مندرجہ ذیل احوال جوناتھن ہائیٹ کا ہے۔
“میں اپنی تحقیق کے لئے تین ماہ کے لئے انڈیا میں اڑیسہ گیا۔ میری میزبانی بہت گرمجوشی سے کی گئی۔ ایک خوبصورت اپارٹمنٹ ملا جس میں ایک باورچی اور ذاتی ملازم بھی تھا۔ مقامی یونیورسٹی میں نفسیات کے شعبے سے ایک ریسرچ ٹیم ملی۔ ہماری تحقیق تقدیس کی اخلاقیات پر تھی۔ لیکن جو میں نے سیکھا وہ اس تحقیق سے نہیں بلکہ انڈیا کے اس چھوٹے شہر کے پیچیدہ سماجی نظام میں رہنے سے اور اپنے میزبانوں سے اور ساتھیوں سے گفتگو سے تھا۔
میری کنفیوژن کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک نوجوان شخص تھا جس کے نزدیک صحیح اور غلط کے بہت خاص معیار تھے۔ میں امریکہ کے بڑے شہر کی خاص اقدار رکھتا تھا۔ میرے لئے ان کے سوا کچھ اور ناقابلِ قبول تھا۔ جبکہ دوسری طرف اس سفر میں کھلا ذہن بھی رکھنا چاہتا تھا۔ میرے لئے نتیجہ ذہنی خلفشار کی صورت میں نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں صرف اپنی اقدار کو ہی درست سمجھنے پر قائم رہوں؟ کیا ان لوگوں کو اپنے سے اخلاقی لحاظ سے کمتر سمجھوں؟ یا شویڈر جیسے سکالرز کی طرح مختلف طرزِ زندگی کو سمجھنے کی جرات پیدا کروں؟ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔
سائنسدان کے لئے کسی کو سمجھنے کے لئے اپنے ذاتی معیار، مرضی، پسند و ناپسند کی عینک اتار کر مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ یہ کرنا کس قدر مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جن لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتا، ان کی بیویاں خاموشی سے کھانا میز پر رکھ جاتیں اور مجھ سے کوئی بات نہ کرتیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ملازمین سے سنجیدہ رہیں اور ہنسی مذاق نہ کریں۔ میں نے لوگوں کو واضح طور پر گندے پانی میں نہاتے دیکھا جس کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ میں جس سوسائٹی میں تھا، یہاں صنفی علیحدگی تھی۔ سماجی رتبے تھے۔ یہاں پر کٹر مذہبی سوچ تھی۔ اور میرے لئے اپنا ذہن کھولنا مشکل تھا۔
اس سب سے مانوس ہوتے چند ہفتے لگے۔ یہ اچھے لوگ تھے اور میں انہیں پسند کرتا تھا۔ لوگ میرے ساتھ مہربان تھے اور جب آپ لوگوں کے شکرگزار ہوں تو پھر ان کی نظر سے دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ میرا ذہنی ہاتھی ان کی طرف جھک رہا تھا اور اب میں ان کے حق میں آرگومنٹ سوچ سکتا تھا۔ ان کو ظالم سماج کے طور پر دیکھنا اور یہاں کے “مظلومین” پر ترس کھانے والی سوچ کی لہر غائب ہو گئی تھی۔ میں اب ایک الگ اخلاقی دنیا دیکھ رہا تھا جس میں معاشرے کی اکائی فرد نہیں بلکہ خاندان ہے۔ اور اس خاندان کے لوگ (ملازمین سمیت) ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ میری دنیا کے برعکس اس دنیا میں برابری اور شخصی آزادی مقدس اقدار نہیں تھیں۔ خداوں، بزرگوں اور مہمانوں کا احترام، زیردستوں کی حفاظت اور اپنے کردار کے فرائض ادا کرنا زیادہ اہم تھا۔
میں نے کمیونیٹی کی اخلاقیات کے بارے میں پڑھا تو تھا۔ لیکن اب پہلی بار اسے محسوس کر رہا تھا۔ میں ایسے اخلاقی ضابطے کی خوبصورتی محسوس کر سکتا تھا جس میں ذمہ داری پر زور تھا۔ بڑوں کا احترام تھا۔ گروپ کے لئے خدمت تھی اور اپنی ذاتی خواہشات کی نفی تھی۔
