پلاٹ پر طائرانہ نظر
مرکزی خیال
ملن کنڈیرا نے ’’دی جوک‘‘ میں عام خیال کے مطابق ریاست میں ’’ٹوٹالی ٹیرینزم‘‘ کو طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی ریاست میں شہریوں کی ذاتی آزادی قریب قریب ضبط ہوکر ریاست کے قابو میں آجاتی ہے۔ اس اصطلاح کو پہلے پہل اطالوی ڈکٹیٹر مسولینی نے استعمال کیا تھا۔
پلاٹ
اس ناول کا مرکزی کردار جو داستان گو بھی ہے، لڈوک جاہن، اس مذا ق کو یاد کررہا ہے اور اس پورے معاملے پر تجزیاتی نظر ڈال رہا ہے جس نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ۱۹۵۰ء کا ابتدائی زمانہ ہے۔ وہ اپنے اسکول اور یونی ورسٹی کا فعال، زیرک اور سب میں مقبول اور ممتاز طالبِ علم ہے۔ طالب علموں کی اکثریت کے ساتھ وہ بھی مابعد جنگِ عظیم دوم چیکو سلواکیا میں تشکیل پانے والی اوّلین کمیونسٹ حکومت کا پُرجوش حمایتی تھا۔
موسمِ گرما کی چھٹیوں میں اس کو اپنی ہم جماعت سے چھیڑ چھاڑ کی سوجھتی ہے اور وہ اس لڑکی کو ایک پوسٹ کارڈ بھیج دیتا ہے۔ چوںکہ لڑکی سنجیدہ مزاج کی ہوتی ہے لڈوک اس کو تحریر بھی سنجیدہ روانہ کرتا ہے۔ پوسٹ کارڈ پر اس کا تحریر کردہ فقرہ کچھ یوں ہوتا ہے، ’’رجائیت انسانیت کے لیے افیون ہے۔ صحت افزا فضا حماقت آلود ہوتی ہے۔ زندہ باد ٹروٹسکی۔‘‘
لڈوک کا یہ مذاق اور پوسٹ کارڈ پر لکھے ہوئے فقرے کا طنز عام ذہنوں کی پہنچ سے اونچا ثابت ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ لڈوک کمیونسٹ پارٹی اور چیکو سلواکیا کی نوزائیدہ حکومت کے خلاف جذبات کو ہوا دے رہا ہے۔ اسکول کی انتظامیہ، بڑے طالب علم لیڈر اور فوج کے متعلقہ محکمے کے سربراہ اس کو لائقِ تعزیر گردانتے ہیں۔ درحقیقت ’’زندہ باد ٹروٹسکی‘‘ نے سارا فتنہ کھڑا کیا تھا۔ لڈوک کو پارٹی اور یونی ورسٹی سے خارج کرکے فوج کے تادیبی شعبے کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کے تحت اس کو محنتِ شاقہ کی سزا دے کر کسی کان میں کام کرنے پر لگا دیا جاتا ہے۔
لڈوک کا سال اوّل کی طالبہ مارکٹا کو موسمِ گرما کی چھٹیوں میں محض تفننِ طبع کی خاطر بھیجا ہوا مذکورہ پوسٹ کارڈ اس پر عذاب بن کر ٹوٹتا ہے۔ یہ ناول ’’مذاق‘‘ کا پہلا ’’مذاق‘‘ ہوتا ہے۔ ناول کا دوسرا مذاق بہ ظاہر مذاق ہے، لیکن درحقیقت انتقام کی ایک مضحک صورت ہوتا ہے۔ جن طلبہ نے لڈوک کے ایک ہم جماعت لڑکی مارکٹا کو بھیجے ہوئے پوسٹ کارڈ کو خوف ناک مفاہیم میں ڈھال کر اتنے سخت عذاب میں مبتلا کیا تھا، ان میں پاوِل زمانک نامی طالبِ علم پیش پیش تھا۔ لڈوک نے اس سے انتقام لینے کا جو طریقہ نکالا وہ قدرے مضحکہ خیز تھا۔ لڈوک نے پاول زمانک کی بیوی پر ڈورے ڈالے اور اس طرح اس کی خانگی زندگی بزعم خود تہ و بالا کر ڈالی۔ لڈوک کو اس سے تشفی حاصل نہیں ہوئی۔ لڈوک نے دیکھا کہ اس دوسرے ’مذاق‘ کے نتائج بھی خلافِ توقع برآمد ہوئے۔ تب جاکر اس کو محسوس ہوا کہ دنیا میں اور انسانی زندگی میں صرف انسانی اعمال کی کارفرمائی نہیں ہوتی، بلکہ دیگر عوامل بھی اپنے اہم اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں۔ انسان کے ’مذاق‘ کے عقب میں مذکورہ دیگر عوامل کے بارے میں کوئی واضح بات کہنے سے گریز کرتے ہوئے ملن کنڈیرا ان معاملات کو ’’تاریخ کے جبر‘‘ سے ملا دیتا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ آدمی بالآخر ان طاقتوں کو تو ذمے دار نہیں گردانے گا جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
’’دی جوک‘‘ کی پذیرائی
ملن کنڈیرا کی اس اوّلین تصنیف ’’دی جوک‘‘ کو قرار واقعی اعتبار اور اہمیت دی گئی۔ تراجم انگریزی اور دوسری زبانوں میں ہوئے۔ انگریزی میں ایک ترجمہ ۱۹۹۲ء میں بھی شائع ہوا۔
ناول ’’دی جوک‘‘ پر چیک زبان میں ایک فلم بھی بنی۔ اگرچہ اس پر حکومت نے فوری طور پر بندش لگادی۔
گیتوں کے البم میں ’جوک‘ کی شمولیت
ملن کنڈیرا کی اوّلین زمانۂ طالب علمی میں لکھی جانے والی کتاب ’’دی جوک‘‘ کو اس وقت کے موسمِ خزاں کے گیت میں بھی جگہ ملی، سربرل کاسٹک (The Album Cerebral Caustic) میں یہ گیت ’’دی جوک‘‘ کے نام سے شامل ہوا۔ اس گیت کے ٹیپ کے مصرعے میں ’’دی جوک‘‘ کے ساتھ پی سی کیمپ میں پانچ سال کا حوالہ بھی جڑا تھا۔ مشرقی بلاک میں حکومتی جبریت (Authoritarianism) کا موسیقی میں ذکرِ خیر۔
بیس ویں صدی کی سو بہترین کتابوں میں ’’دی جوک‘‘ کی شمولیت
میلان کنڈیرا کے ناول ’’دی جوک‘‘ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہوا کہ اسے لی مونڈے (Le Monde) کی رائے شماری کے تحت منتخب کی جانے والی ’بیس ویں صدی کی سو بہترین کتابوں میں‘ شامل کیا گیا۔ اس انتخاب میں یہ ناول سینتالیس ویں نمبر پر موجود ہے۔
’’دی جوک‘‘ کا نیو ویو (New Wave) فلموں میں شمار
’’دی جوک‘‘ چیک فلموں میں اس گروہ میں شامل ہونے کے اعزاز کا بھی حامل ہے جس کو ’’نیو ویو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
’’دی جوک‘‘ بطور ایک کامیاب فلم
جارومل جیرس (Jaromil Jires) جیسے بڑے فلم میکر نے ’’دی جوک‘‘ کو فلمایا جو اس زمانے کی سب سے زیادہ متنازع فلم ثابت ہوئی۔ کنڈیرا نے اس کی فلم اسکرپٹ (کہانی) پر کتاب کی اشاعت سے قبل ہی کام شروع کردیا تھا (ناول ۱۹۶۷ء میں سامنے آیا)۔ وہ جلد ہی تیار بھی کی جانے لگی۔ اس وقت کو پراگ ۱۹۶۸ء موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ فلم کے مکمل ہونے تک سوویت حکمران (اگست میں) آگئے۔ فلم کامیاب ثابت ہوئی۔ تھوڑی سی مدت کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا اور آئندہ بیس سال تک وہ دکھائی نہ جاسکی۔
