اسلوبیات ایک نیا دبستانِ تنقید ہے جسے اردو میں متعارف کرانے کا سہرا پروفیسر مسعود حسین خاں کے سر ہے۔ مسعود صاحب پہلے اسکالر ہیں جنھوں نے اردو میں اسلوبیات پر مضامین لکھے اور اس کی مبادیات سے اردو داں طبقے کو روشناس کرایا۔ اس سلسلے کا ان کا سب سے پہلا مضمون ’’مطالعہ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ ہے جو ۱۹۶۰ء کے آس پاس لکھا گیا اور جو ان کے مجموعۂ مضامین شعرو زبان (حیدرآباد، ۱۹۶۶ء) میں شامل ہے۔
اسلوبیات کی جانب مسعود صاحب کی توجہ لسانیات کی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے مبذول ہوئی، کیوں کہ ’اسلوبیات‘ در اصل ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کاہی دوسرا نام ہے۔ لسانیات کی تربیت پانے کی وجہ سے ان کا ذہن تجزیاتی، معروضی اور سائنسی طرزِ فکر کا حامل بن گیا تھا۔ ایک جگہ لسانیات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ :
’’اس میں سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرانے کے لئے ضروری ہے کہ جذبہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر انسان تعلقی اور منطقی فکر کو اپنائے ‘‘ (۱)
وہ ادب اور لسانیات کو ’ ہم دِگر ‘ دیکھنا چاہتے تھے اور لسانیات سے جو علمی بصیرت حاصل ہوتی ہے اس سے ادب کے مطالعے میں فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کا ذریعہ اظہار زبان ہے اور زبان کی ہی سائنسی مطالعے کا نام ’لسانیات ‘ ہے ، لہٰذا ادب کے لسانیات نقطۂ سے مطالعے کا وافر جواز پایا جاتا ہے۔
مسعود حسین خاں صاحب اگر چہ بنیادی طور پر ادب کے استاد تھے ، لیکن مطالعۂ ادب کے داخلی ، تاثراتی اور وجدانی طریقۂ کار کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ ناقدینِ ادب کے بلند بانگ دعووں اور مبالغہ آمیز تعمیمات سے بیزار ہو چکے تھے اور تنقید کے خالص داخلی رنگ کو بیجا تصوّر کرتے تھے اسی طرح خالص ذوقی اور وجدانی تنقید بھی ان کے نزدیک کارِ عبث تھی۔ اپنے اِس تنقید نظرئیے کا اظہار انھوں نے اپنی خود نوشت درودِ مسعود میں ایک جگہ یوں کیا ہے :
’’میں ادبی تنقید کی فقرے بازی اور قولِ محال سے بیزار تھا۔ ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، مقدس وید اور دیوانِ غالب، ’منزل اردو شاعری کی آبرو ہے، جن فقروں پر لوگ سر دھنتے تھے میری سمجھ میں ان کا مفہوم نہیں آتا تھا۔ میں زیادہ سے زیادہ انہیں انشاءپردازی کہہ سکتا ہوں ، ادبی تنقید ہر گز نہیں۔ ان سے مجھے لطف مل سکتا ہے، بصیرت نہیں ملتی۔ جہاں تک قدماء کے مشاہدات کا تعلق ہے ان میں کچھ جان پاتا تھا۔ لیکن ہر سطح پر علوم کے حوالے سے ان کی نئی تشریحات کی ضرورت محسوس کرتا۔ بیان و بلاغت کی کتب میں ’صرف‘ کا تصوّر اس طرح چھایا رہا ہے کہ ’ صوت‘ کا کہیں پتا نہیں چلتا، حالانکہ حرص تو صرف جامہ ہے، زبان کی جان تو صوت ہوتی ہے۔ ‘‘(۲)
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ تنقید کے مروجہ اسالیب سے مسعود صاحب کا دل اچاٹ ہو چکا تھا اور وہ تنقید کے عصری رجحانات و میلانات، مثلاً رومانی تنقید ، تاثراتی تنقید اور جمالیاتی تنقید کو ادب کی تفہیم و تنقید کے لئے ناکافی سمجھتے تھے، لیکن ادب پر لسانیات کے اطلاق اور مطالعۂ ادب کے لئے اسلوبیاتی طریقۂ کار کو اختیار کرنے باقاعدہ تحریک انہیں امریکہ میں پروفیسر آر کی بالڈے اے۔ ہل کے لکچرز سے ملی جن میں وہ پابندی کے ساتھ حاضری دیا کرتے تھے۔
