روز دیر رات تک عاشر سے بات کرنا معمول تھا اسکا۔۔ورنہ نیند کہاں آتی تھی۔۔اسکی آواز سنے بغیر۔۔ابھی بھی عاشر کی کال تھی۔جو اسے ملنے کے لیے راضی کر رہا تھا انابیہ میں ملنا چاہتا ہوں تم سے۔۔کیا ہوگیا۔۔۔انابیہ پریشان ہو گئی ملو گی کے نہیں۔۔دوبارہ پوچھا گیاگھر آجائیں۔۔۔وہ بولی۔۔نہیں گھر نہیں باہر ملو۔جانتی ہونا امی کو پتا چلا تو میری خیر نہیں ہو گی۔نہیں آسکتی۔۔امتحان ہے تمھاری محبت کا۔۔۔محبت کرتی ہو تو آؤ گی۔۔۔وہ غصے میں بولا۔۔۔سمجھو بات کو نہیں آ سکتی۔۔۔تم سمجھو میری بات کو۔۔۔وہ چلایا۔۔میں پہلے بتا چکی ہوں کہ نہیں آسکتی ۔۔۔بیا میری خاطر۔۔۔۔عاشررررررر پلیز۔۔بیا۔۔آئی لو یو یار۔وہ ایموشنل بلیک میلنگ کرنے پر آگیا۔اوکے بٹ وائے۔۔سوال کیا گیا۔آئی وانٹ ٹو سی یو مائی لو۔روز تو دیکھتے ہو وہ ناراضگی سے بولی۔لیکن قریب سے دیکھنا چاہتاہوں ناں وہ مجبور کر رہا تھا اب۔روز قریب سے ہی دیکھتے ہو جناب۔بہت قریب سے دیکھنا ہے ناں جان۔ہاہاہا اوکے ناں عاشر۔۔کب آؤ گی۔۔سوال ہوا۔سون ﮈیئر۔۔کل تین بجے اوکے۔۔عاشر نے گویا فیصلہ سنایا۔لیکن کہاں۔۔تمھاری فیورٹ جگہ۔او واو اوکے۔۔۔وہ خوش ہوگئی۔اب سو جاؤ ۔نیند کہاں آئے گی میری جان۔۔وہ رومینٹک ہوا۔پاگل۔۔بیا شرمائی۔
ہاں تم۔۔۔جواب ملا۔رات کے تین بج رہے ہیں۔سو جاؤ اب۔اوکے مائی لو ۔۔بائی۔بائی ۔۔۔لو یو۔۔لو یو ٹو ۔۔کال ﮈسکنکٹ ہو گئی۔سو جا بیا تین بج گئے۔۔دل نے بھی آواز لگائی۔۔اف کل جانا ہے۔ لیکن کیا بہانا کرو گی۔انابیہ سوچ میں پڑھ گئی۔نیند ہی أڑ گئی ہے میری تو۔۔عائشی سے بات کرتی ہوں۔آخر کس کام آئے گی عائشہ۔۔سوچتے ہی کال کی۔اٹھاؤ عائشی یار۔۔آخر کار کال ریسو کر لی گئی۔۔۔کیا مسئلہ ہے۔سونے بھی دے۔عائشہ غصے میں بولی۔ﮈرامے نہیں کر ابھی آن لائن تھی۔تبھی کال کی میں نے۔ یار تو اب سو رہی ہوں نا اچھا بول ۔وہ جانتی تھی بیا جان نہیں چھوڑے گی۔بیا بھی اصلی مدعے پر آئی مدد چاہیۓ۔ بول کیا کام ہے۔کیسے یاد کیا۔کیا مدد کرو
کل ملنا ہے عاشر سے۔تو تیرے گھر آؤ گی وہی سے کوچنگ کے بہانے چلیں گے ابو جان نے اجازت دے دی ہے۔بیا نے تفصیل سے بتایا
نو وے۔۔عائشہ چیخی۔بھائی گھر ہو گے کبھی نہیں جانے دیں گے اینﮈ فار یور کائنﮈ انفارمیشن کل میری کوئی کلاس نہیں ہے۔میرا آف ہے۔۔۔میرے ساتھ بھی نہیں چلے گی وہ ناراض ہوئی۔یار بھائی کا مسئلہ ہے سب۔بھائی سے میں بات کر لوں گی۔۔انابیہ نے بات سمبھالی۔آۓ ہاۓ۔۔۔بول ایسے رہی ہے جیسے بھابھی ہو میری۔۔عائشہ ہنسی وہ کبھی کبھار انابیہ کوبھابھی کہتی تو وہ چڑ جاتی تھی۔اور اسے چڑا کر مزے لیتی اور ہنستی تھی۔اب بھی یہی کر رہی تھی۔ بکواس بند کر۔وہ دانتوں پر زور ﮈال کر بولی۔عائشہ کی ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔میں صرف اور صرف عاشر کی ہوں وہ اترائی۔ہاں بھئ تو عاشر کی ہے اسی کو بخشی رہ وہی تجھے سمبھال سکتا ہے۔ہاہاہا بدتمیز صبح آؤ گی اوکے۔نہیں کل نہیں پرسوں آنا اب سونے دے وہ چیخ کر بولیویسے دن کیا ہے کل۔
