(حمیدہ بیگم کے گھر کے کسی کمرے /برامدے میں پڑوس کی عورتوں کی محفل جمی ہے۔ فرش پر رتن کی ماں بیٹھی کچھ کاڑھ رہی ہے۔ سامنے تنو بیٹھی ہے۔ تنو کے برابر ایک 18-19 سال کی لڑکی ساجدہ بیٹھی ہے۔ سامنے حمیدہ بیگم بیٹھی ہیں۔ ان کے سامنے پاندان کھلا ہوا ہے۔ حمیدہ بیگم کے برابر بیگم ہدایت حسین بیٹھی ہیں۔)
حمیدہ بیگم: (بیگم ہدایت حسین سے) بہن، پان تو یہاں آنکھ لگانے کے لیے نہیں ملتا۔۔۔ اور بغیر پان کے پان کا مزہ ہی نہیں آتا۔
بیگم ہدایت: اے، یہاں پان ہوتا کیوں نہیں؟
رتن کی ماں: بیٹا پان تے ایتھے ہندا نئیں سی۔۔۔ جدوں توں بٹوارا ہویا تدوں تو مویا پان وی نیامت ہو گیا۔
حمیدہ بیگم: مائی یہ شہر ہماری سمجھ میں تو آیا نہیں۔
رتن کی ماں: بیٹے اس ترہاں نہ کہیا کر، لاہور جیہا تے کوئی شہر ہی نہیں ہے دنیاں وچ۔
حمیدہ بیگم: لیکن لکھنؤ میں جو بات ہے وہ لاہور میں کہاں۔۔۔
رتن کی ماں: بیٹے اپنا وطن تے اپنا ای ہوندا۔۔۔ ہے اسدا کوئی بدل نہیں۔
تنو: دادی آپ نے ہمیں الٹے پھندے جو سکھائے تھے اس میں دھاگے کو دو بار گھماتے ہی کہ تین بار۔
رتن کی ماں: دیکھ بیٹی۔۔۔ پھر دیکھ لے۔۔۔ اس طرح پہلے پھندا پا۔۔۔ پھر اس طرح گھما کن او در نوں ایس ترہاں لے جا۔۔۔ پھر دو پھندے ہور پا دے۔
ساجدہ: دادی آپ کی پنجابی ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔
رتن کی ماں: بیٹی ہون میں کوئی دوسری جبان تے سکھن توں رہئی۔ ہاں میرا پتر رتن ضرور اڑدو جان دا سی۔
(آنکھوں کے کنارے پونچھنے لگتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: مائی ہو سکتا ہے آپ کا بیٹا اور بیوی بچہ خیریت سے بھارت میں ہوں۔۔۔
رتن کی ماں: بیٹی ہن بخت گزر گیا۔۔۔ جے کرا وہ لوگ زندا ہوندے تے ضرور میری کوئی خبر لیندے۔
بیگم ہدایت: مائی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے سوچا ہو کہ آپ جب لاہور میں نہ ہوں گی۔۔۔ (حمیدہ بیگم سے) بہن آپ نے سنا سراج صاحب کے بھائی زندہ ہیں اور کرانچی میں رہ رہے ہیں۔۔۔ سراج صاحب وغیرہ بیچارے کے لیے رو دھو کر بیٹھ رہے تھے۔
حمیدہ بیگم: ہاں، اللہ کی رحمت سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔
رتن کی ماں: ریڈیو تے وی کئی بار اعلان کرایا ہے لیکن رتن دا کدھرے کوئی پتہ نہیں چلیا۔
بیگم ہدایت: اللہ پر بھروسہ رکھو مائی۔۔۔ وہی سب کی نگہداشت کرنے والا ہے۔
رتن کی ماں: ایہہ تے ہے۔۔۔ (آنکھیں پونچھتے ہوئے) بیٹی آ گئے تیں نو پھندے پانیں۔
تنو: ہاں مائی یہ دیکھیے۔۔۔
رتن کی ماں: ہاں شاباش۔۔۔ توں تے اینی جلدی سکھ گئی ایں۔
بیگم ہدایت: اچھا تو اب اجازت دیجیے۔۔۔ میں چلتی ہوں۔
رتن کی ماں: بیٹی توہانوں جدوی رجائی تلائی وچ تاگے پانیں ہون تاں میں نو بلا لیناں۔ میں اوہ وی کرا دواں گی۔
