دکھنی زبان کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثر میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائیں اس کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئے۔ دکنی ادبیات کی تاریخ میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہبازؔ کو دکن کے پہلے شاعر کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل ہے۔ دکنی کے اس قدیم شاعر نے اپنی تخلیقات میں مختلف بیماریوں کے منظوم مجرب نسخے بھی لکھے ہیں جو آج بھی قابل غور ہیں۔ دکن کے اس قدیم ترین شاعر کا نمونہ کلام درج ذیل ہے:
پانی میں نمک ڈال مزا دیکھتا دِسے
جب گھُل گیا نمک تو نمک بولنا کسے
شاعری میں طبی نسخے پڑھ کر قارئین ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ پروفیسر گدا حسین افضل نے طبی شاعری پر تحقیق کی اور بہت سے شعرا کے منظوم طبی نسخے اکٹھے کیے۔ وہ ان کی اشاعت کی تمنا اپنے دِل میں لیے وہاں چلے گئے جہاں سے کئی کبھی واپس نہیں آیا۔ اب تو ان منظوم طبی نسخوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب ہو گئے ہیں۔ جھنگ شہر میں ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان) کے آبائی گھر کے نزدیک حکیم احمد بخش نذیر کے مطب میں اردو زبان کے مقبول شاعر اسد ملتانی (1902-1959) کی ایک نظم دیکھ کر میں دنگ رہ گیا:
آسان نسخے
جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
اگر تجھ کو لگے جاڑوں میں سردی
تو استعمال کر انڈوں کی زردی
جو ہو محسوس معدے میں گرانی
تو چکھ لے سونف یا ادرک کا پانی
اگر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے، شلجم زیادہ
جو بد ہضمی میں چاہے تُو افاقہ
تو کر لے ایک یا دو وقت فاقہ
جو پیچش ہے تو پیچ اس طرح کس لے
مِلا کر دُودھ میں لیموں کا رس لے
جگر کے بل پہ ہے انسان جِیتا
اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا
جگر میں ہو اگر گرمی دہی کھا
اگر آنتوں میں خشکی ہے تو گھی کھا
تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فور اً دودھ گرما گرم پی لے
جو طاقت میں کمی ہوتی ہے محسوس
تو پھِر ملتاں کی مصری کی ڈلی چُوس
زیادہ گر دماغی ہے تیرا کام
تو کھایا کر مِلا کر شہد بادام
اگر ہو دِل کی کم زوری کا احساس
مربہ آملہ کھا اور انناس
اگر گرمی کی شدت ہو زیادہ
تو شربت پی بہ جائے آبِ سادہ
جو دُکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی سے غرارے
اگر ہے درد سے دانتوں کے بے کل
تو اُنگلی سے مسوڑھوں پر نمک مَل
جو ہے افکار دنیا سے پریشاں
نمک داں پڑھ، نمک داں پڑھ، نمک داں (مجلہ نمک داں: فروری۔ مارچ 1955)
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز کی شاعری میں معرفت اور حکمت کا امتزاج قاری کے لیے ایک روح پرور تجربہ ہے۔
یوں کہوی خودی اپنی خدا سات محمدﷺ
جب کھُل گئی خودی تو خدا بِن نہ کوئی دِسے
آسان طبی نسخے بھی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز کی یادگار علمی و ادبی تخلیق ہیں۔ معراج العاشقین و ہدایت نامہ اور رسالہ سہ بارہ تصوف (تصنیف: 815 & 825ہجری) کے موضوع پر چشم کشا اساسی صداقتوں سے لبریز ہیں۔ معراج العاشقین میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز نے شب معراج کے حوالے سے اپنی عقیدت اور روحانیت کو شامل کیا ہے۔ وحدت الوجود کے موضوع پر خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز کی تحریریں مذہب کی آفاقی اقدار کی مظہر ہیں۔ انسانیت کی فلاح اور بندہ پروری سدا ان کا مطمح نظر رہا اس لیے وہ حقیقی معنوں میں بندہ نواز تھے۔ دولت آباد کے اِس منکسر المزاج صوفی کو بر صغیر کی اکثر زبانوں پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز نے مال و دولت دنیا اور رشتہ و پیوند کو بتان وہم و گماں قرار دیا۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہباز کے طبی نسخے جذبۂ انسانیت نوازی کی عمدہ مثال ہیں۔
