’’کہاں غائب ہو تم؟ ایسی گئیں کہ پلٹ کر خبر بھی نہیں لی؟ لگتا ہے کافی اچھی جاب مل گئی ہے جو دوست بھی بھول گئے؟‘‘ نمرہ فون کرکے شکوہ کررہی تھی‘ وہ مسکرادی تھی۔
’’ارے نہیں تمہیں بھول سکتی ہوں بھلا‘ یہاں آکر مصروفیت کچھ بڑھ گئی ہے‘ اب مجھے لگ رہا ہے کہ ہائوس کیپنگ کرنا اتنا آسان کام نہیں‘ سچ نمرہ! اتنا بڑا گھر ہے‘بالکل کسی محل سا‘ میرے تو گمان میں بھی نہیں تھا ایک دن اتنے بڑے گھر میں رہوں گی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی تھی‘ نمرہ مسکرادی تھی۔
’’کہیں ارادہ قبضہ جمانے کا تو نہیں؟ ریان حق خاصا ہینڈسم ہے اور…‘‘
’’کم آن نمرہ! ڈونٹ بی اسٹوپڈ‘ ریان حق کی گرل فرینڈ ہے اور مجھے دوسرں کے حق غصب کرنے کا کوئی شوق نہیں‘یوں بھی ریان حق مشرقی لڑکیوں سے دس فٹ دور بھاگتا ہے‘ اسے ٹچ می ناٹ والا دیسی امیج بالکل بھی پسند نہیں۔‘‘ ایلیاہ نے بتایا۔
’’اوہ! یہ تو ٹھیک نہیں‘ تم قائل کرلو نا اسے؟‘‘ وہ چھیڑنے لگی تھی۔ ’’اسے بتادو‘ ہم مشرقی لڑکیاں بھی کسی سے کم نہیں‘ یوں بھی دیسی ہونے کے ناتے پہلا حق تو ہمارا ہی بنتا ہے‘ آخر کو ہم پاکستانی ہی تو ہیں۔‘‘
نمرہ مسکرائی تھی۔
’’وہ خود کو انگلش اور برٹش کہلانے میں زیادہ فخر محسوس کرتا ہے۔‘‘ ایلیاہ نے گہری سانس لیا۔ ’’تم بتائو کیا کررہی ہو آج کل؟‘‘ وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔
’’کچھ خاص نہیں یار! شادی کا بہت موڈ ہورہا ہے مگر لگتاہے یہ لکیر میرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ کون سی لکی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی شادیاں ہوتی ہیں اور جن کی شادی کی فکروں میں ان کے گھر والے گھلے جاتے ہیں‘ یہاں دیکھو سال پر سال گزر رہے ہیں‘ یہاں پرائے دیس میں کماتے ہوئے اور گھر چلاتے ہوئے کسی کو احساس ہی نہیں شاید بیٹیوں کو کمانا نہیں چاہیے کیونکہ جب بیٹیاں کماتی ہیں تو پھر والدین ان کی ذمے داریوں سے نبر د آزما ہونے کا نہیں سوچتے‘ میں اپنے ماں باپ کا بیٹا بننا چاہتی تھی اور دیکھو بیٹی بھی نہیں رہی۔ کسی کو میرے احساسات کی فکر نہیں‘ کسی کو نہیں لگتا میرا گھر بھی بسنا چاہیے‘ سب کو بس یہ فکر ہے کہ میرا گھر بس گیا تو ان کے اخراجات کون اٹھائے گا۔ یہ اپنے کبھی کبھی کتنے خود غرض ہوجاتے ہیں نا۔ ایلیاہ! میری مان تو تُو بھی خود کو ایسے ضائع مت کر‘ کل کو کوئی کام نہیں آتا نا بھائی‘ نا بہن۔‘‘ نمرہ حقائق بتارہی تھی‘ اسے نمرہ سے ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔
’’نمرہ! تم کوئی اچھا لڑکا دیکھ کر شادی کرلو۔‘‘
’’اچھا لڑکا…!‘‘ وہ ہنسی تھی۔ ’’یہاں اچھا لڑکا کہاں ملے گا؟ جو اپنے دیس سے یہاں آتے ہیں وہ گوریوں کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ انہیں ریڈ پاسپورٹ مل سکے‘ وہ اپنی لڑکیوں کو لفٹ نہیں کرواتے اور جو گورے ہیں وہ میرے کسی کام کے نہیں‘ ان کے لیے سوچنے سے بہتر ہے میں شادی کا نہ سوچوں۔ مجھے اپنے بچوں کو آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر نہیں بنانا۔‘‘ وہ نمرہ کی بات پر ہنس دی تھی۔ نمرہ صاف دل کی تھی سیدھی بات کرتی تھی۔
