’’گو کہ صاحب میں بس ابھی دکان بند کرنے ہی والا تھے۔ پھر بھی آپ کا سامان پیک کرتے ہوئے، جلدی جلدی آپ کے سوال کا جواب بھی دیتا جاتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زلزلہ انتہائی بھیانک تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ زمین سے اٹھتی لہریں سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دیں گی۔ جدھر نظریں دوڑائیں، تباہی و بربادی کا عالم تھا، ہر طرف چیخ و پکار تھی، کراہیں تھیں، رونا دھونا تھا۔ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے لوگوں کی پکاریں تھیں۔ قیامت اس سے کیا کم ہو گی؟ ۔۔ ۔ اورجیسا کے آپ دیکھ ہی ہیں کہ میرا ذریعۂ معاش پہاڑی جڑی بوٹیوں اور ان جانوروں پر ہے، جو طبّی نقطۂ نظر سے فائدہ مند ہیں۔ سواس دن بھی میں جنگل میں انہیں کی تلاش میں نکلا ہوا تھا۔‘‘
میں بخوبی جانتا تھا کہ میں کہاں بیٹھا ہوا ہوں اور کس مقصد سے آیا ہوں، پھر بھی غیر ارادی طور پر میری نگاہیں دکان کی اطراف گھوم گئیں۔ نیم تاریکی میں جو کچھ میں دیکھ پایا، وہ تھیں شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں، سوکھے کیڑے مکوڑے اور شفاف محلول میں ڈوبے جنگلی جانوروں کے مردہ اجسام۔
’’ زلزلے کے جھٹکے وہاں جنگل میں بھی محسوس ہوئے۔ لیکن اتنے نہیں۔ میں نے اپنی سائیکل اٹھائی اور تیزی سے یہاں آیا۔ میرا مکان بھی ڈھے چکا تھا۔ ممتا سے محروم میرا چھ ماہ کا بچہ اور اس کی خادمہ دونوں ملبے تلے دب چکے تھے۔ میں پاگلوں کی طرح اکیلے ہی ملبہ ہٹانے لگا۔ وہاں میری مدد کرنے والا بھی بھلا کون تھا۔ میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ اس وقت تک اپنے کام میں جٹا رہا، جب تک میں نے اپنے بچے کو ملبے سے نکال نہیں لیا۔‘‘وہ کچھ دیر تک ہاتھ میں موجود گلاب کی خشک پتیوں کو دیکھتا رہا، پھر کہنے لگا، ’’بس اس دن سے ایسا خوف بیٹھا صاحب کہ اب میں کبھی بھی اپنے بچے کو خود سے جدا نہیں کرتا ہوں۔ اب وہ ہر جگہ میرے ساتھ جاتا ہے، یہاں تک کے جنگل میں بھی۔‘‘
میں سامان لے کر باہر نکلا۔ اتنی دیر میں اس نے بھی شٹر گرا دیا۔ اور سائیکل پر بیٹھ کر مجھے سلام کرتا ہوا، جنگل کی جانب جاتی تنگ پگڈنڈی پر چڑھ گیا۔ اس کی سائیکل کے اسٹینڈ پر ایک مرتبان رکھا ہوا تھا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...