گریۂ ندامت کے ماسوا مرا کیا تھا
اس کباڑ خانے میں اے خدا مرا کیا تھا
آتے جاتے لوگوں سے ، ہے بسی ہوئی دنیا
آتے جاتے لوگوں کا سلسلہ مرا کیا تھا
سب وسائلِ ہستی آپ ہی کی قدرت میں
جو پڑا تھا دنیا میں آپ کا ، مرا کیا تھا
جگ بسائی میں بھی اک جگ ہنسائی میری تھی
کھیل تھا ، تماشا تھا ، جو بھی تھا ، مرا کیا تھا
میرے ہر سفر میں تھا ، وقت کا سفر شامل
راستہ جو کٹتا تھا ، راستہ مرا کیا تھا
آسمان کس کا تھا اور زمین کس کی تھی
درمیاں میں دونوں کے جو بھی تھا مرا کیا تھا
مانتا ہوں رہتا تھا کوئی میرے اندر بھی
سوچتا ہوں اس سے بھی واسطہ مرا کیا تھا
جس کو میں نے چاہا تھا ، جس کو میں نے پوجا تھا
وہ جو مجھ پہ مرتا تھا ، کون تھا ، مرا کیا تھا
میری سوچ جس کی تھی ، جس کی سوچ میری تھی
جس کو میں نے اپنا دل دے دیا ، مرا کیا تھا
حرف و صوت سے جاویدؔ ، بارہا یہ پوچھا ہے
حرف و صوت میں جو بھی ، تھا رچا ، مرا کیا تھا