وہ آفس سے آ کر بیٹھا ہی تھا جب آمنہ اس کے پاس آ کھڑی ہوئی چہرے کا اضطراب بتا رہا تھا جیسے کسی کشمکش میں ہو آثیر اس کے بولنے کے انتظار میں تھا۔
” آپ مجھے ابو کی طرف چھوڑ آئیں گے ؟” اس کے لہجے میں ہچکچاہٹ سی تھی ڈرائیور چھٹی پر تھا ورنہ وہ افروز کے ہمراہ ڈرائیور کے ساتھ ہی جاتی تھی یا اگر یاسر بھائی فارغ ہوتے تو ڈراپ کر آتے۔ آثیر کے ساتھ شادی کے بعد وہ صرف دو بار ہی ابو امی کی طرف گی تھی وہ خود سے بہت کم اس سے مخاطب ہوتی تھی۔ آثیر خاموشی سے جوتے اتارنے لگا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آمنہ اسے دیکھ ہی تھی ماتھے پر آئے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتا وہ کافی تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
” آپ نے میرے ساتھ جائیں گے؟” آمنہ نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔
” آپ کے ساتھ تو میں کہیں بھی جانے کے لیے تیار ہوں۔” آثیر نے اپنی پر سحر نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ شوخی اس کے لہجے سے عیاں تھی آمنہ انگلیاں چٹخانے لگی۔
” میں فریش ہو کے چائے پی لوں پھر چلتے ہیں اتنے میں آپ بھی تیار ہو جائیں۔” وہ کپڑے الماری سے نکال کر نہانے کے لیے باتھ روم میں چلا گیا۔ آثیر چینج کر کے نیچے آیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی آمنہ کی نگاہ اس کی طرف اٹھ گئی۔ ٹو پیس میں ملبوس اس کی تازگی کا احساس دلاتا وجود ماحول پر حاوی ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ افروز آنٹی نے آمنہ کو دیکھا تو سر جیسے پیٹ لیا۔
” جاؤ اچھے سے کپڑے پہن کر آؤ اور جیولری کس لیے سنبھال کے رکھی ہے چوڑیاں پہنو ایک دو انگوٹھیاں بھی نکالو اور گلے میں چین بھی ڈال لو.” آثیر کے سامنے انہوں نے حکم دیا تھا نا چار وہ پھر اوپر آئی دوسرے کپڑے پہنے اور جیولری بھی پہنی۔
” آثیر بیٹا! باہر جانے کا خیال دل سے نکال دو دیکھو تمہارے جانے کا سن کر آمنہ کیسی اداس لگ رہی ہے۔” اس کے منظر سے ہٹتے ہی افروز شروع ہو گئیں. آثیر کی پرسوں کی سیٹ کنفرم تھی۔
” مما پیپر ورک سارا مکمل ہو چکا ہے میں رک نہیں سکتا۔” وہ انہیں یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ میں آمنہ کی وجہ سے ہی ایسا کرنے پر مجبور ہوں آپ کی لاڈلی بہو میری وجہ سے اداس نہیں ہے۔
آمنہ ازسر نو تیاری کے بعد آئی تو افروز خوش ہو گئی۔
” جیتی رہو سدا سہاگن رہو۔” انہوں نے دعا دی تو آمنہ کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ آ گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آثیر بہت عرصے بعد آمنہ کے ہمراہ آیا تھا عباس صاحب کے تو ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ گئے اسی وقت کھانا تیار کرنے کا حکم دیا وہ فواد بھائی اور عباس انکل کے پاس ہی بیٹھا رہا. کافی دیر باتیں ہوتی رہیں عباس صاحب کو اعتراض کرنا پڑا کہ وہ بہت میچور اور باشعور ہے اس کے ناں ناں کرنے کے باوجود انہوں نے گھر والوں سے مل کر باہر نکل رہی تھی جب ابو اس کے پیچھے آئے۔
” بیٹا اپنے گھر خوش تو ہو ناں؟” انہوں نے بہت آہستگی سے پوچھا اچانک اس کی آنکھیں بھر آئیں جنہیں چھپانے کے لیے اس نے سر جھکا لیا اور اثبات میں سر ہلایا۔
” ہمیشہ اپنے گھر میں سکھی رہو اور اپنے شوہر کو بھی خوش رکھو اچھا نوجوان ہے آثیر!” ان کا ہاتھ آمنہ کے سر پر تھا۔ آثیر گاڑی اسٹارٹ کیے اس کے انتظار میں تھا عباس اس کے پاس آئے۔
” آتے جاتے رہا کرو مل کے گپ شپ کریں گے۔”
” او کے انکل! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ فی الحال پرسوں سعودیہ کی فلائٹ ہے میری واپس آ کے آپ کے پاس آؤں گا۔”
آمنہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اپنے آنسو پینے کی نا کام کوشش کر رہی تھی۔
” ہونہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا نوجوان ہے آثیر! اپنے شوہر کو خوش رکھو مجھے سب کی نظروں میں گرا کر یہ شخص اچھا ہو گیا کتنا خوش لگ رہا ہے ناں۔ مجھے بدنام کر کے کتنے سکون میں ہے ہر کوئی تعریف کرتا ہے اس کی اور تو اور ابو بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ آنسو دوپٹے میں جذب کر رہی تھی ایک کم مصروف سڑک پر آثیر نے گاڑی روک دی۔
” آمنہ آگے آ جائیں۔” وہ دروازہ کھول چکا تھا۔
” میں ادھر ہی ٹھیک ہوں.”