مسعود حسین خاں صاحب نے ۶۰۔ ۱۹۵۹ء کے دوران امریکہ کا علمی سفر کیا اور اپنے علمی استفادے کے لئے امریکہ کی دو ممتاز دانش گاہوں ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن) اور ہارورڈ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ ٹیکسس یونیورسٹی میں ان کی ملاقات پروفیسر آرکی بالڈ اے۔ ہل سے ہوئی جو اگر چہ وہاں کے شعبۂ انگریزی کے صدر تھے، لیکن ان کی دلچسپی کا میدانِ علم لسانیات بھی تھا۔ وہ ’ لسانیاتی اسلوبیاتی‘ کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور ادب کی تفہیم کی و تنقید کے لئے لسانیات کا اطلاق کر رہے تھے بلکہ اس وقت وہ لسانیات کا ادب پر اطلاق کرنے والوں کے ’ سرخیل‘ تھے۔ مسعود صاحب ٹیکسس یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران پابندی کے ساتھ پروفیسر ہل کے لکچرز میں شریک ہوتے رہے۔ انھیں ان لکچروں میں وہ سب کچھ ملا جس کی ہندوستان میں انھیں تلاش تھیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’پروفیسر ہل کے لکچروں میں‘‘ جن میں میں پابندی سے حاضری دیتا تھا، وہی پایا جس کی مجھے تلاش تھی، یعنی لسانیات اور ادب کو کس طرح ہم دگر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۳)
مسعود حسین خاں جس وقت امریکہ پہنچے، اس وقت وہاں نوام چامسکی کے لسانیاتی نظریات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان کے امریکہ پہنچنے سے صرف دو سال قبل چامسکی کی شہرۂ آفاق کتابSyntactic Structures(۱۹۵۷ء) میں شائع ہوئی تھی جس نے لسانیات کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم برپا کر دیا تھا۔ لیکن ثقہ لوگ اس کے نظریات کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ پروفیسر ہل بھی چامسکی کے لسانیاتی نقطۂ نظر کو ’’لائق اعتنا‘‘ نہیں سمجھتے تھے، کیوں کہ ان کا تعلق بلوم فیلڈ کے ’بیوہاری‘Behavioristدبستان سے تھا ، اس لئے جیسا کہ مسعود صاحب نے لکھا، ، پروفیسر ہل کی لسانیاتی اسلوبیات کی اماس بلوم فیلڈ کے نظریے پر قائم تھی۔ (۴)
(۲)
زبان کے مسائل سے لوگوں کی علمی دلچسپی اگر چہ قدیم زمانے سے رہی ہے، لیکن لسانیاتِ جدید Modern Linguisticsکا باقاعدہ ارتقا بیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے اور فری ڈی نینڈ ڈی سسیلور کے لسانی تصورات لسانیاتِ جدید کا نقطہ آغاز قرار پاتے ہیں۔ سیلور کی یادگار صرف اس کی کتاب Course in General Linguisticsہے جو اس کے شاگردوں نے اس کے لکچر نوٹس کی مدد سے ترتیب دے کر اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں شائع کی تھی۔ جدید لسانیات کے ارتقا میں فرڈی نینڈ ڈی سسیلور کے تصورات اتنے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کہ اسے ’لسانیاتِ جدید کا باوا آدم ، کہا جانے لگا۔ جن لسانیاتی نظریات کو سسیلور نے پیش کیا تھا ان کی بنیاد پر ہیئتی یا ساختیاتی لسانیات Structures Linguisticsکا ارتقا عمل میں آیا ہے جسے توضیحی لسانیات Descriptive Linguisticsکے نام سے بھی یاد کیا گیا۔ توضیحی لسانیات کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ زبان کی توضیح بیان کرتی ہے ، تاریخ نہیں۔ یعنی کسی زبان میں عہد بہ عہد رو نما ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے کے علم الرغم یہ کسی ایک عہد میں بولی جانے والی زبان کی ہیئت یا ساخت کی توضیح Descriptionہے۔ بیسویں صدی سے قبل زبانوں کے تاریخی مطالعے کا رجحان عام تھا، لیکن سسیلور کے لسانی تصورات کے عام ہوتے ہی عالموں کی توجہ زبانوں کے توضیحی مطالعے کی جانب مبذول ہوئی۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس زمانے میں یورپ میں فرڈی نینڈڈی سسلیور لسانیات پر لکچر دے رہا تھا تقریباً اسی زمانے میں امریکہ میں علم بشریات Anthropologyکی ایک شاخ کے طور پر لسانیات کا ارتقا عمل میں آ رہا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز کے آس پاس ماہرینِ بشریات امریکہ کی ’ریڈ انڈین ‘ Red Indiansقوموں کی تیزی کے ساتھ مٹتی ہوئی تہذیب کو محفوظ کر لینے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔ زبان چونکہ تہذیب کا ایک اہم جزو ہے، اس لئے ماہرینِ بشریات ان قوموں کی زبانیں ریکارڈ کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس عمل کے دوران ان کی توجہ ریڈ انڈین زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کی جانب بھی مبذول ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ابتدائی دور کے ماہرینِ لسانیات ،بنیادی طور پر بشریات کے عالم تھے ، جن میں فرنیز بواز اور ایڈورڈسپیر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ان عالموں نے اور بعض دوسرے ماہرینِ بشریات نے اگر چہ ریڈ انڈین زبانوں کے مطالعے اور تجزئے میں بے حد سرگرمی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کے مطالعے بعض اوقات ٹھوس اور مربوط نہ ہو سکے۔ ان میں ایک طرح کی کمی باقی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں کے مطالعے کے کوئی رہنما اصول اب تک متعین نہ ہو سکے تھے اور ان کے تجزئے کے طریقے کار کی جستجو ہنوز باقی تھی۔ یہ صورت حال لینارڈبلوم فیلڈ کی مفصل اور معرکۃ الآرا تصنیف Languageکی ۱۹۲۲ء میں اشاعت سے یکایک تبدیل ہو گئی۔ بلوم فیلڈ نے اس کتاب میں زبان کی توضیح اور تجزئے کے واضح اصول متعین کئے اور کہا کہ ماہرینِ لسانیات کو صرف اسی مواد کی معروضی اور منظم طور پر چھان پھٹک کر نی چاہئے جو ان کے مشاہدے کے دائرے میں آتا ہو۔ علاوہ ازیں بلوم فیلڈ نے ’معنی‘ سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ کسی زبان میں لسانی مواد کی ترتیب و تنظیم کس نہج پر عمل میں آئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے اصول کار فرما رہے ہیں۔ اپنے اس ہیئتی نظرئے کی تشکیل میں بلوم فیلڈ نے ’معنی‘ سے صرف نظر کیا ہے۔ اس کے خیال میں زبان کے توضیحی مطالعے میں معنیٰ سے سرو کار رکھنا چنداں ضروری نہیں۔ لسانیات کی دنیا میں بلوم فیلڈ کا طلسم تقریباً ربع صدی تک قائم رہا۔
بیسویں صدی کی نصفِ اوّل کے ختم ہوتے ہی لسانیات نے اپنے ارتقاء کا ایک نیا موڑ اختیار کیا۔ نوام ’چامسکی نے ‘جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۱۹۷۷ء میں محض ۲۹ سال کی عمر میں جس وقت کو وہ میسا چومٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں استاد تھا Syntactic Structuresکے نام سے ایک کتاب شائع کی جس سے اس کی شہرت نہ صرف پوری دنیا میں پھیل گئی ، بلکہ لسانیات کو ایک نئی سمت اور نئی جہت بھی ملی ہے۔ چامسکی بلاشبہ اس صدی کا سب سے ذہین اور با اثر عالمِ لسانیات ہے جس نے تخلیقی قواعد Generative Grammarکا نظریہ پیش کر کے لوگوں ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چامسکی کا خیال ہے کہ کسی زبان کا بولنے والا اس زبان کے اصول و ضوابط Rulesکو اپنے تحت الشعور میں محفوظ کر لیتا ہے جو اس زبان کے استعمال میں یعنی فقروں اور جملوں کی تشکیل و ترتیب میں اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک ماہر لسانیات کا کام یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کا پتا لگائے ، اور یہی ’دریافت‘ اس زبان کی ’قواعد‘Grammarکہلاتی ہے۔ جو قواعد ایسے اصول و ضوابط پر مشتمل ہو جو اس بات کی صراحت کریں کسی زبان کے فقروں یا جملوں کی کون سے ترتیب ممکن ہے اور کون سی ممکن نہیں، تو ایسی قواعد ’تخلیقی قواعد‘ Generative Grammarکہلائے گی اسی قواعد کی ایک شکل کو ’تبادلی تخلیقی قواعد‘ Trans Promotional Generative Grammarکا نام دیا گیا ہے۔ چامسکی کے نزدیک قواعد وہ طریقہ کار Deviceہے جو کسی زبان کی تمام قواعدی شکلیں (یعنی وہ تمام فقرے اور جملے جو قواعد کی رو سے درست ہوں تخلیق کرتا ہے، غیر قواعدی شکلیں نہیں۔ قواعد کے بارے میں چامسکی کے اس نظرئے سے تخلیقی لسانیات Generative Linguisticsکے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے
(۳)
بیسویں صدی کی وسط تک ہندوستان میں جدید لسانیات کا فروغ تو ہو چکا تھا، لیکن شعر و ادب پر اس کے باقاعدہ طور پر اطلاق کی بات ابھی تک کسی کے ذہن میں نہیں آئی تھی،اور اردو زبان تو اس معاملے میں اور بھی پیچھے تھے۔ اس صورتِ حال کا ذکر مسعود حسین خاں صاحب یوں کرتے ہیں:
’’غرض قواعد نویسی ہو یا عروض و بلاغت کے اصول، ہماری علمی نظر ان گہرائیوں تک نہیں جاتی جو توضیحی لسانیات نے اس صدی میں پیدا کر دی ہے۔ شعر و ادب بھی زبان سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے اس کے اصول وضع کرنے میں علمِ زبان سے اغماض کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ لفظ و معنیٰ کی بحث پر یا تو دیو مالا کی چھوٹ پڑتی ہے یا ہم فلسفیانہ موشگافیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ محسوس تو کر لیتے ہیں کہ شاعر ’ گنجینۂ معنیٰ کا طلسم ‘ بناتا ہے لیکن اس ترکیب کے پیچھے جس معنیاتی حقیقت سے سامنا ہے اس توجیہہ نہیں کر پاتے۔ چنانچہ یا تو شاعری جزویست از پیغمبری ، کہتے آتے ہیں یا ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔ ‘ ہم نے زبان کے تہ نشین امکانات کو چامسکی کے وقت تک مطلق سمجھنے کی کوشش نہیں کی‘‘(۵)
امریکہ میں اپنے قیام کے دوران مسعود صاحب چامسکی سے بے حد متاثر تھے۔ انہیں چامسکی کی آئندہ مقبولیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ بلوم فیلڈ کی شہرت اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’بلوم فیلڈ کی ’بیوہاریت ‘ کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور لسانیات نئی پرواز کے لئے پر تول رہی ہے۔ ‘‘ (۶)
امریکہ میں اپنے قیام کے دوران وہ قدماء کے ’علم بیان و بلاغت ‘ کے بارے میں اکثر سوچتے اور ان کے مشاہدات و فرمودات کو لسانیات کی کسوٹی پر ’’رکھنے‘‘ کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انھیں ’’اس میں چامسکی کے نظریے سے بہت مدد ملتی ‘‘(۷)
