بہووں پر میں اپنا زور نہیں چلا سکتا, وہ تو پرائی ہیں۔ مگر بیٹی پر تو مجھے پورا پورا حق حاصل ہے, ریحان اور فرمان کئ بیویوں اجازت دے دینے کا مطلب نہیں کہ میں اس سب پر خوش ہوں اگر میں منع کردیتا تو بہووں کے ساتھ بیٹے بھی ناراض ہو جاتے ویسے بھی آج کل کے لڑکے زیادہ زن مرید ہوگے ۔ہماری طرح تھوڑی کہ بیوی کو اس کی اوقات یاددلا دوں تمہیں۔ یہ تو بات بھی بیوی کا موڈ دیکھ کر کرتے ہیں کہ کس وقت کون سی بات بیگم صاحبہ کو ناگوار گزرسکتی ہے۔
اپنی اپنی اس تاویل سمیت مجھے اور بھی زہر لگے تھے۔ نجمہ بھابھی اور سیما بھابھی اپنی اپنی شاپنگ اپنی مرضی سے کرتیں بازاروں میں پھرتیں آبی کچھ نہ کہتے یہاں تک کہ شیما بھابھی چھ سالہ حنا کو بھی اس کی پسند کی شاپنگ کرواکر لانے لگیں۔
جب تک خریداری آبی کے ہاتھ میں تھی چاہیے رنگ اور پرنٹ اچھا نہ لگے مگر کپڑا کئ کوالٹی تو اچھی ہوتی تھی۔
یہ کیسی زندگی تھی مجھے اپنی زندگی جہنم محسوس ہوتی تھی۔ میری زندگی کا ہے وہ مقام ہے جہاں میں حجت میں اپنا عکس دیکھتی ہوں۔ فرق سرف یہ ہے کہ میں غیر شادی شدہ تھی۔ اچھا کھاتے پیتے گہرانے سے تعلق رکھتی تھی اور وہ شادی شدہ ہر غریب تھی ۔ ان تمام حالات سے نالاں ہو کر جو کچھ میں نے کیا میں نہیں چاہتی تھی۔ حجت بھی اپنے لے ایسا ہئ کوئی چور دروازہ تلاش کرے۔ اسے بھی چودہ سال کئ عمر میں پچاس سال کے بڈھے سے بیاہ کر یہ کہا گیا تھا کہ اب تم چودہ کے سن سے نکل کر پچاس کے سن میں داخل ہو جاؤ اور مجھے سے بھی بچین کئ معسومان اور بے سرر خواہشات چھین کر بڑھاپا طاری کرنے کو کہا گیا۔
پھر ان دنوں جب میں اپنی زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی تھی اچانک ہی بہت بڑی تبدیلی آگی ۔ رمیز ناصر نام تھا اس کا میری پہلی دفعہ اس سے اتفاقاً ٹیلی فون پر بات ہوئ تھی ۔وہ فون کہیں اور کر رہا تھا لیکن غلطی سے فون ہمارے گھر مل گیا تھا اس وقت تو اس نے شاشتگی سے معذرت کرکے فون بند کر دیا تھا مگر اگلے روز جب اس کا دوبار فون آیا اور اتفاق سے میں نے ہئ اٹینڈ کیا تو وہ مجھ سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوے کہنے لگا۔
“کل آپ سے با ت کرنے کے بعد سے میں مسلسل ڈسٹرب رہاہوں۔
ایسی مدھر اور کانوں میں میں رس گھولنے والی آواز تو میں نے آج تک نہیں سنی۔ اب چاہئے آپ کو میرا دوبار فون کرنا برا ہئ لگا ہو مگر میں خود کو روک نہیں پایا۔۔ ”
میں جوانی کئ سیڑھی پر پہلاقدم رکھ رہی تھی۔ ساڑھے چودہ سال کئ عمر میں مرد اور محبت دونوں میری سمجھ سے باہر کئ چیزیں تھیں مگر پھر بھی اس کی باتیں سن کر کچھ مختلف سے محسوسات پیدا ہوتے محسوس ہوے تھے۔ مجھے جنتے گھٹے ماحول میں رکھا گیا تھا وہاں اپنی اور بھایوں کے علاوہ کسی مرد کا میری زندگی میں کہیں کوئ گزر نہیں تھا۔ مگر اپنی دوستوں سے ان کے کزنز اور دیگر رشتے داورں کے حوالے سے ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑنے اتنا تو سمجھا دیا تھا کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں سے محبت کے علاوہ ایک اور محبت