” کم آن آگے آئیں۔” اب کے بار اس کے لہجے میں تحکم تھا غصے میں دروازہ بند کر کے وہ اگلی سیٹ پر آ بیٹھی تھی اس کی روئی روئی آواز آثیر کی سماعتوں کے لیے اجنبی نہیں تھی۔
” کوئی پرابلم ہے آپ کو لگتا ہے کافی دیر سے روتی رہی ہیں۔”
” جی نہیں مجھے فلو ہے۔” آمنہ سرکش ہو رہی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جس دن آثیر کی فلائٹ تھی اس روز آمنہ کی طبیعت سچ مچ خراب تھی اس سے اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا افروز آنٹی نے طبیعت کی خرابی کو بھی آثیر کی روانگی سے منسوب کر دیا۔
سمجھدار خاتون تھیں کتنی بار آمنہ کی بے زاری نوٹ کی تھی آثیر ہنستا مسکراتا رہتا پھر وہ چپ ہی رہتی۔ شاید آثیر کی طرح اداکار نہیں تھی اس نے اپنے روئیے سے کسی کو بھی تعلقات میں خرابی یا بگاڑ کا احساس نہیں ہونے دیا تھا پر آمنہ بہت جگہ اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی۔ سارے گھر والوں کے ساتھ ہنستی بولتی آثیر کی موجودگی میں کانشیں ہو جاتی افروز آنٹی کا پکا ارادہ تھا اب آثیر آئے تو جانے نہیں دیں گی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سردیوں کی شام جلد ڈھل جاتی اور لمبی رات سر پر آ کھڑی ہوتی۔ آثیر کا قیام سعودیہ میں طویل ہوتا جا رہا تھا آمنہ گھر کے کاموں میں حود کو مصروف کیے رکھتی کچن بوا سلمی سنبھالتی تھی اب آمنہ بھی حصہ دار بن گئی تھی افروز آنٹی اور عمر انکل سمیت عمارہ بھابی اور یاسر بھائی کی تعریفیں اسے اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ نے نئی ڈشز ٹرائی کرتی عمارہ بھابی اور یاسر بھائی کے بچوں طلحہ ابو بکر اور موسی کے ساتھ مگن رہتی کہانیاں سناتی ان کا ہوم ورک دیکھتی۔ افروز آنٹی کے ساتھ ان کے رشتہ داروں کے گھر ہو آتی اس نے عمارہ بھابی کی بہت سی ذمہ داریاں بانٹ لی تھیں وہ اس کی ممنون تھیں ان کی ڈلیوری کا آخری مہینہ تھا۔ بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا وہ ذمہ داریاں پوری طرح انجام نہ دے پاتیں۔ یاسر کو بیٹی کا بہت شوق تھا عاشر کے بھی دو بیٹے تھے اس بار پورے گھر کی خواہش تھی کہ یاسر کے گھر بیٹی پیدا ہو۔ آمنہ ان کی بھرپور دیکھ بھال کر رہی تھی۔
آثیر کی موجودگی میں جو اجنبیت اس پر طاری رہتی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آخری دنوں میں عمارہ کا بلڈ پریشر کنٹرول نہیں ہو رہا تھا یاسر نے اسپتال میں ایڈمٹ کروا دیا تھا اس کے پاس اپنی ایک بہن تھی افروز آنٹی بھی صبح و شام چکر لگا رہی تھیں۔ آمنہ جب بھی آتی ساتھ کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ بنا کے لے آتی دن میں ایک بار وہ لازما اسپتال آتی۔ گھر کو بھی دیکھنا ہوتا تھا۔
اس دن بھی آمنہ گھر میں اکیلی تھی وہ عمارہ بھابی کے لیے سوپ بنا رہی تھی کچھ دیر بعد ڈرائیور کے ساتھ اسے اسپتال جانا تھا گیٹ کی بیل بجی آنے والا آثیر علوی تھا۔ بغیر اطلاع دئیے وہ اچانک آیا تھا گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا بوا نے بتایا کہ سب اسپتال میں ہیں سوائے آمنہ بی بی کے۔ بوا کو گھٹنوں کا درد تھا آمنہ نے انہیں آرام کا کہہ کر خود کچن سنبھال لیا تھا وقتا فوقتا بوا بھی مدد کرواتیں پر زیادہ کام اب خود ہی کرتی تھی۔
