توبہ ہے راحلہ اب تو یہاں سے بھاگنے میں ہی عا فیت ہے ورنہ پتہ نہیں کیا کیا راز فشا نی کر یں گے سر ہمارے باریے میں تمھارا تو پتا نہیں پر بعد میں امی نے میرے ہی لتے لینے ہیں – ”
مائشہ کو واقعی ایک پل میں خوف سا محسوس ہوا اسلئے ہم ابھی آ تے ہیں کہ کر وہ راحلہ کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھ گئی –
اب وہ دونوں لان میں بیٹھی ایکد دوسرے سے گپ شپ میں مصروف تھیں-
“اور سناوء تمھارے منگیتر کا کیا حال ہے بہت دنوں سے تم نے واثق یہ واثق وہ بول بول کے میرے کان نھیں کھاءے -” مائشہ نے شرارت سے کہتے ہوئے راحلہ کے خالہ زاد منگیتر واثق کا نام لیا –
جناب کی نئ نئ جاب لگی ہے اسلیئے لفٹ ہی نہیں کرا ر ہے ہیں -” اپنا ئییت سے کہتے ہوئے راحلہ کے ہو نٹوں ں پہ پیار بھر ی خفگی تھی –
“واثق بھائی دل کے بہت اچھے ہیں تم بہت لکی ہو کہ تمہیں اتنا چاہنے والا اور قدر کرنے والا ہم سفر ملا ہے -“واثق کی تعریف کرتے ہوئے مائشہ کی آنکھوں میں اپنی سہیلی کے لئے صرف پیار ہی پیار تھا جبکہ اپنے منگیتر کی تعریف پر اس کے آنکھوں میں بھی مسکراہٹ رکسکرنے لگی –
“ہیلو گرلز یہاں کیاں ہو رہا ہے “-کسی ضروری کام سے گیٹ کی طرف جاتے ہوئے ھود کی نظر جو ں ہی ان دونوں پر پڑی جو لان میں بیٹھی ایکد دوسرے سے باتوں میں مصروف تھی تو قدم انکی طرف بڑھا دیے –
“کچھ خاص نہیں سر بس ماحول خوش گوار ہو رہا تھا تو سوچا کیوں نہ کھلی فضاؤں میں بیٹھ کر تازی ہو ا لی جا ئے “- جواب راحلہ کی طرف سے آیا تھا جبکہ مائشہ سوچنے میں مصروف تھی کہ چلو شکر ہے گرلز کہا خواتین نہیں –
“گڈ -یہ تو بہت اچھی بات ہے پر میرا ذاتی خیال ہے کہ صبح کی فریش ہوا بہت مثبت طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے انسانی صحت پر، آپ لوگ صبح جاگنگ پر جایا کریں بہت ہی خوشگوار ہوا ہوتی مارننگ کی یقین مانیں پورا دن فریش محسوس کریں گی خود کو، میں بھی روز جاگنگ پر جاتا ہوں “ھود نے حفظان صحت پر ایک چھوٹی سی تقریر دے ڈالی –
” دیکھا یہاں بھی لیکچر شروع” مائشہ یہ کہنے کے لیے راحلہ کے کانوں کے قریب جانے ہی والی تھی کہ کچھ یاد آنے پر فورا” سیدھی کھڑی ہو گئی –
“اور اسٹڈی کیس جارہی ہے ” ھود نے اب مائشہ کو مخاطب کیا –
جی اچھا – اچھے بچوں کی طرح مائشہ نے بھی سر ہلادیا –
“ہو ں، ویسے یہ سفید رنگ بہت سوٹ کر رہا ہے تم پر میرا فیورٹ کلر ہے یہ ” سفید رنگ کے سوٹ میں وہ بہت ہی پا کیز ہ اور معصوم سی لگ رہی تھی اس لئے شاید وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا، اپنی بات کہہ کر وہ رکا نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتے گیٹ عبور کر گیا – اسکے اس ریمارکس پر مائشہ حق دق سی اک ہی جگہ پر کھڑی رہ گئی جبکہ راحلہ کا حلق پھاڑ قہقہہ بے ساختہ تھا –
“کچھ تو گڑ بڑ ہے، مجھے لگتا ہے سر ھود تم میں انٹر سٹ لے رہے ہیں – راحلہ نے ہنستے ہوئے راز فاش کیا-