جارومل جیرس کی دیگر فلموں سے ’’دی جوک‘‘ ایک مختلف تجرباتی مزاج کی فلم ہے۔ اس میں ’’فلیش بیک‘‘ پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ اس میں اسٹالن اور اسٹالینی عہد کی شدید اور سخت حکمرانی سے نقاب اٹھایا گیا تھا۔ اس فلم میں ایک خاص بات یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ اس کا پلاٹ ناول کے مقابلے میں خاصا واضح ہے۔ اس ناول کے کسی بھی انگریزی ترجمہ سے ملن کنڈیرا کو تشفی نہیں ملی تھی۔ یہ واقعی حیرانی کی بات ہے کہ فلم میں کسی بھی نکتے پر کوئی الجھن نہیں ملتی۔ ناول میں نہ تو اصل واقعہ ہی کھل کر سامنے آتا ہے اور نہ ہی متنازع پوسٹ کارڈ میں دیا ہوا فقرہ اور نہ ہی انتقام کی صورت واضح ہوتی ہے۔ فلم میں پلاٹ، مذاق، مذاق کا شاخسانہ، انتقام اور مابعد انتقام والی پشیمانی سب کچھ Suspension of disblief (شک سے ماورا) کی حد تک پیش کیا گیا ہے جو سمجھ میں آجاتا ہے۔ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کہانی ہے خود ناول کے مصنف ملن کنڈیرا کی۔
مارکٹا (اسکول کی طالبہ) کو چھیڑنے کے لیے جو پوسٹ کارڈ بھیجا گیا، اس کا اصل سبب بھی (فلم میں) معلوم ہوجاتا ہے کہ ان لڑکوں کو یہ خبر مل جاتی ہے کہ مارکٹا، مخالف اسٹالن نظریات میں دل چسپی لینے لگی ہے۔ محض یہ بتانے کے لیے کہ مارکٹا کی یہ دل چسپیاں راز نہ رہ سکی ہیں، پوسٹ کارڈ میں وہ فقرہ لکھا گیا جو بعد میں لائقِ تعزیر بنا۔ فلم میں یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ پوسٹ کارڈ کومحکمہ ڈاک کے سنسر کرنے والے درمیان میں پکڑ لیتے ہیں اور اس پر کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ چھہ سال کے بعد reduction کی سزا دی جاتی ہے۔
Reduction اصل میں ری ایجوکیشن (Re-education) ہے۔ اس کے اصطلاحی معانی یہ لیے جاتے ہیں کہ ایسے قید خانے، جیل، کیمپ یا ادارے جن میں کسی فرد یا گروہ میں نظریے، عقیدے یا خیالات کی تبدیلی (برین واشنگ brain washing) کے مقصد سے تعلیم و تربیت دی جاتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا استعمال ویت نام کی جنگ میں کمیونسٹ علاقوں میں کیا گیا اور عملی شکل بھی دی گئی۔ ان کیمپوں میں سزا کا عنصر بہرصورت غالب آتا ہے جیسے ملن کنڈیرا کے حق میں یا اس کے ناول ’’دی جوک‘‘ کے مرکزی کردار کے حق میں ’کان‘ میں شدت کی محنت کے فرائض کی ادائی کا جبر یا جبری مشقت۔
آج کی دنیا میں ری ایجوکیشن، ری ڈکشن کی صورت ہومو سیکس کے مریضوں کی اصلاح کے اداروں میں دیکھی جاسکتی ہے، البتہ ان میں جبر کا معاملہ نہیں ہوتا۔
ریبیکا اسٹیٹنر (Rebecca Steitner)
ریبیکا اسٹیٹنر نے اپنے ایم فل کے مقالے میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ناول ’’دی جوک‘‘ مصنف ملن کنڈیرا ایکزسٹنشیا لسٹ (Existentialist، وجودی) فکریات، لفظیات سے بھری پڑی ہے۔ انتخاب اور وجودیت (ایگزسٹنس) خود فریبی یا آزادی کے الفاظ اکثر اوقات ترچھی لکھائی سے نمایاں کیے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ صرف الفاظ نہیں جو لڈوک اپنے بیانیے میں استعمال کرتا ہے۔ یہ ناول کے مرکزی نکات اور موٹف ہیں جو دہرائے جاتے رہتے ہیں۔ اس ناول کے اہم کرداروں کے سامنے انتخاب کرنے کا معاملہ آکھڑا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ماضی میں بارِ دیگر اس طرح داخل ہوتے ہیں کہ سابقہ اقدار برباد ہوچکی ہوتی ہیں۔
اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ناول میں خیالات کا اظہار براہِ راست نہیں ہوتا، بلکہ گھما پھراکر اور تنقیدی انداز میں ہوتا ہے۔ اس سبب سے اس ناول کو وجودیت سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ ملن کنڈیرا نے اپنی کتاب ’’آرٹ اوف دی ناول‘‘ صفحہ ۱۳۱؍ میں اس سے اختلاف کیا ہے۔
وجودیت سے مربوط ادیبوں جیسے سارتر نے ہمیشہ فکشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔٭
وجودیت (Existentialism)
فلسفیانہ فکر کی اس روایت سے متعلق ہے جس کا آغاز بیس ویں صدی میں یورپ میں ہوا۔ اس روایت کے تحت انسان کو زندگی گزارنے والے فرد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ صرف سوچنے والے فرد کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ اس کو زیادہ تر ژاں پال سارتر سے جوڑا جاتا ہے۔ اس تھیوری سے دیگر مفکر بھی متعلق ہیں۔ کارل جیسپرس (Karl Jaspers)، مارٹن ہیڈیگر (Martin Heldagger)، گیبرئیل مارسل (Gabriel Marcel)، البیئر کامیو، سیمون دی بوار (Simone de Beauvior) اور میگوئل ڈی اونا مانو (Mignuel de Unameno) وغیرہ۔
اس کو مکتبِ فکر کے بجائے ایک نوع کا مشترک رجحان کہنا مناسب ہوگا۔ سارتر کے مطابق وجودی مفکر موجود ہونے کو وجود کی اصل پر فوقیت دیتا ہے۔
Existence precedes essence.
جس کو انسانیت کا نام دیا جاتا ہے وہ انسان انفرادی طور پر اپنے آزادنہ اعمال سے پیدا کرتے ہیں۔ وجودیت کو اوّلیت حاصل رہتی ہے۔
ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre)
ایڈمنڈ ہسیری (Edmund Husseri) کے شاگردوں میں سے ایک فلسفی جس کا شمار بیس وی صدی کے اکابر مفکرین میں ہوتا ہے (۱۹۰۵ء- ۱۹۸۰ء)۔ وہ مفکر، مقالہ نگار، ناول نگار اور ڈراما نگار کی حیثیت سے بھی بڑا قلم کار تسلیم کیا جاتا ہے۔
اپنے ناول ’’نازیہ‘‘ (Nausea) شائع شدہ (۱۹۳۸ء) میں اس کی ابتدائی فلسفیانہ فکر فکشن کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اس سے قبل سارتر کا ایک ادبی مقالہ شائع ہوچکا تھا۔ اس کا عنوان Transcendence of Ego تھا، اور یہ مقالہ ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک مقالہ Being and Nothingness ۱۹۴۳ء میں ادبی منظر پر نمودار ہوا۔ ۱۹۴۶ء میں ایک مضمون موضوعِ بحث بنا جس کا عنوان تھا Existentialism is a Humanism۔ کہا جاتا ہے کہ ان تحاریر میں ہسیری کے علاوہ ہیڈگر (Heidegger) اور کیرکے گارڈ (Kierkegaard) کے اثرات بھی مل جاتے ہیں۔ سارتر کی فکر کے مطابق، میں وہ نہیں ہوں جو ماضی میں تھا، میں مستقبل میں اپنا منتظر ہوں۔