(ناصر اپنے کمرے میں بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں۔ سامان بے ترتیبی سے پھیلا ہوا ہے۔ ہدایت حسین اندر آتے ہیں اور سلام کرتے ہیں)
ناصر: وعلیکم السلام۔۔۔ آئیے ہدایت بھائی بیٹھیے۔۔۔
(ہر طرف کتابیں بکھری ہیں۔ ناصر ایک کرسی سے کتابیں ہٹا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔ ہدایت حسین کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہیں۔ ہر طرف افراتفری ہے۔)
ہدایت: ارے بھائی چیزوں کو سلیقے سے بھی رکھا جا سکتا ہے۔ قرینے سے رہا کرو ۔
ناصر: میں بہت قرینے سے رہتا ہوں ہدایت بھائی۔
ہدایت: (ہنس کر) وہ تو نظر آ رہا ہے۔
ناصر: نہیں۔۔۔ افسوس کہ میرا قرینہ نظر نہیں آتا۔
ہدایت: تمہارا قرینہ کیا ہے۔
ناصر: دیکھیے کس قرینے سے اپنے خیالات اور جذبات کو دو مصرعے کو اشعار میں پروتا ہوں۔
ہدایت: ہاں بھئی غزل کہنے میں تو تمہارا ثانی نہیں ہے۔
ناصر: شکریہ۔۔۔ تو ہدایت بھائی قرینے سے دماغ کے اندر کام کر سکتا ہوں یا باہر۔۔۔ باہر کے کام سبھی لوگ قرینے سے کرتے ہیں، اس لئے میں دماغ کے اندر کے کام قرینے سے کرتا ہوں۔
ہدایت: اچھا ایک بات بتاؤ۔
ناصر: جی فرمائیے۔
ہدایت: تم شعر کیوں کہتے ہو؟
ناصر: اگر مجھے شعر کے علاوہ اتنی خوشی کسی اور کام میں ہوتی تو میں شاعری نہ کرتا، در اصل آج بھی اگر مجھے کوئی ایسا خوشی مل جائے تو شاعری کا بدل ہو تو میں شاعری چھوڑ دوں۔ لیکن شاعری سے زیادہ خوشی مجھے کسی اور چیز میں نہیں ملتی۔
ہدایت: کیا خوشی ملتی ہے تمہیں شاعری سے۔
ناصر: سر کی، حقیقت کی ترجمانی۔۔۔ اسے اس طرح بیان کرنا کہ اس کی آنچ سے دل پگھل جائے۔۔۔
ہدایت: ارے بھائی یہ تو ہم لوگ تنقیدی باتیں کرنے لگے۔ میں آیا تھا تمہاری تازہ غزل سننے۔
ناصر: تازہ ترین غزل سناؤں۔۔۔
ہدایت: ارشاد۔
ناصر: تھوڑی سی خلاف طبع ہے۔۔۔ جس کے لیے امید ہے معاف فرمائیں گے۔۔۔ عرض ہے
ساز ہستی کی سدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
اسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہرو آبلہ پا غور سے سن
اسی گوشہ میں ہے سب دیرو حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ
ہاتھ کانوں سے اٹھا غور سے سن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن
ہر قدم را ہ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی سدا غور سے سن
(ہدایت حسین انہیں بیچ بیچ میں داد دیتے ہیں۔ ناصر کے غزل سنا چکنے کے بعد ہدایت کچھ پل کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔)
ہدایت: بڑی الہامی کیفیت ہے غزل میں۔
ناصر: مجھے خوشی ہے کہ غزل آپ کو پسند آئی۔
(دروازے پر دستک سنائی دیتی ہے۔)
ناصر: کون ہے؟ اندر تشریف لائیے۔
(رتن کی ماں ہاتھ میں مٹھائی لیے اندر آتی ہے۔ انہیں دیکھ کر ناصر کھڑا ہو جاتا ہے۔)
ناصر: مائی تشریف لائیے۔۔۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔۔۔ مجھے بلوا لیا ہوتا۔
رتن کی ماں: تیوہاراں وچ کوئی کسے نوں بلواندا نئی ہے بیٹا۔۔۔ لوگ آپے ایک دوجے دے گھر جاندے نے۔
ناصر: (تعجب سے) تیوہار؟ آج کون سا تیوہار ہے مائی۔
رتن کی ماں: بیٹا اج دیوالی ہے۔
ناصر: مائی، دیوالی مبارک ہو۔
رتن کی ماں: توانوں وی دیوالی مبارک ہوئے۔۔۔ میں توانوں مٹھائی کھلادی ہاں۔
ناصر: وطن کی یاد تازہ ہو گئی۔۔۔
رتن کی ماں: بیٹا کیہہ تسیں اپنے وطن وچ دیوالی مناندے سی۔
ناصر: ہاں مائی ہم سب تیوہار مناتے ہی نہیں تھے، نئے نئے تیوہار ڈھونڈتے تھے۔
رتن کی ماں: لو مٹھائی کھاؤ۔
(رتن کی ماں دونوں کے سامنے مٹھائی رکھ دیتی ہے۔ وے دونوں کھاتے ہیں۔)
ناصر: مائی، آپ کے ہاتھ کے کھانے میں وہی لذت ہے جو میری دادی کے ہاتھ کے کھانے میں تھی۔
ہدایت: بہت لذیذ مٹھائی ہے۔
رتن کی ماں: بیٹے زیادہ بنا نہیں سکی۔۔۔ پھر ڈر وی رئی سی کہ۔۔۔
(اپنے آپ رک جاتی ہے۔)
ہدایت: کیوں ڈر رہی تھی مائی؟
رتن کی ماں: بیٹے پاکستان بن گیا ہے نان۔۔۔
ناصر: تو پاکستان میں کیا دیوالی نہیں منائی جا سکتی۔
رتن کی ماں: میں سمجھی پتہ نئی لوگ کی کہنگے خاؤرے کی سمجھنگیں۔
ناصر: لوگوں کو کہنے دو مائی، لوگ تو کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں۔ اتنی میری بھی سن لیجئے کہ اسلام دوسرے مذہبوں کی قدر اور عزت کرنا سکھاتا ہے۔
رتن کی ماں: بیٹا ٹھیک ای کہہندا ایں ۔ ساڈے لاہور وچ ہندو مسلمان ایک سی، پتہ نئی کن نے کیہہ کیتا کہ اچانک بھرا بھرا نال خون دی ہولی کھیڈن لگ پیا۔
(دونوں چپ رہتے ہیں۔)
رتن کی ماں: اچھا میں چل دی ہاں۔۔۔ گلی وچ دوسرے گھراں ہچ وی مٹھائی ونڈ آواں۔
ناصر: سلام مائی۔
رتن کی ماں: جیوندا رہ پتر۔
(رتن کی ماں نکل جاتی ہے۔)
ناصر: ہدایت بھائی اب میں گھر میں نہیں بیٹھ سکتا۔
ہدایت: کیوں؟
ناصر: یادوں سے ملاقات مجھے گھر کی چہار دیواری میں پسند نہیں ہے۔
ہدایت: کہو یہ کہ آوارگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔
ناصر: آپ بھی چلئے۔۔۔
ہدایت: نا بھائی۔۔۔ تمہارے پیروں جیسی طاقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔ خدا حافظ۔
ناصر: خدا حافظ۔
(ہدایت باہر نکل جاتے ہیں۔)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...