“تم چپ رہو، فضول با تیں نہیں نکا لو اپنے منہ سے اور پلیز اپنے دانتوں کو ہونٹوں کے اندر ہی رکھو تو بہتر ہوگا ورنہ بعد میں مجھے الزام مت دینا ” اسکے ہنسنے پر مائشہ کو جیسے آ گ ہی لگ گئی تھی-
“اس میں فضول والی کونسی بات ہے اتنی ڈیشنگ پرسنالٹی ہے سر کی -تبھی تو ساری لڑکیاں بہانے بہانے سے انہیں سلام کرتے نہیں تھکتی ہیں “راحلہ نے شرارت سے چھیڑا –
“تم یہ بات بہت اچھے سے جانتی ہو کہ مجھے سر ھود بالکل بھی پسند نہیں اور میں ماردوں گی تمھیں اب اگر ایک بار تم نے سر ھود کا تذکرہ کیا تو-مائشہ نے غصے سے دھمکانے والے لہجے میں کہا –
“اچھا بابا میں مذاق کر رہی تھی تم تو کچھ زیادہ سیریس ہوگئی ہو اپنا موڈ ٹھیک کرو اور اچھی سی چائے پلاو مجھے “اسکا موڈ ٹھیک کر نے کی غرض سے راحلہ اسے کھینچتی ہوئ اندر کی طرف لے گئ-
☆☆☆☆☆☆
عیشا ء کی نماز سے فارغ ہو کر مائشہ اپنے کمرے میں ڈائجسٹ پڑھنے میں محو تھی کہ کب مریم بیگم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں اسے خبر نہیں ہوئی-
“کیا کر رہی ہو بیٹا؟” مریم بیگم نے رسانیت سے پوچھا –
“کچھ بھی تو نھیں امی “مائشہ جو ڈائجسٹ میں منہ دیے نہ جانے کیا پڑھنے میں مصروف تھی مریم بیگم کی آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، اور چپکے سے ڈائجسٹ گدے کے نیچے سرکا دیا، جو مریم بیگم کی نظروں سے بچ نہیں سکا –
“کتنی بار کہا ہے ان فضول کتابوں میں اپنا وقت اور آنکھیں نہ بر باد کرو اور اگر مطالعہ کا اتنا ہی شوق ہے تو اللہ اور اسکے رسول کی کتابوں میں دل لگاو تاکہ دنیا اور آخرت دونوں سدھر جائے –
مریم بیگم نے بگڑتے تیور میں کہا –
“امی میں تو بس ریسیپی چیک کر رہی تھی تاکہ کچھ اچھا سا پکاوں آپ سب کے لئے “مائشہ نے مریم بیگم کو متاثر کرنے کے لیے سفید جھوٹ بولا -وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ مریم بیگم اسکے کیچن میں کام کرنے سے کتنی خوش ہو تی تھیں -ہاں یہ الگ بات ہے کہ انہیں یہ خوشی بہت ہی کم کم موقع پر میسر ہوتی تھی
“رہنے دو مجھے چونا مت لگاو میں سب جانتی ہوں تمہیں کتنی رغبت ہے کھانا پکانے سے “مریم بیگم نے لتاڑا –
اچھا ‘چھوڑیں امی یہ بتائے کہ آپ کو کوئی کام تھا مجھ سے -مائشہ نے بات بدلتے ہوئے کہا –
“ہاں میں جو بات بتانے آئی تھی وہ تو بھول ہی گئی” ماتھے پر ہلکا سا چپت لگاتے ہوئے وہ مائشہ کے قریب ہی بیڈ پر جگہ بناتے ہوئے بولیں –
“فاطمہ باجی نے ھود کا پروپوزل بھیجا ہے تمہارے لئے”خوشی و مسرت سے کہتے ہوئے مریم بیگم کے چہرے پر الگ ہی چمک تھی جبکہ اسے لگا کسی نے اسکے سماعتوں پر بم پھوڑ دیا ہو –
“کیا؟ “مارے حیرت کے اس کی زبان گنگ ہو گئ-
“لیکن امی کیوں ”
“اب اس کیوں کا جواب میں کیا دوں، مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ فاطمہ باجی نے اپنے لائق فائق بیٹے کے لئے میری نگوڑی بیٹی کاانتخاب کیا ہے، بہت بڑا ضرفہے ان کا”مریم بیگم خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں جبکہ اپنی ناقدری پر مائشہ کے آنکھوں میں پانی جمع ہو نے لگا اسے تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اپنی اکلوتی بیٹی کی کوئی عزت ہی نہیں انکی نظر میں –
