(سکندر مرزا، جاوید، حمیدہ بیگم اور تنو سامان اٹھائے سٹیج پر آتے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ وہ کسٹوڈین کی الاٹ شدہ حویلی میں آ گئے ہیں۔ سب کے چہرے پر اطمینان اور مسرت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ سکندر مرزا، جاوید اور دونوں خواتین ہاتھوں میں اٹھائے سامان کو رکھ دیتی ہیں)
حمیدہ بیگم: (حویلی کو دیکھ کر) یا خدا شکر ہے تیرا۔ لاکھ لاکھ شکر ہے۔
سکندر مرزا: کسٹوڈین آفیسر نے غلط نہیں کہا تھا۔ پوری حویلی ہے حویلی۔
تنو: ابا جان کتنے کمرے ہیں اس میں؟
سکندر مرزا: بائیس۔
بیگم: صحن کی حالت دیکھو۔۔۔ ایسی ویرانی چھائی ہے کہ دل ڈرتا ہے۔
سکندر مرزا: جہاں مہینوں سے کوئی رہ نہ رہا ہو، وہاں ویرانی نہ ہو گی تو کیا ہو گی۔
بیگم: میں تو سب سے پہلے شکرانے کی دو رکعت نماز پڑھوں گی۔۔۔ میں نے منت مانی تھی۔۔۔ اس ناس پیٹے کیمپ سے تو چھٹی ملی۔۔۔
(حمیدہ بیگم دری بچھاتی ہے اور نماز پڑھنے کھڑی ہو جاتی ہے۔)
جاوید: ابا جان یہ گھر کس کا ہے۔
مرزا: اب تو ہمارا ہی ہے بیٹا جاوید۔
جاوید: مطلب پہلے کس کا تھا؟
مرزا: بیٹا ان باتوں سے ہمیں کیا مطلب۔۔۔ ہم اپنی جو جائداد لکھنؤ میں چھوڑ آئے ہیں اس کے عوض سمجھو یہ حویلی ملی ہے۔
تنویر: ہمارے گھر سے تو بہت بڑی ہے حویلی۔
مرزا: نہیں بیٹے۔۔۔ ہمارے گھر کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ صحن میں رات کی رانی کی بیل یہاں کہاں ہے؟ برامدے کشادہ نہیں ہیں۔ اگر بارش میں یہاں پلنگ بچھا دئیے جائیں تو پائتانے تو بھیگ ہی جائیں۔
تنو: لیکن بنا شاندار ہے۔
جاوید: کسی ہندو رئیس کا لگتا ہے۔
سکندر مرزا: کوئی کہہ رہا تھا کہ کسی مشہور جوہری کی حویلی ہے۔
جاوید: کمرے کھول کر دیکھیں ابا۔ ہو سکتا ہے کچھ سامان وغیرہ مل جائے۔
سکندر مرزا: ٹھیک ہے بیٹا تم دیکھو۔۔۔ میں تو اب بیٹھتا ہوں۔۔۔ یہ حویلی الاٹ ہونے کے بعد ایسا لگا جیسے سر سے بوجھ اتر گیا ہو۔
جاوید: پوری حویلی دیکھ لوں ابا جان!
تنو: بھیا میں بھی چلوں تمہارے ساتھ۔
سکندر مرزا: نہیں تم ذرا باورچی خانہ دیکھو۔۔۔ بھئی اب ہوٹل سے گوشت روٹی کہاں تک آئے گا۔۔۔ اگر سب کچھ ہو تو ماشاءاللہ سے ہلکے ہلکے پراٹھے اور انڈے کا خاگینہ تو تیار ہو ہی سکتا ہے۔۔۔ اور بیٹے جاوید ذرا بجلی جلا کر دیکھو۔۔۔ پانی کا نل بھی کھول کر دیکھو۔۔۔ بھئی جو جو کمیاں ہوں گی انہیں درج کر کے کسٹوڈین والوں کو بتانا پڑے گا۔۔۔
(حمیدہ بیگم نماز پڑھ کر آ جاتی ہیں۔)
بیگم: میرا تو۔۔۔ دل ڈرتا ہے۔۔۔
سکندر مرزا: ڈرتا ہے؟
بیگم: پتہ نہیں کس کی چیز ہیں۔۔۔ کن ارمانوں سے بنوائی ہو گی حویلی۔
سکندر مرزا: فضول باتیں نہ کیجئے بیگم۔۔۔ ہمارے پشتینی گھر میں آج کوئی شرنار تھی دندناتا پھر رہا ہو گا۔۔۔ یہ زمانہ ہی کچھ ایسا ہے۔۔۔ زیادہ شرم حیا اور فکر ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔۔۔ اپنا اور آپ کا خیال نہ بھی کریں تو جاوید میاں اور تنویر بیگم کے لیے تو یہاں پیر جمانے ہی پڑیں گے۔۔۔ شہرِ لکھنؤ چھوٹا تو شہرِ لاہور ۔۔دونوں میں ’لام‘ تو مشترک ہے۔۔۔ دل سے سارے وہم نکال پھینکیے اور اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر آ جائیے۔۔۔ بسم اللہ۔۔۔ آج رات میں عشاء کی نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک کروں گا۔۔۔
(تنو دوڑتی ہوئی آتی ہے۔ وہ ڈری ہوئی ہے۔ سانس پھول رہی ہے۔)
بیگم: کیا ہوا بیٹی کیا ہوا۔
تنو: اس حویلی میں کوئی ہے اماں!
