(رتن کی ماں حویلی میں چراغاں کر رہی ہے۔ تنو اور جاوید اس کی مدد کر رہے ہیں۔ پیچھے سے سنگیت کی آواز آ رہی ہے۔ حمیدہ بیگم ایک کونے میں بیٹھی چراغاں دیکھ رہی ہے۔ جب سب طرف چراغاں ہو چکا ہے، مائی داہنی طرف پوجا کرنے کی جگہ پر بیٹھ جاتی ہے۔ تنو اور جاوید اپنی ماں کے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ رتن کی ماں پوجا کرنا شروع کرتی ہے۔ پوجا پوری ہوتی ہے تو وہ کھڑی ہو جاتی ہے اور مٹھائی لے کر حمیدہ بیگم، تنو اور جاوید کی طرف آتی ہے۔ سنگیت کی آواز تیز ہو جاتی ہے۔ یہ تینوں مٹھائی کھاتے ہیں۔ سنگیت کی آواز کم ہو جاتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: دیوالی مبارک ہو مائی۔
رتن کی ماں: توہانوں سب نوں وی مبارک ہووے۔ (کچھ ٹھہر کر کانپتی آواز میں) خاورے میرا رتن کدھرے دیوالی منا ای رہیا ہووے۔
حمیدہ بیگم: مائی تیوہار کے دن آنسو نہ نکالو۔۔۔ اللہ نے چاہا تو ضرور دلی میں ہو گا اور جلدی تم سے ملے گا۔
(رتن کی ماں اپنے آنسو پونچھ لیتی ہے۔)
رتن کی ماں: بیٹی، میں محلے وچ مٹھائی ونڈن جا رئی ہاں۔۔۔ دیر ہو جائے تاں گھبرانا نئی۔۔۔
تنو: ٹھیک ہے دادی۔۔۔ آپ جائیے۔
(رتن کی ماں جاتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: بچاری۔۔۔ اس کا دکھ دیکھا نہیں جاتا۔
تنو: اماں یہ سب ہوا کیوں؟
حمیدہ بیگم: کیا بیٹی؟
تنو: یہی ہندوستان، پاکستان؟
حمیدہ بیگم: بیٹی، مجھے کیا معلوم۔۔ ۔۔
تنو: تو ہم لوگ پاکستان کیوں آ گئے۔
حمیدہ بیگم: میں کیا جانوں بیٹی؟
تنو: اماں، اگر ہم لوگ اور مائی ایک ہی گھر میں رہ سکتے ہیں تو ہندوستان میں ہندو اور مسلمان کیوں نہیں رہ سکتے تھے۔
حمیدہ بیگم: رہ سکتے کیا۔۔۔ صدیوں سے رہتے آئے تھے۔
تنو: پھر پاکستان کیوں بنا؟
حمیدہ بیگم: تم اپنے ابا سے پوچھنا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...