(Last Updated On: )
مرنا اگر ضرور ہے تو جینا چاہیے
ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہیے
چاہے کہ دیکھ کر بھی نہ دیکھا کرے کوئی
اس حکمراں کو خلقت نابینا چاہیے
دیکھیں کہ عکس کوئی بدلتا ہے کس طرح
اک اور آئینہ پس آئینہ چاہیے
بیٹھے رہیں مرقعٔ ایام کھول کر
قربت میں کوئی ہمدمِ دیرینہ چاہیے
طے کر سکو گے راہِ محبت کی منزلیں!
دل میں بہت غرور بڑا کینہ چاہیے
آ اس طرح سے حسن کو نا مطمئن کریں
اس زخم شاعری کو کبھی سینا چاہیے
٭٭٭