گاڑی پارک کرکے جیسے ہی وہ اترا اس نے دیکھا ماربا آرام کر سی پر نیم دراز ہے وہ تیزی سے لان کی طرف بڑھااور ماربا کے نز دیک جا کر فکر مندی کے لہجے میں بولا، ’’ارے تم باہر آکر کیوں بیٹھی ہو تھک جائوگی۔ ویسے بھی اس موسم میں شام کے وقت ہلکی سی خنکی ہو جاتی ہے۔ تمھارا بخار بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘
ماربا نے گلابی ساڑھی پہن رکھی تھی اور شاید ساڑھی کے رنگ نے اس کے چہرے پر چھا ئی ہوئی زردی کو قدرے کم کر دیا تھا۔ اس کی نسائیت جلال کی غیرمعمولی توجہ سے اندر ہی اندر اترانے لگی تھی۔ اٹھلاکر بولی، ’’ بہت دن ہوگئے تھے آپ کا استقبال کرنا نصیب نہیں ہوا تھا سو، میں نے سوچا آج باہر بیٹھ کر آپ کو ویلکم ہوم کہوں۔‘‘ اس سے پہلے کہ جلال کوئی جواب دیتا ماربا نے چہک کر ایک سوال جلال کی جا نب پھینک دیا، ’’میں کیسی لگ رہی ہوں؟ آج میں نے بہت عرصے کے بعد ساڑھی پہنی ہے۔‘‘
جلال نے محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ وہ دیکھ رہا تھا ماربا کی صحت دن بہ دن گرتی جا رہی تھی، اس کے چہرے کی گلابی رنگت زردی مائل ہوچکی تھی، اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑگئے تھے اور وہ بے حد دبلی اور کم زور ہو چکی تھی۔ جلال کا دل اندر سے رو رہا تھا، کاش وہ ماربا کی صحت واپس لاسکتا۔
’’تم بہت حسین لگ رہی ہو۔‘‘ جلال ماربا کے برابر کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا، اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا، ’’ایک تو تم ہو ہی بلا کی خوب صورت اور پھر اس پر تمھارا یہ ساڑھی باندھنے کا انداز:
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
جلال شعر ایک خاص انداز سے پڑھتا تھا کہ حرف حرف دل میں اتر جائے۔ ماربا اپنی تعریف سن کر شرما گئی۔ اسی دوران خرم اور سحر بھی بھاگے بھاگے آئے اور بابا بابا کہہ کر جلال سے لپٹ گئے۔ جلال نے دونوں بچوں کو لپٹا لیا اور بولا، ’’تمھارے دونوں معصوم فرشتے بابا پر حق جمانے آگئے۔ کچھ دیر باپ اور بچوں کا رومان چلا، تاآنکہ بچے اپنی کھلائی رشیدہ کے ساتھ گھر کے اندرونی جا نب لوٹ گئے جو بچوں کے تعاقب میں ہانپتی کانپتی پہنچ گئی تھی۔
جلال نے رشیدہ کو تاکید کی تھی کہ وہ بچوں کی ذمے داری سے ماربا کو سبک دوش رکھے۔ رشیدہ خاصی بڑی رقم پر ان بچوں کے گورنس کے فرائض انجام دیتی تھی۔ اسی سبب جلال کے آ گے اپنی مستعدی کی نمائش کرنے سے نہیں چوکتی تھی۔
بچوں کے اندر چلے جانے کے بعد جلال نے ماربا کو آرام کر سی پر سے اٹھایا اور اس کو سہارا دیتے ہوئے بیڈ روم کی طرف چلا۔ وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح مچل گئی، ’’نہیں میں اپنے کمرے میں نہیں جائوں گی۔ ڈائننگ روم میں چلیںآج ہم ساتھ ہی چا ئے پییں گے اور آج ڈنر بھی ساتھ ہی کیا جائے گا۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔‘‘
’’جو حکم سر کار۔‘‘ جلال نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں چلتے ہوئے کھانے کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔
’’جلال مجھے بے حد دکھ ہے کہ میں نے تمھاری کبھی کوئی خدمت نہیں کی، کوئی آرام تمھیں نہیں پہنچایا، ہمیشہ تم سے اپنے ناز نخرے اٹھواتی رہی، اپنی باتیں منواتی رہی، مگر اب میری خواہش ہے کہ میں تمھاری خوب خوب خدمت کروں اپنے ہاتھوں سے تمھیں کھانا پکا کر کھلائوں، لیکن شاید اب دیر ہو چکی ہے۔‘‘ آخری جملہ کہتے کہتے اس کی آواز رندھ گئی۔ جلال نے اس کا آخری فقرہ نہیں سنا۔ نقاہت نے ماربا کو زیادہ بو لنے نہیں دیا۔ جلال نے اس کے ہاتھ سے کپ لے کر ٹرے میں رکھا اور بولا، ’’تم جلدی سے اچھی ہو جائو پھر میں تم سے خوب خدمت لوں گا۔ ڈاکٹر کے آنے کا وقت ہوگیا ہے، اب چل کر لیٹ جائو۔‘‘جلال نے سہارے سے ماربا کو اٹھایا اور خواب گاہ میں لے جا کر لٹایا۔ جیسے ہی وہ اس کو لٹا کر جانے کے لیے مڑا ماربا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی، ’’ ایک بات کہوں!‘‘
جلال اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا اور بہت محبت کے لہجے میں بولا، ’’ہاں بولو کیا بات ہے؟‘‘
’’کیوں نہ ہم کراچی چلیں میں کچھ دن آپ کے امی ابو کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تو اس میں کیا مشکل ہے۔ میں آفس سے ایک ماہ کی چھٹی لے لیتا ہوں۔ پھر ہم سب کراچی چلیں گے۔ ویسے بھی بہت دن ہوگئے ہیں ہم امی ابو کے پاس نہیں گئے ہیں۔‘‘ جلال نے کہا ۔
جلال اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایم بی اے کرنے کے بعد اسے ایک امریکن کمپنی میں ملازمت مل گئی، مگر اس ملازمت کے لیے اسے اسلام آباد جانا پڑا۔ ملازمت ملتے ہی والدین نے شادی کرنے پر زور دیا۔ وہ اتنی جلدی شادی نہیں کر نا چاہتا تھا، مگر ماں کے سامنے اسے ہار ماننا پڑی۔ شادی کے لیے اس نے ہاں تو کر دی مگر اسے شادی سے نہ کو ئی دل چسپی تھی اور نہ ہی کوئی خوشی۔ اس نے اپنی ہو نے والی بیوی کی تصویر تک نہیں دیکھی تھی۔
شادی کے بعد جب اس نے پہلی مر تبہ ماربا کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ اس نے اس سے پہلے اتنا حسین چہرہ نہیں دیکھا تھا ۔ ماربا پہلی ہی نظر میں اس کے دل میں ایسی اتری کہ وہ اسے دل و جان سے چاہنے لگا۔
ماربا امیر ماں باپ کی لاڈلی بیٹی، بھائی بہن کی چہیتی، ساس سسر کی پیاری بہو اور اپنے شوہر کی دل و جان تھی۔ وہ بے حد خوب صورت تھی اتنی خوب صورت کہ جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔ اپنے پرائے سب لوگوں نے اس کے حسن کی تعریف کر کرکے بچپن سے ہی اسے اسپوئل (Spoil) کر دیا تھا۔ محبت بھی اسے بہت ملی تھی۔ ماں باپ، بہن بھائی سب اس سے بہت محبت کرتے، اس کی دل جوئی کرتے، اس کی ہر خوشی، ہر ضد پوری کرتے۔ وہ نہ کسی کی خدمت کرتی اور نہ ہی کسی کی دل جوئی کرتی۔ وہ سوچتی، سب اس کے لیے ہیں وہ کسی کے لیے نہیں ہے۔‘‘ سب اس کی خوشامد کرتے رہیں، اس کی ہر بات مانتے رہیں یہی اس کی خواہش تھی۔ دوسروں کی خدمت کرکے، ان کے کام آکر جو خوشی اورطمانیت حاصل ہوتی ہے، وہ اس سے واقف ہی نہ ہو سکی تھی۔
چھٹی ختم ہونے کے بعد جلال کو اسلام آباد جانا پڑا۔ وہ ماربا کو اپنے والدین کے پاس ہی چھوڑ گیا۔ وہ ان کی اکلوتی بہو جو تھی۔