آنتوں ہلیلہ آنتوں لوں
پتیں کے گھر جائے کون
آنکھ کو ہلیلہ کوں لوں
حکیم کے گھر جائے کون
جتنا کاجل اتنا بول
اوس سے دُونا گوند گھول
ذراسی پھٹکڑی نمک لا تھوڑا
قلم جیسے جوں تُرکی گھورا
جس کے منھ میں آوے باس
اس کی دار دسن مجھ پاس
جس کے منھ میں دِکتے دانت
ہلتے جلتے کٹے کٹے پات
وزن برابر سب کو تول
دارد ہووے یوں انمول
داتوں کارن مسّی کر
خوبی کن تو دل میں دھر
زیرہ مرچیاں ستو اسنوٹ
کہتا اجلا لے کر گھونٹ
نیلا طوطہ دھنیا بھون
اس میں ملا تو سیندا لون
پان پلاس کے کاہنٹیاں آن
ما پھل لوچن اور لوبان
جوں جوں لگاوے پاوے سُکھ
تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ
دکن کے یہ قدیم طبی نسخے پڑھنے کے بعد یہ راز کھلا کہ اس دنیا کے آئینہ خانے میں اپنی صحت کو داؤ پر لگانے والوں کو آئینہ دکھایا گیا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ طبی نسخوں اور ٹوٹکوں کے مطالعہ کے بعد کچھ سادہ لوح لوگ خود اپنا علاج کرنے لگتے ہیں اور اپنی ذات کو تماشا بنا دیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جمع پونجی کود ساختہ معجونوں، پھکیوں اور کُشتوں میں اُڑا دیتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث سفہا اور اجلاف و ارذال کے پروردہ پیشہ ور ٹھگ، عادی دروغ، نیم حکیم اور عطائی کشتوں کے پشتے لگ دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں کوئی بھی چارہ گر ان خود ساختہ بیماروں کی طرف مر ہم بہ دست نہیں آتا۔ پروفیسر انور مسعود نے ادویات کے سائیڈ ایفکٹس پر ایک نظم لکھی ہے جس میں سر درد کی گولی کے غیر محتاط استعمال سے خبر دار کیا گیا ہے۔
سر درد میں گولی یہ بڑی زُود اثر ہے
پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
دِل تنگ و پریشاں بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
بے کار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
پڑ سکتی ہے کچھ جِلد خراشی کی ضرورت
خارش کا کچھ اِمکان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
پھر آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا سی متاثر
معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
گُردہ کوئی وِیران بھی ہو سکتا ہے اِس سے
ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اِس سے ذرا سا
پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اِس سے
دکنی شعرا نے سب سے پہلے مثنوی پر توجہ دی اس کے بعد وہ رباعی، غزل اور قصیدہ لکھنے پر مائل ہوئے۔ تاریخ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ولی دکنی کے زمانے میں جنوبی ہند کے طول و عرض میں ادب اور فنون لطیفہ پرفارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں تھے۔ اس عہد کے جن ممتاز تخلیق کاروں کے اسلوب پر فارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ، ملا وجہی، غواصی، احمد گجراتی، نصرتیؔ، ولیؔ اور سراجؔ شامل ہیں۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں سیاسی، تہذیبی اور ادبی میلانات نئے حقائق کو سامنے لا رہے تھے۔ بر صغیر کے مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب (B: 1618,D;1707) نے اپنی مہم جوئی اور فوجی یلغار کا آغاز شمالی ہند سے جنوبی ہند کی جانب پیش قدمی سے کیا۔ اورنگ زیب (عرصہ حکومت: 1658-1707) نے شمال سے جنوب کی طرف دکن میں طویل عرصہ تک مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس عرصے میں ادب اور فنون لطیفہ کا معاملہ قطعی مختلف رہا۔ ان شعبوں میں پیش قدمی جنوب سے شمال کی جانب رہی۔ جس زمانے میں اورنگ زیب کی کمان میں مغل مسلح افواج گولکنڈہ کا قلعہ اور وہاں موجود پر شکوہ عمارات کو کھنڈرات میں بدلنے میں مصروف تھیں اس وقت جنوبی ہند سے ادب اور فنون لطیفہ کوزادِ راہ بناکر شمال ہند کی جانب پیش قدمی کرنے والے قلم بہ کف حریت فکر و عمل کے مجاہد افکار تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جستجو میں شما لی ہند کی جانب رواں دواں تھے۔ یہی وہ عہد آفریں لمحات تھے جب رجحان ساز تخلیق کاروں نے تازہ بستیاں آباد کیں اور سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا۔ تاریخ ادب کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ اسی دور میں اُردو شاعری کا وہ قصر عالی شان تعمیر ہوا جس نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عادل شاہی دور میں دکنی زبان کے فروغ کے سلسلے میں لکھا ہے:
