(علیم چائے بنا رہا ہے۔ ناصر اور حمید بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔)
حمید: کل رات آپ نے جنات والا واقعہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ آج پورا کر دیجیے۔
ناصر: ارے بھائی وہ جنات تو صرف جنات تھا۔۔۔ میں تو ایسے جنات کو جانتا ہوں جس نے جناتوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔
علیم: وہ جنات کون ہے ناصر صاحب۔
ناصر: وہ جنات ہے انسان یعنی آدمی ہم اور آپ۔
(سب ہنستے ہیں۔ اسی وقت پہلوان، انوار، سراج اور رضا آتے ہیں۔ پہلوان بہت غصے میں آتا ہے۔)
پہلوان: (غصے میں علیم سے) دیکھا تم نے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ خدا کی قسم خون کھول رہا ہے۔
ناصر: کیا بات ہے پہلوان صاحب بہت غصے میں نظر آ رہے ہیں۔
پہلوان: نظر نہیں آ رہا ہوں، ہوں غصے میں۔۔۔
ناصر: اماں تو صدر پاکستان کو ایک خط لکھ مارئیے۔
پہلوان کیوں مذاق کرتے ہیں ناصر صاحب۔
ناصر: مذاق کہاں بھائی۔۔۔ ہم شاعر تو جب بہت غصے میں آتے ہیں تو صدر پاکستان کو خط لکھ مارتے ہیں۔
پہلوان: قسم خدا کی یہ تو اندھیر ہے۔
ناصر: بھائی ہوا کیا؟
پہلوان: ارے جناب آپ نے کل رات دیکھا ہو گا اس کمبخت نے حویلی میں چراغاں کیا تھا پوجا کی، دیوالی منائی۔
ناصر: اچھا۔۔ اچھا آپ مائی کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟
پہلوان: آپ اس ہندو کافرہ کو مائی کہہ رہے ہیں۔
ناصر: میں تو اسے مائی ہی کہوں گا۔۔۔ بلکہ سب اسے مائی کہتے ہیں۔ آپ اسے جو جی چاہے کہئے۔
(پہلوان خونخوار نظروں سے گھورتا ہے۔)
پہلوان: علیم چائے پلا۔
(علیم چائے بنانے لگتا ہے۔)
پہلوان: (چمچوں سے) اب تو خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا سکندر مرزا صاحب نے اسے چراغاں کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟
ناصر: اجازت، آپ بھی کیسی باتیں کر رہے ہیں پہلوان۔۔۔ مائی حویلی اسی کی ہے۔۔۔ اس نے سکندر مرزا کو وہاں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
پہلوان: اس کا اب پاکستان میں کچھ نہیں ہے۔
(چائے پیتا ہے۔)
مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنا غیر اسلامی کام ہوا اور لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
ناصر: بھئی آپ مائی کے دیوالی منانے کو غیر اسلامی جو کہہ رہے ہیں وہ آپ اپنے حساب سے کہہ رہے ہیں۔ وہ ہندو ہے اسے پورا حق ہے اپنے مذہب پر چلنے کا۔
پہلوان: آپ جیسے سب ہو جائیں تو اسلامی حکومت کی ایسی تیسی ہو جائے۔۔۔ جناب آج وہ پوجا کر رہی ہے کل مندر بنائے گی، پرسوں لوگوں کو ہندو مذہب کی تعلیم دے گی۔
ناصر: تو؟
پہلوان: مطلب کچھ ہوا ہی نہیں۔
