تین مہینے ہونے کو آئے تھے ۔۔
حویلی میں سب کچھ معمول پر آچکا تھا ۔۔
اپنے اپنے دلوں کے زخم چھپائے سب اب مسکرانے لگے تھے ۔۔
سوائے شمعون کے ۔۔
جس کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی وہ مدھم سی مسکان اب بلکل غائب ہوچکی تھی ۔۔
شہلا بے اسے پرپوز پر جواب تو کیا دیا تھا ۔۔
الٹا اس سے کنی کترا کر گزرنے لگی تھی ۔۔
اتنی بڑی حویلی تھی ۔۔
جس طرف شمعون جاتا وہ وہاں سے فوراً بھاگ لیتی ۔۔
سوائے رات کو کچھ دیر گیلری کے وہ اسے شاذ و نادر ہی نظر آتی تھی ۔۔
اور اس کے اس گریز نے شمعون کو سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا ۔۔
وہ کوئی عام سا انسان تو تھا نہیں جو کسی لڑکی کے جذبات سمجھتا ۔۔
وہ کم ہی کسی کا احساس کرتا تھا ۔۔
اور اب اس کی بس ہو چکی تھی ۔۔
اسے جتنا وقت دینا تھا شہلا کو اس سے زیادہ ہی دے دیا تھا ۔۔
اس وقت وہ پیشانی پر ایک گہری لکیر لیئے آر یا پار کرنے جا رہا تھا ۔۔
شہلا اسے لان میں بینچ پر بیٹھی کسی اخبار کے مطالعہ میں مصروف نظر آئی ۔۔
توقع کے مطابق شمعون کو دیکھتے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر بھاگنے کو ہو رہی تھی جب شمعون دیوار کی طرح اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔
شہلا کو اپنے فرار کی تمام راہیں مسدود نظر آئیں تو سر جھکا کر بے بس سی کھڑی ہوگئی اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
اس کے بس میں یہی تھا ۔۔
“کوئی واضع جواب نہ دو ۔۔
اشارہ تو دو ۔۔”
شمعون اسے پکڑ کر جھنجوڑ دینا چاہتا تھا ۔۔
اور گرج کر پوچھنا چاہتا تھا ۔۔
لیکن وہ شہلا کے سامنے ایسا کچھ کر نہیں سکا ۔۔
اسے اپنی ہی آواز اجنبی لگی ۔۔
طویل سانس خارج کر کے شہلا نے خود کو کپوز کیا پھر ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر شمعون کے بے بس سے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔
شہلا نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے یوں پرپوز کرے گا ۔۔
بہت سادہ سی مشرقی لڑکی کی زندگی تھی اس کی ۔۔
اس نے کبھی غیر ضروری طور پر کسی مرد سے بات نہیں کی تھی ۔۔
وہ اس شہزادے جیسے شخص کو کیا جواب دیتی جس کے آگے نظریں بھی اٹھاتے ہوئے جھجک جاتی تھی ۔۔
“شہلا ۔۔
کسی کا اتنا صبر نہیں آزماتے ۔۔”
شمعون نے مٹھیاں بھینچ کر خود پر کنٹرول کرتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔
“مم مجھے ۔۔
ایکچلی مجھے ۔۔”
“شہلا بیٹا ۔۔”
پیچھے سے آتی تیمور آفندی کی آواز پر شہلا کی جان میں جان آئی اور وہ سرپٹ وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔
تیمور آفندی جو اسے حویلی کی باقی لڑکیوں کے ساتھ شاپنگ پر جانے کا کہنے آئے تھے (جس سے شہلا منع کر چکی تھی) حق دق کھڑے رہ گئے جبکہ شمعون کی آنکھوں کی پتلیوں کا سائز خود بہ خود سکڑنے لگا ۔۔
وہ تیمور آفندی سے نظریں بچا کر تیزی سے مڑگیا اور پیچھے تیمور آفندی کبھی اس راستے کو دیکھتے جہاں سے شہلا گزری تھی تو کبھی شمعون کی چوڑی پشت کو دیکھتے ۔۔