بھی ہوتی ہے؟اور شاہد وہ سب محبتوں سے زیادہ خوب صورت ہوتی ہے۔
میں اس کی بات کے خواب میں کچھ بول تو نہ پائ تھی مگر لاین بھی اس کینکٹ نہیں کی۔ میری خاموش کو میری رضا مندی جان کر اس نے اس سے اگلے روز اور پھر اس سے اگلے روز یعنی کہ روز فون کرنا شروع کر دیا۔
اس کا مخصوص ٹائم تھا جو میں نے ہئ اسے بتایا تھا۔ دوپہر میں آبی ریحان بھائ اور فرمان بھائ تو گھر پر ہوتے نہیں تھے۔ اور شیما بھآبھی اور نجمہ بھابھی بھی اپنے اپنے کمروں میں سو رہی ہوتی تھیں باقی رہے بچے تو وہ اپناہوم ورک کرنے یا کھیل کود میں مصروف ہوتے اور اس طرف توجہ ہی نہ دیتے کہ میں لاوۂج میں بیٹھ کر اتنی آہستہ آواز میں کس سے باتیں کر رہی ہوں ۔ شروع شروع میں مجھے ڈر لگتاتھا کہ کہیں پکڑی نہ جاؤں مگر آہستہ آہستہ میں اس روٹین کی عادی اور بے خوف ہوتی چلی گئ۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار خود بھی اسے فون کرنے لگی۔ وہ لاہور کا رہنا والا تھا اور کراچی میں جاب کئ وجہ سے رہ رہا تھا اس کی فیملی وہیں تھی اور وہ یہاں احساس تنہائی کا شکار تھا۔ اس کے بھی میری طرح زیادہ دوست وغیرہ نہیں تھے۔ وہ مجھ سے اپنے گھر والوں کی باتیں کرتا۔ اپنے بہن بھایوں کے قصے سناتا اور میں اسے اپنے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں بتاتی-وہ تمام باتیں جو مجھے دن رات احساس تنہائی اور گھٹن کا شکار کیے رکھتی تہیں وہ سب میں اس سے شئیر کر کے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتی تھی۔
وہ میری دوستوں کی طرح میرا مزاق نہیں اڑاتا تھا’بلکہ مجھ سے ہمدردی کرتا۔امی اور گھر والوں کے رویے پر’ان لوگوں کو ظالم اور مجھے مظلوم کرار دیتا اور کہتا کہ میرا حوصلہ ہے جو میں اتنے جبرواستدار میں زندگی گزار رہی ہوں-ہفتے بھر میں ایک چھٹی والا دن ایسا ہوتا تھا جب ہم بات نہ کر پاتے تھے۔اور اس ایک دن بات نہ کرنے پر مجھ پر جھنجھلاہٹ سوار ہوتی سو ہوتی’مگر وہ مجھ سے بڑھ کر بیتاب نظر آتا۔
“ایک دن تمہاری آواز نہ سنو تو دل بے چین ہو جاتا ھے’کچھ اچھا نہیں لگتا اگلے روز آفس آ کر بھی سب سے لڑنے کو دل چاہتا ہے۔’بلا وجہ غصہ آتا ہے-اف زوبیہ تم نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا-”
وہ انتہائی بے بسی سے یہ جملے بولتا مجھے کسی اور ھی دنیا کی سیر کروانے لگتا۔کیا میں زوبیہ خلیل کسی کے لیے اتنی اہم بھی ہو سکتی ہوں-“جس سے کوئی دوستی کرنا بھی پسند نہیں کرتا”جس کا سب مزاق اڑاتے اور اس سے دور دور رہتے ہیں’ ایسی لڑکی کے لیے وہ ایک شخس اتنی بری طرح دیوانہ ہو رہا ہے-
