کورا اول کے تاریخ دماغ میں دور کہیں روشنی کی ایک چنگاری پھوٹی ، اسے ہوش آرہا تھا ۔۔۔ پوری طرح ہوش بحال ہونے میں اسے دس منٹ سے بھی زیادہ وقت لگ گیا ۔۔ آنکھوں کی دھندلاہٹ دور ہونے پر اس نے خود کو ایک نیم تاریک کمرے میں موجود ایک آہنی کرسی پر بندھا پایا ۔۔۔ ایک مظبوط رسی کی مدد سے اس کے پیٹ اور سینے کو اس کرسی کے ساتھ کَس کر باندھ دیا گیا تھا جبکہ اس کے ہاتھوں کو بھی کرسی کی پشت پے کرکے اس طرح باندھ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے بازوؤں کو حرکت دینے سے قاصر تھی ۔۔۔ یہ ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا جس میں بس ایک ہی دھندلا سا بلب روشن تھا ، کمرے میں کرسی کے سوا کوئی سامان موجود نہ تھا ۔۔۔ اس کمرے میں ایک ہی آہنی دروازہ تھا جو ظاہر ہے بند تھا ۔
کورا اول کو اتنا ہی یاد تھا کہ گزشتہ شام اس نے کورا ثانی کو اغواکاروں سے بچانے کی خاطر پل سے دریا میں دھکیل دیا تھا جس کے بعد ایک اغواکار نے اسے گن پوائنٹ پر گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کردیا جبکہ دوسرے اغواکار کے پرفیوم سائز کی ایک سپرے بوتل سے اس کے چہرے پر کوئی مواد سپرے کیا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی۔
اسے ہوش میں آنے کے بعد بیس منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا لیکن نہ تو اس کمرے میں کوئی شخص آیا اور نہ ہی اسے کوئی آواز سنائی دی ۔۔۔ اس کے جسم کو اتنا کَس کر باندھا گیا تھا کہ اب اسے تکلیف کا احساس ہورہاتھا ۔۔۔ ساتھ ہی اسے اپنی دائیں کلائی پر چبھن کا احساس ہورہا تھا ، شاید اس کی کلائی کرسی کی پشت پر کسی نوکدار سطح سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔۔
” مجھے کسی بھی طرح خود کو چھڑوانا ہوگا۔۔۔” کورا اول نے سوچا۔
اس نے اپنی ٹانگوں کو کرسی کی ٹانگوں میں اَڑاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بیک وقت زوردار جھٹکا دیا ، اس سے اس کی پوزیشن میں چند انچ کا فرق پڑ گیا اور اب آہنی کرسی کی چبھن آمیز سطح اس کی کلائی کو مَس کرنے کے بجائے اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھی۔۔۔اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں کو اوپر اور نیچے کی جانب حرکت دینا شروع کردیا تاکہ رسی اس نوکدار سطح سے ٹکرا کر کٹنا شروع ہوجائے ۔۔۔ لیکن یہ بہت مشکل ٹاسک تھا کیونکہ چند انچ سے زیادہ ہاتھوں کو حرکت دے پانا ممکن نہ تھا اور رسی بھی اچھی خاصی مظبوط تھی۔۔۔
مسلسل ایک گھنٹے تک اسی کوشش میں مگن رہنے کے بعد نصف رسی کٹ چکی تھی جس سے اب اسے ہاتھوں کو حرکت دینے میں آسانی ہورہی تھی ، تاہم اب اس کی دونوں کلائیاں بری طرح سے دُکھ رہی تھیں اور اس کے بازو تھکاوٹ سے چُور ہورہے تھے ۔۔۔
اسی وقت اسے دروازے کے باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے سر کو ڈھلکا دیا ۔۔۔ تاہم اس نے ایک آنکھ کو معمولی سا کھولے رکھا۔
چند سیکنڈ بعد دروازہ کھلا اور ایک سیاہ فام شخص اندر داخل ہوا ۔۔۔
” اب تک اسے ہوش میں آ جانا چاہیے تھا ۔۔۔ لگتا ہے کیری نے ضرورت سے زیادہ مقدار میں سپرے کردیا تھا ۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ، واپس مڑا اور کمرے سے نکل گیا۔۔۔چند لمحوں میں دروازہ پھر سے بند ہوچکا تھا ۔
اس کے جانے کے بعد کورا اول نے پھر سے پوری ہمت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے ، رسی کاٹنے کام پھر سے شروع کردیا۔۔۔