’’تم ان لڑکوں کو بھول رہی ہو جو Born and Bred یوکے ہیں۔‘‘ ایلیاہ مسکرائی تھی۔
’’ان کی تو بات ہی جانے دو ایلیاہ!‘‘ وہ منہ بگاڑ کربولی۔
وہ سب سے زیادہ ٹیڑھی لکیر ہیں‘ پہلے غلطی سے یہاں پیدا ہوتے ہیں پھر ساری زندگی اس غلطی کو سدھارنے میں لگا دیتے ہیں۔ ریان حق انہی میں سے ایک ہے نا؟ دیکھو اسے دیسی لڑکیا ں سرے سے پسند ہی نہیں؟ وہ تمہیں گھاس نہیں ڈال رہا حالانکہ تم اچھی خاصی اسمارٹ ہو‘ خوب صورت ہو اور پر اعتماد ہو۔‘‘ نمرہ نے تجزیہ کیا تھا۔
’’نمرہ بات کسی اور کی نہیں ہے‘ میری ہے اور میں جانتی ہوں مجھے کیا چاہیے۔‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’تمہیں ریان حق جیسا بندہ نہیں چاہیے؟‘‘ نمرہ چونکی تھی‘ وہ چپ رہی تھی۔
’’ویسے ایک ٹرائی تو کرو‘ بندہ بُرا نہیں ہے‘ کیا ہوا جو برٹش ہے‘ ہے تو رئیس اور ہینڈ سم بھی۔‘‘ وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
’’میں رانگ نمبرپر ٹرائی کرنا مناسب خیال نہیں کرتی نمرہ!‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
’’رانگ نمبر کہاں ہے یار! سیدھے سے رائٹ بندہ ہے۔‘‘ وہ ہنسی تھی۔
’’شاید‘ مگر لائن انگیج ہوتو دوسری بار ٹرائی کرنا عقل مندی نہیں۔‘‘ اس کے انداز میں بولی تھی اور نمرہ کھلکھلا کرہنس دی تھی۔
’’خیر ہیں کوا کب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ‘ چلومجھے نیند آرہی ہے پھربات کرتے ہیں۔ تم اب بھول مت جانا‘ ورنہ وہاں آکر پٹائی لگائوں گی۔‘‘ وہ ایسی ہی بے تکلف تھی‘ تبھی اس سے اس کی خوب بنتی بھی تھی‘ نمرہ سے بات کرنے کے بعد وہ کافی فریش ہوگئی تھی مگر اسے اس کے لیے افسوس بھی تھا‘ کیسی حسرت تھی اس کے انداز میں شادی کو لے کر‘ تو کیا وہ خود کو نظر انداز کرکے غلطی کررہی تھی‘ نداماسوکا لہجہ سماعتوں میں گونجا تھا۔
’’ایلیاہ خود کو اگنور مت کرنا‘ اس نے بہت سی سوچوں سے گھبرا کر سر نفی میں ہلا یا تھا‘ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا تھا‘ کب ریان حق اس کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
’’کس سے بات کررہی تھیں تم؟‘‘ وہ تفتیشی انداز اختیار کررہا تھا یا محض بات آغاز کرنے کو بولا تھا‘ وہ الجھتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی تھی۔
’’نمرہ سے…‘‘
’’شادی کی بات ہورہی تھی؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ اسے کیسے خبر ہوئی تھی‘ وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی تھی۔
’’ہاں وہ نمرہ شادی کرنا چاہ رہی ہے مگر اسے کوئی اچھا لڑکا نہیں مل رہا۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’اور تم…؟‘‘ وہ اسے موضوع بناتا ہوا بولا تھا۔
