عاصم نے جیب میں پڑا فون نکال کر زید اور روحیل کو کال ملائی۔۔۔
یار زید بہت بہت مبارک ہو ماسی امی ہوش میں آ گئی ہیں۔۔
زید سنتے ہی فرحت جذبات میں آنسو لٹانے لگا۔۔
عاصم بھائی یہ سب آپ اور روحیل بھائی کی مدد کے ثمرات ہیں ۔۔ اگر بروقت امی ہسپتال نہ پہنچ پاتیں تو شاید حالات مختلف ہوتے۔
اللہ کے بعد میں آپ دونوں کا بہت شکر گزار ہوں۔!
ارے زید۔! اللہ نے سبب بنا دیا اور ہم آ گئے۔روحیل نے لقمہ دیا۔۔۔
دونوں خوشی خوشی سبزی منڈی پہنچے ، مطلوبہ دکان کا رخ کیا مگر پوچھنے پر پتا چلا کہ ذیشان صاحب تو صبح اپنی والدہ کے گاؤں روانہ ہوگئے ہیں اور چند دن بعد لوٹیں گے۔۔ زید اور روحیل ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔۔
زید تم اپنی خالہ کے گاؤں فون کرو نا۔! اور جب ذیشان ادھر پہنچے تو اسے پیغام مل جائے گا۔۔ روحیل نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے عجلت میں بولا ۔۔
میں کوشش کرتا ہوں بھیا۔!
بارہا کوشش کے باوجود پی ٹی سی ایل فون کو کسی نے اٹھانے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ خالہ کے سرہانے فون پڑا ہوتا ہے ،پھر خالہ اچانک کہاں چلی گئیں ہیں۔۔۔ زید اس تشویشناک صورتحال پر پریشان ہو کر رہ گیا۔۔۔
اچھا زید تم ذیشان کے ووٹس ایپ پر پیغام صوتی بھجوا دو۔
جی بھیا۔! یہی کرنا پڑے گا۔
روحیل اور زید منڈی سے مایوس ہو کر پلازہ میں مطلوبہ چیزوں کی خریداری میں محو ہو گئے۔۔
روحیل نے مسکراتے ہوئے ورقہ (صفحہ) جیب سے نکالا اور زینہ کی تحریر کردہ اشیاء کو پڑھنے لگا ، زینہ کا خوبصورت انداز خطاطی روحیل کو بھا گیا۔۔۔
زید کو دکان کے اندر بھیج کر خود فوراً زینہ کی تحریر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔۔۔
زینہ میں نے تمہاری طرف سے پہلا محبت نامہ سمجھ کر قبول کیا ۔۔۔۔۔
روحیل میٹھی مسکان سجھائے دکان کے اندر گھس گیا۔۔۔
******************************************
زینہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے انتہائی نگہداشت کے کمرے میں داخل ہوئی تو ماں کو انواع و اقسام کی نالیوں میں جکڑے پائے۔۔
فشار الخون اور حرکت قلب والی مشین کی سبز ، لال ، نیلی بتیاں اعداد و شمار کو سکرین پر چلا رہی تھیں۔۔
زینہ ماں کی یہ حالت دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ پائی تو نشیلی آنکھیں دغا پر اتر آئیں۔۔روشن بڑی جھیل جیسی آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگیں۔۔۔
نرس کی بات کو ذہن میں دہراتے ہوئے دھیمی رفتار سے ماں کے قریب جا کر کھڑی ہوگئی۔۔
امی ۔! میں زینہ ہوں۔ زینہ نے دھیمے لہجے میں ماں کو پکارا۔۔
لاغر ماں نے چند لمحوں کے لئے آنکھیں وا کیں مگر شدید نقاہت سے آنکھیں دوبارہ بند ہو گئیں۔
زینہ بنا پلکیں جھپکے ماں کا کمزور ہاتھ تھامے کھڑی رہی۔۔
چند ثانیوں بعد زینہ کو ماں کے ہونٹ ہلتے دکھائی دیئے۔۔
امی آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں ۔؟؟
امی آپ مکمل صحت یاب ہو جائیں گی ، آپ کو اس وقت آرام کی اشد ضرورت ہے۔۔
دواؤں کے زیر اثر امی کبھی آنکھیں کھولتی تو کبھی بند کرتیں۔۔
زینہ نے ماں کا ہاتھ تھامے ہوئے رقیہ شرعیہ( قرآن کا دم) مسنون اذکار کا ورد شروع کر دیا۔۔
سورہ فاتحہ ،آیت الکرسی، معوذتین اور باقی دعائیہ کلمات سے زینہ کی زبان تر ہونے لگی۔
******************************************
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
“یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لۓ سراسر شفا اور رحمت ہے”۔ (سورةالاسراء :82 )
٭شیخ الاسلام ابن القیم لکھتے ہیں: ایک وقت میں مکہ میں بیمار تھا ، میں ڈاکٹر اور دوا سے محروم تھا تو میں سورہ فاتحہ سے علاج کرتا تھا، اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمزم کا پانی لیتا اور اس میں برابر سورہ فاتحہ پڑھتا اور پھر اسے پیتا، تو مجھے اس سے مکمل شفا مل گئی۔ (زاد المعاد ج3 ص 188)
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص تین بار :
“بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ”۔۔
(اللہ کے نام سے کے ساتھ جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے)، کہے تو اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی، اور جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت اسے کہے تو اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی، راوی حدیث ابومودود کہتے ہیں: پھر راوی حدیث ابان بن عثمان پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ شخص جس نے ان سے یہ حدیث سنی تھی انہیں دیکھنے لگا، تو ابان نے اس سے کہا: مجھے کیا دیکھتے ہو، قسم اللہ کی! نہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی ہے اور نہ ہی عثمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، لیکن (بات یہ ہے کہ) جس دن مجھے یہ بیماری لاحق ہوئی اس دن مجھ پر غصہ سوار تھا (اور غصے میں) اس دعا کو پڑھنا بھول گیا تھا۔
سنن ابی داؤد : 5088
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 13 (3388)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 14 (3869)، (تحفة الأشراف: 9778)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/62، 72) (صحیح)»
******************************************
دغا دیتی نشیلی آنکھیں زبان پر حاوی نہ ہو پائیں۔۔
چند موتی ٹوٹ کر بےمول ہوگئے مگر زینہ نے ماں کا ہاتھ تھامے ہوئے ذکر الہٰی سے ماں کے لاغر جسم کو خوب سیراب کیا۔۔
ذکر الہٰی میں محو زینہ اس وقت چونکی جب نرس نے باہر جانے کا عندیہ سنایا۔۔
بھاری دل کے ساتھ زینہ کمرے سے باہر نکل آئی اور اپنے تھمے ہوئے موتیوں کو لٹانے بیٹھ گئی۔۔
انتہائی نگہداشت کے احاطے میں اداسی ، خاموشی اور عجیب قسم کا سناٹا تھا۔۔ برقی مشینوں کی بیپ بیپ یا پھر ٹوں ٹوں ٹوں کے علاوہ کچھ سننے کو نہ ملتا ۔ تمام پیشہ ور نرسیں نہایت دھیمی آواز میں مخاطب کرتیں۔۔۔
پانچ منٹ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد زینہ نیچے عاصم کے پاس انتظار گاہ میں پہنچی تو سامنے سے روحیل کو رنگ برنگے بڑے شاپر تھامے ہوئے اپنی طرف آتا دیکھا ، تو سانس خشک ہونے لگا ۔۔۔
اللہ جانے زید اور عاصم ویر کہاں چلے گئے۔۔۔
اب ویران انتظار گاہ میں سوائے روحیل کے اور کوئی نہیں تھا جوکہ چند قدموں کے فاصلے پر قریب سے قریب تر ہونے لگا ۔
روحیل نے گلا کھنکارتے ہوئی کپکپاتی زینہ کو مخاطب کیا جوکہ روحیل کو دیکھتے ہی واپس پلٹنے کے لیے زینے چڑھنے لگی۔۔۔
روحیل نے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے زینہ کو تقریباً گھیر لیا۔۔۔
السلام علیکم زینہ ۔!!