مزید ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد اچانک اس کی کلائیاں رسی سے آزاد ہوگئیں ، گویا رسی کٹ چکی تھی، اب کورا اول نے اپنے جسم کے گرد لپٹی رسی کو مرحلہ در مرحلہ کھولنا شروع کردیا ، چند منٹ میں ہی وہ رسی سے آزاد ہوچکی تھی ۔۔۔۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کرسی اٹھائی اور اسے دروازے کے پاس لے گئی اور وہاں کرسی رکھنے کے بعد وہ آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچنے لگی ۔۔۔ تاہم اسے کوئی اندازہ نہ تھا کہ باہر کے حالات کیسے ہیں ، وہ کہاں پر ہے اور باہر کتنے لوگ موجود ہیں ۔۔۔۔
مزید بیس منٹ ہی گزرے تھے کہ اسے پھر سے قدموں کی آہٹ سنائی دی اور وہ تیزی سے حرکت میں آگئی ، اس نے کرسی کی اگلی ٹانگوں کو پکڑ کر اسے اٹھایا اور الرٹ حالت میں دروازے کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔۔۔ چند لمحے بعد ہی دروازہ کھلا اور ایک شخص کمرے میں داخل ہوا۔۔۔کورا اول نے اپنے وجود کی پوری قوت کے ساتھ کرسی اس کے سر پے دے ماری۔۔۔ایک لمحے میں ہی وہ شخص زمین بوس ہو چکا تھا۔۔۔کورا اول نے فوراً اس کی تلاشی لی ، اس کے پاس سے ایک پسٹل اور کچھ رقم برآمد ہوئی۔۔۔اس نے دونوں چیزیں اپنی تحویل میں لے لیں۔۔جس کے بعد اس نے پسٹل کو ہاتھ میں تھام کر کمرے سے باہر جھانکا ، وہ ایک نیم تاریک راہداری تھی جو کافی لمبی تھیں ۔۔۔ کورا اول نے احتیاط سے باہر قدم رکھا اور محتاط قدموں راہداری میں آگے بڑھنے لگی ۔۔۔ راہداری میں دونوں اطراف موجود سبھی کمروں کے دروازے بند تھے ۔۔۔۔ ابھی وہ دس قدم ہی چلی تھی کہ اس کے چند قدم آگے ایک کمرے کا دروازہ کھلا اور وہاں سے ایک نوجوان شخص باہر نکلا۔۔۔۔
” ہالٹ۔۔۔” کورا اول نے پستول اس پر تانتے ہوئے دھیمی آواز سے کہا ، تاہم آواز اتنی دھیمی نہ تھی کہ وہ شخص سن بھی نہ پاتا ،
اس نے بےاختیار اپنے ہاتھ بلند کردیے۔۔۔اس کے چہرے سے گویا حیرت کا سمندر چھلک رہا تھا ۔۔۔
” واپس اندر چلو ۔۔۔” کورا اول نے کہا اور چار و ناچار وہ واپس اسی کمرے میں داخل ہوگیا کہ جہاں سے چند لمحہ قبل وہ نکلا تھا ، اس کے پیچھے کورا اول بھی اس پر پستول تانے اندر داخل ہوگئی۔۔۔ وہ ایک رہائشی طرز کا کمرہ تھا!
” بیٹھ جاؤ ۔۔۔” کورا اول نے پسٹل سے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے کہا اور کرسی پر دراز ہوگیا ۔
“میں جو کچھ پوچھ رہی ہوں ٹو دی پوائنٹ مجھے صاف اور درست جواب چاہیے ۔۔۔ ورنہ یاد رکھنا میں پستول سے نکلی گولی کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور تم جسم سے نکلی روح کو واپس نہیں موڑ سکتے ۔۔۔” کورا اول نے سخت لہجے میں کہا۔
” میں سب کچھ صحیح سے بتادوں گا ۔۔۔” اس نے چہرے پر گھبراہٹ کے تاثرات لیے کہا۔
” تم لوگوں کا تعلق کس گروپ سے ہے اور مجھے کس کے کہنے پر، کس مقصد سے اغواء کیا گی۔۔۔؟” کورا اول نے کہا ۔
” تمہیں مکاریوس گینگ کے سربراہ مکاریوس یوڈی کولو کے حکم پر اغواء کیا گیا ہے۔۔۔تم اس وقت بلیوڈیل میں واقعہ، گینگ کے ایک ٹھکانے پر ہو۔۔۔۔جس فیری حادثے سے تم زندہ بچ نکلی تھی اس فیری کے کارگو میں انتہائی بھاری مالیت پر مشتمل ، گینگ کی ڈرگز کی ایک کھیپ موجود تھی جو فیری کے ساتھ ہی ضائع ہوگئی۔۔۔ باس کو شک ہے کہ اس حادثے کا تمہارے ساتھ کوئی کہ کوئی تعلق ضرور ہے کیونکہ 150 مسافروں میں سے تمہارے سوائے کوئی بھی سروائیور نہ تھا ۔۔۔۔ باس کے خیال میں تمہارا تعلق مخالف کارٹیل سے ہوسکتا تھا جسے گینگ کی شپمنٹ کو تباہ کرنے کے لیے فیری پر بھیجا گیا ۔۔۔” اس نے تیز لفظوں میں کہا۔
” کیا یہ گینگ کا ہیڈکوارٹر ہے۔۔۔۔؟” کورا اول نے پوچھا ۔
” نہیں ، ہیڈکوارٹر دو بلاکس کے فاصلے پر ہے۔۔۔ یہ محض ایک رہائشی ٹھکانہ ہے۔” اس نے کہا۔
” یہاں کتنے لوگ موجود ہیں ۔۔۔؟ اور قریب ترین روڈ یہاں سے کتنا دور ہے ۔۔۔؟” کورا اول نے کہا ۔
