ویرا کی ٹانگ سے خون دھڑا دھڑ بہہ رہا تھا۔ ایک منٹ تک وہ پسٹل کو اسی پوزیشن میں پکڑے پکڑے شاک کی حالت میں لمبورڈ کو دیکھتی رہی لیکن پھر تیزی سے پلٹی اور اس چیز کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جس سے اس کے اوپر حملہ کیا گیا تھا۔ اسے وہ کلہاڑی تھوڑے قدم کے فاصلے پر پڑی نظر آگئی۔ کلہاڑی کس سمت سے آئی تھی اس کا اندازہ ہوتے ہی ویرا نے چونک کر بنگلے کو دیکھا۔ سیڑھیوں پر بنی وہ کھڑکیاں جو مرکزی دروازے کے اوپر کھلتی تھیں ان میں سے کسی کی جھلک دکھائی دی لیکن جو کوئی بھی تھا غائب ہوگیا۔
ویرا نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے زخم نے اس کو اجازت نہیں دی اور لڑکھڑا گئی۔ اس کی منتظر نظریں مرکزی دروازے کی جانب اٹھیں لیکن اس سے بھی کوئی نکل کر باہر نہیں آیا۔
ویرا پر کمزوری طاری ہورہی تھی۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کا سر چکرا رہا تھا۔ اس کا زخم کافی گہرا تھا۔ ویرا نے جھک کر اس کا معائنہ کیا لیکن پھر جلدی سے سیدھی کھڑی ہوگئی۔ اچانک بنگلے کے دائیں جانب سے کوئی نمودار ہوا جس کو دیکھ کر ویرا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
اف خدایا! نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ وہ ضرور خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ شخص آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ویرا کو یقین ہوگیا کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ کوئی مرا ہوا شخص زندہ ہوسکتا ہے۔
نہیں ہرگز نہیں۔ یہ اس کا وہم تھا۔ اس کے دماغ کا فتور ہے۔ وہ جو کچھ بھی تھا اس کے تھوڑی دور آکر رک گیا۔
’’ویری گڈ مس ویرا ویری گڈ۔ آپ نے اپنی زندگی کا دوسرا قتل بڑی کامیابی سے سرانجام دیا۔‘‘ اس نے تالیاں بجاتے ہوئے لمبورڈ کے اکڑے جسم پر نظر ڈالی جو دھوپ میں بے جان پڑا تھا۔
’’تت۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ ویرا ہکلائی۔
’’ہاں میں! کیوں حیرت ہوئی؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’لیکن۔۔۔ لیکن تم مرگئے تھے۔ ہم نے خود دیکھا تھا‘‘۔ ویرا کا لہجہ کمزور پڑگیا۔
وہ ہنس پڑا۔ ’’کبھی کبھار آنکھوں دیکھا بھی دھوکا ہوتا ہے مس ویرا‘‘۔
’’تو اب تم مجھے مارنے آئے ہو؟‘‘
’’ہاں ہاں! تمہیں مارنا تو ہے لیکن مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ نیچے دیکھو۔ آہستہ آہستہ خون تمہارے جسم سے نکل کر ریت میں جذب ہورہا ہے۔ تمہیں ختم کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ تھوڑی دیر بعد تم خود ہی بے ہوش ہو کر گر جاؤ گی اور میرا کام صرف تمہیں تمہارے کمرے میں موجود پھانسی کے پھندے میں لٹکانا ہوگا۔ اس طرح نظم کے آخری شعر کے مطابق تم بھی ختم ہوجاؤ گی‘‘۔
’’کیوں آخر کیوں؟‘‘ ویرا کے پاس واقعی وقت ختم ہورہا تھا۔
’’کیوں! مس ویرا تم جتنا چاہو حقیقت کو جھٹلاؤ لیکن جو سچ ہے وہ سچ ہے۔ تم ایک قاتل ہو۔ ایک معصوم بچے کی قاتل اور باقی لوگ بھی تمہاری ہی طرح گناہ گار تھے۔ تم جیسے لوگ زندہ رہنے کے قابل نہیں۔ اس زمین پر سے تم لوگوں کے بوجھ کو کم کرنے کا فریضہ میں نے اٹھالیا۔‘‘
’’اوہ تو ہم لوگ گناہ گار ہیں۔ تمہارا پنے بارے میں کیا خیال ہے مسٹر۔ ہم میں اور تم میں فرق کیا رہ گیا ہے۔ ہم قاتل تھے تو تم بھی قاتل ہو۔ تم سمجھتے ہو ہم سب کو مار کر تم بچ جاؤ گے۔‘‘ ویرا چیخ پڑی لیکن اس نے ویرا کی بات کاٹ دی۔
