“پھر کیا ہوا؟” سنان کو خاموش دیکھ زویا نے سوال کیا تھا۔
اس کی جانب دیکھ سنان ایک بار پھر ماضی میں کھوگیا تھا۔
گاؤں سے لکڑیاں کاٹ کر شہر لیجانے والا ٹرک اب گاؤں واپسی کا سفر کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ ایسے میں اس ٹرک میں کریٹس کے پیچھے چھپ کر بیٹھا سنان بہت جلد شہر سے دو گھنٹے کی مسافت کی دوری پر موجود گاؤں آگیا تھا۔
اس کا اس دنیا میں اب کوئی رشتہ نہیں بچا تھا۔۔۔۔۔ اور اتنی سمجھ اسے تھی کہ جو آگ گھر میں لگی تھی وہ گیس پائپ لیکج سے نہیں بلکہ ذاتی دشمنی کی بنا پر لگائی گئی تھی۔
یہاں موجود لکڑہارا جس کے ٹرک میں چھپ کر وہ گاؤں آیا تھا سنان کو اس نے اپنے ساتھ کام پر رکھ لیا تھا۔۔۔۔۔ اس کے نزدیک سنان بس ایک یتیم، مسکین اور لاچار بچہ تھا جسے دو وقت کے کھانے کی ضرورت تھی اور ایسے میں اس لکڑہارے کو ایک جوان مدد مل رہی تھی تو وہ انکار کیسے کرتا!
اس گاؤں میں زیادہ تر اقلیتی لوگ بستے تھے۔
ایک سال تک سنان اس گاؤں کا حصہ رہا تھا جب اچانک سال بعد اسے لیے ارحام شاہ وہاں آئے تھے۔
انہی سے سنان کو شبیر زبیری کا علم ہوا تھا جبکہ مرینہ چوہان کے اس تمام قصے میں دخل اندازی سے وہ بھی انجان تھے۔
شہباز شاہ کے بہت سے بزنس مخالفین تھے اور سنان یہی سمجھا تھا کہ یہ ان میں سے ہی کسی کا کام تھا مگر دشمنی کی وجہ ارحام شاہ نکلے گا؟۔۔۔۔۔۔ اس سچ نے اسے ارحام شاہ نے نفرت کروا دی تھی مگر وہ خاموش رہا۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے خاموش رہنا ہی بہتر تھا کیونکہ اسے ارحام شاہ کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شزا ارحام شاہ کی بیٹی ہے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی انکل!۔۔۔ آپ نے کہا تھا مرینہ چوہان کے آنے کا انتظار کرو۔۔۔۔۔ میں نے کیا اب تو مجھے سچ بتادے!” جازل شبیر زبیری کے سامنے بےبس سا بولا تھا، اسے تمام باتیں الجھائے رکھے ہوئے تھی۔
اس کی حالت دیکھ مرینہ چوہان اور شبیر زبیری دونوں مسکرا دیے تھے۔
“اسے بتادو زبیری!۔۔۔۔۔” مرینہ نے شراب کا گھونٹ لیے اجازت دی تھی۔
جس پر شبیر زبیری نے حرف با حرف اسے تمام سچ سنا ڈالا تھا۔
گھر میں جب آگ بھڑکنا شروع ہوئی تو چارسو خوف و ہراس پیدا ہوگیا تھا تھا ایسے میں شبیر زبیری کے کچھ کارندے شزا اور زویا کو وہاں سے اٹھا لائے تھے۔
“شزا کو تو ہم نے اس لیے اٹھوایا کیونکہ یہ ارحام شاہ کی بیٹی ہے مستقبل میں کام آئے گی ہمارے مگر اس لڑکی کو اپنے پاس رکھنے کی وجہ کیا ہوئی مرینہ چوہان؟” چھوٹی سے زویا کو دیکھ شبیر زبیری نے اچھنبے سے سوال کیا تھا۔
“میرے بیٹے کو یہ گڑیا بہت پسند ہے شبیر۔۔۔۔۔۔ اس کی ضد بن گئی ہے یہ، وہ اس سے کھیلنا چاہتا ہے!۔۔۔۔۔ اب اپنے بیٹے کی اتنی سی خواہش تو پوری کرسکتی ہوں نا میں؟۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصہ وہ اس سے کھیلے گا اور جب تھک جائے گا تو دنیا بھری پڑی ہیں ایسی گڑیاؤں سے کھیلنے کے لیے!” مرینہ کی بات پر شبیر زبیری کا قہقہ گونجا تھا۔