وعلیکم السلام۔! زینہ کی آواز اتنی کم تھی کہ روحیل نے سننے کےلئے کان آگے کیا ۔۔
زینہ آواز نہیں آئی۔۔
زینہ جان چھڑانے والے انداز میں زینے پھلانگنے لگی۔۔۔
زینہ رکو۔!!
زینہ کا دھک دھک کرتا دل سہم گیا۔۔ کپکپاتا وجود خزاں کے سوکھے پتے کی مانند لڑکھڑانے لگا ۔زینہ لڑکھڑا کر فوراً آخری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔۔۔
زینہ۔!!
تم کیوں میرے سے دور بھاگتی ہو ۔؟؟ میں تمہیں کھانے یا پھر کوئی نقصان تو نہیں پہنچانے آیا ہوں۔۔۔ زینہ میں آدم خور نہیں ہوں۔۔!!!روحیل نے تھکے لہجے میں بولا اور ہاتھوں میں تھامے شاپر سامنے کر دیئے۔۔
روحیل کا اترا چہرہ اور آنکھوں میں پڑے گہرے گڑھے اسکی کربناک حالت کو چیخ چیخ کر بیان کر رہے تھے۔۔
میں تو تمہیں صرف یہ سامان پکڑانے کے لیے آیا تھا۔۔ دیکھ لو سب ٹھیک ہے اور اگر مزید کچھ چاہئیے تو مجھے لکھ کر دے دو ۔۔!
روحیل زینہ سے تین زینوں کا فاصلہ رکھتے ہوئے بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ زینہ کی روح پرواز ہونے کی قریب تھی۔۔۔ سر چکرانے لگا۔۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔
روحیل نے لمبا سانس خارج کرکے دو منٹ کے سکوت کو توڑتے ہوئے دھیمے لہجے میں زینہ کو دوبارہ مخاطب کیا ۔زینہ میں ہوں نا۔۔۔! تم خود کو اکیلا نہیں سمجھنا پلیز۔۔۔! تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو مجھے بتا دینا۔۔۔
روحیل نے مزید بولنے کے لیے لب واہ کیے تو زینہ ایک طرف لڑھک گئی۔۔
روحیل نے سیڑھیوں پر پڑے شاپر ایک طرف رکھے اور لپک کر زینہ کو پکارنے لگا۔۔
زینہ کیا ہوا ہے۔! زینہ میری جان ہوش میں آؤ۔!
یقین کرو میں تمہارے ساتھ کچھ برا کرنے کے لیے نہیں آیا تھا۔میں تو صرف اس سامان کی تصدیق چاہتا تھا۔۔۔
زینہ اٹھ جاؤ پلیز ورنہ اگلے لمحے تم میری باہوں میں ہو گی۔! روحیل نے زینہ کو دھمکانا چاہا مگر
زینہ ہنوز فرش پر بےسدھ پڑی تھی۔۔۔
روحیل کا جی چاہا اسے اپنی باہوں میں بھر لے مگر عاصم کی یاد دہانیوں اور زینہ کے شرم و حیا کو سوچ کر خود کو باز رکھا۔۔۔
عاصم کو فون ملایا۔
اللہ جانے یہ لڑکا کدھر چلا گیا۔؟؟؟
گھنٹی پر گھنٹی جا رہی تھی مگر عاصم کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ جہاں پر عاصم ہے وہاں پر شاید سگنل نہیں ہیں ۔۔۔
چلو زید کو پوچھتا ہوں ۔ مگر وہ کیسے اتنی پھرتی سے ہسپتال واپس پہنچ پائے گا۔۔؟
کسی اور کو بلا لوں یا پھر اسے اٹھا کر خود ہی لے جاؤں۔۔؟ نہیں کسی اور کو کیوں بلاؤں۔؟ روحیل نے چند لمحے اور سوچا ، پہلے سیڑھیوں پر پڑے شاپروں کو سیدھا کر کے رکھا اور پھر ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا زینہ کو اس ویران احاطے سے اپنی باہوں میں بھر لیا۔۔۔
نازک دھان پان سی زینہ کا تہوں میں لپٹا وجود روحیل کو کسی طرح بھی وزنی محسوس نہ ہوا۔۔۔
ایک بازو میں تمام شاپر لٹکا کر زینہ کو اٹھائے نیچے شعبہ ہنگامی حادثات کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
نجی ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے فورا کمرہ اور بستر مل گیا۔۔
زینہ ہنوز بیہوش روحیل کی باہوں میں جھول رہی تھی۔۔۔
روحیل نے احتیاط اور نرمی سے زینہ کو بستر پر لٹایا اور پاس کھڑی نرس کو تمام تفصیلات بتانے لگا۔۔۔
کیا آپ انکے شوہر ہیں۔؟؟
اس اچانک سوال پر روحیل کی دھڑکنیں بپھریں ۔۔
جججی نہیں ہوں مگر ہونے والا ہوں ۔ ہم پرانے خاندانی دوست ہیں۔۔
نرس نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ سے روحیل کو دیکھا اور زینہ کے فشار الخون کا معائنہ کرنے لگی۔۔
یہ شرعی پردہ کرتی ہیں وہ بھی اس دور میں۔؟؟ بہت بڑی بات ہے۔! نرس نے دوران معائنہ سلسلہ کلام جاری رکھا ۔۔
ویسے آپ کو پتا ہے آجکل زیادہ تر لڑکیاں اپنے جرم کو چھپانے کے لیے بھی پردے کا سہارا لیتی ہیں۔۔
جی۔؟؟؟ آپ کا کیا مطلب ہے محترمہ؟؟ روحیل کا لہجہ ترش ہوا۔۔۔
میں انہیں نہیں بول رہی ہوں میں تو آجکل لڑکیوں کے حالات بتا رہی ہوں۔۔۔ ہم سارا دن اس طرح کے بہت سارے کیس بھگتاتے ہیں۔۔۔
نرس نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے روحیل کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا واجب سمجھا۔۔۔
یہ آپ انکے چہرے سے فوراً نقاب ہٹائیں تاکہ انکے آکسیجن کی مقدار کو چیک کیا جا سکے ۔ نرس نے زینہ کے خون کے نمونے لینے کے لیے تمام ضروری سامان پیکجنگ سے نکالتے ہوئے بولا۔۔۔
میں نقاب نہیں اتار سکتا ، یہ مجھ سے بھی پردہ کرتی ہیں۔۔
اوہ۔!! مگر ابھی آپ جس انداز میں انہیں اپنی باہوں میں بھر کر لائے ہیں کسی بھی ہیرو سے کم نہیں لگ رہے تھے۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے آپ انکے شوہر نامدار ہیں۔۔
نرس نے روحیل کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔۔ جبکہ روحیل جواب دیئے بنا پہلو بدل گیا۔۔۔
وہ مجھے کال آ رہی ہے ،میں باہر کھڑا ہوں آپ انکا نقاب اتار لیں۔۔۔روحیل فوراً کمرے سے نکل گیا۔۔۔
ہیلو۔! یار عاصم تو کدھر چلا گیا تھا ؟ کب سے کال کر رہا ہوں۔
بھیا مجھے کمرہ ولادت کی طرف سے بلاوہ آ گیا تھا ، زینہ ماسی کے پاس تھی ،اس لیے مجھے جانا پڑا۔۔
ہممم۔ اچھا وہاں سب خیریت ہے۔؟؟ میرا مطلب ہے شہلا آپا کے بارے میں کوئی اچھی خبر ملی ہے ۔۔۔؟؟
نہیں بھیا۔!!
