرنا چاہتا تھا لیکن اس علاقے میں زمین حاصل۔کرنا سخت جوکھم کا کام تھا۔ اسی تعلق سے اسکی میٹنگ ہونی تھی۔ علاقہ خطرناک ہونے کی وجہ سے کین نے ایک باڑی گارڈ کے ہمراہ وہاں جانے کا پروگرام بنایا۔
توقع کے برعکس اسکی میٹنگ کامیاب رہی اور اسے لگا کہ وہ وہاں شا پنگ مال بنا سکتا ہے۔ میٹنگ کے بعد وہ متوقع زمین کا معائنہ کرکےوہ اس پانچ ستارہ ہوٹل میں واپس آگیا جہاں وہ ٹھہرا تھا۔ اندر جاتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ اسکا بٹوہ اسکی جیب سے کہیں گرگیا ہے۔ اس میں تیس ہزار ڈالر کی نقدی کچھ کریڈٹ کارڈ، شناختی کارڈ اور دیگر نجی معلومات سے متعلق مواد تھا۔ کین جیسے امیر شخص کیلئے یہ کچھ خاص نقصان نہ تھا۔ اس نے سوچا صبح تک انتظار کرنا چاہیئے پھر کسی کاروائ کے متعلق سوچا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی راہ گیر کو یہ بٹوہ راستے میں ملے اور وہ فون پر اسکی اطلاع کردے۔
” کیا آپکو اسکی توقع ہے کہ کوئ اسکی اطلاع آپ کو دیگا؟ ” باڈی گارڈ نے تعجب سے پوچھا۔ اس نے مزید کہا ” یہ غریب ترین لوگوں کی بستی ہے۔ آپ کسی سے کیسے یہ امید کرسکتے ہیں کہ کوئ آپ کا بٹوہ واپس کر دیگا؟ ”
” ہوسکتا ہے تم صحیح ہو لیکن ہمیں پھر بھی کل تک انتظار کرنا چاہیئے ” کین نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔ دن گزر گیا لیکن کوئ فون کال موصول۔نہ ہوئ۔
دوسری صبح کین پولیس میں رپورٹ کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ فون کرنے والا کہہ رہا تھا کہ اسکے پاس کین کا بٹوہ ہے۔ اس نے کین سے ملنے کا وقت اور جگہ کی نشاندہی کردی۔ باڈی گارڈ کو لگا کہ کسی نے کین سے غلط فائدہ اٹھانے کیلئے اسے بلایا ہے کیونکہ بٹوے میں کین کے کاروبار کے متعلق خفیہ تفصیلات بھی تھیں اور انکا غلط استعمال ہوسکتا تھا۔ اسکی دلیل تھی کہ ایک دن اور رات گزرنے کے بعد کسی کو بٹوہ واپس کرنے کی کیوں سوجھی۔ اس نے کہا کہ پولیس کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے لیکن کین نے اسکے خدشات مسترد کرتے ہوئے اسے چلنے کیلئے کہا۔ سفر کے دوران وہ سوچ رہا تھا کہ آخر آج کے زمانے میں کون ہے جو بٹوہ واپس کرنے پر آمادہ ہے۔ ہوسکتا ہے یہ کوئ مذہبی بزرگ ہو یا کوئ ایسی ماں جو شوہر کے بنا اپنے بچوں کو پال۔پوس رہی ہو یا یہ کوئ غریب شخص بھی ہوسکتا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے وہ منزل پر پہنچ گئے۔ مگر یہ کیا۔ یہ ایک ویران بس اسٹینڈ ہے اور دور دور تک کوئ متنفس نظر نہیں آرہا تھا۔ البتہ کسی قدر فاصلے پر ایک دس گیارہ سالہ لڑکا سائکل کے سہارے کھڑا تھا۔ وہ بچہ انکے قریب آگیا اور پوچھا ” کیا آپ مسٹر کین بہرنگ ہیں ؟”
” ہاں میں کین بہرنگ ہوں” کین نے جواب دیا۔ باڈی گارڈ بچے سے بٹوہ لیکر اسکا معاینہ کرنے لگا۔ ہر چیز موجود تھی۔ کین نے پوچھا ” اچھے بچے بولو تمہیں بدلے میں کیا چاہیئے ؟”
” کیا آپ مجھے ایک ڈالر دے سکتے ہیں۔” بچے نے معصومیت سے جواب دیا۔
” صرف ایک ڈالر ؟” کین نے تعجب سے پوچھا۔
” جی جناب۔ میں بٹوہ پاتے ہی کل آپ کو فون نہ کرسکا۔ میرے پاس فون کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے۔ آج صبح میں نے دوکاندار سے ایک ڈالر ادھار لیا تب آپ کو فون کرسکا۔آپ ایک ڈالر دینگے تو میں یہ ادھار چکا سکتا ہوں” بچے نے اسی معصومیت سے کہا۔
کین بچے کی دیانتداری اور اعتماد سے بہت متاثر ہوا۔
معلوم نہیں کین اور بچے کے درمیان کیا معاملات طے پائے لیکن کین کی زندگی میں ایک انقلاب آچکا تھا۔ اس نے شاپنگ مال بنانے کا پروجیکٹ موقوف کردیا۔اسکے برعکس ایک بہت بڑا اسکول تعمیر کرایا جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ کین نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں کروڑوں ڈالر امدادی اور فلاحی کاموں میں خرچ کئے۔ 25 جون 2019 کو کین کی وفات ہوگئ۔ کین کو اسکی غریب پروری کیلئے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائیگا۔ لیکن اسکے کردار کی تبدیلی کیا ایک دس سالہ معصوم دیانت دار کی ترغیب اور تحریک کا نتیجہ نہیں ہے ؟ کیا بچے کی دیانتداری کے جذبے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ انسان مرا نہیں۔ انسانیت زندہ ہے ابھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...