’’میں…؟‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’تمہیں شادی نہیں کرنا؟ کوئی ارادہ ہے بھی کہ نہیں؟ ہے کوئی نظر میں۔‘‘ وہ اس سے کیسے سوال کررہا تھا؟ وہ حیران ہوئی تھی پھر نفی میں گردن ہلادی تھی۔
’’فی الحال کوئی پلان نہیں‘ یوں بھی پلان کے لیے کسی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔‘‘ وہ سرسری لہجے میں بولی اور گلدان میں پھول سیٹ کرنے لگی۔
’’تمہارے اس فیانسی کا کیا ہوا؟‘‘ ریان حق نے پوچھا‘ وہ چونک پڑی تھی
اس کے بارے میں کیوں بات کررہے ہیں آپ؟ میں یہاں رہتی ہوں‘ جاب کرتی ہوں‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر الٹی سیدھی بات آپ مجھ سے پوچھیں گے۔‘‘ حمزہ کا نام سن کر ہی اسے غصہ آگیا تھا۔ وہ جانے کیوں مسکرادیا تھا۔
’’مجھے جانے کیوں لگا تم اس کی یاد میں بیٹھی ہو‘ مشرقی لڑکیوں کا مزاج نرالا ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کا خواب میں بھی سوچیں تو گناہ سمجھتی ہیں۔‘‘ وہ جانے کیوں اسے چڑا رہا تھا۔ وہ خودا پنے اندر کی الجھنوں سے الجھتے ہوئے تھکنے لگا تھا یا اس کی خاموشی اس کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی؟ ایلیاہ میر نے اسے اعتماد سے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔
’’میں کسی بات کی وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھتی‘ مگر اس شخص کے لیے میری زندگی میں کہیں جگہ نہیں ہے‘ یہ بات بہت پہلے بھی بتاچکی ہوں۔‘‘ وہ دو ٹوک انداز میں بولی۔ وہ اس کے پھول لگاتے ہاتھ کو بغور دیکھنے لگا تھا پھر جانے کیا سوچ کر اس کا وہ ہاتھ تھام لیا‘ کلائی پر گرفت مضبوط تھی۔ وہ کوئی معنی اخذ نہ کرپائی تھی مگر تکلیف کے احساس سے اس کی سمت تکنے لگی تھی۔
’’ایک لڑکی کیا چاہتی ہے؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مدہم لہجے میں پوچھ رہا تھا۔وہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی۔ ’’میں جاننا چاہتاہوں۔‘‘
’’لڑکی لڑکی میں فرق ہوتا ہے ریان حق! ہر لڑکی کے خواب ایک سے نہیں ہوتے‘ ہر لڑکی کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔‘‘ وہ تکلیف کے احساس سے اس کی گرفت سے اپنی کلائی چھڑانے کی سعی کرنے لگی تھی‘ وہ اس کے جواب پر مسکرادیا تھا۔
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ آج اتنے عجیب سوال کیوں کررہا تھا؟ اسے حیرت ہوئی تھی۔
’’تم کیا خواب دیکھتی ہو ایلیاہ میر! مجھے جاننا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ کیا حق ہے آپ کے پاس یہ سب جاننے کا؟‘‘ وہ تپ کر بولی تھی‘ وہ مسکرادیا تھا۔
’’چلو نہ بتائو‘ مگر میں جانتا ہوں لڑکی کے خواب کیا ہوتے ہیں‘ اسے جنون ہوتا ہے پانے کا اور مزید پانے کا‘ مرد کی توجہ ‘ اس کا حصول اور پھر اس کی دولت کا حصول اور مزید اچھی زندگی گزارنے کی چاہ‘ مہنگی قیمتی اشیاء خریدنے کی خواہش۔ بس یہی ہوتی ہے لڑکی کی خواہش۔‘‘ جانے کیا جانا تھا اس نے یا کسی بات کے گنجل اس کے اندر تھے جو وہ اس طرح سے بات کررہا تھا۔