“اب ارحام شاہ کو اندازہ ہوگیا کہ اس نے کس کے ساتھ پنگا لینے کی کوشش کی!” شبیر زبیری کا لہجہ حد درجہ سنگین تھا۔
“چاچا جان آپ کی بدلے والی بات تو سمجھ آتی ہے، اس شخص نے آپ کا حق مارا مگر اس عورت کو ارحام شاہ سے کیسا بدلا لینا تھا؟۔۔۔۔۔ یا پھر یہ سب اس نے جیلیسی میں کیا؟” جازل کی بات پر مرینہ کا قہقہ گونجا تھا۔
“بھئی شبیر جیسا تم نے کہا تھا میں نے اسے ٹھیک ویسا پایا۔۔۔۔۔ بہت شاطر اور سمجھدار۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری بات ٹھیک ہے لڑکے میں نے یہ سب اپنی جیلیسی میں کیا مگر مزا مجھے ارحام شاہ کو بھی چکھانا تھا، وہ شخص جسے میرے باپ نے اتنی طاقت، اتنی سمجھ بوجھ دی کہ وہ مافیا جیسے ورلڈ میں اپنا نام بنا سکے، اسی شخص نے میرے باپ کے مرنے کے بعد مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح باہر نکال پھینکا اور خود میرے باپ کی کرسی پر جابیٹھا!۔۔۔۔۔۔۔ کتنا سمجھایا تھا اسے چھوڑ دو، یہ میرا حق ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اسے بہت غرور تھا!”
“لیکن اب ان سب کا کیا فائدہ۔۔۔۔ اس کی بیٹی تو پھر بھی اس کے پاس چلی گئی۔۔۔۔” جازل نے سر نفی میں ہلایا
شبیر زبیری اور مرینہ چوہان ایک دوسرے کو دیکھ مسکرائے تھے۔
“اور اگر اس نے سب سچ اسے بتادیا؟” اب جازل کو نئی فکر لاحق ہوئی تھی۔
“شزا کبھی یقین نہیں کرے گی۔۔۔۔۔ بھلے وہ ڈی۔این۔اے ٹیسٹ بھی کروالے، مگر اس حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا کہ ارحام شاہ اپنی بیٹی کے شوہر کا قاتل ہے!۔۔۔۔۔۔ اور شزا نے اس دنیا میں سب سے زیادہ حماد سے محبت کی تھی۔۔۔۔ تم دیکھنا اب وہ خود بدلا لے گی اپنے باپ سے اپنی محبت کا!” شبیر زبیری مسکرائے تھے۔
“اور یہ کیسے ہوگا؟” جازل نے دوبارہ سوال کیا
“جب اس کی خالا اس سے ملنے جائے گی تو ناممکن بھی ممکن ہوجائے گا!” مرینہ چوہان کی مسکراہٹ پر جازل بھی مسکرادیا تھا۔
“پھر تو اس نیک کام میں میرا بھی تھوڑا بہت حصہ بنتا ہے۔۔۔۔۔۔ پہلے تو میں نے بس سوچا تھا مگر اب تو لگتا ہے سچ میں پاکستان جانا ہوگا!” جازل ہنس کر بولا تو وہ بھی ہنس دیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بس ہوگیا یا کچھ اور بھی رہتا ہے؟” شزا کے بولنے پر ان سب لوگوں نے چونک کر اسے دیکھا تھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا، یوں جیسے اسے اس کے ماضی سے کوئی فرق نہ پڑا ہو۔
“آپی۔۔۔۔” زویا نے کچھ بولنا چاہا جس پر شزا نے ہاتھ اٹھائے اسے روک دیا تھا۔
“بہت افسوس ہوا ماضی کو سن کر مگر اس سوال کا جواب تو مجھے ابھی بھی نہیں ملا کہ حماد کو کیوں مارا؟” شزا کے سوال پر ارحام شاہ کا دماغ گھوما تھا، یعنی کے اسے ابھی بھی اس شخص کی فکر تھی۔
“تمہیں ابھی بھی اس انسان کی فکر ہے؟ جو ہمارے دشمن کا بیٹا ہے؟۔۔۔۔۔ تمہاری ماں، تمہاری خالا جنہوں نے تمہیں ماں بن کر پالا، تمہارے تایا کسی کا کوئی افسوس نہیں تمہیں؟” ارحام شاہ دھاڑے تھے جبکہ شزا پرسکون رہی تھی۔