جلال کے والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، انھو ں نے اپنی بہو کے خوب ناز نخرے اٹھائے، وہ انھیں بہت عزیز تھی۔ ان کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی بہو کو اپنے سے جدا کریں، لیکن بیٹے کا بھی خیال تھا۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے کچھ دنوں کے بعد ماربا کو جلال کے پاس اسلام آباد بھیج دیا۔
جلال کو کمپنی نے اچھے عہدے کی وجہ سے بہت سہو لیات دی تھیں، تنخواہ بھی بہت اچھی تھی۔ جلال نے ماربا کو بہت عیش و آرام سے رکھا ہو ا تھا۔ وہ دن بھر ناول پڑھتی رہتی، ٹی وی دیکھتی رہتی، فون کرتی رہتی۔ اعلیٰ طبقے کی خواتین اور ایک دوانگریز خواتین کے ساتھ پارٹیوں میں شرکت کرتی اور خود بھی پارٹیز کرتی اور شا پنگ کرنا، یہی اس کی مصروفیات تھیں۔ گھر کے کام کاج کے لیے نوکر تھے، گھر کا کوئی کام اسے نہیں کرنا پڑتا۔ شادی کے ایک سال بعد خرم پیدا ہوگیا، جلال نے اس کے لیے بھی ایک آیا کا انتظام کردیا۔ خرم کے دو سال بعد سحر پیدا ہوگئی رشیدہ جو خرم کی دیکھ بھال کرتی تھی، اب دونوں بچوں کو سنبھالنے لگی۔ ماربا کی مصروفیات میں کو ئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی، لیکن تمام مصروفیات کے باوجود وہ اپنے بچوں کو ضرور وقت دیتی، ان سے کھیلتی، ان سے باتیں کرتی، ان کے پسندیدہ کھلونے خرید کر انھیں دیتی۔
وقت تیزی سے گزررہا تھا ماربا کے چاروں اور خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، محبتیں ہی محبتیں تھیں۔
اچانک ماربا کو بہت تیز بخار ہوا، بخار کافی دنوں تک رہا۔ ا س کے بعد سے اکثر یہ ہوتا کہ کچھ دنوں وہ ٹھیک رہتی پھر اسے بخار ہو جاتا، کبھی تیز اور کبھی ہلکا۔ جاب کی طرف سے جلال کو اعلیٰ طبّی سہولیات حاصل تھیں، بہترین ڈاکٹرز اس کا علاج کر رہے تھے۔ اس کے ٹیسٹ کروائے جاتے، ڈاکٹرز اس کا چیک اپ کرتے، مگرکسی نتیجے پر نہیں پہنچتے۔ جلال نے ماربا کے علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ حکیم کو بھی دکھایا۔ ماربا حکیم کی دوائی بہت مشکل سے کھاتی تھی، لیکن جلال نے سمجھا بجھاکر ایک مہینے تک حکیم کی دوائی بھی کھلائی، مگر کوئی افاقہ نہیں دکھائی دیا۔
اب تو اس کو مستقل بخار رہنے لگا، کبھی کم اور کبھی زیادہ، وہ دن بہ دن کم زور ہوتی جارہی تھی اس کا رنگ روپ پھیکا پڑگیا تھا۔ وہ اپنی بیماری کے بارے میں بہت سنجیدہ تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ جلد صحت یاب ہو جائے۔
ماربا بہت بدل گئی تھی، اس کی خواہشیں کم ہوگئی تھیں، اس کا غرور ختم ہوگیا تھا۔ رحم، مروّت، محبت پہلے جن کے معنوں سے بھی وہ بظاہر نابلد تھی، اب اس کی شخصیت میں جگہ پانے لگے تھے۔ اس نے اپنی بیماری سے بھی بیزار ہونا چھوڑدیا تھا۔ خیریت پوچھنے والوں سے بھی وہ شکر گزاری کا اظہار کرتی اور خود بھی رب کا شکر کرتی رہتی۔
اسے یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے وہ شاید اب زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے گی۔ اس احساس کے ساتھ ہی اسے والدین کی محبت، بھائی بہن کا پیار، ساس سسر کا بیٹی کی طرح سمجھنا اور اسے بے حد محبت دینا، جلال کی محبت،پیار، اس کی ہر فرمائش پوری کرنا، اس کے ناز نخرے اٹھانا سب یاد آنے لگا، پچھتاوا بھی ہونے لگا کہ سب کے اتنے اچھے سلوک کے بدلے میں اس نے انھیں کیا دیا۔ وہ اپنے آپ کو گناہ گارسمجھتی تھی اور سب سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔ جلال سے بھی وہ بار بارمعافی مانگتی۔