آثیر بوا کے بتانے پر کچن کی طرف آیا تھا آمنہ مصروف تھی دوپٹہ اس نے اتار کر پاس پڑی چیئر پر رکھ دیا تھا آثیر نے جاندار آواز میں سلام کیا تو آمنہ اچانک اس کی آواز سے ڈر گئی تھی اسی خوف میں چمچ اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور ابلتے سوپ میں گرا وہاں سے سوپ والی پتیلی الٹی اور اس کے پاؤں پر گری۔
” ہائے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس کی آواز میں درد تکلیف اور کرب کا احساس رچا ہوا تھا اس کا ایک پاؤں بری طرح جل گیا تھا ایک ہاتھ بھی متاثر ہوا تھا جہاں جہاں سے جلد جلی تھی وہاں اسی وقت آبلے پڑ گئے تھے. آثیر اسے پکڑ کر چیئر پر بٹھایا آمنہ کے آنسو زارو قطار بہہ رہے تھے وہ بے حد پریشان تھا۔ آثیر کو نہیں پتا تھا ایسے موقعوں پر فوری طور پر اس کی تکلیف دور کرنے کے لیے کیا کرے اس نے آمنہ کا وہ جھلسا ہاتھ لبوں سے لگایا اسے کھڑا ہونے میں مدد دی۔ وہ اسے ساتھ لیے قریبی کلینک آ گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے آمنہ کے آبلے کاٹ کر دوا لگائی تکلیف کی شدت سے اس کی رنگت لال ہو گئی تھی۔ گھر لا کر آثیر نے اسے میڈیسن دی افروز کے لیے آثیر کی خوش کن اور آمنہ کا جھلسنا بہت تکلیف دہ تھا عمارہ پہلے ہی اسپتال میں تھی۔ بوا کو گھٹنوں کے درد نے لا چار کر رکھا تھا افروز بے چاری پریشان سی ہو گئیں۔
آمنہ کی ہر دوسرے دن بینڈیج ہوتی جو اس کے لیے تکلیف کا باعث تھی دو دن اس نے بینڈیج کرائی تیسرے دن ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ آثیر انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ اٹھتی ہے مگر اس کے تیور انکار والے تھے۔
” میں نے نہیں جانا ڈاکٹر کے پاس۔”
” جائیں گی نہیں تو آرام کیسے آئے گا۔” آثیر کا لہجہ بہت نرم تھا۔
” آجائے گا خود ہی۔”
” خود نہیں آئے گا ناں اچھا مجھے اپنا ہاتھ تو دکھائیں۔”
آمنہ نے بغیر کوئی ہٹ دھرمی دکھائے اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلا کر دیا۔ آثیر نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لیا آمنہ کی تماتر توجہ آثیر کے مضبوط مردانہ ہاتھوں کی طرف مرکوز تھی صاف رنگت والا ہاتھ جس میں مضبوطی کا احساس بدرجہ اتم تھا۔ آثیر کی گرفت میں نرمی تھی جیسے وہ شیشے کی بنی ہو دوسرے ہی پل آثیر نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تو آمنہ کے دل میں شور مچاتے جذبے خاموش ہو گئے۔ جس دن اس پر سوپ گرا تھا آثیر نے اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا تھا تکلیف کے باوجود آمنہ کو وہ سب یاد تھا کہ آثیر کے لبوں نے اس کے ہاتھوں کو چھوا ہے یکبار گی اس کے دل نے خواہش کی تھی کہ اس روز والا عمل آثیر پھر دہرائے اپنے لبوں کی مہک اس کے ہاتھ پر چھوڑ دے ایک بار پھر اسے بے خود کر دے۔ وہ کیوں ایسا چاہ رہی تھی وہ کیوں ایسا سوچ رہی ہے کیا وہ ہار گئی ہے شکست کھا ہی ہے۔ آثیر علوی نے اپنی خاموشی سے کوئی دیا روشن تو نہیں کر دیا ہے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