“یہ کیا تمہارے آنکھوں میں آنسوں، ارے اتنی جلدی تھوڑی ہی نہ وداع کروں گی تمھیں جو ابھی سے رونے بیٹھ گیئں “مریم بیگم شاید اپنی ہی دھن میں تھیں ان کی بات سن کر مائشہ کو اور زور کا رونا آیا –
“امی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں مجھے ھود بھائی سے شادی نہیں کرنی پلیز “مائشہ نے ہمت مجتمع کرکے بالآخر کہہ ہی دیا پھر کیا تھا مارے صدمے کے مریم بیگم سے ہلا نہیں گیا ایک جگہ پر سر پکڑ کے بیٹھ گیئں –
“امی کیا ہوا؟ “مائشہ گھبرا کر ان کے قریب ہی بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی –
“تم نے بات ہی ایسی کہی ہے، اچھا بھلا تو لڑکا ہے میں تو اتنی خوش تھی کہ اللہ نے اسکا جوڑتمہارے ساتھ بنایا ہے پر مجھے کیا پتہ تھا میری بیٹی ہی اپنی قسمت خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے “مریم بیگم کی حیرانگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی-
“وجہ جان سکتی ہوں، ھود سے شادی سے انکار کرنے کا سبب کیا ہے”غصے و صدماتی لہجے میں مریم بیگم نے استفسار کیا –
“بس وہ مجھے پسند نہیں “مائشہ نے کاندھے اچکائے – جبکہ اس کے یوں کاندھا اچکانے پر مریم بیگم کا خون خو ل گیا –
ارےاو نامراد کوئی تو وجہ ہو گی نا پسند گی کی – ایسے بیٹھے بھٹائے انکار کیوں کر رہی ہو دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ہے تمہارا – غصے سے مریم بیگم کا جلال عروج پر پہنچ گیا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر بیٹھیں –
“امی پلیز میری بات سنیں آ پ دنیا میں کسی بھی لڑکے سے میری شا دی کردیں مجھے منظور ہوگا مگر ھود بھائی سے نہیں پلیز، اپنی بات پر زور دیتے ہوئے مائشہ نے منت بھر ے لہجے میں کہا –
فاطمہ باجی کا اتنا لائق فائق اور ہو نہار بیٹا ہے ھود اور کتنی محبت اور چاہ سے فاطمہ باجی نے تمھارا ہاتھ مانگا ہے، میں انھیں کس منہ سے انکار کر دوں – مریم بیگم کو اس وقت سے جھر جھری آنے لگی جب وہ ان کا سامنا کریں گی –
“امی پلیزیہ میری آ خری خواہش سمجھ کر قبول کرلیں
یقین مانیں اسکے بعد میں آ پ سے کوئی ضد نہیں کروگی ” مائشہ اس قدر جذباتی ہو گئی کہ بے اختیار ی میں انکے پیر پکڑ لیے –
مائشہ کے اس انداز پر مریم بیگم کے دل کو کچھ ہوا – انھوں نے کب سوچا تھا کہ مائشہ اپنی کسی بھی خواہش کے لیے انکے پیروں میں گر نے تک سے گریز نہیں کرے گی، ھود انھیں لاکھ پسند سہی مگر اپنی پسند وہ اپنی بیٹی پر زبر دستی تو نہیں تھوپ سکتی تھیں ایک لمبی سانس خارج کرتے ہوئے گویا ہوئی
“سوچ لو کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے “لہجہ بڑا ہی دو ٹوک تھا –
“ہاں یہ میرا آخری فیصلہ ہے جو کبھی نہیں بدلے گا”مائشہ نے پر عزم لہجے میں کہا –
“ٹھیک ہے تمھاری خوشی کے لیے میں فاطمہ باجی کو منع کر دیتی ہوں -لیکن یہ تمھاری آخری ضد تھی جسے میں نے پورا کر دیا -اب جو بھی لڑکا میں پسند کروں گی تمھیں چپ چاپ اس سے شادی کرنی ہوگی “مریم بیگم اتنے غصے سے گویا ہوئیں کہ انکی ماتھے کی رگئیں پھول گئی اور غصے سے نتھنے پھڑپھڑانے لگے –
