“بالکل ٹھیک فرمایا برخوردار، میری ہی غلطی ہے۔ آپ کو تو بچپن میں ہی آپ کی برادری کے حوالے کر دینا چاہیئے تھا۔ عزت دار مرد کی زندگی آپ کو راس کہاں۔ جایئے ابھی بھی وقت ہے چلے جایئے اپنے لوگوں میں۔”
“ابو میں ہیجڑا نہیں ہوں۔ کیسے یقین دلاوں؟ میری زندگی ایک جھوٹی عزت کے پیمانے تک پہنچنے کی کوشش میں جہنم ہوگئی ہے۔ اور آپ نے پاس رکھ کر مجھ پہ احسان نہیں کیا بلکہ مجھے مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ میری شخصیت سوائے اس ایک خامی کے کچھ بھی نہیں بچی۔ شادی نا کرتا تو آپ کی بے عزتی اولاد ناہوتی تو آپ کی بے عزتی۔ میں کہاں ہوں میری ذات کہاں ہے؟ خود کو آپ بہت عزت دار مرد کہتے ہیں نا نکلیں ذرا باہر اور پوچھ کے تو دیکھیں کہ جناب محمد شکیل رانا صاحب کی کیا “عزت” ہے معاشرے میں۔ اسکول میں کسی کو پتا چل جاتا تھا کہ ہم آپ کے بیٹے ہیں تو لیڈیز ٹیچرز اور لڑکیاں ہم سے کترا کے گزرتی تھیں۔ اشتہاری مجرموں جیسا رویہ ہوتا تھا ہمارے ساتھ ہر نئی آنے والی اسٹوڈنٹ کو اشاروں میں بتا دیا جاتا تھا کہ ان سے بچ کے رہنا۔ یہ ہے آپ کی مردانگی جس کے جھنڈے گاڑنے کی لیئے آپ نے ہماری زندگیاں تباہ کردیں۔ والدین کو کم از کم یہ اختیار تو ہوتا ہے کہ اولاد ان چاہی ہے تو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کروا سکتے ہیں۔ آپ جیسے باپ سے اولاد کیسے بچے؟ کیسے ہٹائے یہ ولدیت کا ٹھپا؟ شکر کریں ابو آپ کا سابقہ کسی نازیہ سے نہیں پڑا ورنہ کئی سال پہلے آپ اپنی مردانگی سمیت جیل پہنچ چکے ہوتے۔ مجھے نازیہ سے شکایت نہیں اگر چونٹی کو مسلیں تو وہ بھی پلٹ کے کاٹتی ہے نازیہ تو پھر انسان ہے۔”
“واہ پولیس کی ٹھکائی نے تو ضمیر جگا دیا رافع صاحب کا۔ اب یہ باپ کو بتائیں گے کہ صحیح غلط کیا ہوتا ہے۔ میرے گھر میں رہ کر مجھے آنکھیں دکھائی جارہی ہیں۔ صحیح کہہ رہے ہو کہ ماں باپ کو اختیار ہوتا ہے اور اب مجھے افسوس ہورہا ہے کہ میں یہ اختیار استعمال کر ہی لیتا تم جیسے بیٹے سے ایک اولاد کم ہوتی تو اچھا تھا۔ اور رافع میاں یہ تھانے کچہریاں کوئی مرد کی عزت کم نہیں کرتیں۔ تم جیسے زنانے ہی ڈرتے ہیں ان سے۔”
رافع کچھ سیکنڈز باپ کو گھورتا رہا پھر جھٹکے سے اٹھا۔
“ٹھیک ہے آپ کو مبارک ہو آپ کا گھر اور مردانگی میری واقعی یہاں کوئی جگہ نہیں۔”
رافع دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا تیزی سے اوپر گیا
کچھ ہی دیر بعد وہ نیچے آیا تو ایک چھوٹا سا بیگ تھا اس کے ہاتھ میں۔ اس کے چہرے پہ شدید تکلیف کے آثار تھے۔
“دیکھ لیں آپ کی دولت میں سے کچھ نہیں لے کے جارہا صرف میرے کاغذات اور کچھ ضرورت کی چیزیں ہیں۔”
“رافع بیٹا کیا پاگل پن ہے۔ باپ ہیں تمہارے غصے میں کچھ بھلا برا کہہ دیا تو چپ کر کے سن لو۔ تمہیں بھی پتا ہے فکر کرتے ہیں تبھی ڈانٹتے ہیں۔ کبھی کوئی ماں یا باپ چاہے گا کہ اس کی اولاد کی معاشرے میں بے عزتی ہو؟ چلو رکھ کے آو یہ۔” حاجرہ بیٹے کو جاتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔
“جانے دو حاجرہ بیگم اسے۔ ایسا ہے تو ایسا ہی سہی۔ آرام سے رہنے کی جگہ میسر ہے نا تبھی دماغ آسمان پہ ہیں ان کے۔ پیدا کیا اچھا کھلایا اچھا پہنایا اب باپ سے لمبے ہوگئے تو ہمیں ہماری غلطیاں بتائیں گے۔ جس سے ایک بیوی نا سنبھلے وہ اور کیا کرے گا۔ آئے گا روتا ہوا کچھ دن میں یہیں۔”
رافع غصے میں تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا پیچھے حاجرہ، رافع رافع کہتی بھاگیں مگر بوڑھی ٹانگیں جوان قدموں کا مقابلہ کیا کرتیں۔ ان کے دروازے تک پہنچتے پہنچتے وہ کافی دور جا چکا تھا۔
“چلو ختم تماشہ اپنے کمروں میں جاو سب”
ابو ہاتھ جھاڑ کے کھڑے ہوئے وہ کمرے کی طرف مڑے پھر ایک دم مڑے۔
“واحد کل باسط کے سلسلے میں وکیل کے پاس جاو تو ایک عاق نامہ بنوا لینا مجھے جلد سے جلد اس کا اشتہار دینا ہے۔”
“ابو آپ آرام کرلیں صبح دیکھ لیتے ہیں اس مسئلے کو۔”
“جو بات کہہ دی سمجھ نہیں آتی؟ تم نہیں جاو گے تو میں خود چلا جاوں گا۔ بوڑھا ہو گیا ہوں تو یہ مت سمجھو کہ تم لوگوں کے رحم و کرم پہ ہوں کسی نے اعتراض کیا تو اس کا بھی نام ساتھ لکھوا دوں گا۔ اور بوریا بستر کے ساتھ روانہ کردوں گا۔”
وہ مڑ کر کمرے میں چلے گئے۔ امی منہ میں دوپٹہ ٹھونسے سسکیاں لے رہی تھیں۔ بسمہ اور سنیہ انہیں چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں سنیہ خود بھی روتی جارہی تھی۔
سب اٹھ اٹھ کر کمروں میں جانے لگے۔ باسط اٹھنے لگا تو بسمہ سہارا دینے لگی باسط نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور لڑکھڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ بسمہ خاموشی سے ہونٹ کاٹنے لگی۔ اس نے بیچارگی سے اپنی طرف دیکھتی رافیعہ بھابھی کو دیکھا۔ انہوں نے رکنے کا اشارہ کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
چند منٹوں کے بعد ہی وہ واپس آئیں تو ہاتھ میں دواوں والا ڈبہ تھا۔
“بسمہ تم ایک پیالے میں پانی لے آو میں اوپر جارہی ہوں۔”
بسمہ اتنی تیزی سے پیالے میں پانی لے کر پلٹی کہ رافیعہ بھابھی پوری سیڑھیاں بھی نہیں چڑھ پائیں تھیں کہ وہ بھی پیچھے پہنچ گئی۔ وہ دونوں تقریبا ساتھ ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوئیں۔
باسط سیدھا سیدھا لیٹا ہوا تھا اور ایک بازو آنکھوں پہ رکھا ہوا تھا۔
“باسط! باسط اٹھو شاباش دوا لگواو۔”
رافیعہ بھابھی نے باسط کو آواز دی۔ باسط نے بازو ہٹایا بسمہ پہ نظر پڑتے ہی دوبارہ رکھ لیا۔
“بھابھی اس کو کہیں میرے سامنے سے دفع ہوجائے۔ مجھے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنی”
“حد ہوتی ہے بچپنے کی باسط۔ اس کو صفائی کا موقع دیئے بغیر ہی اس پہ ناراض ہورہے ہو۔ خود تم نے کیا کیا اس پہ کچھ دھیان ہے کہ نہیں۔” ساتھ ہی رافیعہ بھابھی نے اسے بازو پکڑ کر بٹھا دیا۔ اور تھوڑا ڈیٹول روئی پہ لگا کر زخم صاف کرنے لگیں۔