عاصم نے رنجیدگی سے بولا ۔۔
کیا مطلب۔؟؟
بھیا یار شہلا آپا نے مردہ بیٹے کو جنم دیا ہے ۔!
کیا ۔؟؟؟
“انا للہِ وانا الیہ راجعون۔”یار یہ تو بہت افسوس ناک خبر سنائی ہے ۔۔
زید کدھر ہے بھیا ۔۔؟؟
یار وہ گھر سے زینہ کی کچھ ضروری چیزیں لینے گیا ہے اور اس نے مجھے زچہ بچہ کا سامان پہنچانے کےلئے ہسپتال بھیج دیا تھا کہ یہ سامان جلد ازجلد پہنچانا زیادہ اہم ہے۔۔۔
میں یہاں پر آیا تو زینہ ۔!!
کیا ہوا زینہ کو بھیا.؟؟؟ عاصم نے روحیل کی بات کاٹی۔۔
بیہوش ہو گئی ہے ۔!! روحیل نے گویا ایک اور دھماکہ کر دیا۔۔
کیسے بھیا ۔؟؟
تم شعبہ حادثات میں آؤ پھر ساری تفصیل بتاتا ہوں۔! میں بس ابھی پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں۔۔
یا اللہ اس خاندان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔؟ عاصم نا چاہتے ہوئے بھی ہمت ہارنے لگا۔۔۔
ہف پف کرتا عاصم شعبہ حادثات کے برآمدے میں منتظر روحیل سے جا ملا۔۔۔
تمام حقائق جاننے کے بعد عاصم نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔
یار بھائی آپ اسے شاپر نہ پکڑاتے ،ہو سکتا ہے وہ ڈر گئی ہو کہ ابھی آپ اس پر ہمارے کئے گئے احسانوں کا بدلہ مانگیں گے یا پھر وہ تنہائی میں آپ کی قربت برداشت نہیں کر پائی ہے۔۔
عاصم یقین مانو میں صرف اسے اٹھا کر شعبہ حادثات تک لایا ہوں ، میں نے تو اسکی ایک جھلک بھی نہیں دیکھی ہے۔۔ نرس کے کہنے کے باوجود بھی میں باہر نکل آیا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے زینہ کو اپنا حجاب کس قدر عزیز ہے۔۔
آپ نے اپنا تعارف کیا کروایا ہے ۔؟؟ عاصم نے پوچھا۔۔
ہونے والا شوہر۔!
روحیل نے عام سے لہجے میں بولا۔۔۔
اچھا چلیں میں زینہ کی خیر خبر لیتا ہوں ابھی آپ گھر جائیں اور آرام کر لیں۔!
اور تم ؟؟ کیا تمہیں آرام کی ضرورت نہیں ہے۔؟؟
بھیا جب تک یہ خاندان اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو جاتا ہے ، میں ان کے ساتھ ہوں۔
میری صبح ڈیڈ سے بھی تفصیلی بات چیت ہوئی ہے انہوں نے بھی اجازت دے دی ہے۔۔۔
عاصم جب تک میرا نکاح زینہ سے نہیں ہو جاتا ، میں بھی یہاں سے نہیں ہلنے والا۔۔ آج اگر اسکا اور میرا نکاح ہوا ہوتا تو میں اسکے ساتھ اسکے دکھ بانٹ رہا ہوتا، آج وہ یوں مجھے دیکھ کر بیہوش تو نہ ہوتی۔۔۔
بھیا تقدیر پر شاکر ہو جائیں یار۔!
بھیا ہتھیلی پر سرسوں نہ جمائیں یار۔!
نکاح بھی ہو جائے گا۔ ماسی بستر مرگ پر پڑی ہیں، زینہ بیہوش ہے ، اور دوسری بہن مردہ بچے کو جنم دے کر نڈھال ہے۔ شوہر اسکا لاپتہ ہے۔۔
ابھی میں نے ان سب کو انکے پیروں پر کھڑا کرنا ہے ان شاءاللہ۔۔ عاصم نے دکھی لہجے میں اپنی پیشانی مسلی۔۔
عاصم میں خود یہی چاہتا ہوں مگر جتنا جلدی ہو سکے ماسی کی طبیعت سنبھلتے ہی ان سے بات کرو یار۔۔۔
بھیا مجھے پتا ہے ، میں خود مناسب وقت کے انتظار میں ہوں۔۔۔ میں خود یہی چاہتا ہوں کہ زینہ کو آپ سے بہتر چاہنے والا کوئی اور شخص نہیں ملے گا ۔۔۔
اور آپ کو زینہ سے بہترین عورت نہیں ملے گی۔!
مگر میں نہیں چاہتا یہ خوددار خاندان سمجھے کہ ہم انہیں اپنے احسانوں تلے دبا کر اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔۔ یہ مفلس ضرور ہیں مگر طمع پرست نہیں ہیں۔۔۔
عاصم مجھے سب پتا ہے یار۔! اس خاندان کی خبر گیری میں گزشتہ ایک مہینے سے رکھے ہوئے ہوں یار۔۔ میرے سے بہتر اور کون انکو جان سکتا ہے۔؟ اور خاص کر وہ جو میری عزت اور میرا وقار بننے والی ہستی ہے ، جو مجھے دیکھتے ہی بیہوش ہو گئی ہے ، وہ تو انمول جوہر ہے ،جہاں سے بھی گزرے گی اپنی خوب سیرتی سے چراغاں کر دے گی۔۔!
خیر۔! عاصم تم نے زید کو شہلا آپا کا بتا دیا ہے ؟؟
نہیں بھیا آپ اسے بتا دیں میں ذرا زینہ کو دیکھ آؤں۔ کمرہ کونسا ہے بھیا .؟؟؟
اُدھر سے دائیں مڑ جاؤ۔ !
عاصم ۔!
روحیل نے عاصم کو پکار کر دوبارہ روک لیا۔۔
جی بھیا۔! اسے نہ بتانا کہ میں اسے اٹھا کر یہاں پر لایا ہوں۔ورنہ وہ بہت غم کھائے گی اور مجھے اس کا غم کھانا بہت اذیت دے گا ۔۔
بھیا آپ کتنے بھولے ہیں ۔! عاصم مسکرایا ۔۔ اس محبت نے آپکی مت مار دی ہے۔ !
وہ کیسے ؟ روحیل اپنی خجالت مٹانے کے لئے سر کھجانے لگا۔۔
یار بھیا میں چاہے نہ بھی بتاؤں نرس نے ہوش آنے پر بتا دیا ہوگا کہ آپ کے ہونے والے شوہر چھوڑ کر گئے ہیں اور وہ بھی بڑے ڈرامائی انداز میں۔!