’’میں نے کب کہا کہ میں بچ جاؤں گا۔ فکر مت کرو۔ تمہیں مارنے کے بعد میں بھی زندہ نہیں رہوں گا۔ اگر آج نہیں تو ویسے بھی چند مہینوں کے بعد میں نے مرنا ہی تھا تو کیوں نہ میں یہیں اس جزیرے پر اپنی آخری سانس لوں جہاں میں نے اپنی زندگی کا مقصد پورا کیا۔‘‘ وہ رکا اور گھوم کر سمندر کی طرف مڑگیا۔ ’’تم اگر زندہ رہتیں تو دیکھتیں کہ جب پولیس یہاں آئے گی تو کس مشکل میں گرفتار ہوجائے گی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ یہاں کون سی آفت ٹوٹی ہے۔ وہ کس طرح اس معمے کا حل نکال سکیں گے اور تمہیں پتا ہے مس ویرا‘‘۔ وہ واپس اس کی جانب مڑا۔ ’’یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ کلہاڑی دیکھ رہی ہو‘‘۔ اس نے زمین پر پڑی کلہاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں نے اس سارے ہفتے کی روداد لفظوں میں پرو کر تحریر کی شکل دے دی ہے اور اسے اسی جگہ دفن کیا ہے جہاں پر اس کلہاڑی نے پہلے بھی خون بہایا تھا۔ سالوں بعد اگر کسی نے بھولے سے وہاں کوئی کھدائی کردی تو وہ کاغذات برآمد ہوں گے اور لوگ میری ذہانت پر اَش اَش کراٹھیں گے۔‘‘
ویرا کا دل غصے سے بھرگیا اس نے لاشعوری طور پر اپنا سیدھا ہاتھ بلند کیا اور ٹریگر دبادیا۔
ہنستے ہوئے شخص کی سمجھ میں ہی نہ آیا کہ ہوا کیا ہے۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں نے جھک کر اپنا سینہ دیکھا جہاں پر گولی لگی تھی اور پھر اس کی زندگی نے اسے سر اٹھانے کی بھی مہلت نہ دی اور اس کے جسم سے روح پرواز کرگئی۔
*۔۔۔*
ویرا نے اپنی باقی ہمت جمع کی اور پلٹ کر بنگلے کی طرف آگئی۔ اس کا لرزتا وجود ایک لمحے کے لیے مرکزی دروازے کے سامنے رکا۔ لیکن وہ آگے بڑھ گئی۔
اس شخص نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ حقیقت حقیقت ہے اور آج بلاآخر اس نے بھی یہ بات تسلیم کرلی۔ وہ قاتل ہے۔ اب اس بات پر اس کے دماغ نے کوئی توجیہہ پیش نہ کی۔ اس نے ایک بچے کو قتل کیا تھا اور اسے اس کی سزا ملی تھی۔ اب اس نے بنگلے میں جا کر اپنی مرہم پٹی کرنے کا ارادہ ترک کیا اور بنگلے کے پچھلی جانب بڑھ گئی۔
اسے جاتے جاتے ایک کام کرکے جانا تھا۔ ایک آخری کام۔۔۔!
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر اپنے آفس میں سر پکڑے بیٹھے تھے۔
’’ناقابل یقین‘‘۔ انہوں نے اپنی میز کی دوسری سمت کرسی پر بیٹھے انسپکٹر کو مخاطب کیا۔ ’’دس لوگ ایک جزیرے پر۔۔۔ دس مردہ لوگ، ان کے علاوہ ایک بھی ذی روح موجود نہیں ہے وہاں۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے‘‘۔
’’ایسا ہوچکا ہے سر‘‘۔ انسپکٹر نے مودبانہ انداز میں جواب دیا۔
’’ایک ہفتہ میں دس لوگوں کی موت قدرتی بات تو نہیں ہے۔ ڈاکٹر کیا کہتا ہے اموات کی وجہ کیا ہے؟‘‘
’’کوئی ایک وجہ نہیں ہے سر۔ جج وار گریو اور کیپٹن لمبورڈ کو گولی ماری گئی ہے۔ مس برنٹ، انوتھی مارسٹن اور مسز راجر کو زہر دیا گیا ہے۔ آرم اسٹورنگ ڈوب کر مرا ہے۔ راجر کے سر کو کلہاڑا مار کر دو ٹکڑے کیا ہے۔ ویرا کلیتھرون کی ٹانگ پر گہرا زخم موجود ہے اور ڈاکٹر کے بقول وہ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئی ہے۔ جرنل میکر تھور اور سابق انسپکٹر بلور کے سروں پر کوئی بھاری چیز ماری گئی ہے۔‘‘
’’اُف خدایا‘‘۔ تفصیل سن کر اس کا سر چکرا ہی گیا۔ ’’مطلب ان سب کو قتل کیا گیا ہے لیکن قاتل جزیرے پرموجود نہیں ہے۔‘‘
’’جی سر۔‘‘
قصبے والوں سے بات چیت کی؟‘‘
’’یس سر! وہ لوگ سادے سے ہیں، جزیرے کو پہلے بھی بہت سے امیر کبیر لوگ خرید چکے ہیں تو اس دفعہ جب کسی یو این اوین نامی شخص نے اس کو خرید تو انہیں کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔‘‘
’’اس یو این اوین کا حلیہ تو بتایا ہوگا انہوں نے؟‘‘
’’نہیں سر! انہوں نے کبھی اس شخص کو نہیں دیکھا سارے انتظامات اس کا ایجنٹ مورس نامی ایک شخص کرتا تھا۔‘‘
’’تو پھر اس ایجنٹ کا پتا لگاؤ۔‘‘