جلال ماربا کی اس تبدیلی سے خوش ہونے کے بجا ئے فکر مند تھا۔ ایک دن ماربا سے بولا، ’’تم مجھ سے فرما ئشیں کیوں نہیں کرتیں؟ اور اپنی طبیعت کی خرابی کی بھی کوئی بات نہیں کرتی ہو۔‘‘
’’طبیعت کی خرابی کی تو میں عادی ہوگئی ہوں اور رہی فرما ئش کی تو جب ضرورت ہوگی تو میں ضرور فرمائش کروں گی۔‘‘ ماربا نرم لہجے میں بولی۔
جلال اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہ گیا، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے ماربا کو لپٹا لیا۔
جلال اور ماربا کے والدین ان لوگوں کے آنے سے بہت مطمئن تھے، کیوںکہ ماربا کی بیماری کی وجہ سے سب ہی بہت پریشان اور فکر مند تھے اور یہی چاہتے تھے کہ یہاں کے بہترین ڈاکٹرز سے اس کا علاج کرایا جائے۔ کراچی آکر ماربا بھی بہت خوش تھی۔ وہ اپنے ساس سسر سے لپٹ کر بہت روئی، ان سے بہت معافیاں مانگیں کہ میں آپ لوگوں کی کوئی خدمت نہ کرسکی، الٹا آپ لوگوں سے اپنے نخرے اٹھواتی رہی۔ اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے مل کر بھی بہت روئی ان سب سے بھی بہت معافی مانگی، مگر ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ میں ’’اپنی سسرال میں ہی رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
جلال آغا خان ہسپتال کے جس فزیشن سے اس کا علاج کروانا چاہتا تھا معلوم ہوا وہ لندن گیا ہوا ہے، چار دن بعد لوٹے گا۔جلال نے انتظار کرنا ہی منا سب سمجھا۔
’’ماربا! کیوں نہ ہم کلفٹن چلیں وہاں کی فریش ہوا شاید تمھیں فائدہ کرے، اور کیوںکہ ویک ڈیز ہیں اس لیے زیا دہ مجمع بھی نہیں ہوگا۔‘‘ جلال نے ماربا سے کہا۔ وہ خوشی خوشی راضی ہوگئی۔
وہ دونوں ہو ٹل کے باہر لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ یہاں سے سمندر صاف نظر آرہا تھا۔ شام کا وقت تھا، سورج غروب ہونے پر تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے پوری فضا کو سونے سے نہلا دیا گیا ہو۔ جلال اور ماربا اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور گھونٹ گھونٹ کافی پی رہے تھے۔
’’وہ دیکھو کتنا بڑا چاند نکلا ہے۔‘‘ ماربا انگلی سے چاند کی طرف اشا رہ کرکے جلال سے مخا طب ہوئی۔
’’اس کا مطلب چودھویں کا چاند ہے۔‘‘ جلال چاند کی طرف دیکھ کر بولا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سنہری ماحول چاندی کی ٹھنڈی فضا میں بدل گیا۔ شام گہری ہونے کے ساتھ موجوں کا تلاطم بھی بڑھ گیا اور ٹھنڈک بھی بڑھ گئی۔ ماربا نے کھانسنا شروع کر دیا۔
’’ہمیں اب گھر چلنا چاہیے۔ تمھاری طبیعت زیادہ خراب نہ ہوجائے۔‘‘ جلال نے اٹھتے ہوئے کہا اور ماربا کو سہارا دے کر اٹھانے لگا۔ ماربا بہت خوش تھی، بہت عرصے کے بعد وہ جلال کے ساتھ اس طرح تفریح کے لیے نکلی تھی۔