کل منگل ہے ارے ہے کلاس میں بھول گئی تھی اب سو جاؤں میں ہاں مر جا جھوٹی۔۔انابیہ نے ہنس کر کال ﮈسکنکٹ کی اور فیس بک کھول کر اسکرولنگ کرنے لگی
**___________**
امی میں جاؤ ۔۔وہ تیار ہوئی کچن میں داخل ہوئی
کہاں جا رہی ہو۔۔جہاں زینب بیگم دوپہر کے کھانے کے لیے سبزی کاٹ رہی تھی۔۔پوچھنے لگی۔اوفو امی جان بتایا تو تھا آپکو عائشہ کے گھر جانا ہے۔اور وہاں سے کوچنگ جائیں گے۔انابیہ نے تفصیل بتائی ۔ٹھیک ہے جاؤ اور جلدی آنا۔شارم کے لیے لڑکی دیکھنے جانا ہے۔۔کیا وہ چلائی۔۔بھائی کے لۓ لڑکی ۔آپنے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا میں ناں جاتی آج۔وہ ناراض ہوئی۔اب تو بتا دیا ہے ناں۔جلدی آنا بیٹھ مت جانا میں اکیلی نہیں جاؤ گی تمھارے ابو نے کہا ہے تمھیں بھی لے جاؤ۔انھوں نے نصیحت کی۔ہے کون ۔۔کیسی ہے۔وہ جو جانے کے لیے تیار تھی بیٹھ گئی۔ اور تفصیل پوچھنے لگی۔پتا نہیں کیسی ہے ۔جائیں گے تو پتا چلے گا۔اور تمھارے ابو کے دوست کی بیٹی ہے۔تمھارے ابو بتا رہے تھے ۔ابھی امریکا سے پڑھ کر آئی ہے۔لیکن امی امریکا کی لڑکیاں کتنی تیز ہوتی ہے۔یہی تومجھے سمجھ نہیں آ رہا۔نا جانے کہاں سے رشتہ دیکھ لیا۔میرے بیٹے کو مجھ سے دور نا لے جائے ۔مریم کی بھابھی بھی اسکے بھائی کو لے اڑی تھی۔۔باہر کی تھی تیز ترار۔انھوں نے اپنی سہیلی مریم کا قصہ اسکے گوشگوار کیا۔اچھا مریم آنٹی کے بھائی بھی تھے۔وہ حیرانگی سے بولی۔ہاں تو شادی کر کے دی ۔گیا اور کبھی واپس ہی نہیں آیا ۔خالہ بیچاری اسے یاد کر کر کے رو رو کر مر گئی۔انھوں نے تفصیل سے بتایا۔لیکن عائشہ نے کبھی اپنے ماموں کا ﺫکر ہی نہیں کیا۔وہ بولی
ٹھیک ہے بتا دےگی کبھی تو اب دیر نہیں ہو رہی تمھیں اور مریم سے کہنا میں چکر لگاو گی کچھ دن تک۔انھوں نے اسے ٹالنے والی کی۔۔مطلب جاؤ امی جان۔ہاں جاؤ۔لیکن یاد سے بیٹا جلدی آنا۔ایک منٹ۔ پہلے یہ سبزی کی ٹوکری فریج میں رکھو ۔۔اف امی جانے بھی دیں۔۔وہ چڑ گئی۔۔اچھا جاؤ۔۔وہ امی کو اللہ حافظ کہتی ہوئی باہر آگئی۔