’’ہم نے اس کا پتا ڈھونڈ لیا ہے سر لیکن افسوس اب اس سے کوئی معلومات حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ شخص 7 اگست کی رات کو زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں کھانے سے مرچکا ہے۔‘‘
’’ایک اور قتل؟‘‘
’’لگتا تو ایسا ہی ہے۔ قصبے والوں کے بقول اسی ایجنٹ مورس نے 4 ماہ پہلے یو این اوین کے نام پر یہ جزیرہ خریدا تھا۔ ایک دو مہینوں تک اس پر کام ہوتا رہا جس کی نگرانی بھی ایجنٹ مورس کرتا تھا۔ دو ہفتے پہلے یہاں نوکر جوڑا آیا۔ ایجنٹ مورس کے بقول مسٹر اوین باقاعدہ طور پر یہاں آباد ہونے سے پہلے ایک پارٹی منعقد کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے دوستوں کو دعوت دی۔ اس پارٹی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کوئی کھیل کھیلا جانا تھا۔ کھیل کے بارے میں کوئی تفصیل ایجنٹ مورس نے قصبے والوں کو نہیں بتائی، بس انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ ایک ہفتہ تک جریزے پر موجود لوگوں کو بالکل ڈسٹرب نہ کیا جائے نہ ہی وہاں سے ملنے والے سگنل کی پروا کی جائے کیوں کہ یہ سب اس کھیل کا حصہ تھا۔‘‘
’’اور اس بات نے بھی جزیرے والوں کو نہیں چونکایا؟‘‘ اے سی نے بیچ میں مداخلت کی۔
’’نہیں سر! بقول ان کے کہ امیر لوگوں کے اسی طرح کے عجیب و غریب مشغلے ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن جب دو دن پہلے وہاں سے سگنل موصول ہوئے تو ایک ملاح سے صبر نہ ہوا اور وہ کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر نکلا لیکن بارش کی وجہ سے سمندر چڑھا ہوا تھا اور وہ لوگ آج صبح ہی پہنچنے میں کامیاب ہوئے، وہاں پر انہیں دس کے دس لوگ جو جزیرے پر منعقد ہونے والی پارٹی میں مدعو تھے۔ مردہ حالت میں ملے۔‘‘
’’ہوسکتا ہے وہاں کوئی گیارہواں شخص بھی موجود ہو جس کے بارے میں قصبے والوں کو پتا نہ ہو۔‘‘ اے سی نے پرسوچ انداز میں کہا۔
’’نہیں سر! قصبے والوں کے بقول جزیرے تک جانے کے لیے صرف کشتی کو ہی استعمال کیا جاسکتا ہے اور تمام ملاحوں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جزیرے پر صرف دس لوگوں کو پہنچایا گیا ہے۔‘‘ انسپکٹر تھوڑی دیر کے لیے رکا ’’اور اگر کسی طرح وہ گیارہواں شخص وہاں موجود بھی تھا تو اسے آج صبح تک زندہ یا مردہ حالت میں وہیں جزیرے پر ہونا چاہیے تھا کیوں کہ پچھلے ایک ہفتے میں بارشوں کے باعث سمندر بپھرا ہوا تھا اور کوئی ماہر سے ماہر تیراک بھی زندہ تیر کر قصبے تک نہیں پہنچ سکتا۔
’’ابھی تم کسی ڈاکٹر کا ذکر کررہے تھے جو ڈوب کر مرا ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ مسٹر اوین کوئی گیارہواں شخص نہیں انہیں دس میں سے ایک ہے تو کیا یہ ڈاکٹر مسٹر اوین نہیں ہوسکتا۔ جب اس نے باقی سب کو ختم کردیا ہو تو پھر جزیرے سے بھاگنے کے لیے وہ تیر کر جزیرے تک آنے کی کوشش کررہا ہو لیکن پھر سمندر میں ڈوب گیا ہو اور بعد میں کسی لہر نے اسے واپس جزیرے پر لا پھینکا ہو؟‘‘
’’ہم یہ فرض کرسکتے تھے سر اگر ڈاکٹر کی لاش سمندر کے کنارے پائی جاتی لیکن اس کی لاش کو کسی نے واضح طور پر ساحل سے ہٹا کر بنگلے کے پاس لا کر رکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی کوئی جزیرے پر موجود تھا۔
’’اور جزیرے پر سے کوئی ثبوت نہیں ملا؟ ان دس میں سے کوئی بھی ڈائری وغیرہ لکھنے کا عادی نہیں تھا؟‘‘
’’ہمیں تلاشی کے دوران مس برنٹ، مس ویرا اور جج وارگریو کی ڈائریاں ملیں ہیں جن میں کوئی خاص بات تو موجود نہیں لیکن مس ویرا کی ڈائری سے ایک بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ یہ لوگ ایک ترتیب سے مرے ہیں۔ انوتھی مارسٹن، مسز راجر، جرنل میکرتھور، راجر، مس برنٹ، جج وارگریو۔۔۔ اس کے بعد ڈائری میں کچھ موجود نہیں سوائے ایک بات کے کہ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ جزیرے سے غائب ہوگیا ہے، بلور اور لمبورڈ اسے ڈھونڈنے گئے ہیں، بس اس کے بعد کوئی تحریری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