روحیل نے پھیکی مسکراہٹ سے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر بولا ، یار مجھے خوف آتا ہے اگر وہ میرے ساتھ نکاح کے لئے راضی نہ ہوئی تو میرا کیا بنے گا۔؟؟ بننا کیا ہے ؟؟ بھیا آپ کی شادی کسی اور لڑکی سے کروا دیں گے۔۔! عاصم نے روحیل کو چھیڑا۔۔
یہ بات آج بولی ہے آئندہ نہ بولنا عاصم۔! روحیل کی آنکھیں لال ہو گئیں۔۔
اچھا نہیں بولتا بھیا یار ۔۔! عاصم روحیل کی اس شدت پسندی پر خائف ہو گیا۔۔۔
اچھا سن میں آپ سب لوگوں کےلئے باہر سے کھانا لینے جا رہا ہوں۔اور میری ہونے والی بیوی کا بہت سارا خیال رکھنا۔ زید ابھی آتا ہوگا تو وہ ماسی اور شہلا آپا کو دیکھ لے گا۔۔۔ ! اور ہاں وہ سامان شہلا آپا کو پہنچا آنا ،زینہ کے پاس میز پر سارے شاپر پڑے ہوئے ہیں۔۔ ٹھیک ہے بھیا میں پہنچا دوں گا ، آپ جاؤ سب کے لیے کھانا لے آؤ۔!
عاصم مجھے میری ہونے والی بیوی آج اس کمرہ علالت سے باہر چلتی پھرتی نظر آنی چاہئے۔۔۔!! عاصم یہ بات ذہن نشین کر لو۔!! روحیل نے عاصم کو دھمکایا۔۔۔
یا اللہ تیرا شکر مجھے کسی سے اندھی تقلید والی محبت نہیں ہوئی۔۔! وگرنہ آج میں بھی محبوب کے دیدار کے لئے ترس رہا ہوتا ۔۔۔
عاصم روحیل کو باور کروا کر مسکراتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔
جبکہ روحیل کی سوئی زینہ پر اٹکی ہوئی تھی۔۔۔
“زینہ کب تمہارا دل میری طرف سے صاف ہو گا ۔؟ زینہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔پلیز میری زندگی میں شامل ہو جاؤ۔روحیل نے زینہ کا تحریر کردہ صبح والا ورقہ نکال کر چوم ڈالا۔۔
زینہ مجھے تم سے منسلک ہر چیز سے محبت ہے چاہے وہ تمہارے ہاتھ سے لکھا ایک لفظ ہی کیوں نا ہو۔ میری تنہائیوں کو اپنی خوب سیرتی بخش دو ، میری زندگی میں حسنِ اخلاق کے رنگ بھر دو زینہ حیات”۔۔ روحیل دل ہی دل میں خودکلامی کرتا
زینہ مجھے تم سے منسلک ہر چیز سے محبت ہے چاہے وہ تمہارے ہاتھ سے لکھا ایک لفظ ہی کیوں نا ہو۔ میری تنہائیوں کو اپنی خوب سیرتی بخش دو ، میری زندگی میں حسنِ اخلاق کے رنگ بھر دو زینہ حیات”۔۔ روحیل دل ہی دل میں خودکلامی کرتا
ہسپتال کے خارجی دروازے پر پہنچا اور جیب سے فون نکال کر مطلوبہ نمبر ملانے لگا۔۔
السلام علیکم ڈیڈ۔!
کیسے ہیں آپ؟؟؟
میں بالکل خیریت سے ہوں برخوردار ۔!
تم سناؤ ؟ کل سے غائب ہو ۔!
جی ڈیڈ بس وہ ماسی لوگوں کے ساتھ مصروفیت رہی ہے، آپکو عاصم نے بتایا تو ہو گا۔
ہاں ہاں وہ تمام تفصیلات بتا چکا ہے۔۔۔
تم بتاؤ آجکل کیا چل رہا ہے۔؟؟ تمہارا دل بنسبت اسلام آباد کے میرپور میں کچھ زیادہ نہیں لگنے لگا ہے۔۔۔؟؟
روحیل ڈیڈ کے اس سوال پر جزبز ہوا ، دماغ میں جھماکا ہوا شاید عاصم نے زینہ کے متعلق آگاہ کر دیا ہو۔
ارے نہیں ڈیڈ۔! ایسی کوئی بات نہیں ہے، آپ تو جانتے ہیں کہ ماموں کے پلازے اور کوٹھی کا سودا چل رہا ہے، لہٰذا انہیں بھی تو فارغ کرنا ہے ۔۔۔ ایک خریدار سے بات چل رہی ہے ، کچھ دنوں میں وہ تمام جائیداد دیکھنے آ رہا ہے۔۔۔
ڈیڈ آپ بھی آ جائیں نا .! آپ میرے سے بہتر طریقے سے سب سنبھال لیں گے۔
روحیل بچے تمام جائیداد تم دونوں کو نام ہے اور تم دونوں میرپور میں ہی موجود ہو تو میرا آنا بنتا نہیں ہے۔۔خواہمخواہ ڈھائی تین گھنٹوں کی تھکن لینے کی اب عمر نہیں رہی ہے ۔۔
ڈییییییییڈ ۔ آ جائیں نا۔روحیل التجا پر اتر آیا۔۔۔
برخوردار مجھے دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔ورنہ تم اتنے بے چین کبھی بھی دکھائی نہیں دیئے۔۔۔
ڈیڈ آپ میرپور آئیں پھر آپ کو ساری تفصیلات بتاؤں گا۔۔
اس کا مطلب ہے کہ میرا شک یقین کا روپ دھار چکا ہے۔۔۔
ڈیڈ۔۔! آپ بس آ جائیں نا۔۔۔
مجھے مسکے نہ لگاؤ روحیل دو ٹوک بات کرو ۔! باپ ہوں تمہارا ، میں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں بیٹا جی۔۔
ڈیڈ آپ ماسی کی عیادت کا ارادہ نہیں رکھتے کیا ۔؟؟؟
برخوردار لگتا ہے یہ معاملہ عیادت کے ساتھ ہی یہیں کہیں منسلک ہے۔۔
روحیل نے قہقہہ لگایا۔۔۔
ڈیڈ آپ کی پرانی عادت نہیں گئی ہے۔۔!
بیٹا جی جائے گی بھی نہیں۔ !!