میں اپنی خوش بختی پر ناز کرنے لگی تھی’اب گھر والوں کہ رویے میرا دل نہیں دکھاتے تھے-اسکول اور پڑھائی پہلے کونسی مجھے بہت پسند تھی-اب تو اور بھی ان سب سے دھیان ہٹ گیا تھا-
پھر اس نے مجھ سے ملنے کے لیے اسرار کرنا شروع کر دیا’شروع شروع میں نے انکار کیا’اس لیے نہیں کہ میں اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی بلکہ اس لیے کہ میرے اوپر گھر والوں کا خوف سوار تھا مگر اس کا اصرار بڑھتا چلا گیا-یہاں تک کہ وہ ناراض ہونے لگا تو مینے اس سے ملنے کا فیصلہ کر لیا-شیمہ بھابھی سے مینے اپنی ایک کلاس فیلو کے گھر جانے کی بات کی’جس کا گھر ہم سے اگلی ہی گلی ہی میں تھا-
میرا فزکس کا جرنل’مصباح کے پاس رہ گیا ھے’اگر اس سے لا کر پرکٹکل نہیں اتارا تو کل میم سے بہت ﮈانٹ پڑے گی-
جھٹ بولتے ہوے میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے مگر حیرت انگیز طور پر انہوں نے نہ تو کسی حیرت کا اظہار کیا اور نہ ہی کوئی اور سوال جواب اور بڑے اطمینان سے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔گھر کے قریب بنے اس پارک میں بھری دھوپ میں کسی سے سامنا ہونے کا خوف نہیں تھا’سخت ترین گرمیوں میں کس کا دماغ خراب تھا کہ پارک میں لوکے چھبرے کھانے آتا-وہ بینچ پر بیٹھا میری راہ تک رہا تھا مینے خیالوں ہی خیالوں میں اس کے جیسا تھاکہ بنایا تھا وہ اس سے بھی بڑھ کر ہینڈسم تھا-مجھے اس سے بہت جھجھک محسوس ہو رہی تھی اور وہ مسلسل میری تعریفیں کر رہا تھا-
‘می نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ خوبصورت آواز والی یہ لڑکی دیکھنے میں بھی اتنی حسین ہو گی”وہ ولہانہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں شرماتی لجاتی اس کی تعریفیں سن رہی تھی مگر اس سب کے ساتھ ساتھ ﮈر بھی بہت لگ رہا تھا’اس لیے اس کے بہت روکنے کے باوجود بھی جلدی اٹھ گئی تھ-گھر آ کر سارا دن اسی منظر کو سوچتی رہی تھی-اس کی ولہانہ نگاھیں’پیار بھری تھیں-
تم سے ملنے کے بعد تو میں اور بھی تمہارا دیوانہ ہو گیا ہوں۔سچ زوبیہ اب تہمارے بغیر جیا نہیں جاتا اب کی بار لاہور جاوں گا تو امی سے تمہارے بارے میں ضرور بات کروں گا-تمہارے ابی تو ہماری شادی کے راستے میں روکاوٹ نہیں بنیں گے نا’کہیں ایسا نہ ہو امی ابو آئییں اور تمہارے ابی انہیں تکا سا جواب دے دیں-”
وہ فون پر مجھ سے مختلف خدشات کا اظہار کر رہا تھا-
“ابی کو ماننا پڑے گا’ضروری تو نہیں کہ میں ساری زندگی ان کے ظلم سہتے ہوے گزار دوں-”
میرے اندر ایک باغی لڑکی پیدا ہو گئی تھی-جو مجھے ابی سمیت سارے زمانے سے ٹکرا جانے کا حوصلہ دے رہی تھی-
ہاں پھر میں بھی نجمہ بھابھی کی طرح اپنی پسند سے شوپنگ کیا کروں گی’ٹی وی دیکھوں گی’فلمیں دیکھوں گی-اپنی مرضی کی کتابیں پڑھوں گی’کوئی صبح شام مجھ پر تنکیدیں نہیں کیا کرے گا-میں اپنی مرضی سے زندگی گزاروں گی-
