(Last Updated On: )
وہ کمرے میں پاگلوں کی طرح گھوم رہا تھا غصّے سے وہ پاگل ہو رہا تھا اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر دیوار پر زور سے مارا غصہ تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا وہ راستے سے ہی واپس ہوا تھا کوئی ضروری فائل وہ گھر میں ہی بھول گیا تھا کمرے کی طرف جانے سے پہلے اسے پری ور بوا کی آواز کچن سے آئی وہ وہی چلا گیا اور پری کے جھوٹ پر وہ سیخ پا ہوگیا پری نے آہستہ سے روم کا دروازا کھولا شاہ زر کو دیکھ کر اس کا دل دھڑکنا بھول گیا شاہ زر کی نظر اس پر پڑی تو دروازے پر جا کر اسے ہاتھ سے کھینچ کر اندارکیا اور روم کا دروازا زور سے پاؤں کے ساتھ بند کیا پری کی حالت غیر ہوگئی
“کیا بکواس کر رہی تھی نیچے ہاں بولو کیا کہ رہی تھی پھر سے کہنا میں سنا چاہتا ہوں ایک بار پھر سے “وہ ایک قدم اور اس کے قریب ہوا ہاتھ پر گرفت اور سخت کی پری نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اسے بہت درد ہو رہا تھا آنسو خودبخود آنکھوں سے گرنا شروع ہو گئے جیسے اس نے دوسرے ہاتھ سے بےدردی سے صاف کئے
“میں نے ایسے ہی کہ دیا تھا آپ نا آئے ہوتے تو میں بوا کو سب سچ بتا دیتی ” پری نے روتے ہوئے روانی سے جواب دیا اسے ڈر تھا کہی وہ سنے بنا ہی اسے سزا نہ سنا دے
“مذاق سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے ایسے ہی کہی بھی تم میری عزت ک جنازہ نکال دوں گئی اور پھر آ کر کہو گی میں اس کے بعد سچ بتانے ہی والی تھی کے مجھے موقع ہی نہیں مل سکا “
وہ غصّے سے ڈھارا ہاتھ پر گرفت اور سخت ہو گئی
“اور کیا کہا تھا تم نے میرے منگیتر بیچارے کو دھمکی دی اور اس نے انکار کر لیا ۔۔ یہ کیوں نہیں بتایا تم نے کہ وہ ایک بزدل مرد تھا جو ایک فون کال پر بھاگ نکلا تھا “
“وہ بزدل مرد نہیں تھا وہ غیرت مند مرد تھا اس نے جو فیصلہ کیا وہ بلکل ٹھیک تھا مگر آپ کیا جانوں غیرت مند مرد کہتے کیسے ہیں آپ کی طرح کے مرد ہوتے ہیں بزدل جو پیٹ پیچھے وار کرتے ہیں ” وہ تلخی سے گویا ہوئی
“بکواس بند کرو اپنی میں بے غیرت ہو نا آج تمہیں بتاؤں گا بے غیرت مرد ہوتے کیسے ہیں ! اور کیا کہا تھا تم نے میں تم سے محبت کرتا تھا اور تمہارے پیچھے پڑا ہوا تھا ” وہ غصے سے بے قابو ہو رہا تھا
“ذلیل عورت جواب دوں مجھے کیا کہ رہی تھی تم” شاہ زر غصّے سے غرایا دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کو کھینچ کر اسے خود سے قریب کیا پری تکلیف سے چلائی “چھوڑے شاہ زر خدا کا واسطہ ہے چھوڑے مجھے آپ ایک جنگلی انسان ہے ہاں آپ واقعی میں بے غیرت ہو ایک کمزور لڑکی پر ہاتھ اٹھانا بزدلی ہی ہوتی ہے نفرت ہے مجھے آپ جیسے مردوں سے جو عورتوں کو بلک میل کرتے ہیں ان رشتوں کے ہاتھوں جن سے انہیں محبت ہوتی ہے”
پری نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ اپنے بالوں سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی پھر اس کے سینے پر زور زور سے مرنے لگی ۔ شاہ زر نے اس کے بال چھوڑے اور اسے دھکا دیا وہ بیڈ کے سائیڈ پر پڑی ٹیبل سے ٹکرای اس کے ماتھے سے خون آنے لگا شاہ زر نے آ گے بڑ کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا
” تمہیں آج میں بتاؤں گا کتنی محبت کرتا ہوں میں تم سے کیا کہا جنگلی ہو نہ میں آج تمہیں پتا چلے گا جنگلی پن ہوتا کیا ہے جان سے مار ڈالوں گا میں تمہیں بے غیرت ہو نا میں آج تمہیں پتا چلے گا بے غیرت مرد کیسے ہوتے ہیں” اس نے ہاتھ اٹھایا اور پری کے چہرے پر اپنی درندگی کے نشان چھوڑتا رہا تھپڑ پر تھپڑ مارتا رہا پری بےحسی سے مار کھاتی رہی اس میں مزاحمت کرنے کی بھی سکت باقی نہیں رہی
” یہ رہا میرے بے غیرت اور کمزور مرد ہونے کا ثبوت آئندہ مجھ سے یہ سب کہنے سے پہلے سو بار سوچنا ورنہ میں اس سے بھی بے غیرت بن کر دیکھوں گا” وہ غصے میں غرایا
“خدا کا واسطہ ہے شاہ زر آپ کو آپ کی ماں کا واسطہ ہے اور مت مارے مجھ سے غلطی ہو گئی معاف کر دے مجھے مت ۔۔ مارے ۔۔ مما اللّٰہ جی کوئی ہے مجھے بچاؤ “
شاہ زر کا ہاتھ ہوا میں لہرایا ماں کے لیے وہ وہ دنیا قربان کر لیتا ہاں ماں کے لیے س نے پری کو بحش دیاشاہ زر نے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پر پھینکاوہ اور خود کمرے سے نکال گیا پری نے اسے باہر جاتے دیکھا پھر اس کے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ساری باتیں سارے منظر دھندنانے لگے جو آخری خیال باقی ہا وہ شاہ زر کی نفرت تھی وو ڈھرام سے نیچے گری وہ چلانا چاہتی تھی اپنی مدد کے لیے کیسی کو پکڑنا چاہتی تھی اس کی آواز نہیں نکل پا رہی تھی دھیرے دھیرے اس کی آنکھیں بند ہونے لگ گئی پھر وہ دنیا سے بےگانہ ہو گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں جانتا ہوں کے وہ میری نہ ہوں سکے گی عادی
پر یہ بھی تو ہے کہ میں اس کا نہ ہو سکا “
شاہ زر اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں کانچ کا کلاس تھا جو اس نے زور سے دیوار پر مارا کانچ ادھر ادھر بکھر گئے اس نے اٹھ کر اک کانچ کا ٹکڑا ہاتھ میں لیا اور اس ہاتھ کو زور سے بند کیا “اکر دیکھے نہ ماں آپ کا بیٹا اپنے مقام سے کتنا گر گیا ہے آج پھر میرا ہاتھ آپ کی طرح ایک مظلوم عورت پر اٹھا ہے میں جان بوجھ کر نہیں کرتا یہ سب اس شخص کی نفرت میں مجھ سے ہو جاتا ہے دیکھے اس ہاتھ سے مارا ہے نہ آپ کے بیٹے نے اسے اس ہاتھ کو بھی اس کی سزا ملنی چاہئے “اس کے ہاتھ سے خون کے قطرے ٹیبل پر گر رہے تھے مگر اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ اس وقت خوداذیتی کی انتہا پر پہنچا تھا کوئی درد کوئی تکلیف اسے دیکھائی نہیں دے رہی تھی اور کا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا وہ اتنا کمزور مرد نہیں تھا اس نے ہمیشہ سے ہی عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا تھا پری کے ساتھ اس نے جو کچھ کیا وہ بس انتقام کے لیے کیا تھا مگر اس نے کبھی نہیں سوچا تھا وہ اس پر ہاتھ اٹھائے گا ۔ دروازے پر دستک ہوئی اور مینیجر اندار آیا سامنے شاہ زر کے ہاتھ پر نظر پڑی تو اس کے اوستان خطا ہو گئے “سر یہ کیا کر رہے ہیں آپ کھولیے اپنا ہاتھ اس سے اتنا خون آ رہا ہے کانچ بہت اندار تک چلا گیا ہے اس سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہوں گی ” مہر نے آگے بڑھ کر شاہ زر کا ہاتھ پکڑ کر کھولنا چاہا جو اس نے اور مضبوطی سے بند کر دیا اورا پنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کیا
“کچھ نہیں ہوا مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی مجھے ہاں یہاں بہت تکلیف ہو رہی ہے بہت درد ہو رہا ہے”اس نے دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر کھوئے کھوئے لہجے میں کہا “سر پلیز ہاتھ کھولے اپنا چلے میرے ساتھ آپ کو ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے ” مہر نے زبردستی اس کا ہاتھ کھولا اور کانچ کا ٹکڑا نکال کر پھینکا ۔ مہر س کا صرف مینیجر ہی نہیں تھا بلکہ بہت اچھی سلام دعا بھی تھی تبھی وہ اتنی جرات کر سکا تھا
