(Last Updated On: )
احمد رشید کی عورت حیات و کائنات کے اس بے ہنگم شور اور ناہموار نظام پر سوال در سوال قائم کرتی ہے تو سماجیات کی ایک نئی تصویر بھی ابھرتی ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا تخلیقی و جمالیاتی تصور بھی ابھر کر سامنے آتا ہے جو گذشتہ تصورِ فکر و فن کو نہ صرف توڑتا ہے بلکہ ایک نئے تصور کو جنم بھی دیتا ہے لیکن ہمارے نقادانِ ادب تخلیق کی ان صورتوں سے بے خبر مدرسہ کی قیل و قال اور تھیوری کی اُلجھی ہوئی بحثوں میں قید ہیں جسے صرف فرار کی صورت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اب ہر ایک راست تخلیق پر باتیں ہوں۔ ان کی تخلیقات کی جن میں آج کا انسان زندہ ہے۔ اور آج کا ہندوستان اور اب تو عالمی جنگ و جدل کی بھی بت کرنی ضروری ہے کہ خون عراق میں بہے یا گجرات میں خون انسان کا ہی بہتا ہے اگر انسان اپنی عزت و حرمت کے ساتھ زندہ ہے تو کہانیاں بھی زندہ رہیں گی حضرت انسان کی سلامتی و بہبودی ہمارا اولین فرض ہے۔
پروفیسر علی احمد فاطمی
احمد رشید کے افسانے ’’وہ اور پرندہ‘‘ ، ’’برف تلے‘‘ ، ’’بن باس کے بعد‘‘ ، ’’صدیوں پر پھیلی کہانی‘‘ اور ’’سراب‘‘ میں تخلیق کائنات کے آر کی ٹائپ اور اس سے متعلق اساطیری کرداروں اور روایتی عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی یہ کہانیاں ما بعد جدید تصور ادب ’’بین المتونیت‘‘ سے تخلیقی سطح پر استفادہ کی خبر دیتی ہیں۔ افزونی حیات کے باوجود قوت تخلیق سے محرومی آج کے انسان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ زندگی کرنے کے مخصوص ڈھب پر اصرار اور آزادیِ عمل کی ازلی انسانی خواہش پر معاشرتی اور مذہبی تجدید انسان کو تقلید کی سعی رائگاں پر کیسے مجبور کرتی ہے، احمد رشید کا افسانہ ’’سراب‘‘ اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔ تخلیق کے مختلف مظاہر اور امکانات اپنی معنویت سے کیوں عاری ہو گئے ہیں، اس استفسار کا جواب سماجی سروکاروں میں مضمر ہی۔
پروفیسر شافع قدوائی
احمد رشید نے اپنے افسانوں کو ماورائی تصورات، تہذیب و ثقافت کی ابتدا ء اور ارتقا کو عوامی مسائل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے یہاں ایک طرف ماورائیت، مذہبی اور اساطیری فضا دوسری طرف زمینی مسائل سے ارتباط فنّی چابکدستی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کے افسانے روایتی افسانے کی طرح صرف کہانی بیان نہیں کرتے۔ زندگی کے تلخ حقائق، اقدار کی شکست اور جبریت و استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں۔ ’’مداری‘‘ میں فسطائی طاقتوں نے جو سیاسی ڈھونگ رچایا ہے اس کو تمثیلی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
پروفیسر صغیر افراہیم
احمد رشید (علیگ) اظہار بیاں کی بھی مہارت رکھتے ہیں پھر بھی کہیں کہیں اور کبھی کبھی ان کی زبان و طرز بیان میں ایک قسم کی بے ربطی کا احساس ہوتا ہے لیکن یہی بے ربطی جب ذہن کی پرتوں کو کھولنے میں مدد گار بن جاتی ہے تو کمزوری بھی حسن بن جاتی ہے۔ ان کا اسلوب بھی قدرے غیر مانوس اور کبھی کبھی اجنبی سا لگتا ہے مگر یہی غیر مانوسیت اور اجنبیت جب ان کے افسانوں کی پرت در پرت معنویت سے نئے ذائقوں کا احساس دلاتی ہے تو احمد رشید کے تخلیقی وفور و شعور اور ان کے فکر خیز تخلیقی رویے کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی
افسانے کی ناپ تول کرنا افسانوی تنقید کا وطیرہ ہے جبکہ غیر متعین پیمائش کی گردان زبان زد رہتی ہے کہ ہر اہم افسانہ اپنے تخلیقی پیمانے لے کر نازل ہوتا ہے لیکن عموماً نقد و نظر کا طریقہ کار وہی روایتی (Traditional)ہے۔ یہاں یہ اصرار بے معنی ہو جاتا ہے کہ افسانہ کی پرکھ کے لیے افسانہ نگار کے موضوعِ زندگی کے ساتھ رویہ (treatment)کی بنیاد پر وہ منفرد اور ممتاز ہوتا ہے۔ افسانہ کو صرف کہانی سمجھ کر پڑھنے کے عمل میں کہانی پن ہونے کی بنیاد پر افسانہ تو ہو جائے گا لیکن تخلیق کار جس طرح ہمیں زندگی کی آگہی اور باریک بینی سے روشناس کرانا چاہتا ہے، وہاں تک رسائی مشکل ترین مرحلہ ہے۔ قارئین افسانہ کو جس طرح پڑھنے کے عادی ہیں، اس سے مختلف انداز میں احمد رشید کے افسانے پڑھے جانے کا تقاضہ کرتے ہیں۔
روایتی انداز میں مطالعہ کرنے والوں کو شاید احمد رشید کے افسانوں میں کشش محسوس نہیں ہو، مگر افسانہ کے سنجیدہ قارئین کے لیے ان کے افسانے دلچسپی کا مرکز بنے رہیں گے!
ڈاکٹر سیما صغیر
ز احمد رشید کی بیش تر کہانیاں (Multi Dimensional)ہیں جن میں زندگی کے مختلف (Shades) نظر آتے ہیں۔ افسانہ ’’ویٹنگ روم‘‘ میں پینٹنگ کے ذریعے کائنات کے نظامِ حکومت کی تاریخ اور انسان کے تہذیبی ارتقا کی داستان ملتی ہے۔ ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ میں تمدنی ارتقا کا بہت ہی خوب صورت بیانیہ ملتا ہے۔ ’’کہانی بن گئی‘‘ میں ایک بدصورت عورت جو نگاہ غلط انداز سے بھی محروم ہے، کی نفسیاتی الجھن کو بڑی فن کاری سے پیش کیا گیا ہے جو اپنے احساسِ کم تری کو ختم کرنے کے لیے اپنے قد کو اونچا کرنے اور اپنی پہچان بنانے کے لیے ملک کی بڑی ناول نگار بنتی ہے۔ عورت کی ذہنی کیفیت، جنسی الجھن اور نفسیاتی کش مکش کو اس طرح پیش کرنا کہ اسٹوری لائن اختتام تک قائم رہے، فن کارانہ چابک دستی کی غماز ہے۔ احمد رشید عصری مسائل کو کائنات کے قدیم آر کی ٹائپ سے جوڑ کر ماورائی جہتوں کو اساطیری کرداروں اور روایتی عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرنے کا عمل ان کی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔
حسام الدین (علیگ)
احمد رشید کے افسانوں کا بنیادی وصف اُن کا انداز بیان ہے جو انھیں معاصر فنکاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت اپنے عورت پن کے ساتھ موجود ہے اور جہاں وہ عورت اس تمیز کو دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کرتی ہے وہاں وہ اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔ افسانوی نظام کے ساتھ انھیں فنی ہنر مندی پر عبور حاصل ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے افسانوں کے اکثر کردار متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
عبد الباسط
٭٭٭
مصنف کی دیگر کتابیں
(1) وہ اور پرندہ (افسانے) 2002ء
(2) بائیں پہلو کی پسلی (افسانے) 2012ء
(3) کھوکھلی کگر (افسانے) 2018ء
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید