وہ بڑا شہر، اتنا بڑا شہر کیوں دیکھتے دیکھتے
منہدم ہو گیا ہے
اور ٹکڑوں میں بے ضرب ہی منقسم ہو گیا
ایک اتنا بڑا خواب آدرش کے عرش سے
گر گیا، اب چنو کرچیاں فرش سے
سائیکی! غالباً ترک معمول کے تجربے
ناپ، پیمائشیں، ضابطے اور پابندیاں
تجھ کو بھاتی نہیں
دیکھ! تیرے سخی نام پر
نائیکہ خوش ہے خواجہ سرا شاہ کا
قاف کی اس پری کو بٹھا کر لموزین میں لے گیا
اور وہ کس قدر شاد ہے چڑمڑائی ہوئی سی
شکن در شکن
شب کے باسی گلابوں کے بستر سے اٹھتے ہوئے
حسن زرخیز ایسا ہوا
گونگ لی کے تبسم کی لاکھوں میں بولی لگی
سائیکی! تو یہ چاہے ہمیشہ سے جو ہو رہا ہے
اسی طور ہوتا رہے
نفس کے آستانوں پہ بیٹھی ہوئی عادتیں، غفلتیں
اور خوش فہمیاں
دھوپ کی اونگھ سے اون بنتی رہیں
سائیکی! اس طلب اور رسد، اس اناؤں کی
نیلام گاہوں کے بازار میں
تو سدا سے رواں، نیم عریاں خراماں خراماں رواں
تجھ سے راجا بھی خوش اور پرجا بھی خوش
اپنی اپنی دکانوں مکانوں میں آنند سے
صبر کی تنکا تنکا چٹائی پہ بیٹھی ہوئی مفلسی
مطمئن ہے کہ شاید کسی شب
ستاروں کی لپٹی ہوئی پرچیوں سے نکل آئے
نادار کے اسم بے اسم کی لاٹری
تجھ کو اچھا لگے دیکھنا
ان ذرا سی اناؤں کی امواج سے
جھاگ اڑتی ہوئی (بیوقوفانہ سی روز کی نرگسیت کی آویزشیں)
اور ہر موج غصے میں ساحل سے مڑتی ہوئی
تجھ کو اچھا لگے
اپنی آوارگی کے پرانے سبو سے
ذرا ہوش میں آنے والوں میں، بے راہ کرتی ہوئی
مستیاں بانٹنا
سرحدیں کھینچنا، بستیاں بانٹنا
سائکی! عام گلیوں کے کچے اندھیرے سے اٹھتے ہوئے
اور پھٹتے ہوئے بلبلے، تو نے دیکھے تو ہیں
کوئی ہم جنس کسبی میاماریا
گندگی کے بڑے ڈھیر سے کوئی ردی اٹھاتا ہوا اور گاتا ہوا واسکو
کوئی پنجر سے چپکے ہوئے چلبلے ہاتھ سے
پرس، جیبیں، دکانوں کی اشیا اڑاتا ہوا ویر یا
کوئی خود سے خفا راڈریگے لہو کی دبی چیخ پر شاد ہوتا ہوا
اور ہر شب بگوٹا کے جاروب کش
پھینک آتے ہیں ان فالتو اور فاضل تہی ماچسوں کو
غلاظت میں بدلی ہوئی شرم کے ڈھیر پر
کرگس و زاغ کے ڈائننگ ہال میں
اور وہاں پر
سرائیگو، صومالیہ اور فلسطین اپنے لہو میں نہائے ہوئے
مذہب و نسل و تاریخ و جغرافیہ کی کرامات پر دنگ ہیں
بے زمیں اور بے آسماں
صید سوداگراں
یہ رعایا جسے نسل در نسل شاہوں کی تحویل میں
چابکوں، منتروں اور دانائیوں کے خریدہ وسیلے سے
ہانکا گیا
وقت انصاف کرتا تو دیتا اسے مہلتیں
قصر و اہرام و ہیکل اٹھا کر سدا چلتے رہنے کی
بے جرم پاداش سے
وقت انصاف کرتا تو اپنے سخی ہاتھ سے
رسیوں کی طرح ان بٹے بازوؤں کی گرہیں کھول کر
ان سے کہتا کہ لے جاؤ ساری زمیں
ہے تمہاری زمیں
اور اگلے زوالوں کے پنڈال میں
کر رہا ہے مداری تماشا گری
سائیکی! تیرے البم میں آئیں نظر بستیاں
ناف تک زرد لاوے میں ڈوبی ہوئی
جنس و زر کی وبا۔۔۔۔
ماس کے دور اندر جنینوں میں اتری ہوئی موت کی سونڈیاں
سائیکی! پر تجھے کیا
کہ یہ رقصِ بسمل بھری بستیوں میں ہمیشہ سے تو
دیکھتی ہی چلی آ رہی ہے
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...