کچھ دیر دماغ کی پیچیں لڑانے کے بعد ان کے ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا ۔۔
بے ساختہ ان کے لب سیٹی کے انداز میں سکڑ گئے تھے ۔۔
“اوہ ۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے بالآخر اسے رات کو جا ہی لیا ۔۔
وہ لان میں سر جھکائے چہل قدمی کر رہا تھا ۔۔
رات کے پونے دو ہو رہے تھے ۔۔
ساری حویلی میں اندھیرا چھایا تھا ۔۔
لان کی لائٹس بھی بند تھیں ۔۔
تیمور آفندی کی یونہی گھبراہٹ میں آنکھ کھلی تو وہ کمرے کی کھڑکی میں چلے آئے ۔۔
جہاں اندھیرے لان میں انہیں ایک ہیولا ٹہلتا نظر آیا ۔۔
تیمور آفندی نے فوراً اندازہ لگا لیا وہ کون ہو سکتا تھا ۔۔
شمعون کی ہمیشہ سے عادت تھی ۔۔
جب کسی الجھن میں ہوتا یونہی اندھیرے لان میں تنہا ٹہلنے لگتا ۔۔
شمعون کے قریب جاتے ہوئے انہوں نے اس کی بار بار اٹھتی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جو شہلا کے کمرے کی گیلری ہر منڈلا رہی تھیں ۔۔
اپنے اندازے کے صحیح ثابت ہونے پر وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑے ہوئے اور ہمیشہ کی طرح “ہائو” کر کے اسے ڈرانے کی کوشش کی ۔۔
لیکن شمعون بھی ہمیشہ کی طرح ان کی آمد سے پہلے ہی واقف ہوگیا تھا ۔۔
جب ہی پل بھر کی مسکان لبوں پر سجا کر پلٹا پھر انہیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ۔۔
وہ دونوں بھائی کچھ دیر تک خاموشی سے ٹہلتے رہے پھر تیمور آفندی نے ہی گلا کھنکھار کر بات کی شروعات کی ۔۔
“کیوں پریشان ہو ۔۔”
“آپ کو جب یہ پتہ چل چکا ہے کہ میں پریشان ہوں ۔۔
تو یہ کیسے ممکن ہے پریشانی کی وجہ سے ناواقف ہوں ۔۔”
دھیمی آواز میں پوچھتے ہوئے شمعون نے ان پر ایک مصنوعی گھوری ڈالی ۔۔
پھر دونوں ہنس دیئے ۔۔
شمعون کی ہنسی بہت مدھم اور مختصر تھی لیکن تیمور آفندی کی ہنسی زندگی سے بہت بھرپور تھی ۔۔
“اب سب کچھ بتائو مجھے شروع سے اب تک ۔۔
کیا چل رہا ہے درمیان ۔۔
اور کب سے چل رہا ہے ۔۔”
شمعون نے جواباً انہیں مختصر لفظوں میں اپنے مختصر ترین پرپوزل اور طویل ترین صبر کی داستان سنادی ۔۔
جسے سن کے تیمور آفندی نے ہنکار بھری ۔۔
“بیٹا جی وہ ایک پیور مشرقی لڑکی ہے ۔۔
اور ایسی سیدھی سادی اچھی لڑکیاں پرپوزل پر فوراً جواب نہیں دے دیتیں ۔۔
اور تمہیں چاہیے تھا تم پہلے ہی مجھ سے بات کرتے ۔۔
پھر میں اس سے بات کرتا تو معاملہ اب تک آر یا پار لگ چکا ہوتا ۔۔”
“تو پھر آپ کریں نا بات اس سے ۔۔”
شمعون فوراً بولا تھا ۔۔
“ہاں بھئی کرلیں گے ۔۔ اتاولے کیوں ہو رہے ہو صبر کرو ۔۔”
“تین مہینوں سے کر رہا ہوں ۔۔”
شمعون کے تیوری چڑھا کر کہنے پر وہ ہنس پڑے ۔۔
“صبح تک کا اور کرلو ۔۔”
شرارت سے کہہ کر تیمور آفندی نے خود سے تین انچ زیادہ اونچے اپنے چھوٹے بھائی کی پیشانی چومی ۔۔
وہ خود بھی نہیں جانتے تھے شمعون انہیں اتنا عزیز کیوں تھا ۔۔
شائد اپنی بچپن کی تنہائی کی وجہ سے ۔۔