ٹیکسس یونیورسٹی میں تقریباً دو سمسٹر گزارنے کے بعد مسعود حسین خاں صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور نقاد اور ادبی اسکالر آئی۔ اے۔ رچرڈز سے ہوئی ، لیکن وہ ان سے کوئی خاطر خواہ استفادہ نہ کر سکے کیوں کہ بقول ان کے رچرڈز نے اپنی تحقیقات کو اب صرف انگریزی زبان پڑھانے کے طریقوں تک محدود کر دیا تھا۔ (۸) وہ رچرڈ ز کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جس شخص نے ساری عمر ادب کی ماہیت اور معنی کی معنویت سمجھنے میں گزاری تھی ، آخری عمر میں بچوں اور بالغوں کو انگریزی پڑھانے کے طریقوں کی ایجاد پر وقت صرف کر رہا تھا :‘‘ (۹)
ہارورڈ یونیورسٹی میں مسعود صاحب کو مطالعے کے کافی مواقع ملے۔ انھوں نے وہاں مقام کے دوران زبان و ادب کے رشتوں کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کیا اور فنِ شعر پر بے شمار کتابیں پڑھیں جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’اس زمانے میں میرے سر میں سودا سمایا ہوا تھا کہ زبان کے ناز ک ترین استعمال یعنی شاعرانہ استعمال کی کُنہ تک پہنچ سکوں۔ لسانیات کا مطالعہ اب میرے لئے ثانوی ہو گیا تھا۔ جب ادبی نقادوں کی لفاظی سے گھبرا جاتا تو پھر لسانیات میں غوطہ زن ہوتا۔ قدماء کے علمِ بیان و بلاغت کے بارے میں مشاہدات اور فرمودات کو لسانی علم کی کسوٹی پر کسنے کی کوشش کرتا۔ اس میں چامسکی کے نظرئے سے بہت مدد ملتی۔ اس لئے کہ اس نے علمِ لسان کی آنکھیں باہر کے بجائے اندر کی جانب کر دی تھیں۔ اب ’ معنی‘ اس قدر ’بے معنی‘ نہیں تھا جس قدر کہ’ بلوم فیلڈ یوں‘ نے سمجھ رکھا تھا، لیکن اس کے لئے نفسیاتی لسانیات پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ‘‘ (۱۰)
ہارورڈ کے قیام کے دوران مسعود حسین خان نے لسانیات کے علاوہ شعر کی تخلیق کے محرکات اور مسائل سے بھی دلچسپی لی کیونکہ تجزیۂ شعر پر لسانیات کا اطلاق کرنے سے پہلے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ’’ شعر کے بارے میں ادبی نقادوں نے کیا سوچا اور کہا ہے۔ ‘‘ لیکن جہاں تک کہ ’ نقدِ شعر ‘ کا تعلق ہے، انھوں نے خود کو ’متنِ شعر‘ اور ’شاعر کی لسانی مہارت ‘ کے مطالعے تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کی، اور یہی اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید کا مقصد بھی ہے۔
امریکہ سے ہندوستان واپسی پر مسعود صاحب نے اسلوبیاتی مضامین کا سلسلہ شروع کیا(۱۱) جن میں ’نقدِ شعر ‘ کے لسانی پہلوؤں کا مطالعہ پیش کیا گیا اور متن (Text) کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ چوں کہ زبان ادب کا ذریعۂ اظہار ہے اس لئے ادب و شعر کے لسانی پہلوؤں کے مطالعے میں لسانیات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ لسانیاتی مطالعۂ شعر یا ادب پر لسانیات کے باقاعدہ اطلاق کو ’اسلوبیات‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وضاحت کی خاطر ماہرین اسے کبھی کبھی ’لسانیاتی اسلوبیات‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اصطلاح ’ادبی اسلوبیات ‘ سے اسے ممیّز کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