“بھابھی آپ عورتوں کو بس اپنا آپ ہی مظلوم نظر آتا ہے۔ سسسس آہستہ کریں درد ہورہا ہے۔” اس نے ایک دم چہرہ پیچھے کیا۔ کچھ سیکنڈ کو رکا جیسے درد پہ قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو۔
“جو کچھ ہوا اس میں نازیہ بھی شامل تھی بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اسی کی غلطی زیادہ ہے۔ اس کے کپڑے دیکھتی تھیں نا آپ، چھوٹا سا رومال سر پہ منڈھ لینے سے پردہ نہیں ہوجاتا۔ اب ایسے کپڑوں میں جوان عورت سامنے ہو تو مرد بہک ہی جاتا ہے۔”
“یہ تاویلیں تم ہمیں دے سکتے ہو عدالت میں نہیں۔
اب پیناڈول کھاو دو اور سو جاو۔ بسمہ خیال کرنے والی لڑکی ہے اب اپنی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دو تھوڑی۔ جو بگڑ گیا اسے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا مگر آگے کی زندگی ٹھیک کی جاسکتی ہے۔”
“بھابھی آپ کو پتا ہے میں تو داغ والا سیب نہیں کھاتا ایسی عورت کو بیوی بنا کے کیسے رکھ سکتا ہوں جس کے دوسرے مردوں سے تعلق رہے ہوں بلکہ شاید اب بھی ہوں۔”
“واہ باسط صاحب آپ کے معیار اچھے ہیں آپ پہ زنا بالجبر کا الزام ہو تو بھی آپ پاکیزہ اور میرے لیئے ایک میسج بھی آجائے تو میں داغ دار۔”
“بسمہ تھوڑی دیر چپ رہو۔” رافیعہ بھابھی نے اسے ٹوکا۔
“دیکھو باسط ابھی تم پہ جو کیس ہے وہ مسئلہ زیادہ اہم ہے، اس پہ توجہ دو۔ یہ میسج والا مسئلہ بعد میں بھی نپٹایا جاسکتا ہے۔”
“آپ کے لیئے ہوگا چھوٹا مسئلہ میرے لیئے نہیں ہے مجھے گھن آرہی ہے یہ سوچ سوچ کر کہ میں اتنی دن ایسی عورت کے ساتھ سویا ہوں جس کے کسی سے تعلقات رہ چکے ہیں۔”
“مجھے زیادہ گھن نہیں آنی چاہیئے؟ میں نے آپ کو غیر عورتوں کو گھورتے ہوئے دیکھا ان پہ فحش کمنٹس کرتے سنا اپنی آنکھوں سے آپ کی اور نازیہ بھابھی کی بے تکلفی دیکھی اور آپ تو اب الزام بھی مان رہے ہیں۔” بسمہ چپ نہیں رہ پائی
“دیکھیں ذرا آپ مجھے سمجھا رہی ہیں اس کی زبان نہیں دیکھ رہیں۔ شوہر ہوں اس کا عزت کا محافظ ہو اس کی۔ میری جان کی فکر کرنے کی بجائے مجھے طعنے دے رہی ہے۔”
وہ ایک دم کھڑا ہوگیا۔ آگے بڑھ کے بسمہ کے بال پکڑ لیئے۔
“تو اگر یہ سمجھ رہی ہے نا کہ تیرا کوئی یار ہے اور اس کی شہہ پہ تو مجھے دبا لی گی تو بھول ہے تیری۔ زندہ گاڑ دوں گا یہیں گھر کے صحن میں کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ بسمہ بیگم گئیں کہاں۔”
اتنی زور سے بال پکڑنے پہ بسمہ کی چیخ نکل گئی۔
“باسط بالکل ہی ہوش کھو بیٹھے ہو کیا۔ چھوڑو اسے۔ اور تم بھی خاموش رہو۔ شوہر کی حالت دیکھو مرہم پٹی کرو اس کی۔ اس مسئلے سے جان چھوٹے پھر لڑتے رہنا آپس میں۔” رافیعہ بھابھی نے دونوں کو سمجھا بجھا کر باسط کے زخم کے اردگرد سے مٹی وغیرہ صاف کر کے دوا لگائی اور خود ہی دوا کھلا کر نیچے گئیں۔
ان کے جاتے ہی باسط نے بسمہ کا تکیہ نیچے پھینکا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔
باسط کا رویہ اگلے دن بھی اکھڑا اکھڑا ہی رہا۔ خود بسمہ کو بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک ایسے مرد کی جی حضوری کیوں کر رہی ہے جو ایک عورت کی عزت لوٹ چکا ہے۔ پھر خیال آتا کہ شاید نازیہ بھابھی بھی تو شامل تھیں ان کی بھی غلطی ہوگی۔ ان کے اور باسط کے تعلق سے کہیں سے بھی نہیں لگتا تھا کہ ان پہ کوئی زبردستی ہوئی ہے۔ اور وہ اگر باسط کے ساتھ نا رہتی تو کہاں جاتی۔ اسے پتا تھا کہ اس کے میکے میں اس کے لیئے کوئی جگہ نہیں۔ مگر شاید آگے اس کی زندگی میں کچھ اور لکھا تھا۔
چند دن ہی گزرے ہونگے ایک دن باسط نے خود اسے مخاطب کیا۔ اسے حیرت تو ہوئی مگر شکر بھی کیا کہ باسط نے شاید اپنی ناراضگی ختم کردی ہے۔ کیونکہ لہجہ بھی نرم ہی تھا۔
“بسمہ تم سے بات کرنی ہے، تمہاری مدد چاہیے”
” جی باسط میری کوشش ہوگی کہ میں جس حد تک آپ کی مدد کرسکوں ضرور کروں۔”
” صرف کوشش نہیں، ضرور کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے”
” جی آپ بتائیں تو۔”
” دیکھو تمہیں پتا ہے میری تنخواہ بس مناسب ہے گھر وغیرہ کا خرچہ کرنے کے بعد بچت نہیں ہوتی۔ جب سے کیس شروع ہوا ہے میرا بہت خرچہ ہوگیا ہے۔ پولیس والوں کو اتنے پیسے دینے پڑے۔ وکیل کو دیئے آنے جانے میں بھی خرچہ۔ اب مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔”
“باسط میں کہاں سے پیسے لاوں گی میں تو کوئی جاب بھی نہیں کرتی نا مجھے کوئی جیب خرچ دیتے ہیں آپ جو جمع ہو۔”
“اس وقت طعنے دینے کی ضرورت نہیں”
“طعنہ نہیں دے رہی صرف بتا رہی ہوں”
“میں نے کب کہا کہ تمہارے پاس پیسے ہونگے۔ میں تو کہہ رہا ہوں اپنے ابو اور بڑے بھیا سے بات کرکے دیکھو۔ ان کو راضی کرو کہ وہ کچھ پیسے دے دیں۔”
“باسط میں ان سے پیسے نہیں مانگتی عادت ہی نہیں۔”
“شوہر مر رہا ہے تمہیں عادت اور عزت کی پڑی ہے۔ یا تو کہہ دو کہ تم چاہ ہی یہ رہی ہو کہ میں جیل جاوں اور تم اپنے عاشق کے ساتھ گل چرے اڑاو۔”
“باسط ایسی بات نہیں ہے آپ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ اچھا کتنے پیسوں کا بندوبست کرنا ہے؟”
” فی الحال ایک لاکھ تو ہوں باقی دیکھتے ہیں کب کتنے کی ضرورت پڑے۔”
“ایک لاکھ؟ اتنے سارے پیسے کیوں؟”
“تمہارے باپ سے پیسے منگا کر ملیں لگاوں گا اپنی۔ احمق عورت اندازہ بھی ہے ابھی تک کتنا خرچہ ہوگیا ہے۔ پہلی ہی دفعہ ضمانت میں 80 ہزار سے زیادہ خرچہ ہوگیا تھا۔ اب تک ملا جلا کر ڈیڑھ لاکھ خرچ ہوچکا ہے۔”
“باسط آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اتنے پیسے وہ دے کیسے سکتے ہیں۔”
“کیوں نہیں دے سکتے اچھا کھاتے کماتے ہیں۔ اب تو گاڑی بھی لے لی ہے تمہارے بھائی نے۔ شادی شدہ ہے نہیں کہ بیوی بچوں کا خرچ ہوگا۔ بہنوں کو نہیں دے گا تو کیا کرے گا اتنے پیسوں کا۔ باپ بھی کما ہی رہا ہے تمہارا ریٹائرڈ ہوتا تو چلو کہتے کہ پیسے کی تنگی ہے۔”
” وہ تو ہے مگر ان کی اپنے خرچے بھی تو ہیں۔ بھیا اوپر اپنے لیئے پورشن بنوا رہے ہیں اس میں بھی ان کا خرچہ ہورہا ہے۔”
“سیدھا سیدھا کہو کہ تم پیسے لینا ہی نہیں چاہتیں