” فی الوقت یہاں دس لوگ موجود ہیں۔۔۔مین روڈ یہاں سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے مشرق کی سمت ۔۔۔” اس نے کہا۔
” یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی عقبی راستہ ہے۔۔۔؟” کورا اول نے پوچھا ۔
” ہاں۔۔۔ گیلری سے بائیں مڑ جاؤ ، آخری کمرے میں ایک دروازہ ہے جو عقبی سمت کھلتا ہے ۔۔” اس نے کہا۔
” اوکے۔۔۔ اب 15 منٹ تک یہاں سے حرکت مت کرنا ۔ میں باہر سے کنڈی لگا کر جارہی ہوں۔۔۔یاد رکھنا اگر میں بند کمرے میں بندھی ہوئی حالت سے یہاں تک پہنچ سکتی ہوں تو تمہیں ٹھکانے لگانا میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں ۔۔۔ سمجھے !!” کورا اول نے کہا۔۔۔ اس پر پستول تانے الٹے قدموں دروازے تک پہنچی ۔۔۔ اور دروازے سے باہر قدم رکھا ، ابھی وہ باہر سے کنڈی لگا رہی رہی تھی کہ راہداری گولی کے دھماکے اور پھر کورا اول کی چیخ سے گونج اٹھی ۔۔۔ پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے گر چکا تھا ، اس نے بےاختیار بائیں ہاتھ سے اپنا دائیاں ہاتھ پکڑا جو اب لہو لہان ہوچکا تھا اور اس سے خون ٹپک کر فرش پے گررہا تھا ۔۔۔
” زرا سی بھی حرکت مت کرنا ۔۔۔۔” پسٹل سے لیس اس شخص نے کہا جس نے راہداری کے سرے سے اس پر گولی چلائی تھی ۔
” اگر باس نے تمہیں زندہ رکھنے کا حکم نہ دیا ہوتا تو میں تمہارے چھیتھڑے اڑا دیتا ۔۔۔” اس نے گرجتی آواز میں کہا ۔ اسی دوران دو مزید گینگسٹرز بھی وہاں پہنچ گئے۔
کورا اول کو پھر سے حراست میں لے کر اسی کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔۔۔ اور اسی کرسی پر انتہائی بیدری کے ساتھ کَس کر باندھ دیا گیا ۔۔۔ بیہوش گینگسٹر اب اس کمرے میں موجود نہ تھا ۔۔۔
” شیفرڈ ۔۔۔ فرسٹ ایڈ باکس لاؤ۔” کورا اول پر گولی چلانے والے گینگسٹر نے اپنے ساتھی کو کہا ۔
اور خود مستعد ہوکر اسی کمرے میں بندھی ہوئی کورا اول پر پسٹل تھامے کھڑا ہوگیا ۔۔۔
کورا اول نے ہاتھ سے مسلسل خون ٹپک رہا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ، ستی اور باقی چاروں ساتھی اس زیرِ تعمیر ہاؤسنگ سکیم کے نصف تعمیر شدہ گھر میں بیہوش کارلوس کے ساتھ موجود تھیں۔۔۔شام کے سائے اب چھارہے تھے اور یہی وقت مقرر تھا مکاریوس گینگ سے رابطہ کرنے کا۔
” انہیں اس بات کا علم کیسے کہ ہم اسی وقت کال کریں گی ۔۔۔؟” کورا نے ستی سے پوچھا ۔
” کارلوس کے کمرے سے نکلتے وقت میں نے وہاں کچھ پرنٹ شدہ پیپرز پھینک دیے تھے ۔۔۔ جس میں کچھ دھمکی آمیز جملوں کے ساتھ یہ ہدایات تھیں کہ اگر ہماری ساتھی کو ایک خراش بھی آئی یا اس پر تشدد کرنے، ذہنی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کارلوس کو زندہ درگور کردیا جائے گا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی کہ انہیں آج شام کے کارلوس کے موبائل پر کال کی جائے گی ۔۔۔” ستی نے کہا۔
” اور اگر انہوں نے کال ٹریس کر لی تو۔۔۔؟” ہانیہ نے پوچھا ۔
” وہ مجرم ہیں کوئی حساس ادارے کے اہلکار نہیں۔۔۔ ان کے پاس کال ٹریس کرنے کی سہولت موجود نہیں ہوگی۔” ستی نے کہا۔
جس کے بعد اس نے اپنے موبائل پر انکرپٹڈ آواز سیٹ کرنے کے بعد کارلوس کے نمبر پر کال ملانا شروع کی جسے بمشکل تین سیکنڈ میں ہی ریسیو کرلیا گیا ۔
” ہیلو۔۔۔؟ کون ؟” دوسری طرف سے آواز آئی۔
” میں کون ہوں یہ جاننا تمہارے لیے ضروری نہیں۔۔۔۔ ہاں میں کیا ہوں ، اور کیا کچھ کرسکتا ہوں اس کا علم تمہیں ڈریم کیفے میں میرے آپریشن سے ہو ہی گیا ہوگا۔۔۔ تمہارے باس نے غلط جگہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔ مجھے بتاؤ کہ میں اس وقت کس سے مخاطب ہوں ؟” ستی نے کہا۔
” میں کارلوس سر کا نائب مارٹن ہوں۔۔۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔
” تو سنو مارٹن ۔۔۔ کل صبح 10 بجے تک ہماری ساتھی کو اس کے گھر سے سو میٹر کے فاصلے پر ڈراپ کردیا جائے۔۔۔اس کے صحیح سلامت گھر پہنچ جانے کی تصدیق کے ایک گھنٹے بعد تمہیں کارلوس کی لوکیشن سے آگاہ کردیا جائے گا۔۔۔۔اور یاد رہے۔۔۔۔اگر کورا کی رہائی کے بعد تمہارے گینگ کا کوئی ممبر بھی۔۔۔اس ایریا کے دومربع کلومیٹر کے اندر بھی نظر آگیا ۔۔۔ تو نہ صرف یہ کہ کارلوس کی طرح میں اسے بھی ‘اٹھا لیا’ جائے گا بلکہ اس طرح تم کارلوس کی رہائی کو بھی خطرے میں ڈال دو گے۔۔۔اوور اینڈ آؤٹ”. ستی نے کہا اور کال منقطع کردی۔
جس کے بعد اس نے موبائل سے وہ سم نکال دی تاکہ مارٹن اسے کال بیک کرنے کی کوشش نہ کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تو اس کا مطلب ہے کارلوس کے اغواء میں ٹی-ریکس گینگ کا ہاتھ ہے۔۔۔” مکاریوس نے میز پر مکا مارتے ہوئے غضبناک لہجے میں کہا۔
کارلوس کے کمرے میں ستی کی طرف سے پھینکے گئے پیپرز میں سے چند عدد اس کے سامنے میز پر رکھے تھے ۔
” یس باس۔۔۔ انہوں نے اس لیٹر میں واضح طور پر اپنے نام اور نشان کے ساتھ یہ بات تحریر کی ہے کہ مغوی کورا انہی کی ساتھی ہے اور اس کی بازیابی کے لیے انہوں نے کارلوس سر کو کڈنیپ کیا ہے۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” اس کا مطلب۔۔۔۔اس کا مطلب۔۔۔۔وہ فیری حادثہ کہ جس میں مجھے اپنے کیرئیر کا سب سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا اس میں بھی ٹی-ریکس کا ہی ہاتھ ہے۔۔۔” مکاریوس نے غصے میں ابلتی آواز اور مسخ ہورہے چہرے کے ساتھ کہا۔
” صرف اتنا ہی نہیں باس ۔۔۔ انہوں نے ہی گزشتہ شام تھنڈر لین کے نزدیک ایک ریٹائرڈ آرمی افسر کو بھتے کی جعلی ، دھمکی آمیز کال کی جس کی وجہ سے اب ہم لوگ اینٹی-ٹیررسٹ یونٹس کی نظر میں بھی آ چکے ہیں اور عسکری حلقوں میں بھی ہمارا نام پہنچ چکا ہے۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” Damn it …
پھر تو یقیناً 6 ماہ قبل ہمارے پانچ کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ اور پھر 2 ماہ قبل ہماری سپلائی وین پر حملے میں بھی یہی لوگ ملوث ہوں گے۔۔۔” مکاریوس نے غیض و غضب کی آگ میں جھلستے کہا۔
” کوئی شک نہیں باس ۔۔۔۔ ٹی-ریکس کے سوا اور کوئی ایسی جسارت نہیں کرسکتا ۔۔۔ لیکن فیری حادثے سے تو صاف ظاہر ہوچکا ہے کہ یہ گینگ اب روایتی مخاصمت سے نکل کر ہم پر فل سکیل، غیر اعلانیہ جنگ مسلط کرچکا ہے۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” ایک مرتبہ کارلوس صحیح سلامت واپس پہنچ جائے۔۔۔۔ میں ٹی-ریکس کے پرخچے اڑا دوں گا۔۔۔ ان کا ایک ایک ٹھکانہ تباہ نہ کروادیا اور ان کے ایک ایک ممبر کو اڑا نہ دیا تو میرا نام بھی مکاریوس نہیں۔۔۔” مکاریوس نے کہا۔
” تو کیا ہم کورا کو رہا کررہے ہیں۔۔۔۔؟” جارڈی نے کہا۔
” مجبوری ہے۔۔۔۔ کارلوس ہمارے لیے سو گنا زیادہ اہم ہے کورا کی نسبت۔۔۔ وہ میرا بیٹا ہے۔ اس کی خاطر میں یہ کڑوا گھونٹ بھی پی سکتا ہوں۔” مکاریوس نے کہا۔
“اگر آپ چاہیں تو ہم کورا کو رہا کرنے کے بعد کل یا پرسوں اسے دوبارہ اس کے گھر سے اغواء کر سکتے ہیں ۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” کورا سافٹ ٹارگٹ ہے۔۔۔۔ اس سے ہم بعد میں بھی باآسانی نبٹ سکتے ہیں ۔ فی الوقت ہمیں اپنی پوری طاقت اور وسائل ٹی-ریکس کے خاتمے کے لیے درکار ہیں۔” مکاریوس نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرار کی کوشش کے بعد جب سے کورا کو دوبارہ حراست میں لیا گیا تھا تب سے اس کمرے میں ایک مسلح گینگسٹر اس کی نگرانی کے لیے موجود تھا ۔
اب جسم پر سختی سے بندھی رسیوں کی تکلیف کے ساتھ ساتھ اسے ہاتھ کے زخم کا درد بھی ستا رہا تھا ۔