’’اورنگ زیب عالم گیر کی فتح دکن کے بعد شمال و جنوب کے درمیان جو دیوار کھڑی تھی وہ دُور ہو گئی تھی
اور یہ دونوں علاقے گھر آنگن بن گئے تھے۔ فارسی کے مشہور شاعر ناصر علی دکن گئے تو وہ بھی اُردو میں غزلیں کہنے لگے۔ میر جعفر زٹلی کی شاعری کے زبان و بیان پر دکنی ادب کی روایات کا اثر نمایاں ہے۔ فائز، مبتلا، آبرو،
ناجی اور شاہ حاتم کے دیوان، قدیم کی شاعری پر یہ اثرات نمایاں ہیں۔‘‘ (7)
ادب اور فنون لطیفہ میں جذبۂ انسانیت نوازی، خلوص، دردمندی اور ایثار کے ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی۔ شعر و ادب میں تعمیر و ترقی کے غلغلے بلند ہوئے۔ ہر سُو انسانیت کے وقار و سر بلندی، بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے چرچے عام تھے۔ دکن سے شمالی ہند کی جانب ولیؔ نے جس ادبی سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوق سلیم سے متمتع باشندوں کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ بن گیا۔ اپنے دامن میں یقین، عزم، محبت، وفا، اتفاق، دوستی، یگانگت، خلوص، مروّت اور عجز و انکسار کے گل ہائے رنگ رنگ لیے ولیؔ جب پہلی مرتبہ 1700 میں دہلی پہنچا تواس کے خیالات سے قریۂ جاں مہک اُٹھا۔ دکن سے دہلی کی جانب ولیؔ کے اس یادگار سفر کے بعد سر زمین دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے اور معتبر ربط کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔ دکنی زبان کے شعر و ادب میں سراپا نگاری، حیات و کائنات، قلب و روح، ارضیت و مادیت، انسانیت و روحانیت اور جذبات و احساسات کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی ادب کا ثمر ہے۔ دکنی زبان کے ادب میں عشق کو زندگی کے تمام معاملات میں محوری حیثیت حاصل ہے۔ دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے عشق کو عملی زندگی کی ایک اٹل اور نا گزیر صداقت کے رُوپ میں دیکھا اور خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں جذبۂ عشق پر انحصار کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے عشق ہی کی عطا ہیں۔ دہلی آنے کے بعد ولیؔ نے یہاں کے معمر ادیب شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات کی۔ شاہ سعداللہ گلشن نے ولیؔ کو فارسی زبان کی کلاسیکی شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے اسلوب میں جگہ دینے کا مشورہ دیا۔ قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولیؔ نے اس مشورے پر عمل کیا۔ ولیؔ کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے دہلی کے سفر کے بعد برہان پور، احمد آباد، گجرات اور کئی اہم تاریخی مقامات کی سیاحت بھی کی۔ سیرو سیاحت کایہ شوق ولیؔ کی ادبی فعالیتوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ اپنے اس شوق کے بارے میں ولیؔ نے کہا تھا:
ع: ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