163
اور وہ بھی رمیز کے ساتھ۔ وہ بے حد خوبرو
بندہ جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اس کی سنگت میں زندگی کتنی خوشگوار گزرے گی، وہ تو مجھ سے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کرے گا، بس ہر وقت مجھ سے پیار کی، خشیوں کی محبت کی باتیں کیا کرے گا۔
“کیا بات ہے زوبی پھپھو آپ اکیلے اکیلے کیوں ہنسی جا رہی ہیں؟” حنا کی آواز پر میں چونک گئ۔ رمیز کے بارے میں سوچتے سوچتے شاید میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھری ہوئ تھی اور میرے برابر میں بیٹھی حنا نے نا جانے یہ بات کیسے نوٹ کرلی تھی۔
“بیٹا! آج کل لگتا ہے آپ کی پھپھو اسکول میں روزانہ ایک پریڈ لطیفوں کا اٹینڈ کر کے آتی ہیں۔ بس گھر آکر بھی ان پر ہنستی رہتی ہیں۔” سیما بھابھی معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر لیے بڑے گھرے لہجے میں بولی تھیں۔ میں فوری طور پر تو ان کی بات پر ڈر گئ تھی۔ ایسا لگا تھا کہ انہیں شاید کسی بات پر شک ہوگیا ہو مگر آنے والے دنوں میں نہ انھوں نے ایسا کچھ پوچھا اور نہ اپنی کسی بات یا رویے سے کچھ ظاہر کیا تو میں اپنے وہم کو نچمظر انداز کر گئ۔
“میں پندرہ بیس دنوں کے لئے لاہور جو رہا ہوں پلیز جانے سے پہلے ایک بار مجھ سے مل لو دیکھو انکار مت کرنا۔” وہ باقاعدہ میری منتیں کر رہا تھا اس کی محبت نے مجھے بہت بہادر بنا دیا تھا مگر میں پھر بھی اپنےاندر اتنا حوصلہ نہیں پا رہی تھی کہ اس سے مل لوں وہ بھی اس کے گھر پر، بہت اسرار کے جواب میں، میں نے پارک میں ملنے کی بات کی تو اس نے مسترد کردی۔
“پارک میں ملنا بھی کوئ ملنا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئ چوری کر رہے ہیں، کہیں کوئ دیکھ نہ لے کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے، گھر پر ملیں گے تو ٹھیک سے بات تو کر سکیں گے۔”
میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی، پھر وہ اتنے سارے دنوں کے لیے چلا جائے گا وہ بھی میرے خلاف دل میں شکوہ اور ناراضی لیئے، مجھے نیم رضامند دیکھ کر اس نے خود ہی آنے کی لیئے مناسب وقت یعنی جن مجھے گھر میں آبی وغیرہ کا خوف نہ ہو اور سیما بھابھی سے کیئے جانے والا بہانا بھی بتا دیا۔ بات کرتے کرتے مجھے کچھ آہٹ سی سنائ دی تو میں اسے ہولڈ کرا کر لاونج سے اٹھ کر ڈائننگ روم میں کی طرف آئی۔ لاونج اور ڈائننگ روم کے بیچ کوئی دروازہ نہیں تھا بلکہ بہت خوب صورت سفید جالی دار پردے کے ذریعے دونوں کو الگ کیا گیا تھا۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈائننگ روم سے آگے بنے کچن میں ماسی برتن دھو رہی تھی۔ میں مطمئن ہوکر واپس آگئ تھی۔