عمارہ بھابی نے ایک پیاری سی بیٹی کو جنم دیا تھا سب گھر والے خوش تھے تینوں بھائی اس ننھی سی پری کو حیرت و مسرت سے دیکھ رہے تھے۔ آمنہ نے بھی اس کے نرم نرم روئی کے گالے جیسی جلد کو ہاتھ سے چھوا تو اسے بہت اچھا لگا اس نے کتنی بار یہ عمل دہرایا اسے دیکھ کر موسی بھی ایسے ہی کر رہا تھا۔
آمنہ اس وقت بالکل ایک نئے روپ میں نظر آ رہی تھی بہت نرم اور انوکھی سی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
آثیر بہت مصروف تھا اس کی واپسی پہلے کی طرح اب شام کو نہیں ہوتی تھی بلکہ رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب آتا ۔ اتنا مصروف رہنے کے باوجود تروتازہ ہی نظر آتا عمارہ بھابی ننھی گڑیا کے ساتھ مصروف تھیں ایسے میں ان تین شرارتی بھائیوں کو کنٹرول کرنا اسی کا کام تھا۔
گیارہ بجے کا ٹائم تھا آمنہ سونے کی تیاری کر رہی تھی دن بھر کی تھکن تھی اسے جلدی نیند آئے جاتی تھی ابھی اس نے دروازہ بند نہیں کیا تھا معا آثیر بغیر دستک دئیے اندر آ گیا۔
نک سک سے تیار خوشبوؤں میں بسا بے حد حازب نظر لگ رہا تھا آمنہ کا دل دھڑک اٹھا۔
” آئیں دروازہ لاک کر لیں کسی کے آنے کا امکان تو نہیں پھر بھی کوئی آ جائے اور پوچھے تو کہہ دیں کہ میں دوستوں کے ساتھ باہر گیا ہوں اور آپ میرے روم میں سو جائیں۔” وہ بہت جلدی میں لگ رہا تھا اس کی سنے بغیر وہ اسی عجلت میں چلا گیا۔
پتا نہیں اس وقت وہ کیوں جا رہا تھا اپنے لوٹنے کا بتایا بھی نہیں اس کا انداز ظاہر کر رہا تھا کہ وہ مما پاپا کے علم میں نہیں لانا چاہتا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ خیر اس کی بلا سے جہاں بھی جائے آمنہ اس کے کمرے میں آ گئی چینج کر کے کپڑے آثیر نے کمرے میں ہی پھینک دئیے تھے جوں کے توں پڑے تھے آمنہ اٹھا کے باتھ روم میں لٹکا آئی وہ بیڈ پر ہی لیٹی۔
” میں کیوں صوفے پر لیٹوں نوکرانی نہیں ہوں کوئی خود لیٹیں صوفے پر موصوف میں تو ادھر ہی سوؤں گی۔” وہ جو سونے کے ارادے سے لیٹی تھی ایک گھنٹہ گزرا دوسرا گزرا نیند آنکھوں میں نہیں اتری۔
تین بج رہے تھے جب موبائل زور دار آواز میں گنگنایا آثیر کی کال تھی اسے سڑھیوں والا مین ڈور کھولنے کو کہہ رہا تھا وہ گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ آمنہ دروازہ کھول کر پھر سے لیٹ گئی اسے بہت غصہ آ رہا تھا وہ کوئی اس کی نوکرانی ہے جو رات کے تین بجے دروازے کھولے اپنی نیندیں خراب کرے۔ اگلی رات وہ پھر اس کے سر پر کھڑا تھا۔
” میں فرینڈز کے ساتھ جا رہا ہوں آپ میرے روم میں سو جائیں مین ڈور لاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے آج آپ ڈسٹرب نہیں ہو گی۔” کل کی طرح وہ آج بھی اچھے طریقے سے ڈریس آپ تھا اور بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔
آمنہ خاموشی سے اس کے روم میں آ گئی اور سونے کی ناکام کوشش کرنے لگی نیند کل کی طرح آج بھی روٹھی ہوئی تھی۔ آج وہ کل سے بھی لیٹ آیا تھا آمنہ جاگ رہی تھی پر سوتی بن گئی۔ وہ صوفے پر بیٹھا شوز اور شاکس اتار رہا تھا آمنہ پلکوں کی جھری سے دیکھ رہی تھی کہ اس کے گریبان کے اوپر کے تینوں بٹن کھلے ہوئے ہیں اور بال بھی بکھرے ہوئے ہیں جب وہ گیا تھا اس کی حالت نہیں تھی۔ وہ بیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں آمنہ کا قبضہ تھا وہ اسی طرف آ رہا تھا اس نے سختی سے پلکیں موند لیں آمنہ کو محسوس ہوا جیسے کوئی دائیں سائیڈ پر آ کے بیٹھا ہے. دوسرے ہی ثانیے دور جاتی چاپ کی آواز آئی آثیر نے بیڈ پر پڑا دوسرا تکیہ اٹھایا تھا اور جا کے صوفے پر لیٹا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°
اگلی پانچ راتیں اس نے شرافت سے گھر ہی پر گزاری تھیں اس کی دو راتوں کی غیر حاضری آمنہ کے علم میں ہی تھی اس وقت وہ کھٹک گئی جب آثیر نے خود آفر کی
” آپ عباس انکل کی طرف جانا ہے تو میں چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔ وہاں جا کے نیند پوری کر لیں۔”
” میری نیندیں یہاں بھی پوری ہو رہی ہیں۔” وہ کھٹاک سے بولی تھی۔
” آپ کے روم کی لائٹ جلتی رہتی ہے جبھی کہاں ہے میں نے۔” اس نے وضاحت کی۔
” وہ تو ایسے ہی جلتی رہتی ہے۔”
” نیند نہ آئے تو میرے پاس آ جایا کریں۔” آثیر علوی نے اپنی بے باک نگاہیں اس پر جما دیں۔
” میں اپنی جگہ پر ٹھیک ہوں۔”
” مگر آپ کی نیند تو میرے پاس ہے۔” آثیر علوی کی گہری مردانہ آواز اس کے سارے اندازوں اور دفاعی باتوں کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
” میں اپنی چیزیں اپنے پاس ہی رکھتی ہوں۔”
” ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” آثیر ہنستا چلا گیا آمنہ الجھی ہوئی تھی جانے کیوں وہ ہنس رہا تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اتوار کو پھر خصوصی تیاری کے ساتھ کہیں نکلا بہانہ وہی تھا دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں اب آمنہ کے پاس اس کے دوستوں کے نمبر نہیں تھے کہ پوچھ کر تصدیق کرتی۔
دوستوں میں لڑکیاں بھی تو شامل تھیں خاص طور پر فائقہ ۔
اگر وہ کسی سے پوچھ کے کر کال کرتی آثیر کو پتا چلتا تو پوچھتا کہ بی بی تمہیں کیا پروا میں دوستوں کے ساتھ ہوتا ہوں کہ کہیں اور تم یہ پوچھنے والی کون ہوتی ہو پھر اس کی کیا عزت رہ جاتی۔ پہلےبھی کون سا وہ اسے کوئی اہمیت دے رہا ہے اس گھر میں اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بس ہر ماہ اسے ضرورت کے پیسے دے کر اسے اس گھر میں لانے کا فرض پورا کر دیتا ہے باقی آمنہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے بڑے محبت کے دعوے کرتا تھا وہ صرف اس کے وجود پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانا چاہتا تھا تا کہ اس کے مردانہ غرور کی تسکین ہو سکے۔ گھر سے باہر اس کی ضرورت پوری ہو رہی ہے آخر کو ہینڈسم ہے پیسے والا ہے۔ لڑکیوں کو اس میں اٹریکشن بھی فیل ہوتی ہے. آمنہ کی ساری سوچیں منفی تھیں اپنی جگہ وہ خود کو حق بجانب تصور کرتی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...