مسعود صاحب اس نظریۂ تنقید کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’لسانیاتی مطالعۂ شعر، در اصل ‘ شعریات کا جدید ہیئتی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ جامع ہے ، اس لئے کہ یہ شعری حقیقت کا کلی تصوّر پیش کرتا ہے۔ ہیئت و موضوع کی قدیم بحث اس نقطۂ نظر سے بے معنیٰ ہو جاتی ہے۔ یہ کلاسیکی نقدِ ادب کے اصولوں کی تجدید کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اور اصطلاحاتِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے۔ لسانیاتی مطالعۂ شعر صوتیات کی سطح سے اُبھرتا ہے اور ارتقائی صوتیات، تشکیلات، صرف و نحو اور معنیات کی پُر پیچ وادیوں سے گزرتا ہوا ’اسلوبیات‘ پر ختم ہو جاتا ہے‘‘(۱۲)
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’لسانیاتی مطالعۂ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات اہمیت در اصل ہوتی ہے اُس فن پارے کی جس کی راہ میں سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۳)
(۴)
پروفیسر مسعود حسین خاں نے اسلوبیات پر اردو یا انگریزی میں باقاعدہ کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ اس موضوع پر انھوں نے جو کچھ سوچا وہ مضامین و مقالات کی شکل میں ہی ہم تک پہنچا ہے۔ لیکن ان مضامین کے ذریعے سے ہی انھوں نے ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت کا کام انجام دیا اور اپنے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جس نے ان سے تحریک پاکر اسلوبیاتی موضوعات پر مضامین اور کتابیں لکھیں اور ان کی قائم کردہ علمی روایت کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اپنے ایک مضمون میں پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنے دو شاگردوں کا راقم الحروف اور مغنی تبسم کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’صوتیاتی سطح پر تجزئے کے اس انداز کو میرے دو شاگردوں پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ نے اپنی تحریروں میں آگے بڑھایا۔ مغنی تبسم کا فانی کی شاعری کا تجزیہ اور ’’غالب کی شاعری : بازیچۂ اصوات‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ اور مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ‘‘ (فیض اور اقبال کی نظمیں ’’تنہائی ‘‘ ) اس قسم کے تجزئے کی اچھی مثالیں ہیں‘‘۔ (۴۱)
اسلوبیات پر مسعود صاحب کا پہلا مضمون ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ ہے جو ان کے مجموعۂ مضامین شعرو زبان میں شامل ہے۔ یہ مجموعہ حیدرآباد سے ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا تھا۔ اسلوبیاتی نوعیت کے چند مضامین ان کی کتاب مقالاتِ مسعود (نئی دہلی ، ۱۹۸۹ء) میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی کتاب اقبال کی نظری و عملی شعریات (سری نگر ، ۱۹۸۳ء) کا آخری حصّہ اقبال کے کلام کے اسلوبیاتی تجزیے کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ مختلف رسائل میں اسلوبیات سے متعلق ان کے بے شمار مضامین دبے پڑے ہیں جن کا ایک قابلِ قدر مجموعہ تیار ہو سکتا ہے۔
مسعود صاحب نے اسلوبیاتی مطالعہ شعر کا بھی کیا ہے اور نثر کا بھی۔ شعر کے اسلوبیاتی مطالعے کے ضمن میں ان کے حسبِ ذیل مضامین بے حد اہمیت رکھتے ہیں:
۱۔ ’’مطالعۂ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ (۱۵)
۲۔ ’’کلام غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ‘‘ (۱۶)
۳۔ ’’کلامِ غالب کے صوتی آہنگ کا ایک پہلو‘‘ (۱۷)
۴۔ ’’فانی کا صوتی آہنگ : ایک غزل کا لسانیاتی تجزیہ‘‘ (۱۸)