’’لاشیں کہاں کہاں ملی ہیں؟‘‘
’’5 لوگوں کی لاشیں ان کے کمروں سے۔۔۔ دو کی ساحل کے پاس، ایک کی بنگلے سے نزدیک، ایک کی لکڑی رکھنے والے شیڈ سے، ایک کی پچھلے ٹیرس سے ملی ہے‘‘۔
’’قدموں کے نشانات وغیرہ؟‘‘
’’رات کو بارش کی وجہ سے سارے نشانات بہہ چکے ہیں‘‘۔
اسی لمحے اے سی کے پاس رکھے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف موجود شخص کی بات سن کو وہ چونک گیا۔ تھوڑی دیر بات سننے کے بعد اس نے ریسیور واپس رکھا اور انسپکٹر کی طرف مڑا۔
’’ویرا کلیتھرون کی لاش کے پاس سے کچھ شواہد ملے ہیں، چلو اب ہم خود جزیرے جاتے ہیں۔‘‘
اے سی، انسپکٹر اور باقی پولیس ٹیم ویرا کی لاش کے گرد جمع تھی، جب کہ آپریشن کا انچارج افسر ان سے مخاطب تھا۔
’’دیکھئے سر! مس ویرا کی موت ڈاکٹر کے مطابق ان کی ٹانگ پر موجود گہرے گھاؤ سے خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ یہ زخم کسی تیز دھار شے سے لگایا گیا ہے جیسے کوئی چاقو یا کلہاڑی وغیرہ، ساحل کے پاس موجود کیپٹن لمبورڈ کی لاش سے تھوڑی دور ایک کلہاڑی پڑی ملی جس کا پھل بارش کے باعث کافی حد تک صاف ہوگیا ہے لیکن کچھ خون کے قطرے اس پر موجود تھے جن سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وہ خون مس ویرا کا ہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ویرا پر حملہ وہاں کیا گیا تھا تو وہ اتنی دور کیوں آئی اور اگر آبھی گئی تھی تو اس نے بنگلے میں جا کر اپنی مرہم پٹی کرنے کے بجائے یہ لکڑیاں رکھنے کا شیڈ کیوں چنا۔
اس شیڈ کے اندر کیوں کہ بارش کا پانی نہیں آسکتا اس لیے ویرا کی لاش اپنی اصل حالت میں موجود رہی، اب جب اس لاش کا معائنہ کیا گیا تو ایک بات سامنے آئی کہ ویرا کے ہاتھوں پر اس کا اپنا کافی سارا خون لگا ہے جو کہ کوئی خاص بات نہیں۔ یقیناً اس نے ہاتھوں سے زخم کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی شہادت کی انگلی کے پوروں پر سے خون گھسا ہوا ہے جیسے اس نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر انچارج نے اپنے دستانے چڑھائے۔ ہاتھ سے ویرا کی انگلی اٹھا کر دکھائی۔ ’’یہ دیکھتے ہوئے ہم نے اس جگہ کا پوری باریک بینی سے جائزہ لیا اور نتیجتاً ہمیں خاطر خواہ رزلٹ ملا۔‘‘ وہ رکا اور ڈرامائی انداز میں ان سب کو دیکھا۔ ’’ادھر دیکھئے، یہ اس نیچے والی لکڑی پر، ویرا کلیتھرون نے مرنے سے پہلے اپنے خون سے یہاں ایک پیغام لکھا ہے‘‘۔ وہ تھوڑا پیچھے ہٹا تو سب کو واضح طور پر 3 لفظ لکھے نظر آگئے۔
’’اس کے نیچے‘‘
’’جس شخص نے بھی میری اس تحریر کو برآمد کیا ہے اس کو آداب۔۔۔
نیگر آئی لینڈ پر کیا ہوا تھا مجھے اس کے لیے کسی بھی طرح کی تمہید باندھنے کی یقیناً ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ یہ کاغذات میں نے اس جزیرے پر ہی چھپائے ہیں، اس لیے اسے ڈھونڈنے والے کو جزیرے پر پیش آنے والے واقعے کی تفصیل بھی ضرور معلوم ہوگی، یہاں میرا یہ سب لکھنے کا مقصد صرف ایک چیز ہے، دنیا کو بتانا کہ میں کتنا ذہین شخص تھا جس نے ایک ایسا معما ترتیب دیا جس کو حل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ کاغذات یقیناً 6 ماہ ایک دو سال میں کسی نہ کسی کو ضرور مل جائیں گے اور یہی میں چاہتا ہوں، اس تحریر کو لکڑی رکھنے والے شیڈ میں لکڑیوں کے نیچے زمین کھود کر میں صرف اس لیے رکھ رہا ہوں تاکہ یہ فوراً کسی کو نہ مل پائیں، جب سب اپنا دماغ لڑا لڑا کر تھک جائیں تو اس کیس کو حل کرنا ناممکن قرار دے دیں تب اگر کوئی یہ کاغذات ڈھونڈ لے تو الگ ہی مزا آئے گا۔ خیر اب میں اصل بات کی جانب آؤں گا۔ سب سے پہلے مجھے تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔ مجھے بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ خصوصاً جاسوسی کہانیاں، مختلف جرائم اور پھر ان کو ملنے والی سزاؤں کے بارے میں پڑھ کر عجیب لطف محسوس ہوتا تھا۔ میرے دو ہی مشغلے تھے یا تو جاسوسی کہانیاں پڑھنا یا فارغ وقت میں بیٹھ کر یہ سوچنا کہ کوئی جرم کتنے مختلف طریقے سے ہوسکتا ہے۔