“تکلیف تو اسے بھی ہوئی ہو گی نہ مہر اس نے بھی تو درد سہا ہے اس نے مجھ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگنی تھی اس نے مجھ سے کہا تھا میں نہ ماروں اسے مگر میں نے اس کی ایک نہیں سنی میں اس وقت ایک کمزور مرد بن گیا تھا وہ مرد جو اپنے ساتھ ہوئی ہر زیادتی کا بدلہ عورت سے لے کے خود کو مرد کہتا پھرتا ہے ہاں میں وہ ہی مرد ہو کمزور عورتوں پر اپنی مردانگی کا ثبوت دینے والا “مہر نے بےبسی سے شاہ زر کو دیکھا جو آج زندگی میں پہلی بار کیسی کے سامنے یوں ٹوٹا بکھرا تھا “اٹھے سر ہاسپیٹل چلے میرے ساتھ مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ” مہر کے چہرے پر تشویش تھی اس نے کیسی طرح شاہ زر کو اٹھا کر آفس سے باہر لے کر گیا گاڑی میں بیٹھایا اور ہاسپیٹل لے کر گیا شاہ زر پورا راستے خاموش بیٹھا رہا اس کی ہاتھ کی بنڈیچ کر کے اسے اس کے گھر چھوڑ کر مہر واپس چلا گیا
“یہ کیا ہوا ہے شاہ زر بیٹا “بوا بھاگ کر شاہ زر کے پاس آئی “کچھ نہیں بوا پری کہا ہے وہ ٹھیک ہے نہ ” شاہ زر ان کی بات نظر انداز کر کے پری کا پوچھا جس کو تکلیف دے کر سکوں سے وہ بھی نہیں رہا تھا “بیٹا آپ کے جانے کے بعد جب بہت ٹائم اس کا پتہ نہیں چلا تو میں اس کے کمرے میں گئی وہاں بھی نہیں تھی پھر آپ کے کمرے میں دیکھا وہاں بےہوش پڑی ہوئی تھیں آپ کو بہت بار فون کیا آپ کا موبائل بند جا رہا تھا میں نے چوکیدار کو بھیجا پاس کلینک سے ڈاکٹر صاحبہ کو لے کر آیا وہ انہوں نے دیکھا دوائی دی ماتھے پر بہت زیادہ چوٹ آئی تھی پریشے بیٹی کو تھوڑا ہوش میں ایک تو اس نے بتایا وہ گر گئی تھی پھر ان کے چہرے پر انگلیوں کے نشانات بھی موجود ہے ابھی بھی ان کو ٹھیک سے ہوش نہیں آیا بہت تیز بہار ہو رہا ہے ” بوا نے ساری تفصیل بیان کی شاہ زر کا دل کیا اس وقت زمین پھٹے اور وہ س میں سما جائے و شرمندگی سے اس کی نظریں اٹھ نہیں رہی تھی “ٹھیک ہے بوا اب آپ جائے آرام کرے میں پری کو دیکھتا ہو “بیٹا آپ پہلے کچھ کہا لوں آپ کا ہاتھ بھی زخمی ہے “بوا نے اس کے ہاتھ کو دیکھ کر فکرمندی سے کہا “کچھ نہیں ہوا مجھے ٹھیک ہو میں آپ جائے مجھے کھانا ہوا خود کھا لوں گا “وہ کہ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا اور اپنے کمرے میں آیا جہاں بیڈ پر پری لیٹی ہوئی تھی اس کے چہرے پر نظر گئی تو خود کو ایک بار پھر مار دینے کو دل کیا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے سرہانے پر بیٹھ گیا اس نے آج پہلی بار پری کو غور سے دیکھا پری کے سلکی بال ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے صاف شفاف چہرہ اور اس کے گلابی گالوں کو شاہ زر نے ان زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا چہرے پر موجود اس کی مغرور ناک اس کے چہرے کو اور دلکش بنا رہی تھی شاہ زر اس کے بالوں میں دھیرے دھیرے سے ہاتھ چلا رہا تھا پری تھوڑا سا ہلی شاہ زر نے دیکھا شاید وہ ہوش میں آ رہی تھی اس کا چہرہ بہار کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا پری نے تھوڑی سی آنکھیں کھولیں پر بند کر لی ” مما پاپا پلیز آ کر مجھے بچا لے دیکھے آپ کی بیٹی کو مار پڑ رہی ہے بچاؤ بچاؤ مما آ کر اپنی بیٹی کو اس درندے سے بچائے میں مر جاؤ گی یہاں “وہ آنکھیں بند کر کے چلا رہی تھی اس کی آواز بہت مشکل ہے نکل رہی تھی پھر چلاتے چلاتے آواز بڑبڑاہٹ میں بدل گئی “م م م م مما پ پا پا پاپا بچائے ۔۔۔۔۔۔ ” وہ پھر سے ہوش وحواس کھو بیٹھی شاہ زر شرمندگی سے خود سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا اٹھ کر نیچے آیا ایک باؤل میں ٹھنڈا پانی ڈالا اور کمرے میں آ کر الماری سے چھوٹا تولیا نکل کر پری کے ماتھے پر زخم سے تھوڑا دور ٹھنڈی پٹیاں لگاتا رہا ٹمپریچر تھوڑا کم ہوا باؤل سائیڈ پر رکھا اور اس کے سرہانے ہی بیٹھ کر اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر تے کرتے خود بھی وہی سو گیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور کہی آزان کی آواز آ رہی تھی شاہ زر کی آنکھ کھولیں ایک نظر پری کو دیکھا جو اسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی شاہ زر بچپن سے ہی پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا پابند تھا اس نے اٹھ کر وضو کیا نماز پڑھ کر وہی جائے نماز پر بیٹھ گیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ” اے میرے پروردگار میں تجھ سے آج اپنی ماں کی مغفرت کی دعا سے پہلے ایک ذندہ جیتے جاگتے وجود کی سلامتی کی دعا مانگتا ہوں اے میرے اللّٰہ تو تو سب کی دعائیں سنتا ہے میری جھولی بھی بھر دے اگر اسے کچھ ہواتو یوم حشر میں کس منہ سے آپ کے سامنے حاضر ہو گا مجھے معاف کر دے میرے مولا پری کو زندگی بخش دے میں تیرا گناہگار بندہ ہو تو نے ہم مردوں کو اس دنیا میں عورت کا حاکم بنا کر پیدا کیا ہم اپنے مردانگی کے ضم میں ان معصوم عورتوں پر ظلم کرنا اپنا حق سمجھ بیٹھے ہے مجھے معاف کر دے میرے مولا “وہ اونچی آواز میں رو رو کر اللّٰہ سے پری کی زندگی مانگ رہا تھا دعا کر کے اٹھا اور پری کے ساکت پڑے وجود پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور وہی بیٹھ گیا “پری اس وقت اگر تم ہوش میں ہوتی تو میں کبھی بھی تم سے معافی نہیں مانگ سکتا تھا مجھے معاف کر دینا تمہارے ٹھیک ہوتے ہی میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آو گا میں نے تمہارے ساتھ جو بھی کیا اس سب کے سامنے معافی کا لفظ بہت چھوٹا اور معمولی ہے ہو سکے تو مجھے دل سے معاف کر لینا میں نے جو کچھ کیا سوچھ سمجھ کر کیا مگر تم پر ہاتھ اٹھانے کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا وہ سب مجھ سے اس نفرت میں ہوتا گیا جو میں تمہارے باپ سے کرتا ہوں میں بھی عام مرد نکلا میں نے بھی اپنی ماں کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم کا بدلہ اس ہی کی طرح کی ایک کمزور عورت سے لینے کا سوچھا میں تو مرد تھا میں اس شخص سے کسی اود طریقے سے بھی بدلہ لے سکتا تھا میں نے بھی عام مردوں کی طرح عورت کو ہی چنا اپنا انتقال پورا کرنے کے لیے یہ دیکھو میں نے جس ہاتھ سے تمہیں مارا تھا اس ہاتھ کو اس کے کیے کی سزا دی ہے میں نے میں ادھورا انسان ہو جس کا کوئی بھی نہیں ہے میں چا کر بھی تمہیں نہیں اپنا سکتا تم اس شخص کی بیٹی ہوں جس نے میرا ہستا بستا گھر برباد کر دیا تھا آج سے میرا تم پھر کوئی حق نہیں تم ایک مکمل انسان ہو تمہیں ایک اچھا انسان ہی ملے گا تمہارا میرا ساتھ بس یہی تک کا تھا ” اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھ کر کمرے سے چلا گیا