روحیل نے گاڑی کے اندر سوار ہوتے ہی فون گاڑی کے سپیکر کے ساتھ کنیکٹ کیا اور اپنے مطلوبہ ہوٹل کی طرف گامزن ہو گیا۔۔۔
ڈیڈ بس آپ نے آنا ہے ۔ میں اور عاصم آپ کے منتظر رہیں گے، سرمایہ کاری کے حوالے سے چند ایک نئے منصوبے میرے ذہن میں ہیں ، آپ آئیں گے تو مل بیٹھ کر طے کروں گا۔۔
خیر میں دیکھتا ہوں کہ کب تک میرپور کا چکر لگے گا۔۔۔
ڈیڈ ڈرائیور کو ساتھ لے آئیں یا پھر میں آپ کو لینے آؤں۔۔؟؟ بیٹا جی صبر اور حوصلے سے کام لو۔! میں کوئی نہیں بھاگا جا رہا ہوں۔۔
ایک دو دن میں تمہیں مطلع کر دوں گا۔۔
ڈیڈ آپ کو پتا ہے شہلا آپا کے ہاں مردہ بیٹا پیدا ہوا ہے ؟؟
ہاں یار عاصم مجھے بتا چکا ہے۔۔ اس خاندان پر کڑی آزمائش کا وقت ہے، تم دونوں نے انکا خاص خیال رکھنا ہے ، جیسے تمہاری ماں کی خواہش تھی۔۔ سنا ہے انکے مالی حالات بہت خراب ہیں۔
جی ڈیڈ وہ لوگ مالی لحاظ سے بہت کمزور ہیں ، خستہ حال زندگی گزار رہے ہیں مگر میں نے ایک مرتبہ بھی انکی زبان سے حرف شکایت نہیں سنا ہے۔۔
یار یہ لوگ شروع سے ہی خودار ہیں۔ مرزا حیات اپنے محلے کا رحم دل شخص جانا جاتا تھا۔۔۔ ایک بات ہمیشہ کہا کرتا تھا “اللہ دینے والا بنائے لینے والی محتاجی نہ دکھائے ۔ نہایت خدا ترس انسان تھا مگر وقت نے اسے مہلت نہ دی۔۔۔
اور ہاں آخری بات۔! مجھے بالکل بھی سننے کو نہ ملے کہ تم رات آنکھوں میں گزار دیتے ہو۔۔۔
جو بھی کام کرنا ہو دن کی روشنی میں نپٹا لیا کرو۔
ڈیڈ کوشش تو کرتا ہوں۔۔۔
دونوں بھائی کھانا پینا ٹھیک سے کھا رہے ہو نا۔؟
جی ڈیڈ کل ماسی لوگوں کے گھر سے ہی کھایا تھا مگر کل رات ماسی والا حادثہ رونما ہو گیا تو بس پھر ہسپتال کے اندر باہر ہی ہو رہے ہیں۔ ابھی بھی میں سب کے لیے کھانا لینے جا رہا ہوں۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے ان سب کے کھانے پینے اور باقی ضروریات کا خیال رکھنا۔ میں بہت جلد میرپور آنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
جی ضرور ڈیڈ۔! روحیل نے جوش سے بولا۔۔۔
پہلے تو میرے آنے پر تم اتنے خوش کبھی بھی نہیں ہوئے، آج تو تمہاری آواز میں میرے آنے پر ایک ولولہ گونج رہا ہے۔
ڈیڈ۔ روحیل نے لاڈ سے بولا اور گاڑی مطلوبہ ہوٹل کے سامنے روک لی۔
ڈیڈ کمزور مریضوں کے لیے یخنی ٹھیک ہے نا ؟؟؟
ہر زدہضم غذا یخنی ، دلیہ اور تازہ جوس بہت مفید ہیں۔۔۔
اپنے ان کمزور مریضوں کو انکے پاؤں پر کھڑا کرو بیٹا ۔ بہت جلد ملیں گے ان شاءاللہ۔۔
جی ضرور ڈیڈ۔! روحیل نے مسکراتے ہوئے الوداعی کلمات ادا کیے۔۔۔۔
******************************************
روحیل کھانا لے کر لوٹا تو انتظار گاہ میں زید اور عاصم کو طبیب سے محو گفتگو پایا۔۔
کھانے پینے کا سامان ایک طرف رکھ کر روحیل کو بھی ان تینوں کی گفتگو میں مخل ہونا پڑا ۔۔۔۔
پیشہ ورانہ انداز اپنائے طبیب عاصم زید کو تسلی دے کر رخصت ہونے لگا تو روحیل سے رہا نہ گیا۔۔ کیا یہ ماسی کے بارے میں بتا رہے تھے۔؟ روحیل نے دانستہ طور پر زینہ کا نام پکارنے سے پرہیز کیا جبکہ وہ جانتا تھا کہ یہ احاطہ شعبہ حادثات کے لئے مختص ہے۔۔
نہیں بھیا۔! زینہ آپا کے بارے میں بتایا ہےکہ وہ جسمانی کمزوری اور ذہنی اذیت کا شکار ہیں ، باقی انکے خون پیشاب کے نمونوں کے نتائج تسلی بخش ہیں کوئی بیماری نہیں ہے ، زینہ آپا امی اور شہلا آپا کی بات دل پر لے گئیں ہیں۔ زید نے تمام حقائق روحیل کے گوش گزار کئے۔۔
روحیل نے سنجیدگی سے تمام تفصیلات سنیں اور پھر سب کو کھانے کی پیشکش کی۔۔ جبکہ عاصم بغور روحیل کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو جانچ رہا تھا۔۔
زید تم ایسا کرو یہ والا پیکٹ شہلا آپا کو دے آؤ۔ روحیل نے انواع و اقسام کے کھانوں میں سے یخنی ، ابلے چاول ، گاجر اور سنگترے کا تازہ رس زید کو تھمایا۔۔
روحیل بھیا آپ بہت زیادہ کھانا لے آئے ہیں۔ زید نے شرمندگی سے کھانے کا پیکٹ تھاما۔۔
ارے نہیں یار ۔! سب کو اس وقت ٹھیک سے کھانے کی ضرورت ہے۔
اور ذیشان کی کوئی خیر خبر ؟ بچے کی پیدائش کا بتا دیا تھا نا ؟؟؟
جی بھیا میں تو انہیں ایک ایک پل کی خبر دے رہا ہوں مگر انکی طرف سے مکمل سکوت ہے۔۔
تو پھر اب بچے کے دفن کا کیا کرنا ہے۔؟ روحیل نے سنجیدگی سے پوچھا جبکہ عاصم اپنے فون پر کسی کے ساتھ پیغام رسانی میں مشغول ہو گیا۔۔۔
ایک گھنٹہ اور دیکھتے ہیں وگرنہ ہمیں بچے کو باپ کی غیر موجودگی میں دفنانا پڑے گا۔۔۔
زید تم کسی اور رشتے دار کے ذریعے اطلاع پہنچا دو۔۔!
بھیا کسی اور رشتے دار نے ہم سے رابطہ رکھنا گوارا ہی نہیں کیا ۔۔ میرے پاس کسی کا بھی نمبر نہیں ہے ماسوائے خالہ ، ذیشان بھائی کی امی کے۔۔۔
اچھا تم جاؤ شہلا آپا کو خود کھانا کھلا کر آؤ اور ہماری طرف سے بھی تسلی دے دینا ۔۔ ہم کچھ دیر ادھر ہی ہیں۔۔ تم اگر اپنا کھانا ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو ساتھ لے جاؤ ورنہ ہم باہر گاڑی میں بیٹھ کر کھا لیتے ہیں۔۔
بھیا مجھے ابھی بالکل بھی بھوک نہیں ہے ، میں کوشش کرتا ہوں کہ شہلا آپا کچھ کھا لیں اور زینہ آپا کو عاصم بھیا کھلا دیں گے۔۔ زید نے بات مکمل کی اور مشکور انداز میں کھانا لے کر متوازن چال چلتا کمرہ ولادت کی طرف چل پڑا۔۔
زید کے جاتے ہی روحیل نے عاصم کے ہاتھ سے فون جھپٹ لیا۔۔۔
یار بھیا کیا ہے ۔؟ میرا فون دیں ۔!
بہت ضروری ای میل ہے جس کا جواب ابھی بہت ضروری ہے۔۔ عاصم نے دہائی دی۔۔۔
پہلے مجھے میری ہونے والی بیوی کے بارے میں تمام معلومات فراہم کرو ، پھر فون ملے گا۔۔۔روحیل نے ڈھیٹ پنے کی حدوں کو چھوا۔۔۔
اچھا فون دیں پلیز۔! پھر الف سے ی تک بتاتا ہوں۔۔۔
یہ لو۔! اور ساتھ ساتھ مجھے بتاؤ۔!