جب میں نے اپنی تعلیم حاصل کی تو اپنے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے شعبے کو چنا، یوں میں کچھ ہی سالوں میں ایک جج کا فریضہ انجام دینے لگا۔ جب تک میں جج رہا شاید ہی کوئی ایسا مجرم ہو جسے اپنے کیے کی سزا نہ ملی ہو۔ میری انصاف پسند طبیعت کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی بھی چور، ڈاکو، قاتل سزا سے بچ جائے۔
عمر گزارنے کے ساتھ ساتھ میرے بچپن کی ایک خواہش نے میرے دل میں تناور درخت کی صورت اختیار کرلی۔ اب جب کہ میرے پاس پیسہ اور طاقت دونوں موجود تھے تو میں کچھ خاص کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔ کوئی ایسا معما تخلیق کرنا چاہتا تھا جو انسانی عقل کو حیران کردے، یہ بات میرے ذہن میں ہر طرف چھائی ہوئی تھی، جب میری ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو میرے ڈاکٹر نے مجھے ایک روح فرسا خبر سنائی کہ میری بیماری کی وجہ سے اب میرے پاس صرف کچھ مہینوں کی زندگی بچی ہے، یہ خبر سن کر آخر کار میں نے فیصلہ کرلیا، مجھے مرنے سے پہلے پہلے اپنی خواہش کی تکمیل کرنی تھی۔
ایک دن میری اپنے ایک پرانے ڈاکٹر دوست سے ملاقات ہوئی جو ایک قصبہ میں کام کرتا تھا۔ وہ مجھ سے ایک مشورہ لینے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کی ایک پرانی مریضہ چند دنوں پہلے انتقال کرگئی ہے۔ میرے دوست کو شک تھا کہ وہ قدرتی موت نہیں مری بلکہ اس کے ہاں کام کرنے والے نوکر جوڑے نے اس کو دوا دینے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے اس کا دل بند ہوگیا۔ میرے دوست نے کافی کوشش کی لیکن اسے کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس کا کہنا تھا کہ کچھ جرم ایسے ہوتے ہیں جنہیں قانون چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، چاہے وہ قتل ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات نے مجھے آئیڈیا دیا کہ کیوں نہ میں کسی ایسے شخص کو اپنے طور پر کیفر کردار تک پہنچاؤں جس نے اسی طرح کا جرم کیا ہو۔ جب اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سوچنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ میرے ذہن میں منصوبہ بنتا چلاگیا۔ ایک کے بجائے میں نے ایک ساتھ 9 لوگوں کو ڈھونڈ لیا جو اس طرح کے جرم کرچکے تھے، 2 مجرم تو میرے ڈاکٹر دوست نے جانے بوجھے بغیر ہی دے دئیے تھے۔
جس ہسپتال میں میرا علاج چل رہا تھا وہاں پر ایک نرس نے باتوں ہی باتوں میں اس سرجن کے بارے میں بتایا جس کے ساتھ وہ کام کررہی تھی۔ بقول نرس کے کہ سرجن نے ایک مریضہ کو آپریشن ٹیبل پر غلط شریان کاٹ کر ماردیا تھا۔ اس واقعہ کی تحقیق میں مجھے کچھ زیادہ مشکل پیش نہ آئی۔ اس طرح ڈاکٹر آرم اسٹورنگ میرا تیسرا شکار تھا۔ ایک فوجی کلب جہاں میں اکثر جاتا تھا وہاں سے مجھے جرنل میکر تھور کے قصے کا علم ہوا۔ کیپٹن لمبورڈ کا پتا مجھے جنوبی افریقا سے واپس آنے والے ایک سپاہی نے دیا۔ میری بیوی کی پرانی جاننے والی نے مجھے مس برنٹ اور اس کی مظلوم ملازمہ کا بتایا۔ انسپکٹر بلور کا واسطہ اکثر میرے شعبے سے پڑتا رہتا تھا جب کہ اسی طرح ویرا کلیتھرون اور انوتھی مارسٹن کو ڈھونڈا۔ یوں ان 9 لوگوں پر مبنی میری فہرست مکمل ہوگئی، اب مجھے ایک جزیرہ خریدنا تھا جو بالکل سمندر کے بیچوں بیچ ہو۔ اس کے لیے میں نے نیگر آئی لینڈ کا انتخاب کیا۔ جزیرے کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے میں نے ایک شخص ایجنٹ مورس کا انتخاب کیا جو غیر قانونی کام کرنے کا ماہر تھا۔ اسی نے جزیرے کو خریدا اس کو رہنے سہنے کے لیے ٹھیک کیا۔ سب کو خطوط وغیرہ بھیجے۔ یہ طے ہوگیا تھا کہ 8 اگست کو سب مہمان جزیرے پر پہنچ جائیں گے جس دن مجھے جزیرے جانے کے لیے نکلنا تھا اس سے ایک رات پہلے میں نے ایجنٹ مورس کو ہاضمے کی گولیوں کی صورت میں زہر کی گولیاں دے دیں، اس کو ختم کرنا ناگزیر تھا کیوں کہ وہ میرے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
سب کچھ پروگرام کے مطابق ہوا اور 8اگست کی شام تک 9 افراد جس میں دسواں میں خود تھا جزیرے پر پہنچ گئے۔ اگست کا مہینہ اس لیے منتخب کیا تھا کیوں کہ ان دنوں نیگر آئی لینڈ اور قریبی علاقوں میں کافی بارشیں ہوتی تھیں۔ مجھے اپنا کام ایک ہفتے میں مکمل کرنا تھا اس لیے ضروری تھا کہ جزیرے کا رابطہ قصبے سے بالکل ختم ہوجائے۔۔۔ یہ انتظام مورس نے کردیا تھا۔
میں نے اپنے منصوبے کو اپنے بچپن کی پسندیدہ نظم کے مطابق ترتیب دیا تھا اور اس سارے معاملے میں وہاں موجود لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کے لیے دس گلاس ڈولز بھی خاص طور پر رکھوائی تھیں، میں ان لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ذہنی اذیت سے دوچار کرنا چاہتا تھا۔ ان کے اندر خوف تجسس اور سنسنی پھیلانے کے لیے پراسرار فضا قائم رکھنا ضروری تھا۔
پروگرام کے مطابق پہلا شکار مجھے اسی رات کرنا تھا اور وہ تھا انوتھی مارسٹن، راجر کو پہلے ہی ہدایات مل گئیں تھیں کہ کھانے کے بعد ٹیپ ریکارڈز میں کیسٹ لگانا ہے، اب جو کیسٹ کے بعد افراتفری پھیلی اس میں کسی نے دھیان نہیں دیا کہ میں نے انوتھی مارسٹن کے کپ میں کچھ ملایا ہے۔ کافی کا وہ کپ پیتے ہی 5 منٹ کے اندر اندر مارسٹن ختم ہوگیا۔
مسز راجر کے لیے میں نے کم اذیت ناک موت کا طریقہ کار چنا کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ اس نے جو کچھ کیا اپنے شوہر کے دباؤ ڈالنے پر کیا تھا۔ مسز راجر کو ڈاکٹر نے جب حواس بحال کرنے کے لیے کافی پلائی تو اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کپ میں نیند کی دوا زیادہ مقدار میں گھلی ہوئی ہے۔ یوں مسز راجر سکون سے سوتے انتقال کرگئیں۔ دوسرے دن میری توقع کے مطابق مسز راجر کی موت کا سن کر لمبورڈ، آرم اسٹورنگ اور بلور جزیرے پر مسٹر اوین (وہ فرضی نام جو میں نے جزیرے کے مالک کے طور پر استعمال کیا تھا) کی تلاش میں نکلے جب کہ مس برنٹ، ویرا اور راجر اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ تھوڑی سی احتیاط سے کام لیتے ہوئے بغیر کسی کے نوٹس میں لائے، میں ساحل کے کنارے بیٹھے جرنل میکر تھور کے پاس پہنچ گیا۔ وہ رات ہی سے بہت پریشان تھا۔ شاید اسے اپنے دوست کو موت کے منہ میں بھیجنے پر پچھتاوا تھا۔ خیر جو بھی تھا اس وقت اس نے میری آہٹ نہ سنی، اس کی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اس کے سر کے پچھلی جانب ایک بھاری چیز دے ماری، وہ پہلے ہی کافی کمزور تھا اس جھٹکے کی تاب نہ لاسکا اور چل بسا۔
شام تک سب کو معلوم ہوگیا کہ جرنل میکرتھور بھی مر گیا ہے۔ اب باقی بچے لوگوں کو صرف واقعات کی کڑی ملانی تھی، لمبورڈ وغیرہ کی تلاشی کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یوں سب کو اندازہ ہوگیا کہ قاتل ہم میں سے ہی کوئی ایک ہے۔ دوسری طرف میں نے میز پر رکھی دس گڑیوں میں سے 3 غائب کرکے سمندر میں پھینک دیں تھیں۔ ان سب واقعات سے ان چھ لوگوں میں بے چینی پھیل گئی اور ہرکوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے تمام نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