“ٹھیک ہے امی آپ جو کہیں گی مجھے منظور ہوگا “-مائشہ نے خوشی سے مریم بیگم کے گلے میں باہیں ڈالیں جسے مریم بیگم پرے ڈھکیل کے باہر نکل گئیں –
☆☆☆☆☆☆
“یہ ماریہ کو کیا ہو گیا ہے کالیج کیوں نہیں آرہی دو تین دنوں سے”وہ دونوں کالیج کے لائبریری میں بیٹھی نوٹس بنانے میں مصروف تھیں تبھی ماریہ کی غیر حاضری پر مائشہ نے راحلہ سے پوچھا –
“اس کے والدہ کی طبیعت ناساز چل رہی ہے کچھ دنوں سے اس لئے کالیج سے پندرہ دنوں کی leave لے کر اپنے گاؤں گئی ہے “راحلہ نے ماریہ سے فون پر ہونے والی گفتگو دہرا دی –
“اچھا –
“اور ہاں تم نے ھود سر کا پروپوزل کیوں رد کر دیا؟” کچھ یاد آنے پر راحلہ نے پروپوزل کے بابت استفسار کیا –
،”وجہ تم جانتی ہو “چاولہ سر کی بک میں منہ دیے مائشہ نہ جانے کیا پڑھنے میں مصروف تھی –
“لیکن مجھے نھیں لگتا ہے کہ اس سے اچھا پروپوزل تمہارے لئے آسکتا ہے وہ لوگ ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہیں “راحلہ نے انکی سائیڈ لی –
“اوہ اب سمجھ آیا، تو تمہیں امی نے اپنا حمایتی بنا کے بھیجا ہے “مائشہ کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا –
“جی نہیں میرے پاس بھی اپنا دماغ ہے ‘مجھے بھی سمجھ ہے کہ کون لوگ اچھے ہیں اور کون لوگ فراڈ ہے -وہ لوگ ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہیں مائشہ تم بہت خوش رہوگی وہاں “راحلہ نے رسان سے سمجھایا-
“یہی تو بات ہے، میں اپنی خوشی کے لیے ہی تو ھود بھائی سے شادی سے انکار کررہی ہوں “مائشہ کی منطق راحلہ کی سمجھ سے باہر نظر آرہی تھی –
“مطلب؟ “راحلہ چونکی –
“مطلب یہ ہے کہ تم نے دیکھا نہیں ھود بھائی بات بات پر کتنا ٹوکتے اور ڈانٹتے ہیں -امی سے بھی شکایت کی تھی نہ اس دن “کچھ یاد آنے پر اس نے کہا –
“ہاں تو؟ ”
“تو یہ کہ جب میری شادی ہوجائے گی ھود بھائی سے تو وہ خوامخواہ مجھ پر رعب جمائیں گے ہر وقت مجھے ڈانٹا کریں گے -ہو سکتا ہے امی سے بھی شکایت لگائیں جیسے اس دن لگائی تھی، اور امی کا تو تمہیں پتہ ہی ہے سارے جہاں کی خامیاں انہیں مجھ میں ہی نظر آتی ہیں “مائشہ نے اپنی دل کی بات بلا جھجک کہہ دی اسکے دل میں جو بات تھی وہ زبان پر آہی گیا –
“یہ کوئی بہت بڑا ایشو نہیں ہے کہ تم شادی سے ہی انکار کردو “راحلہ نے حیرت سے اسے دیکھا –
“یہ میری عزت نفس کے لیے بہت بڑی بات ہے جو شاید تم سمجھ نہ پاو ء “مائشہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا –
“لیکن مائشہ ضروری تو نہیں جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا ہی ہو -آنٹی تو تمہارے بھلے کے لیے ڈانٹتی ہیں تاکہ آگے چل کے تم سے کوئی غلطی نہ ہو اور رہی بات سر ھود کی تو وہ بھی ہماری غلطی ہے ہم ہی ہر وقت باتیں کرتی رہتی ہیں جس سے کلاس بھی بہت ڈسٹرب ہو تی ہے اسلیئے سر ہمیں ڈانٹ دیتے ہیں” راحلہ نے اسے رسانیت سے سمجھایا –