روحیل نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بیتابی سے عاصم کو دیکھا۔ جسکی انگلیاں فون کی سکرین پر پھرتی سے چل رہی تھیں۔۔
دو منٹ کے اذیت ناک انتظار کے بعد عاصم نے روحیل کے ستے چہرے کو دیکھا ، جہاں پر بیقراری اپنے عروج پر تھی۔۔۔
بھیا۔! پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے، زینہ نے کل دن سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا اور اوپر سے آپ کا خوف اس پر طاری تھا جسکی بنا پر وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اب بالکل ٹھیک ہے ، کمرہ علالت سے نکل کر ابھی اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ ہے ۔۔۔ اور کچھ ؟؟
عاصم کیا وہ پریشان تھی۔؟؟
نہیں بھیا۔! توانائی بخش ٹیکے لگوا کر قلقاریاں مار رہی تھی۔! عاصم نے روحیل کو چھیڑا۔!
عاصم تو بہت ڈھیٹ انسان ہے۔!
نوازش ہے آپ کی وگرنہ ناچیز اس قابل کہاں تھا۔!
اچھا اور بھی بتا نا ۔!
کیا اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا؟؟
بھیا ظاہر سی بات ہے ،ان حالات میں کس کا چہرہ گلاب کی طرح کھلے گا۔؟ ہاں البتہ اسکی نشیلی آنکھیں کثرت بکا (رونا) سے کافی سوجھی ہوئی ہیں۔ اب یہ مت بولیے گا کہ عاصم مجھے اسکی آنکھوں کی تصویر لا دو ۔!
اور اگر میں کہوں تو ۔؟؟؟
میں پھر بھی نہیں لاؤں گا۔!
تو بہت ڈھیٹ انسان ہے ۔!
آپ کا چھوٹا بھائی ہوں تو خون کا اثر تو ہو گا نا ۔! عاصم نے دوبدو جواب دیا۔۔
ویسے آپ نے اپنا چہرہ دیکھا ہے کیا ؟؟
میرا خوبرو جوان بھائی محبت کا روگ لگا کر سرسوں کے پھول جیسا ہو رہا ہے۔! عاصم نے اپنی ہنسی دبائی جبکہ روحیل نے اسے کڑی نظروں سے گھورا۔۔
اچھا چل جا یہ میری اس پاکباز شہزادی کو کھانا دے کر آ ۔! بلکہ ایسا کر تو اسے خود کھلا کر آ۔ اسے بول ابھی پریشان نہ ہو کیونکہ ماسی کو ہوش آ گیا ہے ۔ اور میں نے تہیہ کر لیا ہے میں ابھی اسکے سامنے نہیں جاؤں گا۔۔
بس اسے دور سے ہی دیکھ لیا کروں گا ۔مجھے صرف اسکی صحت عزیز ہے ۔۔ روحیل نے شرافت سے بولا۔۔
جی ہاں اسے دور سے دیکھنے پر کیا آپ کو اجر عظیم ملنا ہے۔؟؟
تو پھر کیا کروں۔؟؟؟ روحیل نے رونی شکل بنائی۔۔
صبر اور انتظار۔!! عاصم نے پیکٹ کھنگالنا شروع کر دیا۔۔ زینہ کا کھانا کونسا ہے ۔؟؟
لائیں میں اسے دے آؤں۔۔۔!
عاصم میری زینہ نے اگر کھانا نہ کھایا تو پھر میں نے تیری طبیعت صاف کرنی ہے۔۔
آپ میری طبیعت کو کس لیے صاف کریں گے ، خود ہی جاکر کھلا آئیں۔!
تاکہ وہ مجھے دوبارہ دیکھ کر باآسانی بیہوش ہو سکے۔! روحیل نے زچ ہو کر عاصم کو بولا۔۔
تو آپ بیہوش کرنے والی حرکتیں کرتے ہی کیوں ہیں ؟؟؟ عاصم نے بولا اور لمبے ڈگ بھرتا روحیل کا جواب سنے بغیر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔۔ روحیل اپنی بےبسی پر پہلو بدل کر رہ گیا۔۔
******************************************
آپا اللہ کو ایسے ہی منظور تھا۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔ پریشان کیوں نا ہوں زینہ۔؟ ذیشان اس قدر بیوفا نکلے گا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔ ذیشان کو خوش رکھنے کے لیے میں نے ہمیشہ تمہارا دل دکھایا ہے۔امی زید سے بحث مباحثہ کرتی رہی ہوں۔مگر اسکا اپنا خون ، اپنا پہلا بچہ اس دنیا میں آ رہا تھا اور وہ مجھے ایسے بے یارو مددگار چھوڑ گیا اور پلٹ کر خبر بھی نہ لی۔۔ اور خالہ کو تو دیکھو اپنی بہن کا ہی سن کر عیادت کے لیے آ جاتیں۔۔
زار و قطار روتی شہلا کو قابو کرنا زینہ کے لیے بہت کٹھن مرحلہ تھا۔ شہلا بار بار اپنے سرکردہ گناہوں پر پچھتا رہی تھی۔۔۔ زینہ میں تمہارے پردے سے نفرت کرتی تھی ، تیرے دین پر عمل پیرا ہونے پر خار کھاتی تھی ،مجھے اس سب کی سزا ملی ہے۔ میں اسی قابل ہوں۔ میں نے اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑا تو پھر منہ کی کھائی ہے۔۔۔
ہائے میرا بچہ میں اسے چند گھنٹے بھی اپنے پاس نہ رکھ پائی اور وہ مٹی کی نظر ہو گیا۔۔۔
آپا مصیبت پر صبر کرنے میں ہی اجر ہے ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے زخم مندمل ہو ہی جاتے ہیں۔ آپا اللہ کی رضا کی خاطر صبر کر لو۔!
******************************************
اللہ سبحانہ وتعالی كا فرمان ہے:
“اور ہم كسی نہ كسی طرح تمہاري آزمائش ضرور كرينگے، دشمن كےڈر سے، بھوک وپياس سے، مال وجان اور پھلوں كی كمی سے، اور ان صبر كرنے والوں كو خوشخبري دے ديجئے، جنہيں جب كبھی كوئی مصيبت آتی ہے تو وہ كہہ ديا كرتےہيں كہ ہم تو خود اللہ تعالى كی ملكيت ہيں اور ہم اسی كی طرف لوٹنے والے ہيں، ان پر ان كے رب كي نوازشيں اور رحمتيں ہيں اور يہي لوگ ہدايت يافتہ ہيں۔” (سورة البقرۃ : 155- 157 ) .