میں اس کے بدصورتی والے پہلو بھی دیکھ سکتا تھا۔ طاقت کئی بار غلط استعمال ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہاں پر زیردست، خاص طور پر خواتین، کو کئی بار بزرگ مرد و خواتین کی طرف سے ان کی خواہشات سے بلاجواز روک دیا جاتا ہے۔ لیکن زندگی میں پہلی بار میں اپنے سیکھے گئے اخلاقی ضابطوں سے باہر نکل کر ایک مختلف دنیا کو سمجھ سکتا تھا۔ اور مجھے کئی بار اپنی اخلاقی اقدار خودغرضی پر مبنی لگنے لگیں۔
جب تین ماہ کے بعد میں نے شکاگو واپسی کی پرواز لی تو جہاز میں مجھے اپنے کسی ہم وطن کی آواز سنائی دی۔ “دیکھو، یہ کمپارٹمنٹ میری سیٹ کے اوپر ہے۔ اسے استعمال کرنے کا حق میرا ہے”۔ پہلے یہ عام سا فقرہ لگتا لیکن اب مجھے یہ سن کر جھرجھری آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میرے لئے ہونے والی بڑی دریافت اخلاقیات کا ایک اور پہلو تھا جس کا تصور میرے لئے اجنبی تھا۔
تقدیس کے ایتھکس کا تصور میرے لئے اجنبی تھا۔ اس کا مشاہدہ میں نے اڑیسہ میں کیا۔ میں ہندو پروہت اور عام لوگوں سے انٹرویو کر رہا تھا اور یہ کہ نہانے، کھانے اور چھونے کی رسومات پر زور کیوں دیا جاتا ہے۔ آخر خدا کو اپنے ماننے والوں کے جسم کی اتنی پرواہ کیوں ہے؟ اور یہ صرف ہندو مت میں ہی نہیں۔ قرآن اور بائبل بھی صفائی اور پاکی پر بڑا زور دیتے ہیں۔
اس سے پہلے میں نے اخلاقی کراہت پر تحقیق کی تھی۔ ہماری ٹیم یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر کیوں ایسا ہے کہ کراہت کا جذبہ کچھ غیراخلاقی کاموں پر حرکت میں آتا ہے (جیسا کہ بچے پر ظلم کرنا یا بے وفائی) لیکن کچھ پر نہیں (چوری کرنا یا ٹیکس میں فراڈ کرنا)۔
ہمارا خیال تھا کہ انسان کا سماجی ذہن خودکار طور پر عمودی ڈائمنشن کا احساس رکھتا ہے۔ یہ بلندی اور پستی کا احساس ہے۔ اس میں سب سے بلندی میں خدا یا اخلاقی پرفیکشن سے لے کر انسان سے ہوتا ہوا اور سب سے پستی میں شیطان تک کا تصور ۔۔ اور یہ ایک معاشرے تک محدود نہیں۔ سپرنیچرل کی فہرست ہر کلچر میں الگ ہے لیکن یہ آئیڈیا کہ ایک طرف اونچا، اچھا، خالص، خدا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف نیچا، برا، گندا، حیوان ۔۔۔۔ یہ بڑی حد تک آفاقی ہے۔
ہمارا خیال تھا کہ اخلاقی کراہت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب لوگ کسی رویے کو اس عمودی ڈائمنشن پر پست تصور کریں۔ ایک شخص جو فراڈ کر رہا ہے ایک برا کام کر رہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اسے سزا ملے۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک شخص جو بچے پر ظلم کر رہا ہے، اسے ہم انسانیت کے رتبے سے پست سمجھتے ہیں۔ احساس کے حوالے سے ان دونوں میں فرق ہے۔ دوسرے منظر کو دیکھنا تکلیف دہ بھی ہے اور ابکائی بھی لا سکتا ہے۔ فراڈ کرتا دیکھنا اس طرز کا احساس پیدا نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تھیوری کے شواہد کو اڑیسہ میں دیکھنا آسان تھا۔ اور اس کا مجھ پر ہونے والا اثر غیرمحسوس طریقے سے ہوا تھا۔
تقدیس کی ایتھکس میں کائنات کا نظم ہے اور ہر شے کا مقام ہے۔ جب تک میں شکاگو واپس آیا تو یہ مجھ میں غیرمحسوس طریقے سے سرایت کر چکا تھا۔ میں کتابوں کو فرش پر نہیں رکھ چھوڑتا تھا اور باتھ روم میں نہیں لے جاتا تھا۔ جنازوں اور تدفین کی رسومات (جو اس سے پہلے مجھے پیسے اور وقت کا ضیاع لگتی تھیں) کی جذباتی sense بننے لگی۔ انسانی جسم موت کے وقت کے ساتھ ہی اچانک ایک بے جان آبجیکٹ نہیں بن جاتا۔ خواہ اس کے اندر شعور ختم ہو چکا ہو، تب بھی اس کے ساتھ ٹھیک سلوک کیا جانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مجھے اس بات کی سمجھ آنے لگی کہ امریکی کلچرل تنازعات توہین کے عنصر کے بارے میں کیوں رہے ہیں۔ یہ ایک سائیڈ کی دوسری سائیڈ کو سمجھ لینے کی ناکامی کے باعث ہے۔