مقررہ وقت پر میں پارک پہنچ گئ تھی جہاں سے وہ مجھے بائیک پر بٹھا کر اپنے گھر لے گیا تھا۔ اس کا۔ گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ روڈ کے دوسری طرف جو اپرٹمنٹس بنے ہوئے تھے وہ ان میں ہی رہتا تھا۔ اس کا سو کمروں کا فلیٹ مجھے اپنے عالیشان گھر سے کئ زیادہ اچھا لگا تھا۔ وہ ایک کمرہ ڈائننگ کے طور پر اور دوسرا بیڈ روم کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ مجھے لے کر وہ سیدھا اپنے بیڈروم میں آگیا تھا، مجھے بیٹھنے کا کہہ کروہ وہاں سے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹرے تھی۔ جس کے بیچو بیچ بڑا سا کیک رکھا ہوا تھا۔ ٹرے کو ٹیبل پر رکھ کر وہ صوفے پر میرے برابر آکر بیٹھ گیا تھا۔خوبصورتی سے سجے سجائے کیک پر لکھا ” ہیپی برتھ ڈے ٹو زوبیہ” پڑھ کر تو کتنی دیر تک میں سکتےکی کیفیت میں بیٹھی رہی تھی۔ اس نے یری سالگرہ کا دن یاد رکھا، نہ صرف یہ کہ یاد رکھا بلکہ اسے سیلبریٹ کرنے کا اہتمام بھی ، ساری زندگی میں کبھی میری کوئ سالگرہ نہیں بنائ گئ تھی۔ آبی تو دوسروں کے گھر ہونے والی برتھ ڈے پارٹیز میں شرکت کرنا پسند نہ کرتے تھے۔
“کیک کاٹو۔” وہ مجھ ے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ مجھے مارے خوشی کہ رونا آنے لگا تھا۔ میں نے کیک کاٹا تو اس نے خوبصورت سی ریپینگ پیپر لپٹا گفٹ اور محبتوں کے بھر پور اظہار میں ڈوبا خارڈ مجھے دیا۔ زندگی کے چودہ سال تو واقعی قید بس مشقت کاٹی تھی۔ یہ پندرہواں سال واقعئ مختلف تھا۔ میری پندہویں سالگرہ جو میں اس کے ساتھ منا رہی تھی۔ میں اس سب میں اتنی خوش تھی کہ مجھے ایک بار بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ میرے اتنے قریب کیوں بیٹھا ہے، اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر کیوں رکھا ہوا ہے، وہ مجھے اتنی بدلی ہوئ نگاہوں سے کیوں دیکھ رہا ہے۔
164
میں تو خوشی خوشی بھی اسکادیا ہوا کارڈ پڑھ رہی تھی کبھی وہ پرفیوم اور سوٹ ہاتھوں میں لے لے کر پچوں کی سی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔
“وہ ارام سے بیڈ پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں” اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا تو میں بغیر کوئی عتراض کیے اٹھ گئ تھی، مجھے یہ پتہ تھا وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، وہ مجھ سی شادی کرلےگا مگر اس سے زیادہ مرد اور عورت کا رشتہ کیا ہوتا ہے میں یہ نہیں جانتی تھی۔ مگر پھر بھی مجھے اس کے اتنے قریب بیٹھنے پر اچانک گبھراہٹ ہونی شروع ہوگئ تھی مجھے کچھ سمجھ میں تو نہیں آرہا تھا مگر مجھے اس کی نگاہوں سے ایک دم خوف آنے لگا تھا۔
“میں گھر جاوں گی۔” میں گھبراہٹ میں کھڑی بول اٹھی تھی۔
“ابھی سے ابھی تو ہم لوگ بہت ساری باتیں کریں گے۔ اور یہ تم مجھ سے اتنا ڈر کیوں رہی ہو میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں اور تم مجھے یہ احساس دلا رہی ہو کہ تمھیں مجھ سے بلکل بھی پیار نہیں ۔”