ايک مقام پر اللہ تعالى نےارشاد فرمايا:
“اور اللہ تعالى صبر كرنےوالوں سےمحبت كرتا ہے.” (سورة آل عمران :146 )
ایک اور مقام پر اللہ جل شانہ نےفرمايا:
“اللہ تعالي يقينا صبر كرنےوالوں كوبغير حساب كےاجروثواب دے گا۔” (سورةالزمر : 10 )
امام ترمذي رحمہ اللہ تعالي نے ابوسنان رحمہ اللہ تعالي سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے اپنے بيٹے سنان كو دفنايا اور قبر كےكنارے ابو طلحہ خولاني رحمہ اللہ تعالي بيٹھے ہوئے تھے جب ميں نے نكلنا چاہا تو انہوں نےميرا ہاتھ پكڑا اور كہنے لگے ابوسنان كيا ميں تمہيں خوشخبري نہ دوں؟ ميں نےجواب ديا كيوں نہيں، تو انہوں نےكہا:
مجھےضحاك بن عبدالرحمن بن عرزب رحمہ اللہ نے ابو موسى اشعرى رضي اللہ تعالى عنہ سےحديث بيان كي كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب كسي بندے كا بيٹا فوت ہوجاتا ہے تو اللہ تعالى اپنے فرشتوں سے كہتا ہے تم نے ميرے بندے كے بيٹے كي روح قبض كرلي تو وہ كہتےہيں جي ہاں تو اللہ تعالى كہتا ہے تم نے اس كے دل كا پھل اور ٹكڑا قبض كر ليا تو وہ كہتے ہيں جي ہاں، تواللہ تعالى كہتا ہے ميرے بندے نے كيا كہا؟ تو فرشتے جواب ديتے ہيں اس نے تيري حمد و تعريف اور” انا للہ وانا اليہ راجعون” پڑھا، تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: ميرے بندے كے لئے جنت ميں ايک گھر تيار كردو اور اس كا نام بيت الحمد ركھو “۔۔ (جامع الترمذي حديث نمبر :942 ). علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نےاس حديث كو السلسلۃ الصحيحۃ :1408 )ميں حسن قرار ديا ہے۔۔
******************************************
زینہ اپنے مخصوص دھیمے انداز میں بڑی بہن کے ساتھ ہمکلام ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا سر بھی سہلا رہی تھی۔۔
آپا پریشان نہ ہوں دو دن بعد امی کو بھی ہسپتال سے گھر بھیج دیا جائے گا ان شاءاللہ۔۔
دروازے پر دستک نے دونوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ آپا آپ ادھر ہی لیٹو میں دیکھتی ہوں۔ زینہ نے اپنے دوپٹے کو چاروں اطراف لپٹ کر دروازہ کھولنے سے قبل پوچھا۔۔
کون ہے ۔؟؟؟
روحیل کی دلی مراد بھر آئی۔۔ دل بلیوں اچھلنے لگا۔
وہ میں روحیل ہوں ۔۔!! سنتے ساتھ زینہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔دل کی حالت ابتر ہونے لگی۔ یہ اچانک اس وقت کیوں آ گیا ہے؟ جبکہ اسے پتا ہے زید اس وقت گھر پر نہیں ہے۔۔۔۔ زینہ کی طرف سے جواب نہ پاکر روحیل گویا ہوا ، وہ عاصم کو اچانک اسلام آباد جانا پڑ گیا ہے جسکی بنا پر وہ نہیں آ سکا ہے۔عاصم نے بارہا آپ کو فون کیا ہے مگر آپ کا فون بند ہے ، میں آپ کا سامان آپ تک پہنچانے آیا ہوں۔۔
زید کو فون کیا ہے مگر اس نے اٹھایا نہیں ہے۔!
روحیل نے اپنی صفائی میں تمام تفصیلات ایک ہی سانس میں دروازے کے دوسری طرف پہنچا دیں۔۔۔
زینہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی ۔ آپ یہاں کچھ دیر انتظار کریں۔۔
زینہ نے بمشکل گلے میں پھنسی آواز نکالی۔۔۔
ہائے کیا کروں۔؟؟ دروازہ کھول دوں۔؟ یاپھر بولوں واپس چلا جائے۔؟ اب تو ان لوگوں کے احسانات کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ میں تو اس سے کوئی بات بھی نہیں کر پاؤں گی۔۔۔ جی میں آیا شہلا آپا کو بلا لے پھر آپا کی صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ارادہ بدل دیا۔۔۔
پانچ منٹ تو سوچ و بچار میں خاموشی کی نظر ہو گئے۔۔
وووووہ آپ سامان دروازے کے باہر چھوڑ جائیں ، میں اٹھا لیتی ہوں۔۔۔ زینہ نے دقت سے گلے میں پھنسی آواز نکالی۔۔
سامان تو میں باہر رکھ جاؤں گا مگر کوئی بھی چرا کر لے جا سکتا ہے۔۔
اے زینہ ۔! باہر کون آیا ہے؟ وہ آپا ویرے کے بڑے بھائی آئے ہیں۔زینہ نے لکڑی کے بند دروازے کے پاس کھڑے کھڑے ہانک لگائی۔۔۔ زینہ ہزار جتن کے باوجود بھی روحیل کا نام اپنی زبان پر نہ لا سکی۔۔۔ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے، سامان لو اور واپس آؤ۔!
جی آپا ۔! دروازے کے باہر کھڑا روحیل زینہ کی آواز میں لرزش باآسانی محسوس کر سکتا تھا۔۔۔ آپ دروازہ کھول کر اوٹ میں ہو جائیں ، میں سامان دہلیز کے قریب چھوڑ جاتا ہوں ، اٹھا لیجئے گا ۔!!
روحیل نے متفکر زینہ کی مشکل آسان بنا دی ۔۔۔
جججججججی ۔زینہ دروازہ واہ کر کے خود اوٹ میں چھپ گئی، دل تو گویا پسلیاں توڑ کر باہر آنے کے لئے تیار تھا۔۔۔
روحیل سے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ اب شدید خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا۔۔ ایک تو اس خاندان کی طرف سے کئے گئے بےپناہ احسانوں کا بوجھ زینہ کے اوسان خطا کرتا رہتا۔۔۔ اب تو چاہتے ہوئے بھی زینہ روحیل کو کھری کھری نہیں سنا سکتی تھی۔۔
دروازہ کھلتے ہی روحیل کا سر اور آدھا دھڑ دروازے کی دہلیز پر نظر آنے لگا۔۔
وجیہہ روحیل بےشکن بیش قیمت لباس میں ملبوس اور خوشبوؤں میں نہایا وجود کسی بھی نوجوان دوشیزہ کی دھڑکنیں اتھل پتھل کرنے کے لیے کافی تھا۔۔ مگر زینہ دوپٹے میں چہرہ چھپائے مضبوطی سے دروازہ تھامے ، اوٹ میں چھپی تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔۔
روحیل نے تین سے چار بڑے بڑے تھیلے دہلیز سے ذرا آگے ہو کر احتیاط سے رکھ دیئے اور دائیں بائیں دیکھے بنا دروازہ بند کرتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔
آپ کی مطلوبہ چیزیں سب موجود ہیں ، اگر مزید اشیاء درکار ہوئیں تو اپنا موبائل آن کرکے مجھے پیغام بھجوا دیجیئے گا۔۔
ایک اور گزارش ہے کہ اس پانچویں نمبر کو بلاک کیا تو میرے پاس ایک ہی نمبر بچے گا ۔ اب آپ خود سمجھدار ہیں۔ اگر کبھی ضرورتاً رابطہ کرنا پڑ گیا تو کیسے ہو گا۔
اور کسی پاکیزہ شخصیت سےمحبت کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔۔
اور اگر آپ اسے جرم سمجھتی ہیں تو میرے سے یہ جرم سرزد ہو چکا ہے، اب میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔عاصم سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو اب نہیں دیکھوں گا اور نہ آپ کے سامنے آؤں گا مگر آپ کے ساتھ بات چیت نا کرنے کا وعدہ نہیں تھا۔۔ آپ جانتی ہیں کہ گزشتہ کئی دنوں سے میں آپ کے سامنے کبھی بھی نہیں آیا ہوں ، جس شاہراہ پر آپ ہوتی ہو میں وہ راستہ ہی بدل لیتا ہوں۔۔
مجھے کوئی اشارہ دے دیں تاکہ مجھے یقین ہو جائے کہ آپ بیہوش ہوکر نہیں گری ہیں وگرنہ مجھے ہی آپکو ہسپتال بھی اٹھا کر لے جانا پڑے گا۔۔ جب تک آپ کا جواب سنائی نہیں دیتا میں آپ کے دروازے کے باہر ہی کھڑا ہوں۔۔روحیل کا محبت سے چور شیرینی لہجہ زینہ کو بے حال کرنے لگا ۔۔۔
جنوری کی شدید سردی میں ہتھیلیاں عرق آلود ہونے لگیں۔۔ زینہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا مگر ہمت کر ڈالی۔
آ آ آآپ پلیز یہاں سے چلے جائیں ۔زینہ نے بمشکل گلے میں پھنسی آواز نکالی۔۔۔
جا رہا ہوں مگر بہت جلد آپ کی والدہ کی صحت یابی کے بعد آپ کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے جانے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہوں۔۔۔۔
اب دوبارہ اپنے فون کا گلا نہ گھونٹنا ۔۔۔ یاد رکھنا زینہ صرف روحیل کی ہے ۔۔۔!!
