(Last Updated On: )
ڈھائی ماہ اسکے ساتھ گزر جانے پر وہ یہ تو سمجھ چکی تھی کہ زندگی میں کیا اہم ہے اور کیا نہی مگر یہ واحد بات کہ عادل کو دل سے قبول کر لینا ہی اسکے لیئے بہتر تھا وہ نہ سمجھ پائی تھی
“مریم بیٹا یہاں آؤ میرے پاس”
“جی بابا جانی آئی”
مریم برتن سمیٹ کر کچن کی طرف بڑھ رہی تھی کہ بابا کی آواز پر واپس پلٹی
“آئنہ دیکھا ہے؟”
انھوں نے فوراً سے پوچھا
“کیا مطلب بابا جانی؟”
مریم نے نا سمجھی سے پوچھا
رنگت دیکھی ہے اپنی؟قوس قزح کے سب رنگ چمک رہے ہیں چہرے پر
بھئی ماجرہ کیا ہے؟ کچھ ہمیں بھی تو پتا چلے
انھوں نے مریم کے چہرے پر خوشی کے واضح آثار دیکھے تو کہے بغیر رہ نہ سکے
“بابا جانی، خدا جب مہربان ہو جائے تو رنگتیں بھی نکھار دیتا ہے۔۔۔۔۔۔دعا کیجئے گا کہ خدا مہربان ہی رہے
ورنہ رنگت اُڑنے میں دیر نہ لگے گی”مریم نے کہا اور ہاتھ میں برتن لیئے کچن کا رُخ کیا
وہ اب اسی الجھن کا شکار تھی کہ کہیں خضر اور اسکا ساتھ چھوٹ نہ جائے
ایک فون کال جو دن میں ایک بار یا کبھی دو دن بعد کی جاتی تھی اسے اب وہ بھی کم لگنے لگی تھی
خضر کا نام تو وہ جان گئی تھی مگر اب تک اسے دیکھ نہ پائی تھی۔۔۔۔کوئی سنتا تو جھٹ سے کہتا کہ مریم پگلا گئی ہو کیا؟نہ جان نہ پہچان اور وہ ہمارا مہمان؟
جبکہ مریم کا کہنا تھا کہ تعلق اگر روح سے ہو تو صورتیں معنی نہی رکھتیں
******* “””””””””” ******* “”””””” ****
نکاح کی تاریخ قریب تھی اور یونیورسٹی میں بھی اسے ایک مہنہ ہو چکا تھا
نئی جگہ اور نئے دوستوں میں وہ بالکل کھو سی گئی تھی کہ اسے یہ بھی یاد نہ رھا تھا کہ وہ وقت بہت قریب تھا جسکا اسے بالکل انتظار نہ تھا
******** “”””””””” ******* “””” ****
جب وہ یونی جانے کی تیاریوں میں تھی ،امی اسکے کمرے میں آیئں
اسے گنگناتا دیکھ کر کہنے لگیں
“کس کے رنگ کی بیل ہے یہ؟ورنہ یہ سر اور سنگیت کبھی تمہارا پیشہ تو نہیں رہے”
” سُر اور سنگیت تو دھڑکنیں بھی کہتی ہیں مگر ہم انکی اواز پر دھیان نہی دیتے”
مریم کہتی ہوئی بستہ کندھے پر ٹنگے یونی چلتی بنی
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔۔۔۔۔کوئی اور سمجھے نہ سمجھے،مگر وہ اب سمجھنے لگیی تھیں
معاملہ کچھ اور ہی سمت سفر کر رھا ہے
پر سمبھالتی کیسے؟ ثبوت تو کوئی موجود نہ تھا
******* “””””””” ****** “””””””””” *****
کبھی یونیورسٹی جا کر تو کبھی رستے میں کہیں۔۔۔۔۔یا کبھی گھر کے کسی کونے میں خضر کا فون اٹھا لیا کرتی تھی