“ہے افسوس، بلکل ہے۔۔۔۔۔۔ دکھ ہوا سن کر،مگر مجھے میرے سوال کا جواب نہیں ملا حماد کو کیوں مارا؟” اپنے باپ کے روبرو کھڑے اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بنا ڈرے سوال کیا تھا۔
“آپ۔۔۔” زویا نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ سنان نے اسے بولنے سے روک دیا۔
آج پہلی بار ارحام شاہ کو اپنی ہی دوا کا مزہ چکھنے کو مل رہا تھا، سنان دھیمی مسکان ہونٹوں پر سجائے انہیں یوں روبرو کھڑا دیکھ محظوظ ہورہا تھا۔
“تمہیں وہ حماد اپنی ماں سے زیادہ عزیز ہے؟” ارحام شاہ کا لہجہ مزید سخت ہوگیا تھا۔
“ہاں مجھے وہ شخص اپنی مری ماں، اپنے زندہ باپ اور ان تمام رشتوں سے زیادہ عزیز ہیں جن کا علم مجھے آج ہوا ہے!۔۔۔۔۔۔ جاننا چاہتے ہیں کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جس وقت مجھے کسی اپنے، کسی سہارے کی ضرورت تھی تب آپ یا ان لوگوں میں سے کوئی وہاں موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔ وہ حماد تھا جو ہر وقت، ہر لمحہ میرے ساتھ ہوا کرتا تھا!۔۔۔۔ وہ تھا جس نے مجھے جینے کا مقصد، ایک نئی امید دی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی کے ہر اہم موڑ میں وہ انسان رہا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔ تو اب بتائے آپ میرے لیے کون سا رشتہ اہم ہونا چاہیے؟ وہ ماں جو اپنے شوہر کے دھوکے کو برداشت نہ کرتی ہوئی مجھے پیدا کرکے مرگئی؟۔۔۔۔۔ وہ باپ جس کے لیے یہ دنیاوی طاقت اپنی اولاد سے بڑھ کر تھی، یا دشمن کا وہ بیٹا جس نے میری محبت میں مجھے بچانے کو اپنی جان دے دی؟۔۔۔۔۔ تو سنئیے میرے لیے میرا حماد سب سے زیادہ اہم تھا اور اہم رہے گا!۔۔۔۔۔ آپ میرے باپ ہے، اس سرٹیفیکیٹ کی اب مجھے ضرورت نہیں۔۔۔۔ کیونکہ میری پہچان اب میرے شوہر کے ساتھ جڑ چکی ہے جسے نہایت بےدردی سے اپنے بدلے کی آگ میں آپ نے قتل کروادیا!” آخر میں اس کا لہجہ بھیگ گیا تھا۔
“تمہارے تمام گلے شکوے بجا شزا مگر حماد کو ہم نے شبیر زبیری نے مارا ہے وہ قاتل ہے اپنی اولاد کا!” اب کی بار جواب سنان نے دیا تھا۔
“اور آپ کو کیوں لگا کہ میں یقین کرلوں گی اس بات کا؟۔۔۔۔۔ یہ آپ صرف اسی لیے کہہ رہے ہے نا کیونکہ وہ شخص قاتل ہے آپ کے ماں باپ کا!۔۔۔ اسی لیے اپنا الزام اس کے سر پر ڈال دو!” سر جھٹکے وہ بولی تھی۔
“الزام نہیں سچ ہے یہ اور گواہ بھی ہے ہمارے پاس!” وائے۔زی کی آواز پر شزا نے نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
“اچھا اور کون ہے گواہ؟” استہزایہ انداز میں ہنستے اس نے سوال کیا تھا۔
“میں ہوں گواہ بھابھی!” دروازے پر بیگ لیے کھڑا جازل بولا تھا جس کی آواز سن کر وہ چونکی تھی۔
“جازل؟” شزا کے چہرے کے تاثرات یکلخت بدلے تھے، یہی تو وہ شخص تھا جس نے وائے۔زی کے ساتھ مل کر اس پر حملہ کیا تھا۔
نفرت سے منہ پھیرتی وہ کرے کی جانب بڑھی تھی۔
“ایک بار میری بھی سن لے بھابھی پھر جو چاہے فیصلہ کرلیجیے گا!” جازل کی بات پر ناچاہتے ہوئے بھی اس کے قدم رکے تھے۔