پری کی آنکھوں سےآنسو نکل کر اس کے بالوں میں جذب ہو گیا اس نے قرب سے آنکھیں کھولیں اب سامنے کوئی نہیں تھا کیا تھا وہ شخص ایک لمحہ لگا تھا پری کو اس شخص کے سامنے اپنا دل ہارنے میں وہ شخص جس نے اسے درد دیا تکلیف دی اسی شحض نے اس کی ہر درد ہر تکلیف کو ایک لمحے میں حتم کر دیا وہ رو رو کر خدا سے اس کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا پری نے اس وقت خدا سے اس کو مانگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر بوا کو پری کو دیکھنے بیجا بوا نے آکر پری کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی وہ تھوڑا سکون سے ہو گیا اللّٰہ کا شکر اداکیا اس نے ناشتہ کیا ٹیبلیٹ لی اور بوا کو پری کا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر چلا گیا
بوا نے پری کے لیے سوپ تیار کیا اس کو ٹرے میں رکھ کر اوپر شاہ زر کے روم میں آئی پری ابھی تک وہی لیٹی ہوئی تھی
“پری بیٹا جلدی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھو یہ دیکھو تمہارے لیے گرمی گرم سوپ بنا کر لئی ہوں “بوا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا
“بوا میرا دل نہیں کر رہا ” پری نے چھت کو دیکھتے ہوئے جواب دیا
“ایسے کیسے دل نہیں کر رہا کل صبح ناشتے کے بعد آپ نے کچھ بھی نہیں کھایا ابھی یہ سارا سوپ حتم کرنا ہے تمہیں نہیں تو شاہ زر مجھ سے بہت ناراض ہو گا وہ جاتے جاتے بھی بار بار تمہارا خیال رکھنے کی ہدایت دیتا رہا ہے ” بوا نے پردے برابر کیے دھوپ سے پورے کمرے میں روشنی ہو گئی پری نے آنکھیں بند کی اچانک دھوپ پڑھنے سے اس کی آنکھیں بند ہو گئی پری نے آنکھیں کھول کر کمرے کا جائزہ لیا جو بہت نفاست سے سجایا گیا تھا کمرے میں ایک ڈبل بیڈ پڑا تھا اس کے ساتھ سامنے صوفہ سیٹ تھا سائیڈ پر الماری بنی ہوئی تھی اور بیڈ کے دوسرے سائیڈ پر ایک کرسی اور ایک میز تھا جس پر لیمپ پڑا تھا اور کچھ کاغذات اور فائل تھی پری نے کمرے کو دیکھ کر دل ہی دل میں شاہ زر کی پسند کو داد دی
بوا اب بھی اس کے سامنے کھڑے اس کے اٹھ جانے کا انتظار کر رہی تھی ناچار پری کو اٹھنا ہی پڑا وہ شاہ زر کے ہی واشروم میں فریش ہونے کے لیے چلی گئی اس وقت اپنے کمرے تک جانے کی ہمت نہیں تھی باہر نکلی بوا ابھی بھی کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی
“بوا آپ جا کر اپنا کام کرے میں کر لونگی ناشتہ آپ خواہ مخواہ زحمت کر رہی ہے میں اب بلکل ٹھیک ہو “پری نے واپس بیڈ پر بیٹھ کر کہا
“زحمت کسی بیٹا میں تمہاری ماں نہیں ہوں مگر ایک عورت تو ہو نہ تمہیں ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی شاہ زر بیٹے نے بھی کہ ہے میں پورا ٹائم تمہارے ساتھ رہو تمہیں کسی چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے ابھی سوپ پی کر آپ کو دوائی بھی کھانی ہے
” بوا نے پیار سے اسے دیکھ کر کہا
“اتنا ہی خیال تھا تو آکر میرا حال چال ہی پوچھ کر چلے جاتے “وہ بڑبڑاتے ہوئے سوپ پینے لگی
” کچھ کہا تم نے پریشے “
“نہیں بوا کچھ نہیں آپ پلیز میرے کمرے سے میرا موبائل لا دے گی “
“تم سوپ پیؤ میں ابھی لا کر دیتی ہوں “
“جی شکریہ “وہ کہ کر سوپ پینے لگ گئی بوا نے موبائل لا کر دیا اس کے بعد دوائی کھلائی اور پری کے اصرار پر نیچے چلی گئی پری نے مما کو کال ملائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بیل پر کال اٹھائی گئی