۵۔ ’’اقبال کا صوتی آہنگ ‘‘ (۱۹)
۶۔ ’’محمد قلی کی زبان‘‘ (۲۰)
نثری اسلوب کے مطالعے اور تجزئے کے ضمن میں ان کے قابلِ ذکر مضامین یہ ہیں:
۱۔ ’’غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت‘‘ (۲۱)
۲۔ ’’خواجہ حسن نظامی : زبان اور اسلوب‘‘ (۲۲)
۳۔ ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش ‘‘ (۲۳)
علاوہ ازیں مسعود صاحب نے ذیل کے مضامین میں بھی زبان و اسلوب کے باہمی رشتوں اور بہت سے اسلوبیاتی مسائل پر اظہار خیال کیا ہے:
۱۔ ’’تخلیقی زبان‘‘ (۲۴)
۲۔ ’’ادب میں اسلوب کی اہمیت‘‘ (۲۵)
۳۔ ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر‘‘ (۲۶)
سطورِ بالا میں پروفیسر مسعود حسین خاں کے ایک درجن اسلوبیاتی مضامین کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ مضامین اردو میں اسلوبیات کے فروغ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، اور ان مضامین کی وجہ سے ان کا نام اردو اسلوبیات کے معمارِ اول کی حیثیت سے ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان کا نام اسلوبیاتی نظریہ سازوں اور اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزاروں میں بھی سرِ فہرست ہو گا۔
حواشی و حوالے:
۱۔ مسعود حسین خاں، مقالاتِ مسعود (نئی دہلی : ترقی اردو بیورو ۱۹۸۹ء) ، ص ۱۷۹
۲۔ مسعود حسین خاں، ورودِ مسعود (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، س ن ) ، ص ۱۸۰
۳۔ ایضاً ، ص ۱۷۹۔ ۸۰۔
۴۔ ایضاً ، ص ۱۸۱۔
۵۔ ایضاً ، ص ۱۸۰۔
۶۔ ایضاً ، ص ۱۸۲۔
۷۔ ایضاً ، ص ۱۸۲۔
۸۔ ایضاً ، ص ۱۸۲۔
۹۔ ایضاً ، ص ۱۸۲۔
۱۰۔ ایضاً ، ص ۱۸۲۔
۱۱۔ پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے ایک مضمون ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر ‘‘ مطبوعہ آج کل میں یوں رقم طراز ہیں:
’’اردو میں شعری اسلوب کے لسانیات تجزئے کا سلسلہ راقم الحروف کے ان مضامین سے شروع ہوتا ہے جو اس نے ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے واپسی پر لکھنا شروع کئے۔ ‘‘
(آج کل ، جلد ۴۹ ، شمارہ ۱۱، جون ۱۹۹۱ء، ص ۴)
۱۲۔ مسعود حسین خاں ، شعر و زبان (حیدرآباد : شعبۂ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی ، ۱۹۶۶ء) ، ص ۱۶
۱۳۔ ایضاً ، ص ۱۸۔
۱۴۔ مسعود حسین خاں ، ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر ‘‘ مطبوعہ آج کل ، جلد ۴۹، شمارہ ۱۱ (جون ۱۹۹۱ء) ، ص ۴
۱۵۔ مشمولہ شعر و زبان (مسعود حسین خان) ۔
۱۶۔ مشمولہ اردو میں لسانیاتی تحقیق مرتبہ عبد الستار دلوی (بمبئی : کوکل اینڈ کمپنی ، ۱۹۷۱ء)
۱۷۔ مطبوعہآج کل (غالب نمبر) ، جلد ۲۷،شمارہ ۷ (فروری ۱۹۶۹ء)
۱۸۔ مشمولہ تحفۃ السرور مرتبہ شمس الرحمن فاروقی (نئی دہلی : مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، ۱۹۸۵ء) ۔
۱۹۔ مشمولہ مقالاتِ مسعود (مسعود حسین خاں، نئی دہلی : ترقی اردوبیورو، ۱۹۸۹ء۔
۲۰۔ مطبوعہ سب رس (حیدرآباد) ، فروری ۱۹۶۹ء۔
۲۱۔ مشمولہ غالب: فکر و فن (گورکھپور : شعبۂ اردو ، گورکھ پور یونیورسٹی ، ۱۹۷۰)
۲۲۔ مطبوعہ قومی آواز ، جلد ۴، شمارہ ۸۱ (۴ مارچ ۱۹۸۴) ۔
۲۳۔ مطبوعہ نگارِ پاکستان ، شمارہ ۲ (فروری ۱۹۸۷) ۔
۲۴۔ مطبوعہ آواز ، جلد ۴۷، شمارہ ۲۳(یکم دسمبر ۱۹۸۲ء)
۲۵۔ مطبوعہ آواز ، جلد ۴۸، شمارہ ۵ (یکم مارچ ۱۹۸۳ء)
۲۶۔ مطبوعہ آج کل ، جلد ۴۹، شمارہ ۱۱(جون ۱۹۹۱ء) ۔