شام کو چھ بجے کے قریب وقار صاحب اور انکی فیملی ایاز شاہ کے گهر پہنچ گئے
بے حد خوشگوار ماحول میں چاۓ پی گئی وقار صاحب اور انکی فیملی نے پہلی ہی نظر میں ماہم کو پسند کر لیا
“بهابی اب جلدی سے یہ چاند میرے آنگن میں اتار دیں”
مسز وقار نے پیار سے ماہم کو دیکهتے ہوۓ کہا انہیں یہ نازک نازک سی لڑکی بہت پسند آئی تهی
“آپ کی ہی امانت ہے جب چاہیں لے جائیں”
“آنٹی ہم تو ابهی ہی لے جاتے مگر مجبوری ہے پهر بهی آپ کی اجازت ہو تو میں ایک تصویر لے لو”
وقار صاحب کی بڑی بہو نے کہا تو فاطمہ بیگم نے اجازت دے دی
“یہاں لائٹ ٹهیک نہیں آ رہی چلو تمهارے روم میں چلتے ہیں”
سونیا نے کہا تو ماہم اسے لے کر اپنے روم کی طرف چل پڑی
ایاز شاہ وقار صاحب اور انکا بڑا بیٹا حسن لان میں بیٹهے باتیں کر رہے تهے جبکہ مریم اور ماہین سلام کر کے اپنے مشترکہ روم میں بیٹهی بچ جانے والے لوازمات سے لطف اندوز ہو رہیں تهیں جب ماہم کے پیچهے آتی سونیا کو دیکھ کر حیران رہ گئیں
“ارے آپ آئیں نہ پلیز”ماہین نے خوشدلی سے استقبال کیا جبکہ سدا کی آدم بیزار مریم جی بهر کر بدمزہ ہوئی
“افففف! کیا مصیبت ہے آج سارے گهر میں سسرال گهسا ہوا ہے کہیں آرام نہیں”
بظاہر مسکرا کر بیڈ پر جگہ بناتی مریم نے دل میں خوب بڑبڑاہٹ کی اسے مسکراتا دیکھ کر ماہم اور ماہین نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکها
“کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ دونوں اسے”
سونیا نے دونوں کو دیکهتے ہوۓ کہا
“کچھ نہیں بهابی آپ بیٹهیں نا کهڑی کیوں ہیں”
ماہم نے جلدی سے کہا تو وہ بهی مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی
“تم لوگ رئیلی بہت اچهے ہو میری ایک بهی بہن نہیں تهی اور آج تین تین بہینں مل گئیں مجهے”
کچھ هی دیر میں وہ سب ایک دوسرے سے بے تکلف ہو گئیں سواۓ مریم کے
“آپ خود بهی بہت اچهی ہیں اچها ویسے ہم آپکو کیا بلائیں”
ماہین نے پوچها تو مریم بهی سوالیہ نظروں سے دیکهنے لگی
“میرے نام سے بلاؤ یا پهر آپی کہہ سکتی ہو ویسے ماہم کو تو بهابی ہی بلاۓ گی کیوں ماہم”
ساتھ بیٹهی ماہم کو شوخ نظروں سے دیکهتے ہوۓ کہا اور وہ شرم سے ہی سرخ پڑ گئی
“آپی آپکے پاس حسنین بهائی کی کوئی فوٹو وغیرہ ہے”
مریم نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا
“ہاں بالکل ہے میں دکهاتی ہوں تم لوگوں کو یہ دیکهو”
کہتی ہوئی موبائل سامنے رکھ دیا
“واؤ….. ڈیشنگ بجو”
ماہین نے سونیا کے ہاتھ سے موبائل لے کر ماہم کے آگے کر دیا
“اچها مریم تم مجهے ماہم کی کوئی تصویر دے دو مجهے ہائی کورٹ میں پیش کرنی ہے”
سونیا نے ہائی کورٹ پر زور دےکر کہا تو ماہم نے منہ نیچے کر لیا