اس شوق نے ولیؔ کو نئے ماحول سے آشنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولیؔ کی شخصیت میں وسعت نظر، و سیع القلبی، خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر تعلقات اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مزید نمو ملی۔ دورانِ سفر متعدد مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ متعدد مسافر نواز احباب سے پڑا۔ اس کے اثرات ولیؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ ولیؔ کے لیے یہ سفر وسیلۂ ظفر ثابت ہوا۔ کئی تراکیب، محاورات، ضرب الامثال، تشبیہات، استعارات اور علامات کاتعلق سفر کے تجربات سے ہے۔ ان میں سفر، ہجرت، وصل، غربت، جدائی، یادیں، فراق، کرب، راحت، رخصت، گلگشتِ چمن، موجِ دریا، سیر صحرا، موج رفتار اور منزل شامل ہیں۔ ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دہلی شہر سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کی جو کیفیت ولیؔ کی شاعری میں موجود ہے وہ اسی سفر کاکرشمہ ہے۔ اکثر محققین کا خیال ہے کہ ولیؔ کے دِل میں دہلی کی محبت رچ بس گئی تھی۔
ممتا ماہر تعلیم اور محققسیدہ جعفر نے ولیؔ (عرصۂ حیات: 1667- 1707)کے اس شعر کو ہندوستان کے اس تاریخی شہر سے ولیؔ کی محبت کا بر ملا اعتراف قرار دیتے ہوئے دہلی کے مطلق العنان بادشاہ محمد شاہ (عہد حکومت: 1719-1748) کو ایک شعر میں یہ پیغام دیا۔
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں (8)
محمد حسین آزادؔ نے اپنی تصنیف آب حیات میں ولیؔ دکنی کے اسلوب اور شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے اور بِکتا ہے۔
یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیا ہے۔ اس میں علاوہ ردیف وار غزلوں کے رباعیاں، قطعے، دو تین مخمس، قصیدے، ایک مثنوی، مختصر معرکۂ کربلا کے حال میں، ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے۔ واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔ اس فخر کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے، بادشاہ یا کسی امیر کی
تعریف بھی نہیں۔ شایدخواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کوشان و شکوہ دیتے تھے چنانچہ ولیؔ کی تصنیفات میں سے ایک غزل میں کہتے ہیں:
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چھِین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (9)
تاریخ ادب سے وابستہ تاریخی حقائق کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کا سال جلوس 1131 ہجری
(1719 عیسوی) ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119 ہجری (1708 عیسوی) میں ساتواں در کھول کر زینۂ ہستی سے اُتر
کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا۔ ممتاز محقق قاضی عبدالودود نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمونؔ کا ہے۔ اصل شعر اس طرح ہے:
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (10)
دکن کی قدیم اردو اور دہلی شہر اور اس کے مضافات میں بولی جانے والی زبان میں جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے وہ ان زبانوں کے مشترکہ فکری سرمائے کی مظہر ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شمالی ہند کی زبان نے جنوبی ہند کے تخلیقی تجربات سے استفادہ کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ ولیؔ کی آمد سے قبل دکن کی زبان کو شمالی ہند میں تخلیقی استنادحاصل نہ تھا۔ ولیؔ کی آمد کے بعد شمالی ہند میں بالعموم اور دہلی میں بالخصوص دکن میں بولی جانے والی زبان اور اس کے ادب کو لائق تحسین سمجھا جانے لگا۔ دہلی میں مقیم ادب دوست حلقوں اور تخلیق کاروں نے ولیؔ دکنی کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اس عہد کے جن ممتاز ادیبوں نے ولیؔ کے کلام کو بہ نظر تحسین دیکھا ان میں عبدالقادر بیدلؔ، مولوی خان فطرت، نواب امید خان مغز، نواب امیر خان عمدۃ الملک انجامؔ اور قزلباش خان اُمیدؔ شامل ہیں۔ حاتمؔ، مضمونؔ ، فغاںؔ ، آبروؔ اور فائزؔ جیسے شعرا نے بھی ولیؔ کی شاعری کی تعریف کی۔
حاتمؔ یہ فن شعر میں کچھ تُو بھی کم نہیں
لیکن ولیؔ ولی ہے جہانِ سخن کے بیچ
خُوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
آبروؔ شعر ہے تیرا اعجاز
پر ولیؔ کا سخن کرامت ہے
٭٭٭