وجہ جو بھی تھی ۔۔
حقیقت یہی تھی کہ شمعون ان کے لیئے امتل سے کم بلکل نہیں تھا ۔۔
وہ جو بچپن سے گم صم تنہا تنہا رہتا آیا تھا ۔۔
اب تیمور آفندی اسے خوش دیکھنا چاہتے تھے ۔۔
وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی کی دلی مراد بر آئے ۔۔
ان کے پیار کرنے سے شمعون کی آنکھوں کی سردمہری غائب ہوگئی ۔۔
اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا ۔۔
“اچھا بھئی اب سونے چلو ۔۔
تمہاری بھابی کی آنکھ کھلی اور مجھے نہ پایا تو خوف سے چیخ چیخ کر مردوں کو بھی جگا دے گی ۔۔”
وہ کوئی گزرا وقت یاد کر کے ہنسے اور شمعون کی پشت تھپکتے اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو بالآخر تھانے جانے سے پہلے تیمور آفندی نے شہلا سے بات کر ہی لی تھی ۔۔
اور سوال اٹھتا ہے ۔۔
کیا بات کی تھیں ۔۔
تو وہی باتیں تھیں جو ایسے موقعوں پر کی جاتی ہیں ۔۔
شہلا کو اندازہ نہیں تھا کہ شمعون اتنی “جلدی” مچا دیگا ۔۔
تین مہینے اس کے لیئے یقیناً جلدی تھے کیونکہ اس کے دل میں فلحال کچھ بھی نہیں تھا ۔۔
لیکن شمعون نے یہ تین ماہ تین صدیوں کی طرح گزارے تھے ۔۔
ساری لڑکیاں کالج یونیورسٹی گئی ہوئی تھیں ۔۔
صرف ایک فرح باجی تھیں جو ان سب جھمیلوں سے فارغ تھیں اور ہر وقت فون پر اپنے منکوح سہیل سے محو گفتگو رہتیں ۔۔
سہیل، تیمور آفندی کے سب سے بڑے مرحوم بھائی کے اکلوتے فرزند بھی ہیں جو جاب کے سلسلے میں سات سمندر پار آباد ہیں ۔۔
سو اس وقت شہلا لائونج میں تنہا بیٹھی اپنا جواب سوچ رہی تھی جو اسے آج شام دینا تھا ۔۔
حویلی کے مرد حضرات اپنے کام سے کام رکھتے تھے حمزہ کے علاوہ جو بلاوجہ اس سے چڑتا تھا ۔۔
اور ایک تھے تیمور آفندی ۔۔
جو اس پر امتل کی طرح ہی شفقت لٹاتے تھے ۔۔
بات کی جائے شمعون کی تو اس کی شمعون سے کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔۔
لیکن جب ہوئی تب ایسی ہوئی کہ وہ ہر وقت اس سے چھپتی رہتی تھی ۔۔
یعنی وہ شمعون کے متعلق زیادہ نہیں جانتی تھی ۔۔
لڑکیاں سب اس کے ساتھ بہت فرینڈلی تھیں ۔۔
جبکہ خواتین ۔۔
ہاں ۔۔
حویلی کی خواتین کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیئے کافی بار ناگواری دیکھی تھی ۔۔
وہ سب خواتین پڑھی لکھی تھیں ۔۔
کچھ ایسا ویسا سخت سست کبھی نہیں کہا تھا ۔۔
لیکن نظریں بھی بولتی ہیں نا ۔۔
“کیا یہ خواتین مجھے اس گھر میں قبول کریں گی ۔۔”
شہلا کے دل نے کانپ کر سوچا ۔۔
وہ اس حویلی میں بغیر کسی رشتے کے کب تک رہ سکتی تھی ۔۔
وہ سنجیدگی سے سوچتی تو یہ سوال بہت بڑا لگتا ۔۔
“ہاں واقعی مجھے حویلی میں رہنے کے لیئے کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔۔
میں ہمدردی کے نام پر ہمیشہ یہاں نہیں پڑی رہ سکتی ۔۔
پھر شمعون تیمور انکل کے بھائی ہیں ۔۔
انکل کتنا پیار بھی کرتے ہیں ان سے ۔۔
اگر میرے اپنے حیات ہوتے ۔۔
تو شمعون صاحب کے رشتے پر خوشی خوشی راضی ہوجاتے ۔۔