“مگر آپی ہماری اکیلے میں کوئی فوٹو ہے ہی نہیں آپ موبائل میں لے لیں پک”
“ایسا کرو تم پک دو پهر میں تم لوگوں کی پک کٹ کر دو گی اوکے””گڈ آئیڈیا ماہی وہ سائیڈ کے دراز سے البم نکال کے دو”
مریم نے کہا تو وہ بهی جلدی سے البم نکال لائی
“یہ پرفیکٹ ہے”
سونیا نے ایک تصویر نکالی جس میں وہ تینوں مسکرا رہیں تهیں
“مگر اس میں تو ہم دونوں بهی…”
ماہین نے پریشان سے لہجے میں کہا
“اٹس اوکے میں کٹ کر دوگی اچها اب چلتی ہوں باہر ماما ویٹ کر رہی ہونگی”
سونیا نے تصویر پرس میں رکهتے ہوۓ کہا
“جی چلیں”
وہ تینوں بهی ساتھ میں اٹھ گئیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آج ماہم اور حسنین کی منگنی کی رسم تهی پورا شاہ ہاؤس جگمگا رہا تها ایازشاہ کی طرف سے چند قریبی دوستوں کو مدعو کیا گیا تها
حسنین اسٹیج پر بیٹها مردانہ وجاہت کا شاہکار یونانی دیوتا لگ رہا تها نظریں بار بار داخلی دروازے سے مایوس سی لوٹ رہیں تهیں
“کیا بات ہے دیور جی سب ٹهیک ہے نا”
سونیا جو کب سے نوٹ کر رہی تهی پاس آکر بولی
“جج جی بهابی سب ٹهیک ہے”
اچانک بوکهلا کر بولا تو سونیا کے ساتھ کهڑا اسکا بڑا بهائی حسن ہنس پڑا
“ارے ماشاءاللہ”
اچانک کسی نے کہا تو سب کی نظریں ایک ساتھ دروازے کیطرف اٹهیں گولڈن اور لائٹ گرین کلر کے ڈریس میں ہلکی سی جیولری اور لائٹ سے میک اپ کیساتھ اسکے تیکهے نقوش مزید دلکش ہوگئے تهے حسنین کی نظریں پلٹنا بهول گئیں تهیں
“حسنین بهائی میری بجو کو نظر لگائیں گے کیا آپ”
ماہین نے شرارت سے آہستہ آواز میں کہا تو وہ بهی ہنس گیا
“کیا کروں بہنا سنڈریلا اتنی خوبصورت جو لگ رہی ہے”
وہ بهی اپنے نام کا ایک تها
اور پهر بے حد خوشگوار ماحول میں رسم ادا کی گئی
“مریم بیٹا باہر دیکهنا لان والے ٹیبل پر مٹهائیوں کی ٹوکریاں رکهی ہونگیں جلدی سے جاکر لے آؤ میرا بچہ”
مریم کو الگ تهلک بیٹهے دیکھ کر فاطمہ بیگم نے کہا اور وہ “جی مما”کہتی ہوئی اٹھ گئی لان میں پہنچ کر جو نظارہ اس نے دیکها اسے تپانے کے لئے کافی تها
کوئی بندہ پورے انہماک سے مٹهائی کی ٹوکری کهولے اس سے انصاف کرنے میں مصروف تها
“اسکو تو ابهی بتاتی ہوں مفت کا مال کیسے سکون سے ہڑپ رہا ہے صبر کر ذرا چور کہیں کا”
منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی سنیڈل اتار کر ہاتھ میں پکڑ کر اسکی سمت بڑهی
اوۓ چور…..قریب جاکر زور سے چلائی اور سینڈل پوری قوت سے اسکی طرف اچهالی وہ جو اپنے کام میں مگن تها ایک دم چونک کر پلٹا اور اسکا جوتا اسکے سر پر سے گزرتا دور جا گرا جبکہ مریم کا صدمے سے برا حال ہو گیا
“بلڈوزر تم….. لوگوں کا سر توڑنے کے ساتھ ساتھ اب چوری بهی شروع کردی شرم تو آ نہیں رہی….”
