(Last Updated On: )
عاطِرؔعُثمانی(کوالالمپور،ملائیشیا)
مقتل میں زباں سے جو اِنکار نِکل جائے
آواز کے جھنجھٹ سے للکار نِکل جائے
اِس دل میں جُنوں تیرا بڑھتا ہی رہے ہر دَم
ایسا نہ ہو جیون یہ بیکار نِکل جائے
یا حُسن کرے پُورا سب عشق کی مَانگوں کو
یا حُسن کے ہاتھوں سے سَرکار نِکل جائے
جو چاند مِرا جاگے پہلُو میں مِرے آ کر
تو آنکھ سے تاروں کی بھَرمار نِکل جائے
یا لفظ اُگائے یہ اپنے ہی خیالوں کے
یا فن کی زمینوں سے فنکار نِکل جائے
بن جاتا ہے پھِر عاطرؔ جنگل کی کہانی یہ
قِصے سے جو مُنصِف کا کِردار نِکل جائے