(حمیدہ بیگم بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں۔ تنو آتی ہے۔)
تنو: اماں، بیگم ہدایت حسین کہہ رہی ہیں کہ ان کا نوکر ٹال پر کوئلے لینے گیا تھا، وہاں کوئلے ہی نہیں ہیں۔ کہہ رہی ہیں ہمیں ایک ٹوکری کوئلے ادھار دے دو۔۔۔ کل واپس کر دیں گے۔
حمیدہ بیگم: اے بیوی ہوشوں میں رہو۔۔۔ ہمیں کیا حق ہے دوسروں کی چیز ادھار دینے کا۔۔۔ کوئلے تو رتن کی اماں کے ہیں۔
تنو: اماں، ہدایت صاحب نے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلایا ہے۔ بھابھی جان بچاری بے حد پریشان ہیں۔ گھر میں نہ لکڑی ہے نا کوئلے۔۔۔ کھانا پکے تو کا ہے پر پکے۔
حمیدہ: اے تو میں کیا بتاؤں۔۔۔ رتن کی اماں سے پوچھ لو۔۔۔ کہے تو ایک ٹوکری کیا چار ٹوکری دے دو۔
(تنو سیڑھیوں کی طرف جاتی ہے اور آواز دیتی ہے۔)
تنو: دادی۔۔۔ دادی ماں۔۔۔ سنیے۔۔۔ دادی ماں۔۔۔
(اوپر سے آواز)
رتن کی ماں: آئی بیٹی آئی۔۔۔ توں جگ جگ جیئیں (آتے ہوئے) میں جدوں وی تیری آواز سندی آن۔۔۔ منوں لگدا ہیہ کہ میں جندا ہاں۔۔۔
(رتن کی ماں سیڑھیوں پر سے اتر کر دروازے میں آتی ہے اور تالا کھولنے لگتی ہے۔)
رتن کی ماں: تیری ماں دی طبیعت کیہو جئی ہے۔
تنو: اچھی ہے۔
رتن کی ماں: کل راتیں کس دے کن وچ درد ہو ریا سی۔
تنو: ہاں، اماں کے ہی کان میں تھا۔
رتن کی ماں: ارے تے تیری ماں دوائی لے لیندی۔۔۔ اے چھوٹے موٹے علاج تے میں خود کر لیندی واں۔
(رتن کی ماں چلتی ہوئی حمیدہ بیگم کے پاس آ جاتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: آداب بوا۔
رتن کی ماں: بیٹی۔۔۔ تو میرے بیٹے دے برابر ایں۔۔۔ ماں جی بلایا کر میں نوں۔
حمیدہ بیگم: بیٹھیے ماں جی۔
(رتن کی ماں بیٹھ جاتی ہے۔)
رتن کی ماں: میں کہ رہی سی کہ چھوٹیاں موٹیاں بیماریاں دیاں دوائیاں تے میں آپ نے کول رکھ دی ہاں۔ رات براتے کدی ضرورت پے جائے تے سنکوچ نئی کرنا۔
تنو: دادی، پڑوس کے مکان میں ہدایت حسین صاحب ہیں نا۔
رتن کی ماں: کیہڑے مکان وچ، گجادھر والے مکان وچ؟
تنو: جی ہاں۔۔۔ ان کی بیگم کو ایک ٹوکری کوئلوں کی ضرورت ہے۔ کل واپس کر دیں گی۔۔۔ آپ کہیں تو۔۔۔
رتن کی ماں: (بات کاٹ کر) لو بھلا ایہہ وی کوئی پوچھن دی گل اے۔ ایک ٹوکری نہیں دو ٹوکریاں دے دؤ۔
حمیدہ بیگم: یہ بتائیے ماں جی یہاں لاہور میں چچیڑے نہیں ملتے؟ ہمارے یہاں لکھنؤ میں تو یہی موسم ہے چچیڑوں کا۔۔۔ کڑوے تیل اور اچار کے مسالے میں بڑے لذیذ پکتے ہیں۔
رتن کی ماں: چچیڑے۔۔۔ کیسے ہوتے ہیں بیٹی، مجھے سمجھاؤ۔۔۔ ہمارے پنجابی میں کیا کہتے ہیں انہیں۔
حمیدہ بیگم: ماں جی ککڑی سے تھوڑا زیادہ لمبے لمبے۔ ہرے اور سفید ہوتے ہیں۔۔۔ چکنے ہوتے ہیں۔
رتن کی ماں: ارے لو۔۔۔ ہمارے یہاں ہوتے کیوں نہیں۔۔۔ خوب ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں یہاں کھراٹا کہتے ہیں۔۔۔ اپنے بیٹے سے کہنا سبزی بازار میں رحیم کی دکان پوچھ لے۔۔۔ وہاں مل جائیں گے۔
حمیدہ بیگم: اے یہ شہر تو ہماری سمجھ میں آیا نہیں۔۔۔ یہاں نگوڑ ماری سمنک نہیں ملتی۔
رتن کی ماں: بیٹی لاہور تو بڈا دورا شہر تو ساڈے ہندستان وچ ہے ہی نئیں۔۔۔ مثل مشہور ہے کہ جس لاہور نئی دیکھیا او جنمیا ہی نئیں۔
حمیدہ بیگم: اے لیکن لکھنؤ کا کیا مقابلہ۔
رتن کی ماں: میں تا کدی لکھنؤ گئی نئیں۔۔۔ ہاں چالیس سال پہلے دلی ضرور گئی سی۔۔۔ بڑا اجڑیا اجڑیا جا شہر سی۔
حمیدہ بیگم: ماں جی یہاں رئی کہاں ملتی ہے۔