کوئی وقت مقرر نہ تھا،لہذا اب نیا طریقہ اپنایا تھا
ہر وقت ہاتھ میں فون لیئے رکھنا تو مناسب نہ تھا اور پھر اگر امی کے سامنے کبھی کال آجائے تو ہربڑاہٹ دکھانا بھی شک ظاہر کر سکتا تھااب وہ اکثر جیب والی جینز ہی پہنا کرتی تھی
اب اگر کبھی فون اجاتا تو بنا آواز کے ہی اسے فوراً پتا چل جاتا اور پھر امی سے تو کوئی بھی بہانہ بنا کر کمرے میں آیا جا سکتا تھا۔۔
“السلام علیکم کیسے ہو تم؟”مریم نے فون اٹھاتے ہی سلام کیا
“اللہ کا جتنا شکر ہو بس کم ہی ہے۔۔۔۔تم بتاو ٹھیک ہو؟”
خضر نے جواب دیا
“جب تم ساتھ ہو اور میں ٹھیک نہ ہوں یہ تو اب خدا کو بھی گوارہ نہی ہے”
اس نے جواب دیتے ہوئے کہا
“کاش تم سمجھ پاتی۔۔۔۔۔کچھ باتیں لفظوں میں بیان کرنے لائق نہی ہوتیں ،
اگر ایسا ہو جائے تو میں بھی کچھ کہ دوں”
خضر نے اداس لہجے سے کہا
“ارے کیا ہوا؟ عشقزادے کے چہرے پر اداسی ہے؟
کہیں آج سورج مغرب سے تو طلوع نہیں ہوا۔۔”
مریم نے پریشانی ظاہر کی
“بشر ہوں ، روح بھی ہے، سانس بھی لیتا ہوں
اور نبض بھی چلتی ہے،
تو پھر میرے اداس ہونے پر کیا تفتیش ہے؟”
اس نے اپنے باکمال انداز میں پوچھا
“بشر ہو ، روح بھی ہے اور سانس بھی لیتے ہو تو کہ بھی تو سکتے ہو؟لفظ کم پڑتے ہوں تو خاموشی کا سہارا لے لو۔۔۔۔۔۔۔پر جو بات دل میں ہے کہ ڈالو،کہیں نبض رک نہ جائے”
مریم نے اسے بولنے کی ہمت دی
“میں غرور کی جس آخری حد پر ہوں وہاں آنا تو دور کی بات تم دیکھ بھی نہ پاو گی
زندگی کبھی غرور کے ساتھ نہی گزرتی۔۔۔۔سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں اور میں سمجھوتے کرنے کا عادی نہیں ہوں”
خضر نے جواب دیا
اسکا لہجہ قدرےاداس معلوم ہوتا تھا
“محبت ہو جائے تو غرور کچھ نہی ہوتا،انایئں ٹوٹ جاتی ہیں ،
سمجھوتے نہ بھی کرے کوئی تب بھی محبت زندہ رہتی ہے۔۔۔۔۔اگر مجھ سے محبت کرتے ہو تو بے دھڑک کہ ڈالو
میں اس آس میں ہی کہیں نہ مر جاوں کہ تمھارے منہ سے ایک بار اقرار وفا بھی نہ سن سکی، پر ہاں سن کہ اگر مر بھی جاوں تو مُڑ کر مت آنا”
مُڑ کر دیکھنے والوں میں سے خضر تو نہی ہے ،پھر چاھے کوئی زندہ رھے یا مرنے پر ہی آجائے
میری مانو ،پلٹ جاو۔۔۔۔۔۔یہاں پیار نہیں ہے”
خضر نے بھی صاف جواب دیا
اتنی اکڑ لے کر کہاں جاو گے؟
یہیں ٹھہر جاو نہ۔۔۔۔میں اسے اپنے سر پر ہیرے کے کسی عالیشان تاج کی طرح سجا لوں گی
مریم نے پھر اسرار کیا
“مجھے صاف دکھائی دے رھا ہے وقت اب کم ہی باقی رہا ہے، ہمارا ساتھ چھوٹے تو رونقیں کھونا مت۔