“جو بھی ہو اب میں اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتی-پلیز چینج دا ٹاپک ” کہہ کر مائشہ نوٹس کی طرف متوجہ ہوگئی جبکہ راحلہ اس پر ایک تاسف سی نظر ڈال کر رہ گئی –
☆☆☆☆☆☆
“مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے مائشہ”وہ دونوں گھر جانے کی غرض سے کالیج کے کوریڈور سے گذر رہی تھیں کہ تبھی ھود کی آواز ان کے سماعت سے ٹکرائ، وہ چلتا ہوا ان کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا-
“لیکن مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی”مائشہ کہہ کر آگے بڑھنے ہی والی تھی کہ وہ اسکا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور راحلہ کو مخاطب کیا –
“راحلہ صرف پانچ منٹ”
“ٹھیک ہے، کالیج کے باہر گیٹ کے قریب میں تمھارا ویٹ کر رہی ہوں “اس نے مائشہ کو مخاطب کیا اور تیزی سے باہر نکل گئی –
“ہاں تو کیوں منع کر دیا تم نے شادی سے وجہ جان سکتا ہوں “راحلہ کے جاتے ہی ھود اصل بات پر آ گیا –
“میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں”بڑے ہی سرد انداز میں جواب آیا –
“جواب تو تمہیں دینا ہی پڑے گا بغیر جواب دئے تمہارا یہاں سے فرار ممکن نہیں “ھود نے بڑے ہی سخت لہجے میں اسے باور کرایا –
“کوئی وجہ نہیں ہے بس مجھے آپ سے شادی ہی نہیں کرنی ہے “مائشہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس طرح براہ راست بھی اس سے شادی کے متعلق بات کر سکتا ہے اس لئے وہ اندر سے تھوڑا نروس بھی ہو رہی تھی جبکہ سامنے والا بھی شاید جواب لئے بغیر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اب وہ اسے کیا بتاتی کہ کیوں وہ شادی سے انکار کررہی ہے، اس وقت وہ صرف وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی، اس کے کسی بھی سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی –
“کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہوگی جسے تم بتانا نہیں چاہتی ہو ورنہ دنیا میں ایسا کوئی عمل نہیں جس کے پیچھے کوئی وجہ چھپی نہ ہو “ھود کی حیرانگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ کوئی اس کے پروپوزل کو رد بھی کر سکتا ہے جبکہ وہ کتنی ہی دیر سے یہاں سے بھاگنے کے لئے پر تول رہی تھی –
“اچھی لگنے لگی تھیں تم مجھے، تمھارا دنیا سے بے پروا اور بے نیاز سا انداز اور معصوم سا لہجہ بھا گیا تھا میرے دل کو اس لیے جب امی نے میری پسند پوچھی تو میں نے بلا جھجک تمھارا نام لے دیا لیکن مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم اس طرح سے میرے پروپوزل کو ریجیکٹ کر دو گی”کھوئے ہوئے لہجے میں ابھی وہ اس سے اور نہ جانے کیا کیا کہتا کہ وہ چپکے سے اس سے نظر بچا کر بھاگ کھڑی ہوئی، اس کے یوں بھاگنے پر پہلے تو وہ حیران ہوا پھر اسکا خون کھول گیا، ایک قہر بھری نظر اس سمت دیکھا جہاں سے وہ بھاگ کر گئی تھی پھر غصے سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دیا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...