رتن کی ماں: رئی۔۔۔ ارے رئی تو بہت بڑا بازار ہے۔۔۔ دیکھو جاوید سے کہو یہاں سے نکلے ریزیڈینسی روڈ سے گلی ہری اوم والی میں مڑ جائے، وہاں سے چھتہ اکبر خاں پہنچے گا۔۔۔ وہاں دو گلیاں داہنے بائیں جاتی دکھائی دیں گی۔۔۔ ایک ہے گلی رئی والی۔۔۔ سینکڑوں رئی کی دکانیں ہیں۔
(سکندر مرزا اندر آتے ہیں۔ رتن کی ماں کو دیکھ کر برا سا منھ بناتے ہیں۔)
رتن کی ماں: جیتے رہو پتر۔۔۔ کیسے ہو۔
سکندر مرزا: دعا ہے آپ کی۔۔۔ شکر ہے اللہ کا۔
رتن کی ماں: (اٹھتے ہوئے) بیٹی لاہور وچ سب کچھ ملدا ہے۔۔۔ جد کوئی دقت ہوئے تاں منں پوچھ لینا۔۔۔ چپے چپے تو واقف ہاں لاہور دی۔۔۔ اچھ دیجی رہ۔۔۔ میں چلاں۔
(چلی جاتی ہے۔)
سکندر مرزا: (بگڑ کر) یہ کیا مذاق ہے۔۔۔ ہم ان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں ہیں اور آپ انہیں گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
حمیدہ بیگم: اے نوج، میں کیوں انہیں بنانے لگی گلے کا ہار۔ ہدایت حسین صاحب کی ضرورت نہ ہوتی تو میں بڑھیا سے دو باتیں بھی کرتی۔
سکندر مرزا: ہدایت حسین کی ضرورت؟
حمیدہ بیگم: جی ہاں۔۔۔ گھر میں کوئلے ہیں نہ لکڑی۔۔۔ دوستوں کو دعوت دے بیٹھے ہیں۔۔۔ بیگم بچاری پریشان تھی۔ لکڑی کی ٹال پر بھی کوئلے نہیں تھے۔ ہم سے مانگ رہی تھیں جب ہی بڑھیا کو بلایا تھا۔ کوئلے تو اسی کے ہیں نا۔
سکندر مرزا: دیکھیے اس کا اس گھر میں کچھ نہیں ہے۔۔۔ ایک سوئی بھی اس کی نہیں ہے۔ سب کچھ ہمارا ہے۔
حمیدہ بیگم: یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔
سکندر مرزا: بیگم ہم اسی طرح دبتے رہے تو یہ حویلی ہاتھ سے نکل جائے گی۔۔۔
(تنو کی طرف دیکھ کر، جو سبزی کاٹ رہی ہے۔)
تنو تم یہاں سے ذرا ہٹ جاؤ بیٹی۔۔۔ تمہاری اماں سے مجھے کچھ ضروری بات کرنا ہے۔
(تنو ہٹ جاتی ہے۔)
سکندر مرزا: (راز داری سے) جاوید نے بات کر لی ہے۔۔۔ اس بڑھیا سے پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہے۔۔۔ کل کو اس کا کوئی رشتے دار آ پہنچا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
حمیدہ بیگم: لیکن کیسے پیچھا چھڑاؤ گے۔
سکندر مرزا: جاوید نے بات کر لی ہے۔
حمیدہ بیگم: ارے کس سے بات کر لی ہے۔۔۔ کیا بات کر لی ہے۔
سکندر مرزا: وہ لوگ اے ہزار روپئے مانگ رہے ہیں۔
حمیدہ بیگم: کیوں۔۔۔ ایک ہزار تو بڑی رقم ہے۔
سکندر مرزا: بڑھیا جہنم واصل ہو جائے گی۔
حمیدہ بیگم: (چونک کر، گھبرا کر، ڈر کر) نہیں!!
سکندر مرزا: اور کوئی راستا نہیں ہے۔
حمیدہ بیگم: نہیں۔۔۔ نہیں خدا کے لیے نہیں۔۔۔ میرے جوان جہان بچہ ہے، میں اتنا بڑا عذاب اپنے سر نہیں لے سکتی۔
سکندر مرزا: کیا بکواس کرتی ہو۔
حمیدہ بیگم: نہیں۔۔۔ کہیں ہمارے بچوں کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔
سکندر مرزا: یہ وہم ہے تمہارے دل میں۔
حمیدہ بیگم: نہیں۔۔۔ نہیں آپ کو میری قسم۔۔۔ یہ نہ کیجئے۔ اس نے ہمارا بگاڑا ہی کیا ہے۔
سکندر مرزا: بیگم ایک کانٹا ہے جو نکل گیا تو زندگی بھر کے لیے آرام ہی آرام ہے۔
حمیدہ بیگم: ہائے میرے اللہ، اتنا بڑا گناہ۔۔۔ جب ہم کسی کو زندگی دے نہیں سکتے تو ہمیں چھیننے کا کیا حق ہے؟
سکندر مرزا: وہ کافرہ ہے بیگم۔
حمیدہ بیگم: اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ میں تو ہرگز ہرگز اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔
سکندر مرزا: اب تم سمجھ لو۔
حمیدہ بیگم: نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ تمہیں بچوں کی قسم یہ مت کروانا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...