ناصر: آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ جیسے ہی اس نے ہندو مذہب کی تعلیم دینا شروع کی ویسے ہی لوگ پٹاپٹ ہندو ہونے لگیں گے۔۔۔ معاف کیجیے گا اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ہو ہی جانے دیجیے۔
(سکندر مرزا آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔)
انوار: استاد سکندر مرزا آ رہے ہیں۔
(پہلوان اچھل کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کے پیچھے آ جاتے ہیں۔ سکندر مرزا پاس آتے ہیں۔)
پہلوان: آپ کی حویلی میں کل دیوالی منائی گئی؟
سکندر مرزا: جی ہاں۔
پہلوان: پوجا بھی ہوئی۔
سکندر مرزا: جی ہاں لیکن بات کیا ہے۔
پہلوان: یہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ آپ نے اس کافرہ کو پناہ دے رکھی ہے۔
سکندر مرزا: جناب ذرا زبان سنبھل کر بات چیت کیجئے۔۔۔ ایک تو میں آپ کے کسی سوال کا جواب دینے کے لیے پابند نہیں ہوں دوسرے آپ کو مجھ سے سوال کرنے کا حق کیا ہے۔
پہلوان: آپ غیر اسلامی کام کراتے رہے ہیں اور ہم بیٹھے دیکھتے رہے، یہ نہیں ہو سکتا۔
انوار: بالکل نہیں ہو سکتا۔
پہلوان: اور اب ہم چپ بھی نہیں رہ سکتے۔
ناصر: خیر، چپ تو آپ کبھی نہیں رہے۔
(پہلوان ان کی طرف غصے سے دیکھتا ہے۔ اسی وقت مولانا آتے دکھائی پڑتے ہیں۔ مولانا کو آتا دیکھ کر سب چپ ہو جاتے ہیں۔ ناصر آگے بڑھ کر کہتے ہیں۔)
ناصر: السلام علیکم مولانا۔
مولانا: وعلیکم السلام۔۔۔ کیسے ہو ناصر میاں؟
ناصر: دعائیں ہیں حضور۔۔۔ بڑے اچھے موقع سے آپ تشریف لائے۔ ایک مسئلہ زیر بحث ہے۔
مولانا: کیا مسئلہ؟
پہلوان: کیا مسئلہ؟
(پہلوان آگے بڑھتا ہے۔)
پہلوان: سلام علیکم مولوی صاحب۔
مولانا: وعلیکم السلام۔
پہلوان: سکندر مرزا صاحب کے گھر میں کل پورا ہوئی ہے۔ بت پرستی ہوئی ہے۔۔۔ یہ کفر نہیں تو کیا ہے۔
مولوی: (سکندر مرزا سے) بات کیا ہے مرزا صاحب؟
پہلوان: اجی یہ بتائیں گے!۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔
مولوی: بھائی بات تو ان کے گھر کی ہے نہ؟ یہ نہیں بتائیں گے اور آپ بتائیں گے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
پہلوان: جواب یہ چھپائیں گے۔۔۔ یہ پردہ ڈالیں گے۔۔۔ اور میں حقیقت کو کھول کر سامنے رکھ دوں گا۔
سکندر مرزا: ٹھیک ہے، آپ حقیقت بیان کیجئے۔۔۔ میں چپ ہوں۔
پہلوان: حضور۔۔۔ ان کے گھر میں بت پرستی ہوتی ہے، کل کھلے عام پوجا ہوئی ہے۔۔۔ وہ سب کیا گیا، اسے کیا کہتے ہیں۔۔۔ ہون وغیرہ۔۔۔ اور پھر چراغاں کیا گیا۔۔۔ کیونکہ کل دیوالی تھی۔ اور مٹھائی بنا کر تقسیم کی گئی۔
مولانا: اب آپ کی اجازت ہے میں مرزا صاحب سے بھی پوچھوں۔
(پہلوان کچھ نہیں بولتا۔)
مولانا: مرزا صاحب کیا معاملہ ہے۔
سکندر مرزا: جناب آپ کو معلوم ہی ہے کہ میری حویلی کی اوپری منزل میں مائی رہتی ہے۔ مائی اس شخص رتن لعل کی ماں ہے جس کی حویلی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میرا تیوہار آ رہا ہے مجھے منانے کی اجازت دے دو۔۔۔ بھلا میں کسی کو اس کا تیوہار منانے سے کیوں روکنے لگا۔۔ ۔، میں نے اس سے کہا۔۔۔ ضرور منائیے۔۔۔ اس بچاری نے پورا تیوہار منایا۔۔۔ قصہ در اصل وہی ہے۔