’’ میں نے کہا نا ریان حق! ہر لڑکی یہ خواب نہیں دیکھتی۔‘‘
’’اچھا بتائو ایک اولڈ فینشڈ لڑکی کیا خواب دیکھتی ہے؟‘‘ وہ اس پر انگلی رکھتے ہوئے بولا تھا۔
’’میری ماں کہتی تھی لڑکی کے لیے سب سے زیادہ اہم محبت ہوتی ہے‘ وہ مرد کی محبت سے محبت کرتی ہے‘ وہ مرد سے زیادہ کچھ نہیں چاہتی محبت کے سوا۔‘‘
’’اوں ہوں… تمہاری ممی کی بات نہیں ہورہی۔ تم… تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ وہ ساری توجہ اس پر مرکوز کرتے ہوئے بولا۔
’’محبت‘ عزت اور تحفظ۔‘‘ ایلیاہ میر روانی سے بولی۔
’’اور…؟‘‘ وہ براہِ راست اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔
’’اور کیا؟‘‘ وہ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔
’’پیسہ… دولت… شہرت…؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔
’’یہ میری ترجیحات میں شامل نہیں۔‘‘ وہ اعتماد سے بولی۔
’’آہ! انوکھی لڑکی ہو تم‘ اپنی نوعیت کی انوکھی ترین لڑکی۔‘‘ اسے جیسے ایلیاہ میر کے جواب نے مطمئن نہیں کیا تھا۔ ایلیاہ میر کی کلائی پر اس کی گرفت جوں کی توں تھی۔
’’میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘ وہ درخواست کرتی ہوئی بولی۔ ریان حق نے اس کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔ کیا وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اس کی دولت میں انٹرسٹڈ ہے؟ مگر کیوں‘ وہ تو سرے سے اس میں انٹرسٹڈ نہیں تھی ؟ پھر وہ ایسا کیوں سوچ رہا تھا؟
’’ریان حق! میری کلائی چھوڑیئے۔‘‘اس نے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ دیکھا تو وہ اس کے انداز سے محظوظ ہوتا ہوا مسکرادیا۔
’’کیکٹس کا پھول‘ دیکھنے میں دل رُبا… چھونے میں تکلیف دہ۔‘‘ وہ مدہم سرگوشی کرتا ہوا اس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ایلیاہ نے سر اٹھا کر تکلیف کے احساس سے اسے دیکھا تھا مگر ریان حق اس کی پروا نا کرتے ہوئے وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ اپنی کلائی کو دیکھنے لگی تھی جہاں پر اس کی گرفت کے نشان پیوست ہوگئے تھے‘ یہ کون سا طریقہ تھا احتجاج کا؟ اس سے اس طرح کا برتائو کرنے کا؟
اس نے دھندلاتی آنکھوں سے پار دیکھا تھا وہ ٹینا کے ساتھ کھڑا تھا‘ جانے کیا بات کررہا تھا‘ پھر اس کو اور قریب کرلیا تھا‘ وہ جانے کیوں دیکھ نہیں سکی تھی اور اس طرف سے دھیان ہٹانے کی سعی کرنے لگی۔
…٭٭٭…
کسی کی نظروں میں ناپسندیدگی ہو یا پسندیدگی اس کے بارے میں علم ہو ہی جاتا ہے۔ ٹینا کی نظروں میں اس کے لیے پسندیدگی نہیں تھی۔ یہ بات وہ جان گئی تھی‘ اس کی نظریں اس کی طرف اٹھتیں تو وہ بہت سرد ہوتی تھیں۔ مگر وہ محسوس کرتی تھی وہ کہیں بہت ڈری سہمی ہوئی ہے۔
’’تمہاری یونیورسٹی سے تمہیں ڈگری کب مل رہی ہے؟‘‘ اس شام وہ اس کے سامنے آن بیٹھی تھی اور بہت فرینڈلی انداز سے بات چیت کرنے لگی تھی۔ ایلیاہ میر کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔
’’اس کے لیے کچھ ویٹ کرنا پڑے جو فی الحال میں کرنا نہیں چاہتی‘ یونیورسٹی سے ٹیکسٹ مسیج موصول ہوجائے گا یا پھر ای میل کرکے بتادیں گے وہ‘ میں خود چاہتی ہوں ایسا جلد ہو۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی۔
’’تمہارے فیوچر پلانز کیا ہیں؟ یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد تو تم یہاں سے جاسکتی ہو نا؟‘‘ ٹینا نرمی سے بات کررہی تھی۔
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد میں پوسٹ اسٹڈی ورک کے لیے اپلائی کرسکوں گی اور دو سال مزید یہاں رک سکوں گی۔‘‘ وہ کافی کے سپ لیتے ہوئے بولی۔
’’اوہ! اور اگر تمہیں نہیں ملتا تمہارا ویزا‘ Expend نہیں ہو پاتا تو؟‘‘ وہ مسکرائی تھی‘ کچھ حسِ مزاح پھڑکی تھی تبھی اطمینان سے بولی تھی۔
’’تو پھر کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈوں گی‘ ویزاکئی طرح سے سوئچ ہوسکتا ہے اگر میں کسی مقامی بندے سے شادی کرلوں تو بھی میںیہاں رک سکتی ہوں۔‘‘
’’اوہ! تو تمہارا خواب یہاں مستقل رکنے کا ہے؟ ریڈ پاسپورٹ پانا؟‘‘ ٹینا نے اپنے طورپر اخذ کیا تھا‘ وہ اس کی کیفیت سے محظوظ ہوتی ہوئی مسکرادی تھی۔
’’ویل بندہ امیر ہو تو اس بارے میں سوچا بھی جاسکتا ہے۔‘‘
’’اوہ! مجھے اس کا اندازہ پہلے ہی ہوگیا تھا۔‘‘ ٹینا نے ہونٹ سکوڑے تھے‘ایلیاہ میر مسکرادی تھی اور بغور اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھا تھا۔
’’ہے کوئی نظر میں؟‘‘
’’کون؟‘‘ ٹینا چونکی تھی۔
’’جو مجھے ریڈ پاسپورٹ دلانے میں مدد کرسکے؟‘‘ وہ جاننا چاہتی تھی اس کا ذہن کیا سوچ رہا ہے اور اگر ریان حق نے اس طور ری ایکٹ کیا تھا اس کی وجہ کیا تھی‘ کہیں وہ ٹینا تو نہیں تو جو ریان حق کا مائنڈ بدل رہی تھی‘ اسے ایلیاہ میر سے بدظن کررہی تھی۔
’’یہاں کئی ہیں جو تمہاری مدد کرسکتے ہیں‘ تم صرف پیپر میرج کرکے بھی وہ سب حاصل کرسکتی ہو جن کا خواب تم دیکھ رہی ہو‘ یہاں ایسی پیپر میرجز عام ہیں‘ یہ شادیاں صرف ریڈ پاسپورٹ کے حصول کے لیے ہوتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔‘‘ ٹینا نے بتایا تھا‘ جیسے وہ اس کی سب سے بڑی خیر خواہ تھی۔
’’جانتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر اطمینان سے بولی تھی۔ ’’میں غلط راستوں سے منزل پانے پر یقین نہیں رکھتی‘ اگر منزل پانا قسمت میںہے تو راستے خودمجھے منزل تک رہنمائی دیں گے۔ وہ ایک تمہی ہو جس نے ریان حق کو جتانے اور قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں یہاں پیسوں کے لیے رکی ہوئی ہوں؟ لالچی ہوں اور دولت یا ریڈ پاسپورٹ چاہتی ہوں؟‘‘ ایلیاہ میر نے دو ٹوک پوچھا تھا‘وہ ساکت رہ گئی تھی‘ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد بولی تھی۔