انہیں کسی پنجرے میں قید کر لینا،میرا لوٹ آنا پھر شائد ممکن نہ رہے
پر وہاں لوٹ کر ہرگز نہ جانا جہاں سے میں تمہیں نکال لایا ہوں”
خضر نے یہ کیا بات کہی تھی اسکا جواب صرف اسی کے پاس تھا
“میں کچھ سمجھی نہی ، کہاں جاو گے مجھے چھوڑ کر؟
صاف کہتے کیوں نہیں کہ محبت ہے مجھ سے؟مکرنے سے انا برقرار رہے گی ؟ایسی انا کا کیا فائدہ؟
مریم رہ نہ سکے گی اب۔۔۔۔۔کسی سے کہ نہ سکے گی اب،
وہ کہ رہے تھے مجھ سے کہ تھم جاوں، آج میں تم سے کہتی ہوں کہ تھم جاو۔۔۔ٹھہر جاو
یہیں جم جاو، پر واپس نہ جاو”
وہ اسے اپنی بے لوث ،بے پناہ محبت کا یقین دلانے میں اتنا مصروف تھی کہ یہ بھی نہ محسوس کر سکی اسکا تکیہ آنسووں سے تر ہو چکا تھا
“ہر بات کا جواب میں کبھی دیتا نہیں ہوں ،مزید رابطے کیلیئے اب دعا کرو
جس وقت بھی رابطہ بحال ہو جائے الحمدللہ کہنا اور فون اٹھا لینا”
“خدا حافظ مریم”
اب یہی اس کا معمول تھا کبھی ہفتے بھر کوئی اتا پتا نہ ہوتا تو کبھی خوشی خوشی ہر گھنٹے بعد بھی رابطہ بحال ہو جاتا۔۔۔۔
اور اس بیچ مریم کے آنسووں نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک رابطہ نہ ہو جائے تھمنے کا نام نہی لینا
وہ ہر نماز میں ،ہر وقت قبولیت رابطے کی بحالی مانگتی اور اب تو یہ حال تھا کہ راتیں بھی جاگ کر گزار دیتی تھی کہیں وقتِ قبولیت رات کے کسی پہر نہ ہو جائے
اگلے ہفتے نکاح کی تاریخ تھی اور اب مریم کو حوش آرہا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔۔۔۔۔کوشش کر کے خضر کو فون ملایا تو دوسری جانب بیٹھی لڑکی کہنے لگی
“آپکا مطوبہ نمبر فلحال بند ہے، ٹیون کے بعد اپنا پیغام ریکارڈ کروایئں اور نمبر آن ہو جانے کی صورت میں موصولی پیغام حاصل کریں”
یہی حال تھا بس اب کبھی نمبر بند اور کبھی اچانک رابطہ بحال۔۔۔۔۔
ٹیون کے بعد پیغام بھیجا اسے
“نکاح سے پہلے آجاو ، مجھے ڈر ہے میں کمزور نہ پڑ جاوں۔۔۔”
کمزوری کاطلب موت تھا اور زندگی کی راہوں پر واپس لانے والا وہ شخص مریم کی موت کا منتظر ہرگز نہیں تھا
آخر جب کچھ نہ سوجھی تو بیٹھ گئی جائےنماز بچھا کر
کسی نے سچ ہی کہا ہے “محبت روٹھ جائے تو خدا بہت یاد آتا ہے”
یہاں محبت روٹھی تو نہی مگر بچھڑنے کے مراحل میں تھی، خدا ہی یاد آنا تھا اب تو کہ وہ چاھے تو کیا ممکن نہیں۔۔۔۔
“اسے میرے پاس بھیجنے والے بھی آپ ، میرے دل میں اسکی محبت ڈالنے والے بھی آپ،مجھے اسکی حسرت دینے والے بھی آپ
اور مجھے اس سے جدا کرنے والے بھی آپ؟