اب تک اسے پانی کے سوا کچھ بھی نہ دیا گیا تھا اور اسے بھوک بھی بری طرح سے ستا رہی تھی تاہم فرار کی کوشش کے بعد اب وہ اس پوزیشن میں نہ تھی کہ ان سے کھانے کو کچھ مانگ سکے۔۔۔
” لگتا ہے اب میرے یہاں سے زندگی بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔۔۔” اس نے سوچا۔
نصف گھنٹے بعد ایک اور مسلح شخص کمرے میں داخل ہوا اور اس نے پہلے سے وہاں موجود گینگسٹر کے نزدیک جاکر دھیمی آواز میں کچھ کہا جس پر وہ چونک اٹھا ۔۔۔۔
” کیا باس سے بذات خود تمہاری بات ہوئی ہے۔۔۔؟ اس نے پوچھا ۔
” ہاں بالکل۔۔۔” نو وارد نے جواب دیا۔
” تمہاری قسمت اچھی ہے لڑکی ۔۔۔ باس نے تمہاری رہائی کا حکم دیا ہے۔ شاید تمہارے گینگ کے ساتھ کچھ معاملات طے پا گئے ہیں ۔۔۔” گینگسٹر نے کہا ۔
” اب کوئی الٹی سیدھی حرکت مت کرنا ، یوں نہ ہو کہ رہائی کے حکم کے باوجود بھی تم اپنی حماقت سے ماری جاؤ ۔۔۔” اس نے کورا اول کی کرسی کی طرف بڑھتے کہا۔
اور کورا اول جیسے حیرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی ۔۔۔۔
” میرا بھلا کونسا گینگ ہے جس سے ان کے معاملات طے پا گئے۔۔۔؟” اس نے سوچا۔
انہوں نے کورا کی رسیاں کھول دیں ، اس کے ہاتھ پشت پے کرکے ان پر ایک آہنی ہتھکڑی لگا دی ۔۔۔ اور پھر کورا کی آنکھوں پر ایک سیاہ پٹی باندھ دی ۔۔۔ چند منٹ بعد ہی کورا اول کو ایک کار تک پہنچا کر اس کی بیک سیٹ پر لٹا دیا گیا اور کار چل پڑی ۔
” کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ مجھے اپنے کسی اور ٹھکانے پر منتقل کررہے ہوں۔۔۔ یاپھر ۔۔۔۔ کہیں یہ لوگ مجھے شوٹ کردینے کے لیے کسی ویران علاقے میں نہ لے جا رہے ہوں ۔۔۔ ” کورا نے سوچا۔
آنکھوں پر پٹی ہونے کی وجہ سے وہ یہ دیکھنے سے قاصر تھی کہ کار کس سمت اور کن راستوں پر محوِ سفر ہے۔
ایک گھنٹے کے بلاتواتر سفر کے بعد کار رک گئی۔۔۔
” میں تمہاری پٹی اتار رہا ہوں ۔ نارمل رہو اور کوئی غیر معمولی حرکت مت کرنا ۔۔۔ کار سے اتر کر چپ چاپ اپنے گھر کی طرف بڑھ چلی جانا۔” کورا اول کی سماعت سے اس گینگسٹر کی آواز ٹکرائی ۔۔۔ اور چند لمحے بعد اس کی آنکھوں سے سیاہ پٹی کو اتار دیا گیا ۔
چند لمحے بعد جب اس کی بینائی مکمل بحال ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ کار ، اس کے گھر کے نزدیک ہی ایک عقبی گلی کے پاس کھڑی ہے ۔۔۔
” اب تم جاسکتی ہو ۔۔۔” اس نے کہا ۔ کورا اول نے مزید کوئی دیر کیے کار کا دروازہ کھولا اور گلی کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے اترتے ہی کار چل پڑی ۔
وہ محتاط انداز میں گھر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ابھی تک وہ اپنی یکلخت رہائی کو ہضم نہ کر پا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستی نے مارٹن کو کال پر کورا اول کی رہائی کے لیے صبح 10 بجے کا ٹائم دیا تھا، اور اب 11 بجے رہے تھے ۔ چنانچہ اس نے سعد کے نمبر پر کال ملائی ۔۔ چند لمحے میں ہی کال اٹھا لی گئی۔۔اس نے سپیکر آن رکھا تاکہ سبھی ساتھی اس کی خیریت سے آگاہ ہوجائیں۔
ستی نے رسمی سلام دعا کے بعد کورا (اول) سے متعلق استفسار کیا۔
” جی آپی ابھی ابھی پہنچی ہیں ۔۔ دو منٹ ہوئے ہوں گے۔” سعد نے کہا۔
” اچھا میری بات کروا دو۔۔۔۔” ستی نے کہا۔
چند سیکنڈ کے توقف کے بعد فون پر کورا اول کی آواز سنائی تھی ۔۔۔
” کورا ، دھیان سے سنو ۔۔۔ اب سب کچھ کنٹرول میں ہے۔۔ گھر میں کوئی بھی پوچھے کہ تم کہاں تھی تو یہ بتانا کہ میں ستی کے ساتھ تھی۔۔۔ میں نے تمہارے گھر کال کر کے یہی بتایا تھا ۔۔۔ اور یہ بتاؤ کہ تم بالکل ٹھیک ہو ؟ انہوں نے تم پر کوئی تشدد تو نہیں کیا۔۔۔۔؟؟” ستی نے کہا۔
آگے چند لمحہ خاموشی رہی ۔۔۔