سکندر مرزا: کوئی ہے؟ کیا مطلب۔
تنو: میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئی تو میں نے دیکھا۔۔۔
سکندر مرزا: کیا فضول باتیں کرتی ہو۔
تنو: نہیں ابا سچ۔
بیگم: ڈر گئی ہے۔۔۔ میں جا کر دیکھتی ہوں۔۔۔
(حمیدہ بیگم سٹیج کے داہنی طرف جاتی ہیں۔ وہاں سے اس کی آواز آتی ہے۔)
بیگم: یہاں تو کوئی نہیں ہیں۔۔۔ تم اوپر کدھر گئی تھیں۔
تنو: ادھر جو سیڑھیاں ہیں ان سے۔۔۔
(بیگم سیڑھیوں کی طرف جاتی ہیں۔ تنو اور مرزا سٹیج کے داہنی طرف جاتے ہیں۔ وہاں لوہے کی سلاخوں کا پھاٹک بند ہے۔ تبھی حمیدہ بیگم کے چیخنے کی آواز آتی ہے۔)
حمیدہ بیگم: ارے یہ تو کوئی۔۔۔ دیکھو کوئی سیڑھیاں اتر رہا ہے۔
(مرزا تیزی سے داہنی طرف جاتے ہیں۔ تب تک سفید کپڑے پہلے بڑھیا اتر کر دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔)
سکندر مرزا: آپ کون ہیں؟
رتن کی ماں: واہ جی واہ ایہہ خوب رہی، میں کاؤن ہوں۔۔۔ تسی دسّو کون او جو بنا پچھّے میرے گھر گھس آئے۔۔۔
سکندر مرزا: گھس آئے۔۔۔ گھس آنا کیسا۔ محترمہ یہ گھر ہمیں کسٹوڈین والوں نے الاٹ کیا ہے۔
رتن کی ماں: الاٹ الاٹ میں نئی جاندی۔۔۔ یہ میرا گھر ہے۔۔۔
سکندر مرزا: یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
رتن کی ماں: ارے کسی سے بھی پوچھ لے۔۔۔ یہ رتن لال جوہری کی حویلی ہے۔۔۔ میں اس دی ماں واں۔
مرزا: رتن لال جوہری کہاں ہے؟
رتن کی ماں: فساد شروع ہون تو پہلے کسے ہندو ڈرائیور دی تلاش وچ گھروں نکلیاسی۔۔۔ ساڈی گڈی دا ڈرائیور مسلمان سی نا، 1وہ لاہور توں باہر جان نوں تیار ہی نئی سی ہوندا۔۔۔ (روہانسی آواز میں) تد دا گیا رتن اج تک۔۔۔ (رونے لگتی ہے)
سکندر مرزا: (گھبرا جاتا ہے) دیکھیے جو کچھ ہوا ہمیں سخت افسوس ہے۔۔۔ لیکن آپ کو تو معلوم ہی ہو گا کہ اب پاکستان بن چکا ہے۔۔۔ لاہور پاکستان میں آیا ہے۔۔۔ آپ لوگوں کے لیے اب یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔ آپ کو ہم کیمپ پہنچا آتے ہیں۔۔ کیمپ والے آپ کو ہندوستان لے جائیں گے۔۔۔
رتن کی ماں: میں کدرے نئی جاناں۔
سکندر مرزا: یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔ مطلب یہ کہ۔۔۔ یہ مکان۔
رتن کی ماں: اے مکان میرا ہے۔
سکندر مرزا: دیکھیے۔۔۔ ہمارے پاس کاغذات ہیں۔
رتن کی ماں: ساڈے کول وی کاغذات نے۔
سکندر مرزا: بھئی آپ بات تو سمجھئے کہ اب یہاں پاکستان میں کوئی ہندو نہیں رہ سکتا۔۔۔
رتن کی ماں: میں تو ایتھے ہی رہواں گی۔۔۔ جدوٕں ترتن نہیں آ جاندا۔۔۔
سکندر مرزا: رتن۔۔۔
رتن کی ماں: ہاں، میرا بیٹا رتن لال جوہری۔۔۔
سکندر مرزا: دیکھیے ہم آپ کے جذبات کی قدر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب آپ کا لڑکا رتن لال کبھی لوٹ کر واپس۔۔۔
رتن کی ماں: کیوں تو کیہ خدا ہے۔۔۔ کہ تیں نو ساریاں گلاں پکیاں پتہ ہون؟
حمیدہ بیگم: بہن۔۔۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ مار ڈالے گئے۔۔۔ تباہ و برباد ہو گئے۔۔۔