تھکن کی وجہ سے ماربا جلدی سوگئی۔ جلال کو نیند نہیں آرہی تھی۔ آ دھی رات کے وقت ماربا کی آنکھ کھلی وہ بہت بے چین ہو رہی تھی۔ اچانک اس پر غفلت طاری ہونے لگی، اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا جلال اس کے پاس بیٹھا تھا جلال کو دیکھ کر جیسے اسے ہوش آگیا۔ اس نے جلال کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، آنسوئوں کا سمندر بہہ نکلا بڑی مشکل سے بولی، ’’جلال! میں مر نا نہیں چاہتی، میں تم سب سے جدا نہیں ہونا چاہتی۔‘‘ اس کی آواز میں بڑا درد تھا۔
جلال پریشان سا ہوگیا اور بولا، ’’تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو۔ تمھیں کچھ نہیں ہوگا، میں تمھیں اپنے سے جدا نہیں ہونے دوں گا ۔ تم بہت جلد اچھی ہو جائوگی۔‘‘
’’کوئی مجھے اس خوب صورت زندگی سے دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘ ماربا نے جلال کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑکر کہا۔
’’ماربا! پلیز ایسی باتیں مت کرو، تمھیں مجھ سے کوئی جدا نہیں کرسکتا۔‘‘ جلال رو رہا تھا۔
چند لمحوں بعد ماربا نے آنکھیں کھول کر جلال کی طرف دیکھا اور بولی، ’’ اللہ حافظ۔‘‘
جلال اسے چیخ چیخ کر آوازیں دے رہا تھا اور رو رہا تھا۔ گھر کے سب لوگ اکھٹے ہوگئے، فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ پورا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ اور جلال— وہ ماربا کی جدائی کے صدمے سے بے حال تھا۔
بڑی مشکل سے اس نے خرم اور سحر کی وجہ سے اپنے آپ کو سنبھالا۔
ماربا کی موت کا غم جلال کے والدین کو بھی بہت تھا۔ وہ اس کو اپنی بیٹی کی طرح مانتے تھے، لیکن خرم اور سحر کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ جلال شادی کرلے، لیکن جلال شادی کا نام تک سننے کو تیار نہیں تھا۔
ماربا کی موت کو ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا۔ اس مر تبہ جلال کراچی اپنے کزن کی شا دی میں آیا تھا۔ جلال کو دیکھتے ہی خرم بھاگ کر اس کی گود میں چڑھ گیا۔ جلال نے اِدھر اُ دھر دیکھا پھر پوچھنے لگا، ’’امی سحر کہاں ہے؟‘‘ اتنے میں سحر ایک نازک سی لڑکی کا ہاتھ تھامے ہوئے آئی۔ سحر جلال کو دیکھتے ہی اس لڑکی سے اپنا ہاتھ چھڑاکر بابا بابا کہتی ہوئی جلال سے لپٹ گئی۔
’’امی! یہ لڑکی کون تھی؟‘‘ ُکسم کے جانے کے بعد جلال نے پوچھا۔
’’یہ میری دوست کی بیٹیُکسم ہے۔ پہلے یہ پشاورمیں رہتے تھے، تقریباً ایک سال ہوا یہ لوگ کراچی شفٹ ہوگئے ہیں۔ نزدیک ہی رہتے ہیں۔ تم نے دیکھا دونوں بچے اس سے کس طرح مانوس ہوگئے ہیں۔‘‘
جلال خاموش ہوگیا، وہ ماں کا مطلب سمجھتا تھا۔ ماں نے بھی زیادہ بات نہیں کی۔
٭ُکسم کو دیکھ کر ماربا کے ساتھ بِتایا ہو ا ہر ایک پل لوٹ آتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور اپنی بند آنکھوں کے آگے ٭ُکسم کو موجود کرلیا۔ ٭ُکسم کا چہرہ مہرہ ماربا سے بالکل مشابہ نہ تھا، اس کے باوجود وہ ماربا لگ رہی تھی۔ ٭ُکسم کا سارا وجود، ظاہر، باطن ماربا کو وائبریٹ کر رہا تھا۔ جلال نے ُکسم کو اپنی بند آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی جگہ ماربا کو محسوس کرنے کے بعد آ نکھیں کھولیں۔ اپنے حواس مجتمع کیے، سر کو ایک دو مر تبہ دو نوں جانب گھمایا اور اپنی حالت پر ہنسا، ’’ماربا کی جدائی شاید مجھ سے برداشت نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کا دنیا سے چلا جانا میرے دل، ذہن اور روح نے اب تک قبول نہیں کیا ہے، اسی لیے ُکسم میں ماربا کا احساس ہو رہا ہے، لیکن ٭ُکسم ہی کیوں؟ ماربا کی عمر کی ہر قبول صورت عو رت کے اندر ماربا کیوں نہیں محسوس ہوئی؟‘‘