جازل کو دو دن پہلے ہی حقیقت کا علم ہوا تھا، جو وائے۔زی کو اس نے گوش گزار دی تھی۔۔۔۔۔۔ اور اب وہ یہاں پاکستان آیا تھا شزا کو سب سچ بتانے کو۔
جازل کے منہ سے سب سچ سن کئی لمحے وہ سن بیٹھی رہی تھی۔۔۔۔ ارحام شاہ کے لبوں پر اب ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
“تو ان کا پلان کیا ہے؟”
“مرینہ چوہان پاکستان آئے گی بھابھی سے ملنے اور ان کی برین واشگ کی جائے گی کہ یہ ارحام شاہ کو خود اپنے ہاتھوں سے مار دے!” مرینہ کا نام سن زویا کی سانس اٹکی تھی، سنان کے ہاتھ پر اس کی گرفت سخت ہوئی تھی۔
سنان نے اسے ایک مسکراہٹ سے نوازے اپنے ہونے کا احساس دلایا تھا۔
“ایم سوری بھابھی آپ کو اتنا کچھ سہنا پڑا۔۔۔۔ مگر اس وقت آپ کو بچوں کو بچانے کے لیے اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں تھا!” جازل افسردہ سی نگاہ شزا پر ڈالتے بولا تھا جس کی آنکھیں بھیگ گئیں تھی۔
“میرا حماد،۔۔۔۔۔ میرا حماد اسے مار دیا۔۔۔۔۔ وہ چلا گیا ان کی دشمنی میں۔۔۔۔۔۔ وہ، وہ میری آنکھوں کے سامنے جازل، میری آنکھوں کے سامنے سے اس کا خون میں لت پت وجود غائب نہیں ہوتا!۔۔۔۔۔۔۔ وہ مر گیا صرف اور صرف اس شخص کی وجہ سے!” ایک حقیر نگاہ ارحام شاہ پر ڈالے وہ چیخی تھی۔
“تم ابھی بھی مجھے اس کا گناہگار ٹھہرا رہی ہو، سچ جاننے کے باوجود بھی!” ارحام شاہ کا غصہ پھر بڑھ گیا تھا۔
“ہاں کیونکہ آپ ہے ان سب کی وجہ۔۔۔۔ نا آپ میں دولت اور طاقت کی ہوس پیدا ہوتی، نا یہ سب شروع ہوتا اور نا وہ مرتا!۔۔۔۔۔۔ اس کے قتل میں آپ برابر کے شریک ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ آپ کی بیٹی کو بچاتے مرا ہے وہ۔۔۔۔۔۔ آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی، آپ کو کیا میں تو خود کو معاف کرنے کے قابل نہیں رہی۔۔۔۔۔۔” ان سب پر ایک آخری نگاہ ڈالتی وہ کمرے کی جانب بھاگتی اندر سے لالک لگا چکی تھی۔
“بھابھی۔۔۔۔”
“ابھی مت چھیڑو جازل اسے، وہ تکلیف میں ہے۔۔۔۔ اور تم سب بھی آج رات کے فنکشن کی تیاری کرو۔۔۔۔۔ جو ہوا اسے بھول جاؤ فلحال!” سنان کی بات پر ناچاہتے ہوئے وہ سب مان گئے تھے۔
“مجھے اب اجازت دو۔۔۔۔۔ ہوٹل پہنچنا ہے مجھے!” ان سے ملتا جازل وہاں سے جاچکا تھا۔
“دولہا صاحب تم بھی جاؤ تیاری شیاری کرو۔۔۔۔۔ آج بہت اہم دن ہے تمہارے لیے” سنان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے بولا تھا جس پر معتصیم مصنوئی مسکراہٹ مسکراتا اس کے گلے ملتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
“ابھی بھی وقت ہے سدھر جائے۔۔۔۔۔” ارحام شاہ کو بولتا وہ بھی وہاں سے جاچکا تھا جبکہ ارحام شاہ نے بس ہنکارہ بھرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برات کا انتظام ویڈنگ حال میں کروایا گیا، ویسے تو معتصیم کا ارادہ برات کا فنکشن بھی گھر کے لان میں ہی رکھنے کا تھا مگر تایا ابو نے اسے سختی سے منع کردیا تھا، اب تک ہوئے دونوں فنکشنز کا خرچہ بھی اسی نے اٹھایا تھا ایسے میں انہیں بلکل گوارہ نہ تھا کہ برات کا فنکشن کا بھی خرچہ بھی وہی اٹھاتا۔