” نہیں انہوں نے کوئی تشدد نہیں کیا ، ہاں فرار کی کوشش کے دوران میرا ہاتھ معمولی زخمی ہوگیا۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
” تو اس پر بھی کوئی بہانہ بنا دینا ۔۔۔۔ اب بس تم ریسٹ کرو، کھاؤ پیو اور گھر میں ہی رہو۔۔۔ اس سارے بکھیڑے سے فارغ ہوکر ہم شام کو تمہیں ملتی ہیں۔۔۔” ستی نے کہا۔
” ستی۔۔۔ کورا ٹھیک ہے ؟ اور ثانی ؟” کورا اول کی بےچین آواز سنائی دی۔
” دونوں بالکل ٹھیک ہیں۔۔۔ اوکے پھر شامل کو ملتے ہیں۔ ٹیک کیئر۔” ستی نے کہا اور کال منقطع کردی۔
یہ گفتگو سن کر کورا اور ثانی دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے جگمگا اٹھیں۔۔۔۔
” تو ستی ۔۔۔ اب بتا بھی دو کہ آخر تم نے اس بات کا کیا بندوبست کیا ہے کہ مکاریوس گینگ پھر سے ہم پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہ کر سکے۔۔۔؟” ہیزل نے کہا۔
” کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔ بس مکاریوس گینگ کی مکمل تباہی کا انتظام کر رکھا ہے۔” ستی نے کہا۔
جس پر وہ سب چونک اٹھیں۔۔۔۔
” لیکن کیسے ۔۔۔۔؟؟؟” کورا نے پوچھا۔ جس پر ستی مسکرا اٹھی۔
” میں نے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ جس سے مکاریوس کو لگے کہ اس کا حریف ٹی-ریکس گینگ ہی گزشتہ کچھ عرصے میں اسے پہنچنے والے سب نقصانات کا ذمہ دار ہے۔۔۔ چاہے پھر وہ فیری حادثہ ہو یا پھر کارلوس کا اغواء۔۔۔” ستی نے کہا۔
” تو اب۔۔۔؟؟” کورا ثانی نے کہا۔
” آفکورس اب یہ دونوں گروپس باؤلے کتوں کی طرح آپس میں لڑ پڑیں گے ۔۔۔۔ اور اس فلم سکیل گینگ وار کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پولیس کے بجائے ملٹری کو مداخلت کرنی پڑے گی۔۔۔اور بس مکاریوس کا قصہ خلاص۔۔۔” ستی نے کہا۔
” اور ان دونوں گینگز کے خاتمے کے بعد تمہارے گینگ کو پنپنے کا موقع مل جائے گا۔۔۔؟” ہانیہ نے کہا اور سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
” میرا گینگ بس تم سب ہی ہو۔۔۔۔” ستی نے ہنستے ہوئے کہا۔
” آئی ایم سیریس ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے تم نے یہ سارا بکھیڑا ہی ان دونوں گینگز کو لڑوانے کے لیے کیا ہے ۔۔۔ تاکہ تم اپنے گینگ کو مستحکم اور مظبوط کرسکو۔۔۔۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ۔۔۔ لیکن ہر ماہ بس تھوڑی سی حیش۔۔۔۔” ہانیہ نے کہا اور پھر سے ان سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
” اچھا ستی اب کارلوس کی واپسی کا کیا کریں اسے واپس بھیجنے کے لیے تو ہوش میں لانا ضروری ہے۔۔۔” ہارلین نے کہا۔
” اس کی ضرورت نہیں۔۔۔۔ میں کارلوس کے نمبر پر مارٹن کو کال کر کے تفصیل سے اس لوکیشن کا بتادیتی ہوں کہ یہاں پہنچ کر کارلوس کو لے جائیں۔۔۔ جب تک وہ پہنچیں گے ہم یہاں سے بہت دور جاچکی ہوں گے۔۔۔” ستی نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملبری ٹاؤن پر شام کا نیلگوں اجالہ چھونے لگا تھا ۔۔۔ لیکن آج شہر میں ماحول قدرے کشیدہ تھا ، سڑکوں پر جا بجا ملٹری کی گاڑیاں نظر آرہی تھیں ، شہر کے تقریباً سبھی ناکوں اور چیک پوسٹس پر پولیس کے ساتھ اینٹی-نارکوٹکس کے اہلکار بھی تعینات کردیے گئے تھے ۔۔۔ فضا میں چند ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔ حکومت نے شہریوں کو اگلے چوبیس گھنٹے کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے اور سکیورٹی فورسز سے مکمل تعاون کرنے کی اپیل کی تھی۔
کورا ، ستی اور باقی چاروں ساتھی نوبل ہائٹس والے اپارٹمنٹ میں موجود تھے ،
” اول ابھی تک نہیں پہنچی۔۔۔” کورا نے قدرے بےچین لہجے میں کہا۔
” کال کردی ہے ۔۔۔ پہنچ جائے گی کچھ دیر تک ، نیم کرفیو کی صورت حال کی وجہ سے شاید اس نے متبادل راستہ اختیار کیا ہوگا ۔” ستی نے کہا۔
مزید دس منٹ گزرے تھے کہ ڈوربیل کی آواز سنائی دی اور ہانیہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔ حسبِ توقع دروازے پر کورا اول ہی تھی۔
” ویلکم بیک میڈم۔۔۔” ہانیہ نے اس کا استقبال کرتے کہا ۔
” ہانی تم یہاں۔۔۔؟؟” کورا اول نے حیرت آمیز لہجے میں کہا۔
” سب یہیں ہیں ۔۔۔ چلو۔” ہانیہ سے دروازے سے ہٹ کر اسے راستہ دیتے کہا۔
کورا اول کے بیڈروم میں داخل ہوتے ہیں سب اسے دیکھ کر خوشی کے مارے اپنی نشستوں سے اٹھ گئیں۔۔۔۔
” لو بھئی کورا۔۔۔ یہ رہی تمہاری بہن۔ میرا کام پورا ہوگیا۔ آگے تم جانو اور تمہیں بہنیں۔۔۔” ستی نے خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ کہا ۔
کورا بھیگتی آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھی ۔۔۔
” کورا۔۔۔۔۔” کورا اول نے اسے پکارا۔
کورا نے اس کے قریب پہنچتے ہوئے بلا توقف اسے اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے بھینچ کر خود سے لپٹا لیا ۔۔۔ اور ان دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا جھرنا رواں ہوگیا۔
” آئی ایم رئیلی سوری کورا۔۔۔ میں نے تمہارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔۔۔لیکن اب میں ہمیشہ کے لیے اپنی اس حماقت سے دستبردار ہوتی ہو۔۔۔عدیم تمہارا ہے اور ہمیشہ تمہارا ہی رہے گا۔۔۔میرے لیے عدیم تو محض ایک کرش تھا ، جس کے سو نعم البدل ہوسکتے ہیں ۔۔۔ لیکن دنیا میں بہن کا کوئی نعم البدل نہیں۔” کورا اول نے سسکتے ہوئے کہا۔
” خاموش۔۔۔جو ہونا تھا ہوگیا۔ اب یہ موضوع ہمیشہ کے لیے بند کرتے ہیں۔۔۔ تم صحیح سلامت واپس آگئی ہو، ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے۔” کورا نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت آمیز لہجے میں کہا۔
” تم سب نے میرے لیے اتنا بڑا رسک لیا۔۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
” اگر تم مجھے بچانے کی خاطر خود کو اغواکاروں کے حوالے کرسکتی ہو ، تو میں اور میرے دوست بھی تمہاری خاطر اس گینگ سے ٹکرا کر اسے پاش پاش کر سکتے ہیں۔۔۔” کورا نے اسے خود سے جدا کرتے کہا۔
“ستی ۔۔۔ تم نے جو کچھ میرے اور میری بہنوں کے لیے کیا ، ہم شاید کبھی اس سب کا بدلہ نہ چکا پائیں۔۔۔ اور جو تم نے ان دونوں کے لیے نئی شناخت کے ساتھ الگ ممالک میں نئی زندگی کی شروعات کرنے کے پلان پر کام شروع کیا ، وہ بھی کافی مدبرانہ فیصلہ تھا ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اب میں اپنی دونوں بہنوں سے جدا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ ہم تینوں ایک ساتھ ہی رہیں گی۔۔۔ پھر چاہے اس کے لیے مجھے اپنے خاندان کو سب کچھ سچ سچ بتانا ہی کیوں نہ پڑ جائے۔” کورا نے ایک ہاتھ سے کورا اول جبکہ دوسرے ہاتھ سے کورا ثانی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
” اب اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔ میں نے ایک بالکل نیا منصوبہ ترتیب دے دیا۔۔۔ اور وہ یہ کہ کورا اول و ثانی کے چہروں میں معمولی سے تبدیلی لا کر انہیں نئی Looks دے دی جائیں۔۔۔۔ اس مقصد کے لیے پلاسٹک سرجری کی ایک نئی متعارف کردہ تکنیک کا استعمال کر سکتے ہیں جس میں پورے چہرے کی نہیں البتہ چہرے کے چند کلیدی نقوش کی سرجری کرکے ان کی ہیئت میں تغیر لایا جاسکتا ہے۔۔۔ جس سے اس شخص کی شکل میں اتنا بدلاؤ آسکتا ہے کہ اسے اپنے سابقہ لُکس کی بنا پر نہ پہچانا جاسکے۔۔۔۔ بھلے ہی یہ سرجری مہنگی ہے ۔۔۔ لیکن مکمل طور پر محفوظ، اور موثر ہے۔۔۔۔
اس طرح کورا اول و ثانی دونوں تمہارے پڑوس میں اپنے اپارٹمنٹ میں رہ سکیں گی ، تمہارے ساتھ تمہارے کالج میں پڑھ سکیں گی اور تم تینوں بہنوں کو جدا ہونے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔۔۔” ستی نے تفصیلاً بولتے کہا۔
” پرفیکٹ ۔۔۔ بہترین حل ہے یہ تو۔” کورا نے کہا ۔
” اب ادھر دھیان دو فرینڈز ۔۔۔۔” ہیزل نے کہا ، جو لیپ ٹاپ پر مصروف تھی ۔۔۔ پھر اس نے لیپ ٹاپ کو ٹیبل پر رکھ دیا اور سبھی صوفے پر براجمان ہوکر قومی نیوز چینل پر نیوز بلیٹن دیکھنے میں مگن ہوگئے۔
” ملبری ٹاؤن میں کشیدگی کے پیشِ نظر آرمی اور رینجرز کے دستوں کو تعینات کردیا گیا ہے۔۔۔ملبری ٹاؤن کی پرانی آبادی اور مضافاتی قصبوں میں اس کشیدگی کا آغاز آج صبح ہوا جب بدنامِ زمانہ مکاریوس گینگ کے مسلح افراد نے حریف گینگ ٹی-ریکس کے ٹھکانوں پر دھاوا بول دیا ۔۔۔ جواب میں کئی گاڑیوں پر سوار ٹی-ریکس گینگ کے مسلح جنگجووں نے بلیوڈیل میں واقع مکاریوس گینگ کے مراکز پر حملہ کردیا ۔۔۔۔ ان حملوں کے بعد ہر دو گروپوں میں شدید نوعیت کی مسلح جھڑپوں کا آغاز ہوگیا جس میں بھاری اسلحے کے استعمال کی بھی اطلاعات ہیں۔۔۔۔ان جھڑپوں میں دونوں گروپوں کے 50 کے قریب گینگسٹرز مارے جاچکے ہیں جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔۔۔۔ کشیدہ حالات کے پیش نظر ملٹری نے متاثرہ علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔۔۔۔ مکاریوس گینگ کے سربراہ مکاریوس یوڈی کولو کو پامیلو ٹاؤن میں اس کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ٹی-ریکس کے سربراہ کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جاچکے ہیں۔۔۔ اب صورتحال کنٹرول میں ہے ۔۔۔ ملٹری نے پانچ سو سے زائد گینگ ممبرز اور ان کے سہولت کاروں کو کو گرفتار کرلیا ہے ۔۔۔۔ ملبری ٹاؤن پولیس کے سبھی بڑے افسران کو معطل کردیا گیا ہے جبکہ رواں گینگ وار سے متعلق تمام مقدمات کو ملٹری کورٹس میں چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔۔۔۔اینٹی-نارکوٹکس اور اینٹی-ٹیررسٹ سکواڈ کی ٹیمیں ملک بھر میں دونوں گینگز کے ٹھکانوں پر کریک ڈاؤن میں مصروف ہیں ۔۔۔حکومت نے شہریوں کو محتاط رہنے اور بلاضرورت گھر سے نکلنے سے اجتناب کرنے کی درخواست کی ہے اور عوام کو یقین دلایا ہے کہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر حالات معمول پر آجائیں گے۔۔۔۔”
یہ خبر سنتے ہی سبھی نے خوشی کا نعرہ بلند کیا ۔
” اس پر تو پارٹی بنتی ہے۔۔۔” ہانیہ نے کہا۔
” ضرور ضرور ۔۔۔ دو دن بعد گرینڈ پارٹی وہ بھی رائلٹن میں۔” کورا نے مسرت بھرے لہجے میں کہا ۔
” یاررر۔۔۔۔ یہ تم لوگوں نے کیسے کر لیا ؟؟ دو عدد طاقتور ترین گینگز کو ہی فنا کردیا ۔۔۔” کورا اول نے حیرت سے لبریز لہجے میں کہا۔
” اپنی کزن ۔۔۔ مطلب اپنی بہن کی کزن سے پوچھو ۔۔۔ ستی نے ہی ایک ایک سٹیپ کی پلاننگ کی اور اس آپریشن میں ستی نے ہی ہمیں لیڈ کیا ۔” ہارلین نے کہا۔
” نہیں گائیز۔۔۔ ستی نے نہیں۔۔۔” ستی نے کہا۔
” مطلب۔۔۔۔؟ ” کورا اول نے کہا۔
” اول۔۔۔ تمہیں یاد ہے وہ دن جب لینڈ سلائیڈنگ نے ہم دونوں کو جدا کردیا تھا ۔۔۔؟” ستی نے کہا۔
” ہاں یاد ہے ۔۔۔ لیکن اس بات کا اس سے کیا تعلق ؟” کورا اول نے کہا۔
” ستی۔۔۔۔ اس لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہوگئی تھی۔” ستی نے کہا۔
” کیا مطلب ستی ۔۔۔ یہ کس قسم کا مذاق ہے ؟” کورا ثانی نے کہا۔
” میں ستی نہیں۔۔۔۔۔ اس کی کلون ہوں۔۔۔ تم لوگ مجھے ستی اول کہہ سکتے ہو.” ستی نے کہا۔
” شٹ اپ یار۔۔۔ یہ کوئی موقعہ ہے ایسے ڈارک سینس آف ہیومر کا ؟” کورا اول نے کہا .
” ستی ۔۔۔ تم مذاق کررہی ہو ناں ؟؟؟؟” کورا نے کہا ۔
” ہاں گائیز۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ مذاق۔۔۔۔ کررہی ہوں۔” ستی نے مسکرا کر کہا ۔
( ختم شد۔۔۔۔)