چند ثانیوں بعد زینہ نے گاڑی کے چلنے کی آواز سنی تو گھٹی سانس بحال ہوئی۔۔
لرزتے وجود کے ساتھ تمام سامان گھسیٹ کر باورچی خانے میں لے آئی۔ تازہ پھل۔، مرغی ، گوشت، انڈے اور دال سبزیوں سے اٹے تھیلے زینہ کی خوددار طبیعت کو کچوکے لگانے لگے۔۔۔
بھل بھل آنسو گرنے لگے۔۔۔
اب میں اس شخص کی پیش رفت اور وقت گزاری پر اسے کچھ بھی کہہ نہیں پاؤں گی۔۔۔ اس نے ہمیں خرید لیا ہے۔۔میں جو اسے دو ٹوک سنا کر اس کے کرتوت اسکے منہ پر دے مارتی تھی ،میرے موجودہ حالات کی بنا پر اب تو اس شخص نے وہ حق بھی میرے سے چھین لینا ہے ۔۔۔
آنسو صاف کرکے تمام اشیاء خوردونوش ترتیب سے مطلوبہ مقامات پر رکھیں۔۔۔
کمرے میں آئی تو شہلا کو سوتے پایا۔۔۔ آپا کھانا لے آؤں .؟؟جھنجھوڑا مگر شہلا دوا کے زیر اثر گہری نیند سو چکی تھی۔۔۔
زینہ نے کچھ سوچ کر الماری کھولی اور ڈیڈھ ہفتہ قبل چھپائے گئے فون کی گھٹی سانسیں بحال کر دیں۔۔۔
روحیل کے پانچویں نمبر سے مختلف اوقات میں مختلف دھمکی آمیز پیغامات کی بھرمار تھی۔۔۔
تمام پیغامات کو ایک نظر موٹا موٹا دیکھا مگر آخری پیغام کو پڑھ کر دل مٹھی میں آ گیا۔۔
“پتا ہے اس دن جب تم مجھے دیکھ کر بیہوش ہوئی تھی تو تم نے میری جان جوکھوں میں ڈال دی تھی۔۔۔بارہا سوچا کہ تمہیں ہاتھ نہ لگاؤں مگر میرے سے برداشت نہیں ہو پایا کہ تمہیں میرے علاوہ کوئی اور چھوئے۔۔ جب تمہیں میں اپنی باہوں میں بھر کر شعبہ حادثات کی طرف بڑھ رہا تھا تو تم مجھے پھول سے بھی ہلکی محسوس ہوئی۔زیادہ نہیں صرف اتنا بتا دو۔!! مجھ سے اس قدر ڈرتی کیوں ہو ؟ جبکہ میں تو تمہیں اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ چاہتا ہوں۔۔چاہنے والوں سے ڈرا نہیں جاتا بلکہ انکی قدر کی جاتی ہے”۔۔
کپکپاتے ہاتھوں میں تھاما فون دھڑام سے بستر پر جا گرا۔۔ اس آوارہ کی اتنی جرآت ۔بات میرے چہرے تک تو پھر بھی سمجھ آتی ہے کہ آوارہ لفنگا دیکھ چکا ہے لیکن اب میرے جسم کو بھی اپنی ملکیت سمجھنے لگا ہے۔۔ زینہ اپنی بےبسی پر آنسو لٹانے لگی۔۔
فورا آنسو پونچھے ، بستر سے فون اٹھا کر سامعہ کو ملایا ۔۔۔ ابتدائی سلام دعا کے بعد سامعہ نے داستان غم سننے کے بعد ہمیشہ کی طرح زینہ کو ادھیڑنا شروع کر دیا۔۔۔
سامعہ یار میں نے اس آوارہ لفنگے کی وجہ سے فون بند کرکے الماری میں چھپا دیا تھا ، تمہیں تو گھر میں بیماروں کے بارے میں زید کے ذریعے باخبر رکھے رکھا ہے لیکن ہمارے حالات اس نہج پر آ گئے ہیں کہ ہم اس شخص اور اسکے خاندان کے مقروض ہو کر رہ گئے ہیں ، سامعہ تمام اخراجات ویرے عاصم اور اس شخص نے برداشت کئے ہیں، بات ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں روپوں تک جا پہنچی ہے۔۔۔
زینہ تم نالائق لڑکی کو بارہا بولا ہے کہ جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑے ، سب سے پہلے مجھے بتایا کرو مگر تمہاری یہ خودداریاں تمہیں لے ڈوبیں گی۔۔اس وقت جب بابا نے زید کو پیسوں کا بولا تھا کہ لے لو جب ہوئے لوٹا دینا مگر وہ انکاری تھا کہ جب ضرورت محسوس ہوئی تو ضرور بتاؤں گا اور اب وہی ہوا ہے جس کا مجھے ڈر تھا ۔۔۔ ڈرائیور چاچا گھر پر نہیں ہیں وگرنہ میں نے ابھی آ جانا تھا ۔ ایک تو عبد السمیع رکشے پر بھی سفر نہیں کرنے دیتے ہیں۔
سامعہ تمہیں بتانے کی مہلت ہی نہیں ملی ہے ،اس دن جب تم ہسپتال امی اور آپا کو دیکھنے آئی تھی تو ڈھنگ سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔۔۔ ایک کے بعد ایک پریشانی نے گھیرے رکھا ہے ۔۔۔ اس کھلاڑی روحیل نے زید کو ایسا اپنے قابو میں کیا ہوا ہے کہ وہ تو دن رات اس کے گن گاتا ہے ۔۔۔زینہ نے بھرائی آواز میں ساری تفصیلات سامعہ کے گوش گزار کر دیں۔۔۔
سامعہ میں کیسے اس شخص کو اپنا لوں ؟ جبکہ میرے دل میں اس شخص کے لئے کوئی عزت نہیں ہے ، خود کو بارہا سمجھایا ہے کہ اب یہ خود کو بدل چکا ہے۔مگر پھر بھی ایک کسک ، ایک گرہ ہے میرے دل میں کہ یہ شخص میرا مان توڑنا چاہتا ہے ، اپنی توہین کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔۔
زینہ تمہارے ویرے عاصم نے اس حوالے سے تم سے کوئی بات کی ہے ؟
نہیں سامعہ ۔! میں نے بارہا چاہا ہے میں خود ویرے کو تمام باتوں سے آگاہ کر دوں مگر موقع ہی نہیں ملا ہے اور پھر میں یہ سوچ کر خاموش ہو جاتی ہوں کہ جو بھی ہے وہ ویرے کا سگا اور بڑا بھائی ہے ۔ اور سنا ہے دونوں کی آپس میں دوستی بھی بہت ہے۔۔