وہ مخمور نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا مجھے بستور دور بیٹھا گھبرایا ہوا دیکھ کر وہ اسی جادوئی لہجہ میں بولا۔
“میرے قریب بیٹھو زوبیہ۔”
اسی وقت دھاڑ سے دروازہ کھول کر کوئ اندر ایا تھا۔ہم دونوں نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ ریحان بھائ اور فرمان بھائ کو وہاں دیکھ کر میرے پیروں تکے سے زمین نکل گئ تھی۔ وہ دونوں غیر آلود نگاہیں مجھ پر ڈال کر رمیز پر پل پڑے تھے۔ وہ بمشکل خود کو ان سے چھڑاپایا تھا۔
“تیری جان لے لوں گا۔”فرمان بھائ آگے بڑبے تو وہ دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا۔
میں زبردستی نہیں اٹھا کر لایا تمھاری بہن کو وہ اپنی مرضی سے آئ ہے۔ بڑے غیرت والے بنتے ہو اپنی بہن تو سنبھالی نہیں جا رہی جو چوری چھپے مجھ سے ملتی ہے ارے اس کو تویہ کہتا کہ میرے ساتھ گھر سے بھاگ چلو یا کوٹ میرج کرلو تو یہ وہ بھی کر لیتی۔ ایک غیر مرد کے گھر سے لڑکی برآمد ہو اور وہ بھی جو چیخ چلا نہیں رہی ہو تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔
وہ استہزایہ انداز میں بول کر اپنے منہ پہ لگا خون صاف کر رہا تھا۔
“یہ رمیز میرے بارے میں کس طرح زے بول رہاہے۔”
میں بھائیوں کو دیکھ کر ڈر گئ تھی مگر رمیز کے منہ سے تمھاری بہن ، مرضی، زبردستی کے الفاظ سن کر ساکت کھڑی رہ گئ تھی۔ وہ ہاتھوں سے کمیز کی شکنیں درست کر رہا تھا جبکہ ریحان بھائ اور فرمان بھائ ڈہیلے پڑ گئے تھے۔
راستے بھر ان دونوں نے مجھ سے کوئ بات نہیں کی تھی۔ مگر گھر پہنچتے ہی ریحان بھائ مجھے کھینچتے ہویے اندر لے آئے تھے۔ لاونج میں بیٹھے آبی کو دیکھ کر میرے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے ۔ آبی اس وقت کبھی گھر نہیں آتے تھے بلکہ ریحان بھائ فرمان بھی کوئ بھی اس وقت گھر پر نہیں ہوتا تھا پھر آج کیسے؟ مجھے جسم سے جان نکلتی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔ انھوں نے دھکادے کر مجھے آبی کی طرف پٹخا تھا۔
“کیا کر رہی ہیں ریحان۔” شیما بھابھی فورا آگے بڑھی تھیں مجھے اٹھانے کے لیے۔
“دفع ہو تم یہاں سے آج کوئ میرے سامنے آیا تو میں اسے قتل کردونگا۔”
وہ ہذیانی انداز میں چلائے تھے۔ وہ دونوں مل کر مجھے مار رہے تھے لاتیں، گھونسے، تھپڑے میں آنکھیں بند کئے چپ چاپ پیٹ رہی تھی۔
“ہماری عزت کو داغ لگا کر آئی ہے یہ بےغیرت، آبی ! میں اسکا خون کردونگا۔” شاید فرمان بھائ چلائے تھے مگر مجھے ان کی آواز ہی سنائ نہیں دے رہی تھی۔ میرے کانوں میں تو کچھ اور آوازیں گونج رہی تھیں۔
“تم میری زندگی میں آجاوں تو کہیں کوئی کمی نہیں رہےگی۔ ہم ایک ساتھ خوش رہیں گے۔”
ایک غیر مرد کے گھر سے لڑکی برآمد ہو اور وہ بھی جو چیخ چلا نہیں رہی ہو تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...