بیگم ہدایت: اچھا مائی شکریہ۔۔۔ میں ضرور آپ کو تکلیف دوں گی۔۔۔ اور کھانسی کی جو دوا آپ نے بنا دی تھی اس سے بیٹی کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔ اب ختم ہو گئی ہے۔
رتن کی ماں: تے کیہہ ہو یا فیر بنا دباں گی۔۔۔ اس وچ کی ہے توں ملٹھی، کالی مرچ، شیہد اور سونڈھ منگا کے رکھ لئیں بس۔
حمیدہ بیگم: تو بہن آتی رہا کیجئے۔
بیگم ہدایت: ہاں، ضرور۔۔۔ اور آپ بھی آئیے۔۔۔ مائی کے ساتھ۔
حمیدہ بیگم: (ہنس کر) مائی کے ساتھ ہی میں گھر سے نکلتی ہوں لیکن مائی جیسا خدمت کا جذبہ ہاں سے لاؤں۔۔۔ یہ تو صبح سے نکلتی ہے تو شام ہی کو لوٹتی ہے۔
رتن کی ماں: بیٹی جدوں تک اس شریر وچ طاقت ہے تدوں تک ای سب کچھ ہین ہین توں ایک دن توہاڈے تے لوکاں دے بوجھ بننا ہی ہے۔
حمیدہ بیگم: مائی ہم پر آپ کبھی بوجھ نہیں ہوں گی۔۔۔ ہم خوشی خوشی آپ کی خدمت کریں گے۔
بیگم ہدایت: اچھا خدا حافظ۔
(بیگم ہدایت چلی جاتی ہے۔)
رتن کی ماں: ہجے میں نوں آفتاب صاحب دے گھر جانا ہے۔۔۔ اوہناں دے وڈے منڈے نوں ماتا نکل آئی ہے نا۔۔۔ اوہ بڑی پریشان ہے۔ ایک منڈا بیمار، دوسرا گھر دے سارے کام کاج کرنے ہوئے۔ میں منڈے کول بیٹھانگی تاں ای اوہ وچاری گھر دا چولھا چوکا کرے گی۔
(سکندر مرزا آتے ہیں۔)
سکندر مرزا: آداب عرض ہے مائی۔
رتن کی ماں: جین دے رہو پتر۔
سکندر مرزا: رہتے ایک ہی گھر میں ہیں لیکن آپ سے ملاقات اس طرح ہوتی ہے جیسے الگ الگ محلے میں رہتے ہوں۔
حمیدہ بیگم: مائی گھر میں رہتی ہی کہاں ہے۔ تڑکے راوی میں نہانے چلی جاتی ہے۔ صبح علی صاحب کے یہاں بڑیاں ڈال رہی ہے، تو کبھی نفیسہ کو اسپتال لے جا رہی ہے، تیسرے پہر بیگم آفتاب کے لڑکے کی تیمار داری کر رہی ہے تو شام کو سکینہ کو اچار ڈالنا سکھا رہی ہے۔۔۔ رات میں دس بجے لوٹتی ہے۔ ہم لوگوں سے ملاقات ہو تو کیسے ہو۔۔۔
سکندر مرزا: جزاک اللہ!
حمیدہ بیگم: محلے کے بچے بچے کی زبان پر مائی کا نام رہتا ہے۔۔۔ ہر مرض کی دوا ہے مائی۔
رتن کی ماں: بیٹی کلی پئی پئی کراں وی تے کیہہ ۔۔۔ سب دے نال ذرا دل وی آہرے لگ جاندا ہے ہڈ پیر وی ہلدے رہندے نے۔ منو ہون ہور کیہہ چاہیدا ہے۔۔۔ اچھا بیٹے تیرے کولوں ایک گل پوچھنی سی۔
سکندر مرزا: حکم دیجیے مائی۔
رتن کی ماں: بیٹا دیوالی آ رہی اے۔۔۔ ہمیشہ دی ترہاں اس سال وی میں دیوے بالن تے پوڑا کراں۔۔۔ مٹھائیاں بناواں۔ میں تیں نوں کہنا چاہندی سی کہ تیں نوں کوئی اعتراض تے نئی ہوئے گا۔
سکندر مرزا: یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ خوشی سے وہ سب کچھ کیجئے جو آپ کرتی تھیں۔ ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ کیوں بیگم۔
حمیدہ بیگم: بے شک۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...