ان میں بظاہر تو ایسی کوئی خرابی بھی نہیں ۔۔
انہیں حویلی کے باقی مرد حضرات کی طرح سگرٹ تک تو پیتے نہیں دیکھا ۔۔”
(شہلا بی بی وہ خون جو پیتے ہیں ۔۔)
شہلا جیسے اچانک ایک فیصلے پر پہنچ ک مطمئین ہوگئی ۔۔
اس کے دماغ میں تیمور آفندی کی آواز گونجنے لگی ۔۔
“شہلا یہ ہرگز مت سوچنا کہ تمہارے جواب کا تمہارے یہاں رہنے پر کوئی اثر پڑے گا ۔۔
تم میری بیٹی کی طرح ہو ۔۔
بیٹی بن کر یہاں آئی ہو ۔۔
اور بیٹیاں اگر “انکار” کردیں تو انہیں گھر سے نکال نہیں دیتے ۔۔
سو کھلے دل و دماغ سے فیصلہ کرنا ۔۔
جو بھی کرنا ۔۔”
اور شہلا نے واقعی کھلے دل س دماغ سے سوچا ۔۔
اور دونوں کی طرف سے ایک ہی جواب آیا تھا ۔۔
“کوئی حرج تو نہیں ۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اے لڑکی سنو ۔۔”
حمنہ بیگم کی ناگواری میں لپٹی پکار پر سیڑھیاں چڑھتی شہلا جبکہ باہر سے ابھی ابھی لوٹتا شمعون بھی اپنی جگہ رک گیا تھا ۔۔
“جی ۔۔”
“میں بہت تھک گئی ہوں ۔۔
تم یہ کھانا اوپر طوبی کو دے آئو ۔۔
سب سے آخر میں ہے اس کا کمرہ ۔۔”
انہوں نے کھانے کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی جسے شہلا نے جھجک کر تھام لیا ۔۔
شمعون تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ناگواری سے بولا ۔۔
“بھابی وہ مہمان ہے ۔۔
اگر طوبی نے کوئی نقصان پہنچا دیا اسے تو ۔۔”
“تو ۔۔”
حمنہ بیگم نے سینہ تان کر پوچھا ۔۔
“اور میاں خوب سمجھ آ رہی ہیں تمہاری ہمدردیاں ۔۔
جو کبھی حویلی والوں کے لیئے تو نہیں جاگیں ۔۔”
“یہاں آپ نے “گھر والوں” کی جگہ “حویلی والوں” کہہ کر اچھی طرح سمجھا دیا ہے آپ لوگوں کو میری ہمدردی کی کتنی ضرورت ہے ۔۔”
شمعون کو اپنے خون میں ابال خوب محسوس ہو رہا تھا ۔۔
“ہنہہ ۔۔
مجھے تم سے بحث نہیں کرنی ۔۔
اور تم سنو لڑکی ۔۔
مہمان تین دن کا ہوتا ہے ۔۔
یہاں چار مہینے ہوگئے ہیں ۔۔
خود کو مہمان سمجھ کر ہم سے چاکریاں کروانا بند کرو اور ہاتھ بٹایا کرو ۔۔
اب یہ لے جائو ۔۔”
انہوں نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا اور شمعون کی سرد نگاہوں کو نظرانداز کرتی وہاں سے گزر گئیں ۔۔
شہلا بیچاری یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ آپ لوگوں نے ہی ایک بار کہا تھا ۔۔
“مہمان بن کر رہو ۔۔
سگی بننے کی ضرورت نہیں ۔۔”
سر جھٹک کر شہلا سیڑھیاں چڑھنے لگی تو شمعون کے دل کا چور حواس باختہ ہوگیا ۔۔
“رکو شہلا ۔۔
امتل اور نازیہ ابھی کالج سے لوٹنے والی ہوں گی ۔۔
وہ ہی لے جائیں گی ۔۔
طوبی تم پر کوئی اٹیک کر سکتی ہے ۔۔”
شمعون نے اس سے ٹرے لینا چاہی لیکن وہ پیچھے کرگئی ۔۔
“اٹس اوکے ۔۔
کسی نہ کسی پر اٹیک ہونا ہی ہے تو مجھ پر سہی ۔۔
ویسے بھی اب ہمیشہ یہاں رہنا ہے ۔۔
نفع نقصان ہر چیز میں ساتھ دینا چاہیے ۔۔”
غیر ارادی طور پر شہلا اقرار کر بیٹھی تھی ۔۔
اور پھر شمعون کے ٹھٹک کر دیکھنے پر سٹپٹا کر آگے بڑھ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...