’’تمہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے ایلیاہ میر! تمہارے اس گھر میں آنے سے پہلے ریان حق میرے بہت قریب تھا۔ مگر تمہارے یہاں آنے کے بعد وہ قربت معنی کھوگئی۔ میں نہیں چاہتی تم یہاںرہو اور ہمارے درمیان دیوار اٹھائو؟ مجھے غلط ثابت کروگی؟‘‘ ایلیاہ میر نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا‘ ٹینا نے گہری سانس خارج کی تھی۔
’’میرے لیے ریان حق اہم ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی‘ میں نہیں چاہتی کوئی اس کا فائدہ اٹھائے‘ اس کے لیے میں کسی صحیح غلط کو نہیں مانتی۔‘‘ بات جب کھل ہی چکی تھی تو وہ بھی کچھ مزید چھپانے میں عار نہیں جانتی تھی۔
’’تم مجھ سے خوف زدہ ہو؟‘‘ ایلیاہ میر کو حیرت ہوئی تھی۔ ’’میں اس کی ایک ملازم ہوں‘ وہ تمہارے ساتھ دو سال سے ہے‘ تم دونوں قریب ہو‘ میں کہاں ہوں؟‘‘ وہ بولی تھی۔
’’تم اس کے دل میں ہو‘ اس کی آنکھوں میں ہو۔‘‘ ٹینا نے جتایا تھا اور فضا میں ایک سکوت پھیل گیا تھا۔ ایلیاہ میر کو یہ سن کر عجیب لگا تھا۔ یقین نہیں ہوا تھا‘ وہ سر نفی میں ہلانے لگی تھی۔
’’پلیز چلی جائو یہاں سے‘ کوئی اور جاب ڈھونڈ لو‘ تم چاہو تو میں پائول سے بات کرسکتی ہوں۔‘‘ ٹینا بولی تھی۔
’’کیسی بات؟‘‘ وہ چونکی تھی‘ ٹینا اس کی سمت دیکھتی رہی تھی پھر بولی۔
’’وہ تمہارے ساتھ پیپر میرج کرسکتا ہے‘وہ برٹش ہے‘ میرے ہینڈ میں ہے مگر اس کے لیے تمہیں اسے کچھ پیسے دینا ہوں گے۔‘‘ نیشلٹی ملنے کے بعد تم اس شادی سے‘ اس تعلق سے آزاد ہوگی۔ یہی چاہیے نا تمہیں؟ تم قابل ہو اچھی جاب حاصل کرسکتی ہو‘ خوب صورت ہو بہت سے اور مل سکتے ہیں تمہیں‘ زندگی شروع کرسکتی ہو‘ مگر ہماری دنیا سے نکل جائو۔ اس سے زیادہ تمہاری مدد میں نہیں کرسکتی۔‘‘ ٹینا بول کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ اس کی سفاکی پر حیران رہ گئی تھی۔ ٹینا جانتی تھی ویزا سوئچ کرنے کے کئی طریقے اور بھی تھے مگر وہ اس کی شادی کرانا چاہتی تھی تاکہ وہ ان کی راہ سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے۔ وہ اتنی بچی نہیں تھی کہ آنکھیں بند کرکے ٹینا کی مان لیتی تو پھر ریان حق نے ٹینا کی کیسے مان لی تھی؟ وہ لمحہ بھر کو سوچ کر حیران ہوئی تھی۔
اس دن کے بعد سے وہ شخص اس سے بہت سرد لگ رہا تھا۔ اس کے قریب نہیں آیا تھا‘ اس سے بات نہیں کی تھی‘ اس سے نگاہ بھی نہیں ملائی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھتا نہ بات کرتا مگر وہ اسے اپنے بارے میں وہ غلط فہمی مزید رکھے‘ نہیںچاہتی تھی۔ وہ اسے ایک لالچی لڑکی سمجھ رہا تھا‘ موقع پرست جان رہا تھا اور ایک غلط تاثر بنائے بیٹھا تھا‘ وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی تھی‘ تبھی اس شام جب بارش ہورہی تھی اور وہ کارپورچ سے باہر نکال رہا تھا‘ وہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ریان حق نے ہارن پر ہاتھ رکھا تھا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی‘ وہ تیز بارش میں بُری طرح بھیگ رہی تھی۔ جس کا اسے مطلق احساس تھا نہ پروا_