(چائے کی دکان۔ علیم الدین چائے والا، جاوید مرزا، پہلوان انور، سراج، رضا، ناصر کاظمی بیٹھے ہیں۔ علیم الدین چائے بنا رہا ہے۔ پہلوان انور، سراج اور رضا چائے پی رہے ہیں۔)
پہلوان: او علیم، ادھر کتنے مکان الاٹ ہو گئے۔
علیم: ادھر تو سمجھو گلی کی گلی ہی الاٹ ہو گئی۔
پہلوان: موہندر کھنہ والا مکان کسے الاٹ ہوا ہے۔
علیم: اب میں کیا جادوں پہلوان۔۔۔ یہ جو ادھر سے آئے ہیں اپنی تو سمجھ میں آئے نہیں۔۔۔ چھٹانک چھٹانک بھر کے آدمی۔۔۔ کا ایک گلاس نہیں پیا جاتا ان سے۔۔۔
پہلوان: ابے یہ سب چھوڑ۔۔۔ میں پوچھ رہا تھا موہندر کھنہ والے مکان میں کون آیا ہے۔
علیم: کوئی سایر ہیں۔۔۔ ناصر کاظمی۔
پہلوان: تو گیا موہندر کھنہ کا بھی مکان۔۔۔ اور رتن جوہری کی حویلی۔
علیم: اس میں تو پرسوں ہی کوئی آیا ہے۔۔۔ تانگے پر سامان وامان لاد کر۔۔۔ اس کا لڑکا کل ہی ادھر سے دودھ لے گیا ہے۔۔۔ ادھر کچھ مصیبت ہو گئی ہے پہلوان۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ ریا۔
پہلوان: کیا بات ہے۔
علیم: ارے رتن جوہری کی ماں۔۔۔ تو حویلی میں رہ رہی ہے۔
پہلوان: (اچھل کر) نہیں۔
علیم: ہاں ہاں پہلوان۔۔۔ وہی لڑکا بتا رہا تھا۔۔۔ بیچارہ بڑا پریشان تھا۔ کہہ رہا تھا۔۔۔ چھ مہینے بعد مکان بھی الاٹ ہوا تو ایسا جہاں کوئی رہ رہا ہے۔
پہلوان: تجھے کیسے معلوم کہ وہ رتن جوہری کی ماں ہے۔
علیم: لڑکا بتا رہا تھا استاد۔۔۔
پہلوان: (دھیرے سے) وہ بچ کیسے گئی۔۔۔ اس کا مطلب ہے ابھی اور بہت کچھ داب رکھا ہے اس نے۔۔۔
انور: بائیس کمروں کی تو حویلی ہے استاد کہیں چھپ گئی ہو گی۔
سراج: ایک ایک کمرا چھان مارا تھا ہم نے تو۔
پہلوان: رضا، تو چلا جا اور اسے لڑکے کو بلا لا۔۔۔
علیم: کسے؟
پہلوان: ارے اسی کو جسے رتن جوہری کی حویلی الاٹ ہوئی ہے۔
علیم: پہلوان۔۔۔ اس کے باپ کو الاٹ ہوئی ہے۔
پہلوان: ارے تو لڑکے کو ہی بلا لا۔۔۔
رضا: ٹھیک ہے پہلوان۔
(رضا نکل جاتا ہے۔)
پہلوان: ابھی دہی اور متھا جائے گا۔۔۔ ابھی گھی اور نکلے گا۔
انوار: لگتا تو یہی ہے استاد۔
پہلوان: ابے لگتا کیا! پکی بات ہے۔
(ناصر کاظمی آتے ہیں پہلوان ان کی طرف شکی نظروں سے دیکھتا ہے)
علیم: سلام علیکم کاظمی صاحب۔
ناصر: وعلیکم السلام۔۔۔ کہو بھائی چائے وائے ملے گی؟
علیم: ہاں ہاں بیٹھیے کاظمی صاحب۔۔۔ بس بھٹی سلگ ہی رہی ہے۔
(ناصر بنچ پر بیٹھ جاتے ہیں)
پہلوان: آپ کی تعریف۔
ناصر: وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر
خار و خس کی طرح بہائے گئے۔
علیم: واہ واہ کیا شعر ہے۔۔۔ تازہ غزل لگتی ہے ناصر صاحب۔۔۔ پوری ارشاد ہو جائے۔
ناصر: چلو چائے کے انتظار میں غزل ہی سہی۔۔۔ (غزل سناتے ہیں۔)
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر باہر آئی
ایک طرف آشیاں جلائے گئے
کیا کہوں کس طرح سرِ بازار
عصمتوں کے دیے، بجھائے گئے
آہ ! وہ خلوتوں کے سرمائے
مجمعِ عام میں لٹائے گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر
خار و خس کی طرح بہائے گئے
(ناصر چپ ہو جاتے ہیں)
علیم: آج کل کے حالات کی تصویر اتار دی آپ نے۔
پہلوان: لا چائے لا۔
(علیم چائے کا کپ پہلوان اور ناصر کے سامنے رکھ دیتا ہے)
ناصر: (چائے کی چسکی لے کر پہلوان سے) آپ کی تعریف؟
پہلوان: (فخر سے) قوم کا خادم ہوں۔
ناصر: تب تو آپ سے ڈرنا چاہیئے۔
پہلوان: کیوں؟
ناصر: خادموں سے مجھے ڈر لگتا ہے۔
پہلوان: کیا مطلب۔
ناصر: بھئی در اصل بات یہ ہے کہ دل ہی نہیں بدلے ہیں لفظوں کے مطلب بھی بدل گئے ہیں۔۔۔ خادم کا مطلب ہو گیا ہے حاکم۔۔۔ اور حاکم سے کون نہیں ڈرتا؟
علیم: (زور سے ہنستا ہے) چبھتی ہوئی بات کہنا تو کوئی آپ سے سیکھے ناصر صاحب!