انابیہ پانچ منٹ کے فاصلے سے عائشہ کے گھر پہنچ گئی۔دروازہ کھولنے والا عامر تھا۔عائشہ ہے گھر میں۔ اسنے سوال کیا۔جی ہے اندر آجائیں۔گھر میں داخل ہوئی اندر مریم آنٹی کھانا بنانے میں مصروف تھی اسے اندر آنے کا بول کر وہ خود عائشہ کو بلانے گیا۔۔اسلام وعلیکم آنٹی کیسی ہے آپ۔اسنے کچن کی طرف آکر انھیں سلام کیا۔وعلیکم اسلام میری بیٹی آئی ہے۔کیسی ہے میری جان۔انھوں نے ہمیشہ کی طرح پیار سے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔۔مریم آنٹی اور اسکی امی زینب دونوں بچپن سے ساتھ رہی تھی۔اور زینب کے ہر حال احوال سے باخبر تھیں۔مریم آنٹی کی شادی بھی ان کے چچا کے بیٹے سے ہوئی تھی۔اسلیے وہ شادی کے بعد زیادہ دور نہیں گئی تھی۔ان دونوں کی دوستی ہر دکھ سکھ ہر خوشی غم والی تھی۔یہی وجہ تھی جو زینب اور اسکی دوستی بھی اتنی مضبوط تھی جتنی ان دونوں کی تھی۔اسکے آنے سے وہ ہمیشہ خوش ہو جاتی تھیں۔زینب نہیں آئی۔اسے ساتھ لاتی بیٹا۔آنٹی مجھے عائشہ کے ساتھ کوچنگ جانا ہے۔امی آئیں گی کچھ دن تک۔انابیہ نے زینب کا پیغام دیا۔۔اچھا مجھے پہلے بتاتی تو میں تمھاری پسند کا کچھ بناتی۔۔ویسےکوفتے پسند ہے نا تمھیں کھانا کھا کر جانا۔جی آنٹی پسند تو بہت ہے لیکن دیر ہو جاۓ گی ۔اسنے معزرت کرتے ہوۓ کہا۔ارے نہیں ہوتی کھانا کھا کے جاؤ۔امی بہت دیر ہو رہی ہے۔اور تم بہت جلدی آگئی ناں۔عائشہ سیڑھیوں سے چلاتی ہوئی نیچے اتری۔بھئی میں آگئی ہوں تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک۔۔وہ بھی انابیہ تھی کہاں اسکی بات برداشت کرتی۔امی ہم جا رہے ہیں۔کھانا کھا لو بیٹا۔آکر کھائیں گے امی ۔وہ انابیہ کو گھسیٹی ہوئی دروازے تک لائی۔چلو جلدی سر سے ﮈانٹ پڑھواؤگی مجھے تمارے کزن صاحب ہے ہمارے سر پتایےمجھے
کیا عائشہ چلائی جب پتا ہے پھر بھی وہی داخلہ لے گی وہ جانتی تھی انابیہ اپنے کزن سے کتنا چڑتی تھی۔۔وہ راستے میں بھی لڑتی ہوئی گئی تھی۔۔اچھی بچی ہے انابیہ ماشاءاللہ مریم نے انکے جانے کے بعد بیٹے کو بتایاہاں اچھی تو ہے پھر عامر بھی مسکرا دیا۔میں تمھارے لیۓ بات کرو گی زینب سے۔اچھا عامر ہستا ہوا کمرے میں چلا گیا اور وہ دل میں خوش ہوتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آئی کم ان سر۔۔انھوں نے اندر آنے کی پرمیشن لی۔یس۔اس نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔اندر آتے ہی انابیہ کے اوسان خطا ہو گۓ۔سر یہ انابیہ ہیں میں نے آپ سے بات کی تھی ان کے بارے میں اس نے سر اوپر اٹھایا اور مسکرا کر ویلکم کہا۔آئی سی۔یس مس انابیہ آپ کو ایﮈمیشن لینا ہے۔جی آزر بھائی وہ اندر ہی اندر کڑھ گئی۔بھائیییییی آزر کی مسکراہٹ وہی غائب ہوگئی۔ویل ہماری کلاسز بہت پہلے سے اسٹارٹ ہے۔ہم کوشش کرے گے آپ کی تیاری اچھی ہو جاۓ۔آپ کو خود بھی محنت کرنی ہوگی۔اور اسنے اورررر پر ﺫور دے کر کہا۔آپ سر کہیں گی تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔
انابیہ نے جی تو کہہ دیا لیکن غصے میں باہر نکل کر عائشہ پر مکوں کی بارش کر دی۔بتا نہیں سکتی تھی کہ تیرا سر یہ سڑو ہے۔بتایا تو تھا کہ تیرا کزن میرا سر ہے۔باۓ دی وے سڑو نہیں کہنا دوبارا ۔میرے سر ہیں وہ۔۔مائی فیورٹ ٹیچر۔۔وہ ناز سے بولی۔فیورٹ مائی فوٹ۔مجھے بلکل نہیں پسند یہ انسان ۔جب دیکھو اپنی چلاتا ہے۔میں یہاں نہیں آوں گی اب۔انابیہ نے گویا فیصلہ سنا دیا۔مجھے آج تک پتا کیوں نہیں چلا کہ یہ پڑھاتا بھی ہے۔یہ تو آرمی جوائن کر رہا تھا ۔وہ ناجانے غصے میں کیا کیا بولے جا رہی تھی عائشہ کلاس اسٹارٹ ہوگئی ہے جلدی کرو عائشہ کی فیلو نے اسے خبر دی۔میں جا رہی ہوں کلاس میں باۓ عائشہ اسے چھوڑ کر بھاگی۔میں کہاں جاؤ۔وہ پریشان ہوئی۔جانا نہیں ہے کیاسر عاشر سے ملنے۔عائشہ نے یاد دلایا۔او شٹ میں بھول گئی تھی۔۔غصہ کم کیا کر ناں۔تم بھی چلو۔اس نے آفر کی ۔۔واۓ یار۔۔عائشہ نے آہوازاری سے پوچھا۔مس عائشہ کم ان ۔۔سر نے اسے کلاس کے باہر کھڑے دیکھا تو اسے اندر آنے کا کہا۔یس سر۔۔وہ انابیہ کا ہاتھ چھڑا کر اندر چلی گئی۔۔۔انابیہ پریشان وہی کھڑی تھی آپ یہاں ہیں اندر آجائیں عائشہ کو ٹائم لگے گا۔آزر نے اسے کھڑے دیکھا تو اندر آفس میں آنے کا کہا۔۔نہیں میں چلی جاؤ گی گھر دور ہے اکیلے جانا مناسب نہیں ہوگاآپ آفس میں آ جائیں فلحال وہ اسے اندر آنے کا کہہ کر آفس میں آگیا وہ بھی آزر کے پیچے آفس میں آ گئی آپ بیٹھیں میں شارم کو کال کر کے بلاتا ہوں۔آزر نے اس پر سرسری سی نظر ﮈالی۔اور نمبر ملانے لگا۔نہیں بھائی یونیورسٹی ہوں گے میں ویٹ کر لوں گی وہ اچانک سے بولی۔خیریت ہے سب اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔جی میں ویٹ کر لوں گی۔کیوں۔اسنےسوال کیا ہی تھا کہ۔اتنے میں عاشر آفس میں داخل ہوا ۔وہ سرمئ رنگ کے عبایا کے اوپر سرخ رنگ کے اسکارف میں چھپایا چہرہ اور ﮈارک براؤن آنکھوں میں نفاست سے ﮈالا ہوا کاجل ﮈالے ہونٹوں پر ہلکے رنگ کا لپگلوز لگاۓ غضب کی لگ رہی تھی عاشر کی نظریں اسی پر جم گئی وہ پلک جھپکنا بھول گیا تھا کلاس لے لی تم نےعاشر کے آتے ہی آزر نے اس سے پوچھا۔جی بھائی وہ ہڑبڑا گیا۔میں جاؤ بھائی۔اس نے اجازت چاہی۔۔آزر نے سوالی نظروں سے اسے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہاں جانا ہے۔بھائی امی نے گھر جلدی آنے کا کہا تھا۔اچھا جاؤ آپ مجھے گھر تک چھوڑ دیں گےانابیہ نے عاشر سے سوال کیا۔میں چھوڑوں ۔اسنے ناسمجھی سے پوچھا۔نہیں میں چھوڑ آتا ہوں آزر نے مصنوعی غصہ کرتے ہوۓ کہا۔نہیں میں جاتا ہوں بھائی۔میں اپنی فائل لے لوں۔آپ آجائیں اسنے شرمندگی سے جواب دیا۔میں چلتی ہوں انابیہ ہمیشہ اسے جان چھڑانے والی کرتی تھی۔اوکے ۔بٹ کل سے جوائن کریں کلاس آپ۔جی انشاءاللہ۔اللہ حافظ کہہ کر وہ باہر آگئی۔جہاں عاشر اس کے انتظار میں تھا
