بارش تھم گئی تو لوگ پھر باہر نکل آئے اور تکفین و تدفین کے کام میں سرعت کی غرض سے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش میں لگ گئے۔ مگرتدفین میں تاخیر کا باعث تبارش تو تھی ہی نہیں۔اس تاخیر کی اصل وجہ تو ایک شرعی معاملہ تھا۔
دراصل مرحوم نے اپنے جیتے جی ہی اپنے پشتینی مکان سے تھوڑے فاصلے اورقدرے اونچائی پر، پڑوس کے زمین داروں سے یہ جگہ خریدکر قبر کے لئے مخصوص کر لی تھی ۔بیوی کوچند سال پہلے اپنے ہاتھوں دفنانے کے بعد یہ وصیت کرگیا تھا کہ اس کو بھی بیوی کے پہلو میں ہی دفنا یا جائے۔نافرمانی تو دور کی بات اس کے بیٹوں نے اس کے سامنے کبھی آواز اونچی نہ کی تھی اور اس کی آخری خواہش کا احترام بھی وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے، لیکن یہاں اڑچن یہ آ گئی تھی کہ یہ معاملہ شریعت کا تھا۔ ان کی دبدھا یہ تھی کہ عام قبرستان کے ہوتے ہوئے کوئی ایک آدھ قبر الگ بنا لینا شرعاً درست بھی ہے یا نہیں۔ خصوصاً کسی ایسی جگہ جو کمرشل اہمیت کی حامل ہو اور سڑک کے کنارے واقع ہو جہاں ہر وقت قبر کی بے حرمتی کا بھی خدشہ لاحق ہو۔ کافی سوچ بچارکے بعد بھی جب وہ کسی ایک فیصلے پر نہ پہنچ سکے تو معاملہ امام صاحب کے گوش گزار کیا گیا۔قریبی رشتے داروں نے امام صاحب کو یہ بھی بتایا کہ کئی سال پہلے بھلے ہی یہ قطعہ ارضی خاک کے بھاو تھا لیکن ٓج اس کی مالیت کروڑوں میں پڑتی ہے۔ امام صاحب نے بیٹوں کی بات، دلائل اور شرعی عذر کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاص پر خاصا غور فرمایا اور ان کی رایے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے مرحوم کواس کی مختص کی ہوئی جگہ کی بجائے تھوڑے فاصلے پر عام قبرستان میں دفنانے کا مشورہ دے دیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...