اس صورتحال میں مجھے کوئی پارٹنر چاہیے تھا جو مجھ پر اعتماد کرلے اور میرے ساتھ مل کر کام کرے۔ اس کے لیے میں نے آرم اسٹورنگ کو چنا، کیوں کہ آرم اسٹورنگ مجھے جج کے طور پر جانتا تھا اور اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسا شخص یہ سب کرسکتا ہے، اسے اعتماد میں لینے کے لیے مجھے اس سے کافی باتیں بگھارنی پڑیں وہ بھی مجھ سے بے تکلف ہوگیا۔ اسے کیپٹن لمبورڈ پر سب سے زیادہ شک تھا، پھر باتوں ہی باتوں میں میں نے اس سے سرسری تذکرہ کیا کہ میں نے مجرم کو پکڑنے کے لیے ایک طریقہ سوچا ہے۔ اس کے علاوہ میں نے اسے کوئی تفصیل نہیں بتائی تاکہ وہ تجسس میں مبتلا ہوجائے۔
10 اگست کی صبح عین نظم کے چوتھے مصرے کے مطابق میں نے صبح صبح راجر کا سر اس وقت دو ٹکڑے کیا جب وہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ اس کی جیب سے کھانے کے کمرے کی چابیاں نکال کر میں نے کھانے کی میز پر سے چوتھی گڑیا کو غائب کردیا۔ پھر میں خود جا کر سونے لیٹ گیا۔
10 بجے جب راجر کسی کو جگانے نہیں آیا تو باقی لوگ بے چین ہو کر خود ہی باہر نکل آئے۔ افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے لمبورڈ کی پسٹل چرالی۔ بعد میں اسے لے جا کر اس الماری میں جہاں بند ڈبوں میں کھانے کا سامان رکھا تھا، ایک ڈبہ میں چھپادی۔ کسی کا اس طرف دھیان بھی نہیں جاتا۔
میرے پاس اب صرف 2 نیند کی گولیاں اور ایک انجکشن بھرا زہر بچا تھا۔ انہیں کو مجھے مس برنٹ پر آزمانا تھا۔ اس سے پہلے کہ تلاشیاں شروع ہوتیں ناشتے کے آغاز میں سب سے نظر بچا کر دو نیند کی گولیاں مس برنٹ کے چائے کے کپ میں ڈال دیں جس کی وجہ سے انہیں شدت سے نیند آنے لگی، جب ان کا سر چکرانے لگا تو وہ سمجھیں ان کی طبیعت خراب ہے نتیجتاً انہوں نے تھوڑی دیر تک کھانے کے کمرے میں ہی بیٹھے رہنے کا ارادہ ظاہر کیا، باقی سب ان کے آرام کے خیال سے کمرے سے چلے گئے، جاتے جاتے میں ایک شہد کی مکھی جو میرے پاس پہلے ہی سے ایک ڈبے میں بند موجود تھی اسے وہاں کھول دیا۔
کافی دیر بعد جب مجھے یقین ہوگیا کہ اندر کمرے میں کوئی نہیں بچا سوائے مس برنٹ کے تو میں واپس کمرے میں آگیا۔ اس وقت تک مس برنٹ کا دماغ تقریباً سوگیا تھا۔ میں نے اس دفعہ ڈاکٹر کے میڈیکل کیس سے سرنج نکال کر اس میں زہر بھر دیا تھا۔ اس وقت میں نے اس سرنج کو مس برنٹ کی گردن میں چبھودیا۔
لاش ملتے ہی سب کی فرداً فرداً تلاشی شروع ہوئی۔ پسٹل میں پہلے ہی چھپا چکا تھا اور کسی بھی قسم کا زہر یا دوا میرے پاس باقی نہیں تھی اس لیے تلاشی لینے پر کچھ بھی نہیں ملا۔
میری توقع کے مطابق ڈاکٹر اس واقعے کے بعد میرے پاس آیا اور دریافت کیا کہ میں نے مجرم کو پکڑنے کے لیے کیا طریقہ سوچ رکھا ہے۔ وہ مجھ پر پورا اعتماد کیے ہوا تھا تھوڑی ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں نے اسے بتایا کہ اب ہم دونوں مل کر قاتل کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اب میں مرنے کی اداکاری کرتا ہوں۔ اس سے دو فائدے ہوں گے کہ ایک تو قاتل چکرا کر کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کردے گا جس سے اس کی اصلیت ظاہر ہوجائے۔ دوسرا یہ کہ اگر قاتل کا پتا نہ بھی چلا تو میں آزادی سے تفتیش کرسکوں گا، کسی کا دھیان میری طرف نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر نے جھٹ ہامی بھرلی۔ اب ہم نے مل کر ویرا کے کمرے میں سمندری پودا لگایا تاکہ وہ ڈر جائے اور سب اس کی طرف متوجہ ہوجائیں، اتنی دیر۔۔۔ میں اپنے مرنے کا اسٹیج سیٹ کرلوں گا جس کے لیے باتھ روم کا لال پردہ اور مس برنٹ کی سرمئی اون میں نے ڈرائینگ روم میں صوفے کے کشن کے نیچے چھپائی ہوئی تھی۔