ماورا کی پھوپھی اور چچیاں تو حال کو دیکھ کر مزید جل بھن گئی تھی، انہیں یقین تھا کہ آج تو لوگ اس سچ سے آگاہ ہوجائے گے کہ وہ لڑکی اپاہج ہے، مگر یہاں بھی معتصیم نے اس کی مشکل آسان کردی تھی جب تقی اور وائے۔زی اسے کاندھوں پر اٹھائے سٹیج تک لائے تھے اور نہایت نرمی سے اسے بٹھادیا گیا تھا۔
فوٹو سیشن کے وقت بھی معتصیم نے اسے سہارا دیے اس انداز میں خود سے قریب کیا تھا کہ کسی کو شک بھی چھو کر نہ گزرا تھا۔
“یہ شکل پر بارہ کیوں بجے ہے؟” وائے۔زی نے زویا سے پوچھا تھا۔
“آپی کی وجہ سے بہت پریشان ہوں میں ذی بھائی۔۔۔۔۔ اللہ جانے وہ اس وقت کس حال میں ہوگی ہمیں انہیں چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا!” زویا اداس سی بولی تھی۔
“فکر مت کرو تمہاری بہن بہت سخت جان ہے، کچھ نہیں ہوگا اسے” وائے۔زی مسکرایا تھا جس پر زویا بھی مسکرا دی تھی۔
“دیکھیے گا آپا اب رخصتی ہونی ہے تو کیسے اس آفت کا سچ سب کے سامنے آتا!” بڑی چچی خوشی سے بولی تھی لیکن یہاں بھی ان کی امیدوں پر برے سے پانی پھیر دیا گیا تھا جب معتصیم ماورا کو باہوں میں اٹھائے گاڑی تک لے گیا تھا۔
“آپا کا دھیان رکھیے گا بھائی۔۔۔۔ آپ جانتے ہے نا وہ کس کس تکلیف سے گزری ہے!” تقی نم آنکھوں سے بولا تھا جس پر معتصیم نے مسکرا کر اسے گلے لگایا تھا۔
“فکر مت کرو میری جان سے بڑھ کر عزیز ہے مجھے وہ!” معتصیم نے سرگوشی کی تھی جس پر وہ مسکرا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصتی کے بعد وہ لوگ معتصیم کے ساتھ ہی اس کے گھر آئے تھے۔
“ارے بھئی دولہا دلہن کو اب بول بھی دو کہ گاڑی سے باہر نکل آئے یا اپاہج ہوگئے ہیں دونوں؟” چھوٹی چچی ہنس کر جانتے بوجھتے بولی تھی۔
“وہ کیا ہے نا چچی جان ہمارے ہاں ایک رسم ہے کہ دولہا اپنی دلہن کو گاڑی سے لیکر کمرے تک اٹھا کر لیجاتا ہے!” زویا نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا تھا جس پر باقی سب تو مسکرا دیے تھے۔
تایا جان بس اپنے بھائیوں کو گھوری سے نواز رہے تھے، انداز صاف تھا کہ اب واپسی پر ان کی اچھی خاصی زلالت ہونے والی تھی اپنے بھائی کے ہاتھوں مگر ان کی بیگمات کو کہاں فکر تھی۔
“دولہا صاحب لے بھی آئے بھابھی کو!” وائے۔زی نے اونچی آواز لگائی تھی جس پر سب ہنس دیے تھے۔
“مے آئی؟” اپنا ہاتھ ماورا کے آگے پھیلائے اس نے اجازت چاہی تھی۔
“ہاں جیسے میرے انکار کرنے سے تم نے رک جانا تھا؟” ماورا کے لطیف سے طنز پر وہ ہنس دیا تھا اور جھک کر اسے اپنی باہوں میں اٹھاتا وہ اندر بڑھا تھا۔
“بھئی کوئی رسم وسم بھی ہوگی یا نہیں؟” پھوپھی اعتراض کن انداز میں بولی تھی۔
“بلکل ہوگی کیوں نہیں، مگر صبح۔۔۔۔۔۔ ابھی ہم بہت تھکے ہوئے ہیں!” وائے۔زی آںکھیں پٹپٹائے بولا تھا جس پر سب ہنس دیے تھے جب کہ ان سب سے بےپرواہ وہ ماورا پر نگاہیں ٹکائے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