بہن کے لیئے پورشن لیٹ کروالیں گے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ بہن بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔”
“مگر باسط”
“بس بحث مت کرو سامان سمیٹو اپنے ابا کے گھر جاو اور اس گھر میں قدم اب تب ہی رکھنا جب پیسوں کا بندوبست ہوجائے۔”
باسط نے زبردستی اس کا سامان پیک کروایا اور خود ہی سسرال فون کردیا کہ اسد کو بھیج دیں بسمہ آپ لوگوں سے ملنے کے لیئے بے چین ہورہی ہے۔
بسمہ میکے آتو گئی مگر اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ پیسے کیسے مانگے وہ بھی ایک لاکھ ایک ساتھ۔ اس کی ذات پہ گھر والوں نے ایک ساتھ کبھی 5 ہزار خرچ نہیں کیئے سوائے شادی کے۔ تو ایک لاکھ کہاں سے دیتے۔ دو تین دن تو ایسے ہی گزر گئے۔ دادی اور امی دونوں اس کے اس طرح آنے پہ مشکوک ہوگئیں کیونکہ وہ اتنے دن رکنے آئی ہی نہیں کبھی۔ دادی کئی دفعہ خیریت پوچھتیں باسط کا حال پوچھتیں۔ ان کو ابھی تک مقدمے والی بات پتا نہیں چلی تھی۔ بس یہ پتا چلا تھا کہ نازیہ لڑ کے اپنے گھر چلی گئی ہے تو اس کے لیئے دادی اور امی کا خیال تھا کہ اس جیسی عورت تو اتنے عرصے بس گئی وہی حیرت ہے۔ باسط کا روز فون آتا تھا اور باتوں باتوں میں روز ہی دھمکی بھی ملتی تھی۔
ایک دن دادی نے اسے گھیر ہی لیا۔ شاید امی اور دادی کا پہلے ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ ہوگیا تھا۔ کیونکہ امی بھی سب کام وام چھوڑ کر پاس آکر بیٹھ گئیں۔
“باسط میاں سے بات ہوئی کب لینے آرہے ہیں تمہیں؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے”
“دادی ابھی تو میرا کچھ دن رہنے کا ارادہ ہے۔ ویسے سب ٹھیک ہے”
“دیکھو بی بی دیکھنے میں سب ٹھیک لگ رہا ہے مگر جیسے تم آکر رہ رہی ہو یہ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ہمارا بھی کچھ تجربہ ہے”
“دادی میں اگر آتی نہیں تو کیا مجھے اپنے گھر آکر رہنے کا حق نہیں۔”
“آو ضرور آو جتنے دن رہنا ہے رہو مگر بیٹا بات ہی یہی ہے کہ تم رہ سکتی ہو مگر رہتی نہیں ہو تو اب یہ چپ چاپ اتنے دن کا رہنا کھٹک رہا ہے۔ کوئی جھگڑا ہوا ہے باسط سے؟” بسمہ کا سر جھک گیا نفی میں سر ہلایا۔ ناچاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
“دادی باسط کو پیسوں کی ضرورت ہے”
“اے ہے کیوں”
“نازیہ بھابھی نے کیس کردیا ہے رافع بھائی اور باسط پہ”
“ہیں نازیہ نے کیوں۔ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا وہ ہے ہی اوچھی قسم کی عورت اس سے کوئی بعید نہیں۔”
“وہ۔۔۔۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ باسط نے۔۔۔۔۔” بسمہ کہہ کر خاموش ہوگئی شاید اتنی شرمندگی باسط کو عزت لوٹ کے نا ہوئی ہو جتنی بسمہ کو یہ بتاتے میں ہورہی تھی کہ اس کا شوہر ایک عورت کی عزت لوٹ چکا ہے۔
“کیا باسط نے” اس بار امی بولیں