واقعی ویرا نے کمرے میں جاتے ہی چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیا۔ آرم اسٹورنگ، بلور اور لمبورڈ کے ساتھ اوپر بھاگا اور میں سب کچھ سیٹ کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔ خون کے طور پر لال رنگ استعمال کیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ نیچے آگئے اور مجھے دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔ قریب سے مجھے صرف آرم اسٹورنگ نے چیک کیا اور مردہ قرار دے دیا۔
جب وہ سب سونے چلے گئے تو میں باہر چلا گیا اور آرم اسٹورنگ کی کھڑکی پر پتھر مار کر اسے باہر بلایا۔ آرم اسٹورنگ بھی کچھ سوچے سمجھے بغیر مجھ سے ملنے آگیا۔ میں اسے لے کر پہاڑی کے اوپر آگیا اور راستے میں اسے بتایا کہ مجھے ایک خاص بات معلوم ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ باتیں کرتے کرتے میں نے ایک دم چونک کر سمندر میں جھانکا۔ اس نے بھی میری تقلید کی۔ میں نے پھرتی سے کام لیتے ہوئے اسے دھکا دے دیا۔ یوں وہ سمندر کی گہرائیوں کی نظر ہوگیا۔
ادھر آرم اسٹورنگ کوڈھونڈتے ہوئے بلور اور لمبورڈ باہر نکل آئے جبکہ میں چھپ چھپا کر واپس کمرے میں آگیا جبکہ ساتھ میں میز پر سے ایک گڑیا مزید غائب کردی۔
آج آخر وہ دن بھی آگیا جب جزیرے پر میرے علاوہ صرف 3 لوگ رہ گئے۔ پوری صبح وہ لوگ مدد کے سگنل بھیجتے رہے۔ آخر دوپہر میں بلور نے اکیلے بنگلے کا رخ کیا۔ میں پہلے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ ویرا کے کمرے میں میں نے پہلے ہی ایجنٹ مورس کے ذریعے ایک بھالو کی شکل کی ماربل کی گھڑی رکھوائی تھی تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
جیسے ہی بلور کھڑکی کے نیچے سے گزرا میں نے وہ گھڑی اسے دے ماری اور اس کا سر پچک کر رہ گیا۔
اوہو! میری کھڑکی سے یہ منظر صاف نظر آرہا ہے، ویرا اور لمبورڈ، آرم اسٹورنگ کی لاش اٹھائے یہاں لارہے ہیں اور میں نے خود دیکھا ہے کہ ویرا نے لمبورڈ کی جیب سے پسٹل نکال لی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ ایک اور قتل کرے گی۔ وہ ضرور پسٹل سے لمبورڈ کو ڈرائے گی صرف، مجھے اب ایسا کچھ کرنا ہوگا جس سے وہ واقعی لمبورڈ کو گولی ماردے۔
اچھا پھر میں یہاں پر اس کا اختتام کرتا ہوں۔ جاتے جاتے یہ بھی بتادوں کہ میں ویرا کو ٹھکانے لگانے کے بعد خود بھی اپنی آخری سانس اسی جزیرے پر لوں گا جہاں میں نے اپنے بچپن کا خواب پورا کیا۔
فقط
جج لورنس وارگریو
اے سی نے گہری سانس لے کر وہ صفحہ ختم کیا اوربے یقینی سے اسے گھورنے لگا۔ انسپکٹر جو اس کے کندھے کے پیچھے کھڑے ہو کر وہ تحریر پڑھ رہا تھا، سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
’’ویرا کلیتھرون کی ٹانگ پر ضرور جج نے ہی حملہ کیا ہوگا تاکہ وہ خون کی کمی کے باعث کمزور پڑ جائے اور جج اسے آرام سے اس پھانسی کے پھندے پر لٹکادے جو اس کے کمرے سے ملا ہے۔‘‘
اے سی نے وہ کاغذات ایک آفیسر کے ہاتھ میں تھمادیے۔
’’لیکن ویرا نے ہمت دکھاتے ہوئے اسے ہی گولی ماردی ہوگی‘‘۔ انسپکٹر نے سر ہلایا۔ ’’ اور پھر کسی نہ کسی طرح یہاں تک پہنچ گئی ہوگی۔‘‘
’’جج وارگریو کی روح ابھی بھی بے چین ہی ہوگی کیوں کہ ویرا نے اس کا مقصد پورا نہیں ہونے دیا اور وہ ہار گیا۔‘‘ اے سی نے یہ کہہ کر واپس ساحل پر منتظر موٹر بورڈ کی طرف قدم بڑھادئیے کیوں کہ اب اس جزیرے پر اس کا کوئی کام باقی نہیں رہا تھا۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...