“لو بھلا دیکھو بےشرم کو کیسے ہمیں نظرانداز کیے چلا جارہا ہے!” پھوپھو پھر بولی تھی۔
“جی اب آپ کی عمر نہیں رہی کہ آپ کو دیکھا جائے!” وائے۔زی کی بات پر پاس موجود تقی اور زویا ہنس دیے تھے۔
“کیا بولا یہ لڑکا؟” پھوپھی کی توپوں کا رخ اس کی جانب ہوا تھا۔
“کچھ نہیں پھوپھو، آپ چائے پی جیئے نا!” میڈ کو چائے لاتے دیکھ تقی نے کپ ان کی جانب بڑھایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں لائے اسے نرمی سے بیڈ پر بٹھائے معتصیم نے اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے تھے۔
“ویلکم ان مائی لائف، ڈئیر وائف!” مسکراتا وہ اس سے زرا سا دور ہوا تھا۔
اس کے پاس بیٹھے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ان کی مہندی کو دیکھتا وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔
“معتصیم!”
“ہمم؟” نگاہیں اس کے ہاتھوں پر ہی جمی تھی۔
“معتصیم ادھر دیکھو میری جانب، بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟۔۔۔۔ پورے فنکشن میں تم مجھے پریشان لگے تھے۔۔۔۔ کیا کوئی مسئلہ ہے؟۔۔۔۔ مجھے بتاؤ، مجھ سے شئیر کرو!” اس کی فکر سن کر وہ مسکراتا زور سے اس گلے لگا چکا تھا۔
آنکھیں موندے وہ بس اس پل کو محسوس کررہا تھا، اسے خاموش پاکر ماورا نے بھی دوبارہ کوئی بات نہ کی تھی۔
“میں بلکل ٹھیک ہوں، بس ماما پاپا کی یاد آرہی تھی، مگر اب میں ٹھیک ہوں!” اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے وہ مسکرا کر بولا تھا۔
“یو شیور؟” اسے جیسے یقین نہ آیا تھا
“ہنڈرڈ پرسنٹ!” ایک بار پھر وہ اس کے ماتھے پر لب رکھ چکا تھا۔
“معتصیم مجھے چینج کرنا ہے!” اس کی بولتی نگاہوں سے خائف ہوتی وہ نظریں گھمائے بولی تھی۔
“میں ہیلپ کردوں؟” اس کی بات کا مطلب سمجھتے ماورا نے غصے سے اسے گھورا تھا۔
“معتصیم!۔۔۔ بدتمیزی مت کرو، مجھے واشروم چھوڑ کر آؤ!” اس کے بازو پر مکا مارتی وہ بولی تھی۔
“ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ ہاں تو میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ واشروم چھوڑ آتا ہوں!۔۔۔۔۔۔ ویسے تم کیا سمجھی؟” چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیے اس نے شرارتی نگاہوں سے سوال کیا تھا۔
“معتصیم!!”
“اوکے اوکے!” دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھائے اس نے سرنڈر کیا تھا۔
“چلیے ملکہ صاحبہ آپ کا خادم حاضر ہے!” اس کے سامنے جھکتا وہ مسکرا کر بولا تھا۔
“معتصیم!” اسے واشروم میں اتارتا وہ مڑا تھا جب ماورا نے اس کا ہاتھ تھاما۔
“میں نہیں جانتی سنان بھائی کہ گھر کیا ہوا، مگر یوں اداس مت ہو مجھے اچھا نہیں لگتا!” اس کے یہ چند الفاظ ہی معتصیم کو کتنا سکون دے گئے تھے وہ اس بات سے انجان تھی۔
“یو نو واٹ!۔۔۔۔۔۔ میں جتنا خدا کا شکر کروں اتنا کم ہے میرے لیے، جو اس نے تمہیں میرے لیے بنایا!” اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھے، اس نے اپنے لب ماورا کے ماتھے پر رکھ دیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...