“ان کا کہنا ہے کہ باسط نے ان کا ریپ کیا ہے اور اس میں رافع بھائی کی مرضی شامل تھی” بسمہ کا دل چاہ رہا تھا یہ بتانے کی بجائے زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
“ہائے میرے اللہ۔” دادی نے ایک ہاتھ سینے پہ رکھ لیا۔
“دیکھا کیسی جھوٹی عورت ہے کیسا گھناؤنا الزام لگایا ہے اپنے دیور اور شوہر پہ بھلا شوہر بھی اپنی مرضی سے یہ کروائے گا۔ ایسے ہی پتا چل رہا ہے کہ یہ عورت کتنی جھوٹی ہے۔”
بسمہ نے دادی کی رائے پہ کچھ کہنے کی بجائے مقصد کی بات کی۔
“دادی اب مسئلہ یہ ہے کہ تھانے کچہری میں ان کا بہت خرچہ ہورہا ہے اور آپ کو اندازہ تو ہوگا کہ ان کی تنخواہ بھی زیادہ نہیں ہے۔ میں نے ہی ان سے کہا کہ میں ابو سے بات کر کے دیکھتی ہوں شاید کوئی بندوبست ہوسکے۔ وہ تو ناراض ہورہے تھے کہ کسی سے بھی کوئی مدد لینے کی ضرورت نہیں۔”
“ائے ہاں اچھا کیا تم نے بتا کہ وہ بھی ہمارا بیٹا ہے جتنا ہوسکے گا ہم کریں گے۔”
دادی نے فورا حامی بھر لی
“کتنا چاہیئے تقریبا” امی نے پوچھا اب
“امی تقریبا لاکھ کے قریب خرچہ ہے آپ دیکھیں ابو سے بات کر کے کتنا ارینج ہوسکے گا؟”
“یہ تو کافی بڑی رقم ہے بسمہ آسانی سےتو نہیں ہوپائے گا انتظام۔”
“امی آپ بات تو کریں دیکھیں پھر بھیا اور ابو کیا کہتے ہیں۔”
“اپنے بھیا کا تو تم چھوڑ ہی دو کہ وہ کوئی پیسا دے گا تمہیں پتا نہیں ہے کیا۔ دیتا ویتا کچھ نہیں بس شور زیادہ مچاتا ہے۔” بسمہ نے سر ہلا دیا۔
شام میں ابو آئے تو امی نے فورا یہی بات نکال لی شاید انہیں موقعے کی نزاکت کا اندازہ ہوگیا۔
ابو نے سوچتے ہوئے سر ہلایا
“یعنی مجھے جو اڑتی اڑتی افواہیں پتا چل رہی تھیں وہ ٹھیک ہی تھیں کہ باسط صاحب کیا کارنامے کر چکے ہیں”
“اب آپ یہ چھوڑیں کہ اس نے کیا کیا ہے ابھی تو بیٹی کے گھر بچانے کا مسئلہ ہے۔”
“جب ایسی حرکت کی تھی تب ہی برخوردار کو سوچنا چاہیئے تھا کہ مسئلہ گلے پڑا تو کیا کریں گے۔”
” اففو مشتاق صاحب بلاوجہ بحث کر رہے ہیں ابھی تو یہ بھی پکا نہیں کہ اس بیچارے نے یہ کیا بھی ہے یا نہیں نازیہ کوئی سیدھی سادھی عورت نہیں کہ اسے کسی نے ایسے استعمال کر لیا ہوگا۔ مجھے تو جھوٹا ہے لگ رہا ہے الزام۔ ابھی آپ یہ بتائیں کہ بیٹی کی مدد کیسے کریں۔”
“مسئلہ تو سنجیدہ ہے مگر اتنے پیسے ایک ساتھ نہیں نکالے جاسکتے۔ ایک دفعہ اسے دی دیئے تو اس کا بھی منہ کھل جائے گا اور باقی دامادوں کو بھی شہہ دینے والی بات ہوگی۔”
“مشتاق صاحب بیٹی کے گھر کا سوال ہے کہنے کو اس نے کہہ دیا کہ وہ خود آئی ہے مگر میں ماں ہوں اچھی طرح جانتی ہوں اسے وہ خود سے اتنا بڑا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ باقی دونوں کی طرح نہیں ہے یہ۔ وہ اگر ایسا کوئی تقاضہ کرتیں تو میں آپ کی ہی حمایت کرتی۔”
“یار تم سمجھا کرو۔ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے تمہارے بڑے سپوت سے تو مجھے کوئی امید نہیں کہ وہ بڑھاپے میں ہم پہ کچھ خرچ کرے گا یہ جو میں نے جمع کیا ہے یہی سہارا ہوگا بس۔ یہ بھی اولاد پہ لٹادوں تو ہم تم بھیک مانگتے نظر آئیں گے بعد میں۔”