رتن کی ماں: سیکڑیاں ہزاراں بچ بھی تو گئے۔
سکندر مرزا: دیکھیے محترمہ۔۔۔ سو کی سیدھی بات یہ کہ آپ کو مکان خالی کرنے پڑے گا۔۔۔ یہ ہمیں مل چکا ہے۔۔۔ سرکاری طور پر۔
رتن کی ماں: میں اتھوں نہیں نکلاں گی۔
سکندر مرزا: (غصے میں) معاف کیجیے گا محترمہ۔۔۔ آپ میری بزرگ ہیں لیکن اگر آپ ضد پر قائم رہیں تو شاید۔۔۔
رتن کی ماں: ہاں ہاں۔۔۔ میں نوں مار کے راوی وچ روڑھ آؤ۔۔۔ تد حویلی تے قبضہ کر لینان۔۔۔ میرے جیوندا رینہدے ایہہ جہیا ہو نہیں سکدا۔
مرزا: یا خدا یہ کیا مصیبت آ گئی۔
بیگم: آج کل شرافت کا زمانہ نہیں ہے۔۔۔ آپ کسٹوڈین والوں کو بلا لائیے تو۔۔۔ ابھی۔۔۔
رتن کی ماں: بیٹا، توں جا کے جنہوں مرجی بلا لے آ۔۔۔ جان توں زیادہ تے کچھ لے نئی سکے گا۔۔۔ جان میں توہانوں دین نوں تیار واں۔
سکندر مرزا: یا خدا میں کیا کروں۔
بیگم: اجی ابھی آئیے کسٹوڈین کے آفس۔۔ ہمیں ایسا مکان الاٹ ہی کیوں کر دیا جو خالی نہیں ہے۔
مرزا: (جاوید سے) لاؤ بیٹا میری شیروانی لاؤ۔۔۔ تنو ایک گلاس پانی پلا دو۔۔۔
رتن کی ماں: ٹوٹی وچ پانی آ ریا ہے۔۔۔ ایک ہفتے ہی تو سپلائی ٹھیک کوئی ہے۔۔ بیٹی، پانی ٹوٹی چو لے لے۔
مرزا: (شیروانی پہنتے ہوئے) دیکھیے ہم آپ کو سمجھائے دیتے ہیں۔۔۔ پولس نے آپ پر زیادتی کی تو ہمیں بھی تکلیف ہو گی۔
رتن کی ماں: بیٹا، میرے اتے جو کہیر پے چکے نیں۔۔۔ اس تو وڈا کہیر ہون کوئی پے نہیں سکدا۔۔۔ جوان منڈا نئی رہیا۔۔۔ لکھاں دے جواہرات لٹے گئے۔۔۔ سکے۔ مارے گئے۔۔۔
بیگم: تو بوا اب تو ہوش سنبھالو۔۔۔ ہندوستان چلی جاؤ۔۔۔ اپنے لوگوں میں رہنا۔
رتن کی ماں: ایشور دی دین میرا پتر ہی نئی رہیا، تے ہون میں کتھے جاناں ہے؟
(مرزا پانی پیتے ہیں اور کھڑے ہو جاتے ہیں۔)
مرزا: ٹھیک ہے بیگم تو میں چلتا ہوں۔
جاوید: میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔
مرزا: نہیں، تم یہیں گھر پر رہو۔۔۔ ہو سکتا ہے اس بڑھیا نے کچھ اور لوگوں کو بھی گھر میں چھپایا ہو۔
رتن کی ماں: رب دی سوں ۔۔۔ مینوں چھڈ کے ایتھے کوئی نہیں ہے۔
مرزا: نہیں بیٹے۔۔۔ تم یہیں رکو۔۔۔
(مرزا چلے جاتے ہیں۔)
حمیدہ بیگم: خدا حافظ۔
(حمیدہ بیگم، جاوید اور تنو سٹیج کے داہنی طرف سے ہٹ جاتے ہیں۔)
مرزا: خدا حافظ۔
بیگم: تنو۔۔۔ تم نے باورچی خانہ دیکھا؟
تنو: جی امی جان۔
بیگم: برتن تو اپنے پاس ہیں ہی۔۔۔ تم جلدی جلدی کھانا پکا لو۔۔۔ تمہارے ابا کے لوٹنے تک تیار ہو جائے تو اچھا ہے۔
تنو: امی جان باورچی خانے میں۔۔۔ لکڑیاں اور کوئلے نہیں ہیں۔۔۔ کھانا کا ہے پر پکے گا؟
حمیدہ بیگم: لکڑیاں اور کوئلے نہیں ہیں؟
تنو: ایک لکڑی نہیں ہے۔
حمیدہ: تو پھر کھانا کیا خاک پکے گا؟
رتن کی ماں: بیٹی، برانڈے دے کھبے ہاتھ دے پاسی والی چھوٹی کوٹھڑی ہچ لکڑاں پرہیاں پئیاں نے۔۔۔ کڈھ لے۔۔۔
(دونوں ماں (حمیدہ) بیٹی (تنو) ایک دوسرے کو حیرت اور خوشی سے دیکھتے ہیں۔)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...