اسے دیکهتے ساتھ نان اسٹاپ شروع ہوگئی
“ہیلو محترمہ مجهے…”
ابهی بات شروع ہی کی تهی اس نے کہ مریم بهڑک اٹهی
“محترمہ کس کو کہا آپ نے خود کو دیکها ہے اجڑے چمن کی طرح ہیں خبراردار جو مجهے محترمہ کہا بلڈوزر هونہہ”
وہ بولتی گئی جبکہ وہ ہاتھ باندهے دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تها
براؤن ہلکے سے کام والا فراک سلیقہ سے کندھوں پر لیا دوپٹہ کپڑوں کے ہم رنگ کهلے بال جو اڑ کر چہرے پر آ رہے تهے گرین کاجل سے عاری آنکهیں چهوٹی سی ناک جو غصے اور سردی سے سرخ پڑ رہی تهی
“کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے”
دل کی دهڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے وہ سوچے جا رہا تها
“اچها آیم سوری کہ میں نے آپکو محترمہ کہا رئیلی سوری”
کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا
“اٹس اوکے…. اور اس دن اپنا بلڈوزر جیسا سینہ میرے سر پر مارا اسکا سوری کون بولے گا”
اچانک یاد آنے پر ایک بار پهر بولی
“آیم ویری سوری فار دیٹ”
ہاتھ جوڑ کر بولا ادهر شان بے نیازی سے “اٹس اوکے” کہا گیا
“اب نکلو یہاں سے اور میرا احسان یاد رکهنا کہ تمہیں رنگے ہاتهوں پکڑنے کے باوجود جانے دے رہی ہوں ورنہ چوروں کے ساتھ جو سلوک پولیس کرتی ہے وہ تم جانتے ہوگے چلو نکلو شاباش”
وہ اس پر احسان کرتے ہوۓ بولی اور وہ سر جهکا کر دهیرے سے ہنس دیا
“او هیلو یہاں تمہارا کوئی نکاح نہیں ہورہا جو یوں مسکرا رہے ہو
، نا میں نے کوئی جوک سنایا ہے جاؤ یہاں سے اب”
اسکے ہنسنے پر جی جان سے سلگ اٹهی
“اوکے جا رہا ہوں”
اسکے صبیح چہرے کو نظروں میں سموۓ وہ گیٹ کی جانب چل پڑا
“مسڑ لگتا ہے تمہیں پولیس کے ڈنڈے کهانے کا بہت شوق ہے گیٹ پر منہ اٹهاۓ کیوں جا رہے ہو وہ پچهلا دروازہ ہے وہاں سے جاؤ اور دوبارہ کبهی اپنی صورت مت دکهانا چلو”
پچهلا دروازہ دکهاتے ہوۓ بولی اور وہ سر جهکاۓ چل پڑا
“سنو! بہن کی انگیجمنٹ بہت بہت مبارک ہو”
رک کر مبارک باد دی تو اسکا منہ حیرت سے کهل گیا اور وہ اسے حیران چهوڑ کر دروازے سے باہر نکل گیا
“مریم تمہیں مٹهائی لانے کا کہا تها اور تم یہاں آکر جم ہی گئی ہو چلو اٹهاؤ یہ ٹوکریاں”
فاطمہ بیگم کی آواز پر وہ چونکی اور الجهی الجهی سی ٹوکری اٹهاۓ اندر روانہ ہو گئی
گهر میں ماہم کی شادی کی تیاریاں عروج پر تهیں ماہین بہت اکسائیڈڈ تهی جبکہ مریم ابهی تک اس چور کے بارے میں الجهی ہوئی تهی
“توبہ ہے آجکل کے چور بهی پوری انفارمیشن لے کر چوری کرتے ہیں کس کے گهر میں شادی ہو رہی ہے کس کے گهر میں بچے کی آمد ہوئی ہے کس گهر کا مکین بیمار ہے کس کا تندرست چور نہ ہوۓ شہر بهر کے گوگل ہوگئے ہہہننننہ”
کهیر میں چمچ چلاتے ہوۓ بڑبڑا رہی تهی
“کیا بات ہے مریم صاحبہ کهیر سے گفتگو فرما رہی ہیں”
فریج سے پانی نکالتی ماہم نے مریم کو بڑبڑاتے دیکھ کر کہا
“نہیں بهئی بس ویسے ہی”
بیزاری سے بولی
“اچها تو کیا بڑبڑا رہی تهی پهر تم”
ماہم بهی اسکے پیچهے پڑ گئی
“کہا نا کچھ نہیں تم پلیز یہ کهیر سب کو سرو کر دینا اور میری فریج میں رکھ دینا”
چولہا بند کرکے وہ جانے کے لئے مڑی
“کیوں تم کہاں چلی”
ماہم نے قدرے حیرت سے پوچها مریم اور کهیر کو زندہ سلامت چهوڑ دے امپاسبل.
“میں روم میں جا رہی ہوں سر درد ہے”
یہ کہہ کر وہ کچن سے باہر نکل گئی جبکہ مریم حیرت سے اسے جاتا دیکهتی رہی اور پهر سر جهٹک کر کهیر کی طرف متوجہ ہوگئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...