“ہیلو پری میری جان کیسی ہوں تم “مما کے لہجے میں بےتابی صاف سنائی دے رہی تھی
“میں ٹھیک ہو مما پاپا کیسے ہے آپ کیسی ہے”
“ہم کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں بیٹا تمہارے جانے کے اتنے دن ہو گئے ہے تم نے ایک بار بھی مڑ کر ہمارا پتا نہیں کیا فون بھی بند کر لیا تھا میں اور تمہارے پاپا اتنے پریشان تھے شاہ زر کو بھی فون کیا تھا میں نے اس نے تو ٹھیک منہ بات بھی نہیں کی کہنے لگا خود فون کر کے پتا کر لے تمہارے پاپا نے کہا بھی کہ اس کا نمبر بند جا رہا ہے کہنے لگا تو میں کیا کروں میں نے تو نہیں بند کیا اور فون بند کر دیا”
“بس مما یہاں آکر تھوڑا بزی ہو گئی تھی پاپا کہا ہے ان سے بات ہو سکتی ہے کیا “پری نے شاہ زر کا ذکر نظر انداز کر کے باپ کا پوچھا
“یہ پاس بیٹھے ہیں مجھ سے بار بار فون لینے کی کوشش کر رہے ہیں لوں بات کروں اپنا خیال رکھنا تمہارے پاپا آج کل میں تمہیں لینے آ رہے ہیں” انہوں نے بات مکمل کر کے فون دانیال صاحب کو دیا
“سلام پاپا کیسے ہیں”پری نے موبائل ایک کان سے دوسرے کان پر لگایا ایک ہاتھ میں پکڑے پکڑے تھک گئی تھی ابھی بھی اس کے سر میں درد ہو رہا تھا
“مت کہوں مجھے پاپا بیٹیاں ایسی ہوتی ہے کیا تمہیں کہا بھی مت جاؤ اس درندے کے ساتھ تم نے میری ایک نہیں سنی وہ تو اس دن ارحم نے مجھے سب کچھ بتا دیا مجھے تم سے اس بےوقوفی کی امید نہیں تھی اس نے کہا اور تم نے مان لیا کیا کر سکتا ہے وہ میرا میں کوئی راستے میں گرا پڑا انسان نہیں ہوں جس کو وہ برباد کر لیتا “دانیال صاحب غصّے سے بھرے بیٹھے تھے پری کی آواز سن کر پھٹ پڑے
“ارحم کون ہوتا ہے میری زندگی کے معمولات میں دخل اندازی کرنے والا اور آپ پاپا آپ اب بھی اس انسان سے رابطے میں جس نے آپ کو بھری محفل میں رسوا کر دیا آپ کی بیٹی کی رخصتی اس شخص کی وجہ سے روک گئی تھی” پری نے بھی دل کا بھڑاس نکالا
“وہ اس کی مجبوری تھی میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں تمہیں لینے آ رہا ہوں ارحم اب بھی تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہیں ” دانیال صاحب نے دھیرے سے کہا پری کو سن کر آگ گی
“کیا کہا آپ نے میں اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی مجھے تو آپ پر افسوس ہو رہا ہے پاپا آپ اس شحض سے بات ہی کیوں کر رہے ہو ایک بات میری بھی سن لے میں مر کر بھی اس انسان سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی وہ اسی دن میرے لیے مر گیا تھا جس دن اس نے بھری محفل میں مجھے رسوا کر لیا تھا اور اس وقت اس برے شاہ زر ہی نے آپ کی عزت بچائی ہے ورنہ دانیال صاحب جن کو ایک دنیا جانتی ہے ان کی عزت خاک میں مل جاتی اور ہاں میں نہ شاہ زر سے رشتہ توڑ سکتی ہوں نہ ہی اسے چھوڑ کر آپ کے پاس آؤ گی “اس کا لہجہ ناچاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا
“پچھتاؤ گی تم” انہوں نے دانت پیس کر کہا
“باپ اپنی بیٹیوں کو گھر میں بسنے کی دعا کرتے ہیں اور ایک آپ ہے جنہوں نے مجھے کھلونا سمجھ رکھا ہے جب دل کیا قربان کر کیا جب دل کیا مجھے کیسی سے بھی باند دیا “اس نے تلحی سے کہ کر فون بند کردیا اور اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا درد سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا اس نے سر تکیے پر گرا لیا اور آنکھیں موند لی وہ اس وقت کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