اسکے آتے ہی اس نے بائک اسٹارٹ کی اور انابیہ کو بیٹھنے کا کہا۔وہ اسکے پیچھے بیٹھ گئی۔کہاں جانا ہے عاشر نے سوال کیا کیسا انسان ہے پتا نہیں۔رنگ بدلتا ہے۔کبھی پیار سے بات کرتا ہے کبھی غصے سے۔عجیب سوال کر رہا تھا۔انابیہ کا دماغ آزر کی باتوں میں الجھا ہوا تھا ۔اسے عاشر کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔انابیہ
۔۔۔۔ عاشر نے اسے پکارتے ہوۓ بائیک روکی کیا ہوا ہے کہاں کھوئی ہوئی ہو۔بائیک رکتے ہی ہوش میں آئی۔کچھ کہا آپ نے۔اسنے سوال کیا۔۔کب سے پوچھ رہا ہو۔کہاں جانا ہے۔سوری میں نے سنا نہیں تھا۔کہاں گم ہو جو بات سنائی نہیں دے رہی۔کہیں نہیں یار۔عاشر نے دوبارہ سے بائیک اسٹارٹ کر دی اور اسکے فیورٹ کافی شاپ پرروک دی۔انابیہ نیچے اتری اور اسکے پیچھے شاپ میں چلی گئی۔
اندر جا کر عاشر نے کافی آرﮈر کی۔کہاں گم ہو آج۔اس نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔کہیں نہیں عاشر۔
چچاجان نےاجازت دے دی کوچنگ کی
ہاں مگر تم نے کبھی بتایا نہیں کی آزر بھائی کوچنگ میں پڑھاتے ہیں ۔اس نے حیرانگی سے کہا۔تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔عاشر نے جواب دیا۔کیسے پوچھتی مجھے تو آج پتا چلا۔وہ واقعی کافی حیران تھی۔اس میں حیرانگی کی کیا بات ہے۔عاشر اسکی بار بار اک ہی بات کی رٹ سے تنگ آگیا تھا۔
نہیں ویسے ہی۔اس نے یقین دلایا۔اچھا غصہ نا ہو عاشر۔کیا باتیں لے بیٹھی ہو یہ بتاؤ مجھے مارنے کا ارادہ ہے کیا آج۔ہاہاہا نہیں عاشر۔وہ شرمائی۔تو جان عاشر اتنا سج دھج کے سامنے بیٹھی ہو کیوں میری جان لینے پر تلی ہوئی ہو۔وہ اسے تنگ کرنے کے موﮈ میں تھا۔اب ایسا بھی نہیں۔وہ جھنپ گئی۔سوچ رہا ہوں اب بات کروں امی سے۔اب دور نہیں رہا جاتا وہ اسکا ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا۔کس بارے میں جان بوجھ کر بے وقوفانہ سوال کر رہی تھی۔ہماری شادی کے بارے میں یار اچھا کر لیں بات لیکن تائی جان نہیں ماننے گی مان جائیں گی۔ ﮈونٹ وری۔اسنے یقین دلانے کے لیے مسکرا کر اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں کے قریب لا کر گستاخی کی۔ انابیہ چھنپ سی گئی۔ اسی اثناء میں عامر اپنے دوست کے ساتھ کافی شاپ میں داخل ہوا ۔دنیا جہان سےبے پرواہ دونوں باتوں میں اتنا مگن تھے کہ انھیں اتنا بھی احساس نہیں ہوا کوئی انھیں دیکھ رہا ۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...