کیا ایک جھنڈے کو نذرِ آتش کر دینا صرف ایک کپڑا جلانا ہے؟ یا پھر اس میں کچھ اس سے زیادہ ہے؟ جب ایک آرٹسٹ صلیب کو پیشاب کے مرتبان میں ڈبو کر رکھتا ہے تو کیا یہ آرٹ ہے؟ (یہ آندرے سیرانو کا “آرٹ ورک” اور اس سے ہونے والا تنازعہ تھا)۔ کیا ایسی شے کی جگہ میوزیم ہو سکتی ہے؟ کیا ایسا آرٹسٹ کسی مذہبی کرسچن کو یہ کہ سکتا ہے کہ “اگر آپ اسے نہیں دیکھنا چاہتے تو میوزیم میں نہ آئیں؟” یا پھر ایسی شے کی موجودگی دنیا کو گندگی اور غلاظت سے بھر رہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسے توہین آمیز “آرٹ” کی حمایت کرنے والے لوگ اس کو فراموش کر دیتے ہیں کہ خود ان کے لئے بھی بہت سی چیزیں اسی طرح ممنوعہ ہیں۔ مثال کے طور پر، نسل پرستی پر مبنی مواد سے میوزیم کو “آلودہ” نہیں کیا جاتا۔ اور ہم سب اس سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت ایسی صورت میں یہ دلیل کام نہیں کرے گی کہ اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو میوزیم مت آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا جانے سے پہلے میں نے تقدیس کے ایتھکس کے بارے میں پڑھا تو تھا لیکن اب میں اس اخلاقی ضابطے کی خوبصورتی دیکھ سکتا تھا۔ ضبطِ نفس، خواہشات پر قابو، خود کو بہتر کرنے کی جستجو۔
اور دوسری طرف، میں اس کی تاریک سائیڈ بھی دیکھ سکتا تھا۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ آپ ہی ہیں جو خدا کی خواہش کو ٹھیک ٹھیک سمجھ چکے ہیں تو پھر جو آپ سے مختلف ہے، اس کے ساتھ متعصب اور یہاں تک کہ ظالمانہ سلوک روا رکھنا بھی جائز ہو جاتا ہے۔ کئی بار تقدیس کی ایتھکس ہمدردی، برابری اور انسانی حقوق سے متصادم ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ، یہ ہمیں ایک بہت مفید نقطہ نظر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم میں سے کتنی لوگ مادیت پرستی کے رجحان کو ناپسند کرتے ہیں؟ پیسہ کمانے کو کہیں پر بھی بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن اگر کوئی اس کو اپنی اولین قدر رکھے تو ہم اس کو پسند نہیں کرتے۔ لالچ کو بدصورت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر صرف خودمختاری کی ہی قدر کو سب سے اول رکھا جائے تو پھر تعیشات اور دولت حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی محنت، لالچ اور دولت کی نمود و نمائش کو ناپسند کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا پھر کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کہیں اکیلے کھانا کھا رہے ہوں اور ساتھ کی میز پر بیٹھے دوستوں کی گفتگو کی فحش کلامی کان میں پڑے۔ اور آپ کے ذہن میں ہونے والی ناگواری کی لہر نے آپ کا موڈ مکدر کر دیا ہو؟ تقدیس کی ایتھکس کے بغیر ان پر تنقید کا کوئی بھی جواز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایتھکس کا یہ ستون ہماری اخلاقی “بلندی” اور “پستی” کے خیال کو آواز دیتا ہے۔ بدصورت مادیت پرستی یا ناگوار فحش گوئی جیسے چیزوں کو جب تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس کی بنیاد یہی ہے۔ یا پھر، صارفیت (consumerism) پر مبنی معاشرے کی کھوکھلی روح کی وجہ ہر ایک کا ذاتی خواہشات کی تکمیل کا مشن ہے۔
ہماری ایسی چیزوں کے بارے میں کی جانے والی شکایت کی وجہ ہماری اخلاقی حِس کا یہ پہلو ہے۔