ناصر: بھئی بقول میرؔ
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
رنج و غم کتنے جمع کئے تو دیوان کیا۔
تو بھئی جب تار پر چوٹ پڑتی ہے تو نغمہ آپ پھوٹتا ہے۔
(رضا اور علیم جاوید کے ساتھ آتے ہیں)
پہلوان: سلام علیکم۔۔۔
جاوید: وعلیکم السلام۔
پہلوان: آپ لوگوں کو رتن جوہری کی حویلی الاٹ ہوئی ہے۔
جاوید: جی ہاں۔
پہلوان: سنا اس میں بڑا جھگڑا ہے۔
جاوید: آپ کی تعریف؟
(پہلوان قہقہہ لگاتا ہے)
علیم: پہلوان کو ادھر بچہ بچہ جانتا ہے۔۔۔ پورے محلے کے ہمدرد ہیں۔۔۔ جو کام کسی سے نہیں ہوتا پہلوان بنا دیتے ہیں۔
سراج: پر شاہ کے اکھاڑے کے استاد ہیں پہلوان۔
انور: ہم سب پہلوان کے چیلی چاپڑ ہیں۔
پہلوان: ہاں تو کیا جھگڑا ہے؟
جاوید: رتن جوہری کی ماں حویلی میں رہ رہی ہے۔
پہلوان: یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
جاوید: ہے۔۔۔ ہم نے اسے دیکھا ہے، اس سے بات کی ہے۔۔۔
پہلوان: تب۔۔۔ کیا سوچا ہے؟
جاوید: عجیب بڑھیا ہے۔۔۔ کہتی ہے میں کہیں نہیں جاؤں گی حویلی میں ہی رہوں گی۔
پہلوان: ضرور تگڑا مال پانی گاڑ رکھا ہو گا۔ تو تم نے کیا کیا؟
جاوید: ابا کسٹوڈین کے دفتر گئے تھے۔ دفتر والے کہتے ہیں، حویلی خالی کر دو۔ تمہیں دوسری دے دیں گے۔
پہلوان: واہ یہ اچھی رہی۔۔۔ بڑھیا سے نہیں خالی کرائیں گے۔۔۔ تم سے کرائیں گے۔۔۔ پھر؟
جاوید: پھر کیا، ہم لوگ تو بڑے پریشان ہیں۔
پہلوان: ارے اس میں پریشانی کی تو کوئی بات نہیں ہے۔
جاوید: تو کیا کریں؟
پہلوان: تم کچھ نہ کر سکو گے۔۔۔ کرے گا وہی جو کر سکتا ہے۔
(ناصر اٹھ کر چلے جاتے ہیں)
جاوید: کیا مطلب؟
پہلوان: صاف صاف سنو۔۔۔ جب تک بڑھیا زندہ ہے، حویلی پر تمہارا قبضہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ اور بڑھیا سے تم نپٹ نہیں سکتے۔۔۔ ہم ہی لوگ اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ بھی آسان نہیں ہے۔۔۔ پہلے جو کام مفت ہو جایا کرتا تھا اب اس کے پیسے لگنے لگے ہیں۔۔۔ سمجھے۔
جاوید: ہاں، سمجھ گیا۔
پہلوان: اپنے ابا سے کہو۔۔۔ دوچار ہزار روپئے کی لالچ میں کہیں لاکھوں کی حویلی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...