“توبہ ہے اتنی بری بھی نہیں ہماری اولاد۔ اور لاکھ روپے نا بھی سہی کچھ بندوبست تو کرنا پڑے گا نا بیٹی نے پہلی بار کچھ مانگا ہے خالی ہاتھ تو واپس نہیں بھیجیں گے اسے۔”
“اچھا میں دیکھتا ہوں شاید بیس پچیس ہزار کا بندوبست کرسکوں اس سے زیادہ کی امید نا رکھنا۔”
“مگر یہ توبہت کم ہیں”
“بس یہی ہیں جو بھی ہیں آگے تمہاری مرضی” امی نے بسمہ کو بتایا تو اس کا دل ڈوب گیا۔
رات میں دوبارہ باسط کا فون آیا۔ باسط سن کے شدید ناراض ہوگیا اس کا کہنا تھا کوشش کرو کہ تمہارے کنجوس ابا 20 سے کم از کم پچاس ہزار پہ تو آجائیں۔
اگلے دن دوبارہ یہی بحث ہوئی ابو آخر کار تیس ہزار تک مان گئے۔ امی نے اسے دس ہزار اپنے پاس سے دے کر چالیس ہزار پورے کر دیئے۔جب وہ اسد کے ساتھ سسرال کے لیئے نکلی تو شام ڈھلنے لگی تھی موسم بھی ٹھیک نہیں تھا بادل کافی گہرے تھے اور بہت گھٹن تھی جیسے بس کچھ ہی دیر میں بارش ہونے والی ہو۔ ابو نے نکلتے نکلتے اسے جتا دیا کہ یہ پہلی اور آخری بار ہے اس کے بعد اس کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔ اس کی زندگی ہے اسے اپنے مسائل خود دیکھنے ہوں گے۔ ان کی ذمہ داری شادی کے بعد ختم ہوگئی ہے۔ بھیا ساتھ کھڑے ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ اس کا دل کسی انجانے خدشے کی بنا پہ بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عجیب سی متلی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ سسرال جانے ک بجائے کہیں اور بھاگ جائے اسے پتا تھا کہ باسط کا ردعمل بہت شدید ہوگا۔ وہ جب تک سسرال والے گھر پہنچی اندھیرا تقریبا ہوچکا تھا اسد اسے دروازے پہ چھوڑ کر واپس مڑ گیا۔
دروازہ بجاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہلکی ہلکی سی بوندا باندی شروع ہوگئی بوندیں کم تھیں مگر بہت موٹی موٹی تھیں۔ ساتھ ہی بادلوں میں گڑگڑاہٹ شروع ہوگئی اس نے گھبرا کر دروازہ پیٹ دیا۔ دروازہ کھلا تو سنیہ سامنے تھی۔
“اف بھابھی آپ نے ڈرا دیا اتنی بری طرح دروازہ بجاتے ہیں کیا۔ جلدی اندر آجائیں بارش تیز ہونے والی ہے۔” وہ بھی فورا اندر آگئی بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے اسے بہت ڈرا دیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کانپ رہی تھی۔ وہ ہال تک پہنچی تو باسط نیچے ہی آرہا تھا۔ باہر بارش تیز ہوگئی تھی۔ گڑگڑاہٹ کا شور اتنا تھا کہ عام بات بھی چیخ کے کرنی پڑ رہی تھی۔
“واہ بھئی میری بیگم میدان فتح کر کے آگئیں؟”
سنیہ انہیں باتیں کرتا چھوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گئی۔ واحد بھائی کہ کمرے پہ تالا لگا ہوا تھا یعنی وہ سب ہی کہیں گئے ہوئے تھے۔
“ہاں دو بھئی کتنی دولت لٹائی سسر صاحب نے اپنی چہیتی بیٹی پہ”
بسمہ نے کانپتے ہاتھوں سے چالیس ہزار کی گڈی پرس میں سے نکال کر باسط کے ہاتھ میں دی اور اوپر جانے لگی