شادی کا ہنگامہ ختم ہونے کے بعد ایک دن ماں نے جلال کو اکیلے میں بٹھا کر بہت سمجھایا کہ ’’ ٭ُکسم بہت اچھی لڑکی ہے میں اس کے پورے خاندان سے واقف ہوں۔ تمھارے بابا کو بھی پسند ہے، بچے بھی اس سے بہت ہل گئے ہیںوغیرہ وغیرہ، لیکن جلال نے شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا اور جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گیا۔ اس کو نیند نہیں آرہی تھی۔ ماربا مستقل اس کے سامنے تھی اس کی ایک ایک بات اس کو یاد آرہی تھی۔ ماربا کی یاد میں آنکھیں، رخسار اور تکیہ بھگوتے ہوئے اس نے دیکھا ماربا اس کے بیڈ کے سامنے کھڑی ہے۔ سفید ساری میں ملبوس وہ حسن کی زندہ تجسیم دکھائی دے رہی تھی۔
جلال نے اس کا نام لیا یا شاید اس سے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن ماربا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ کر دیا، وہ ہنسی اپنی مخصوص دل آویزی سے اور پھر سفید ساری میں ملبوس وجود، گلا بی رنگ کے شلوار قمیص پہنے ٭ُکسم کے وجود میں بدل گیا۔ ’’جلال مجھ میں اور ٭ُکسم میں کوئی فرق نہیں ہم دونوں ایک ہیں۔ ٭ُکسم جو ماربا بھی ہے اورماربا جو ٭ُکسم بھی ہے ۔ تمھاری، بچوں کی، ماں باپ اور ساس سسر کی خدمت کی حسرت لے کر میں اس دنیا سے چلی گئی تھی۔ میری یہ حسرت اس قدر شدید اور سچی تھی کہ ٭ُکسم کے وجود میں گھل مل کر ایک ہو کر لوٹ آئی ہوں۔‘‘ الفاظ کے جلال کی سماعت میں داخل ہو نے کے فوراً بعد نیند نے اس پر غلبہ پالیا اور وہ سوگیا۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی، وہ جنوری کی سردی کے باوجود پسینے سے شرابور تھا، اس نے گھڑی دیکھی صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب ماربا کی روح اس کے بدن سے جدا ہوئی تھی۔ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں آئی، ’’آئو نماز کی جانب۔‘‘، ’’آئو فلاح کی جانب۔‘‘
جلال نے بستر چھوڑ دیا۔ چوکی دار سے گیٹ بند کروا کے وہ قریبی مسجد کی طرف دوڑ پڑا۔ مسجد سے واپسی پر اس نے ایک بار پھر ماربا کو دیکھا جو پلک جھپکنے میں ُکسم بن گئی اور پھر فضا میں تحلیل ہوگئی۔
گیٹ سے جلال سیدھا میڈیٹیشن روم کے اندر چلا گیا۔ کمرے کے ایک گوشے میں ا س کی امی اور دوسرے کونے میں ابو ذکرِ ربی میں مصروف تھے۔ جلال خاموشی سے امی کی چوکی کے پاس بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ اس سے مخاطب ہوئیں، ’’کیا بات ہے جلال!کچھ کہنا ہے؟‘‘
’’جی امی جان۔‘‘
’’اچھا تو پھر کہو۔‘‘
’’امی۔ آپ ٭ُکسم والوں سے بات کر لیں۔یہی کہنا ہے۔‘‘
یہ سن کر جلال کی والدہ سجدے میں گرگئیں۔ سجدے سے سر اٹھا کر انھوں نے جلال کو لپٹا لیا۔
سب لوگ حیران تھے کہ جلال اچانک شادی کے لیے کیسے تیار ہو گیا، اور خوش بھی تھے کہ جلال کی سونی زندگی میں ایک مر تبہ پھر خوشیوں کا ڈیرا ہوگا۔