(Last Updated On: )
مسندِ پیار تک نہیں پہنچا
میں درِ یار تک نہیں پہنچا
جل گیا خواب کی حرارت سے
اشک رخسار تک نہیں پہنچا
پھول کی اہمیت نہیں سمجھا
ہاتھ جب خار تک نہیں پہنچا
عدل کو کس کا خوف لاحق ہے
ظلم کیوں دار تک نہیں پہنچا
خاک نے خاک سے کیا دھوکا
عشق اُس پار تک نہیں پہنچا
خود پسندی میں ہے ظہیرؔ احمد
رمز و اسرار تک نہیں پہنچا