“محترمہ گننے تو دیں کہ کتنے پیسے ہیں تاکہ آپ کو گھر میں رہنے کی پرمیشن دی جائے۔” باسط نے بازوپکڑ کے روکا۔
“کم ہوئے تو”
“تو آپ دوبارہ جائیں گی مہم سر کرنے”
” اتنی بارش میں۔ باسط کوئی سواری بھی نہیں ملے کی اب۔ اسد بھی چلا گیا۔”
باسط کی پیشانی پہ بل آگئے
“یعنی پیسے کم ہیں” اس نے بڑھ کے تھپڑ مارا بسمہ کے منہ پہ تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ وہ لڑکھڑا گئی۔
“بھیک لینے بھیجا تھا تیرے باپ سے جو چند ٹکے لے کے واپس آگئی؟”اسے بازو پکڑ کے کھڑا کیا۔
” نکل ابھی گھر سے، جا واپس پورے پیسے لائے گی تو ہی گھر میں گھسنے دوں گا۔” وہ اسے گھسیٹ کے باہر لے جانے لگا۔
” باسط پلیز ایسا مت کریں باسط مجھے بارش سے ڈر لگتا ہے۔ سنیہ۔۔۔۔۔ سنیہ۔۔۔۔ امی۔۔۔۔ انہیں روکیں۔ باسط پلیز آپ جو کہیں گے میں ویسا کروں گی مجھے گھر سے مت نکالیں، میں کہاں جاوں گی۔” وہ حلق کے بل چیخ رہی تھی مگر بادلوں اور بارش کے شور میں اس کی آواز دب گئی وہ رستے میں آتی ہر چیز پکڑ کر خود کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ باسط نے اسے باہر دھکیل کے دروازہ بند کردیا۔وہ جھٹکے سے نیچے گری پھر اٹھ کر اندر آنے کی کوشش کی مگر تب تک باسط دروازہ بند کرچکا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح دروازہ بجانے لگی چیخ چیخ کر کبھی باسط کو کبھی باقی گھر والوں کو آواز دے رہی تھی۔ اتنی میں لائٹ چلی گئی پوری گلی میں ایک دم گھپ اندھیرا ہوگیا۔ وہ سہم کر دروازے کے کونے میں دبک گئی۔ بہت دیر وہیں بیٹھی سسکتی رہی آہستہ آہستہ اس کے حواس ساتھ چھوڑتے جارہے تھے۔ وہ بھول گئی کہ وہ یہاں کیوں بیٹھی ہے بس ہر دفع بادلوں کی گڑگڑاہت اسے زیادہ دہشت زدہ کردیتی تھی۔ بادل ایک دم بہت زور سے گرجے اور وہ اندھیری گلی میں کچھ سوچے سمجھے بغیر بھاگنے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں بھاگ رہی ہے ایک دم کسی نے پکڑ لیا۔
“او لڑکی کہاں بھاگ رہی ہے پاگل ہے کیا اتنی بارش اور اندھیرے میں باہر گھوم رہی ہے۔”
بسمہ نے خالی جالی نظروں سے اس شخص کو دیکھا۔ اسے بالکل سمجھ نہیں آیا کہ وہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔ پھر اسے نہیں پتا کب وہ اسے وومین پولیس اسٹیشن لے کر گیا وہاں کیا کاروائی ہوئی وہ گم سم سی تھی مستقل۔ اس رات اسے وہیں رکھا گیا اگلے دن دس گیارہ بجے ہی دو لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ اسے عدالت لے جایا گیا۔ جج اور وکیل اس سے پوچھتے رہے مگر وہ خالی خالی آنکھوں سے سب کو دیکھتی رہی۔آخر کار جج نے اپنا فیصلہ سنا کر معاملہ برخواست کردیا۔
اسے پولیس کی گاڑی میں بٹھایا گیا کچھ دیر گاڑی چلتی رہی اور ایک بڑی سے عمارت کے سامنے جاکر رکی۔ اس کا بڑا سا گیٹ تھا گیٹ کے پاس ایک پولیس والا مستعد کھڑا تھا گیٹ کے اوپر موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا
“دار الامان”
******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...