میں سوال کروں آپسے یا پھر راضی ہو جاوں؟
لیکن راضی ہو جاوں تو دھوکہ ہوگا اور اگر سوال کروں تو کُفر۔۔۔۔۔
اک طرف وہ جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور اک طرف وہ جسے میں چاہتی ہوں،جسے میں چاہوں وہ میرا نہی تو جو مجھے چاہتے ہیں میں انکی کیوں؟”
سجدے میں پڑی وہ روتی رہی۔۔۔۔لگتا تھا آج تو خدا کو بھی رحم آجائے گا
“جب سے حوش سمبھالا بس اپنی ضدوں میں رہی۔۔۔۔اپنی کہی ،اپنی سنی
ہر چیز مجھے ملی مگر رو کر ، ضد کر کے ، لڑ کر۔۔۔۔۔۔اور عین اس وقت جب مجھے اسکی حسرت نہ رہی، مینے شکوہ نہ کیا اور نباہ کیلئے راضی ہوگئی تو اللہ جی کیوں میرے دل میں اسکی جستجو ڈال دی؟
اسے کیوں میرے پاس بھیجا اور گر بھیج دیا تو کیوں واپس لے رہے ہیں؟
میں نہی جانتی کچھ،نہ مجگے مانگنے کا سلیقہ ہے ،مجھے پھر بھی اسے مانگنا ہے۔۔۔۔
۔بہت رو کر، بہت لڑ کر۔۔۔”
وہ ایک گھنٹے سے بند کمرے میں رو رو کر سجدے میں سر گرائے خدا سے اپنی محبت مانگ رہی تھی،
امی نے یونہی چکر لگایا تو اسے سسکیوں سے روتا دیکھ کر سہم گییں
“یااللہ رحم، مینے جس لڑکی کے چہرے پر آج تک کبھی شکن نہ دیکھی۔۔۔۔۔وہ اس طرح سے روئے تو قیامت نہ ہو؟”
خود کلامی کی اور لوٹ گیئں،جب دو بڑے بات کر رہے ہوں تو بیچ میں بولنا تہذیب کے خلاف ہے۔۔۔۔مگر اب ہوئی تھی فکر لاحق کہ بات کوئی پہاڑ سے بھی بھاری تھی۔۔۔
******* “””””””””” ****** “”””””” *****
ایک طرف بیٹی تھی تو دوسری جانب ماں بھی مصلہ بچھائے خدا سے لڑنے لگی
“اے ستر ماوں سے زیادہ چاہنے والے ! میں صرف ایک ماں کا درجہ رکھتی ہوں اور اسے یوں تڑپتا دیکھ کر سہم گئی ہوں۔۔۔۔۔بے ساختہ میرے منہ سے نکلا “یا اللہ رحم” تو وہ جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو ،جو ایک اشارے پر منظر بدلنے کی قوت رکھتا ہو
وہ جو بن مانگے ہی عطا کردینے والا ہو
عطا کردے اسے ،اسنے جو تجھ سے مانگا ہو۔۔۔۔۔جانے والوں کو کون بھلا روک سکتا ہے؟
وہ تو اب جا چکی ہے ،اسکے لیئے بس اب جانے والی راہوں سے کانٹے ہٹا دے
تو راضی ہو جا اور اسے بہتری عطا کردے
کون جانے تجھ سے بہتر کہ بہتر کیا ہے۔۔۔۔پر اپنے ستر درجوں میں سے جو ایک درجہ تو نے مجھے عطا کیا ہے تجھے اس کی قسم ! اسے جو بھی دینا اس تسلی کی آواز کے ساتھ بخشنا کہ وہ روح و دل سے اس پر راضی ہو جائے”
اب تو دعاوں کا سلسلہ دونوں جانب سے تھا
مگر اب بھی خدا ہی جانے قبولیت کا وقت تھا بھی کہ نہیں۔۔۔۔؟
********* “””””””” ****””” ***””*****