پہلوان: گھنٹیوں کی آوازیں میں نے اپنے کانوں سے سنی ہیں۔۔۔
مولانا: ٹھہرو بھائی۔۔۔ تو بات در اصل یہ ہے کہ ہندو بڑھیا نے عبادت کی۔۔۔ اور۔۔۔۔
پہلوان: عبادت؟ آپ اس کی پوجا اور گھنٹیاں وغیرہ بجانے کو عبادت کہہ رہے ہیں؟
مولانا: (ہنس کر) تو اس کے لیے کوئی مناسب لفظ آپ ہی بتا دیں۔
پہلوان: پوجا۔
مولانا: جی ہاں، پوجا کا مطلب ہی عبادت ہے۔۔۔ تو اس نے عبادت کی۔
(کچھ پل خاموشی۔)
مولانا: تو کیا ہوا۔۔۔ سب کو اپنی عبادت کرنے اور اپنے خداؤں کو یاد کرنے کا حق ہے۔
پہلوان: یہ کیسے مولانا صاحب؟
مولانا: بھئی حدیث شریف ہے کہ تم دوسروں کے خداؤں کو برا نہ کہو، تاکہ وہ تمہارے خدا کو برا نہ کہیں، تم دوسروں کے مذہب کو برا نہ کہو، تاکہ وہ تمہارے مذہب کو برا نہ کہیں۔
(پہلوان کا منھ لٹک جاتا ہے۔ پھر اچانک جوش میں آ جاتا ہے۔)
پہلوان: فرض کیجئے کل بڑھیا یہاں مندر بنا لے؟
مولانا: مندروں کو بننے نہ دینا۔۔۔ یا مندروں کو توڑنا اسلام نہیں ہے بیٹا۔
پہلوان: (غصے میں) اچھا تو اسلام کیا ہے؟
مولانا: کبھی اطمینان سے میرے پاس آؤ تو میں تمہیں سمجھاؤں۔۔۔ پڑوسی چاہے مسلم ہو، چاہے غیر مسلم، اسلام نے اسے اتنے زیادہ حق دئے ہیں کہ تم ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
سکندر مرزا: حضور وہ ہندو عورت بیوہ ہے۔
مولانا: بیوہ کا درجہ تو ہمارے مذہب میں بہت بلند ہے۔۔۔ حدیث ہے کہ بیوہ اور غریب کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا دن بھر روزہ اور رات بھر نماز پڑھنے والے کے برابر ہے۔
(پہلوان کا منھ بھی لٹک جاتا ہے، لیکن پھر سر اٹھاتا ہے۔)
پہلوان: بیوہ چاہے ہندو چاہے مسلمان؟
مولانا: بیٹا، اسلام نے بہت سے حق ایسے دئیے ہیں جو تمام انسانوں کے لئے ہیں۔۔۔ اس میں مذہب، رنگ، نسل اور ذات کا کوئی فرق نہیں کیا گیا۔
سکندر مرزا: مولانا وہ غمزدہ، پریشان حال ہے، ہم سب کی اس قدر مدد کرتی ہے کہ کہنا محال ہے۔
مولوی: بیٹے، اللہ اس شخص سے بہت خوش ہوتا ہے جو کسی غمزدہ کے کام آئے یا کسی مظلوم کی مدد کرے۔
(پہلوان غصے میں مولانا کی طرف دیکھتا ہے مولوی سکندر مرزا چلے جاتے ہیں۔ پہلوان اپنے گروہ کے ساتھ بیٹھا رہتا ہے۔)
پہلوان: دیکھا تو نے علیم مولوی کیا کیا کہہ گئے۔ ایسے دوچار مولوی اور ہو جائیں تو اسلام کی قدر بڑھ جائے۔۔۔ ارے میں تو انہیں بچپن سے جانتا ہوں۔ ان کے ابا دوسروں کی بکریاں چرایا کرتے تھے اور یہ مولوی ۔۔۔ اسے تو لوگوں نے چندہ کر کے پڑھوایا تھا۔۔۔ کئی کئی دن ان کے گھر چولھا نہیں جلتا تھا۔۔۔ لا اچھا چائے پلا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...