(۱)
سعادت حسن منٹو کے حالاتِ زندگی، ان کے ادبی کارنامے اور ان کی قلمی معرکہ آرائیاں اتنے وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہیں کہ ایک مختصر مضمون میں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ ان کے ادبی فن پاروں کا ہمہ پہلو جائزہ اور ان کے سیاسی اور سماجی افکار کا تجزیہ بھی خاصا کارِ دارد والا معاملہ ہے۔ ان کی زندگی میں ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے۔ ان کی تخلیقات پر منفی انداز سے تنقید کی گئی۔ ان کے خلاف فتوے صادر کیے گئے۔ یہاں تک کہ انھیں عدالتوں میں بھی گھیسٹا گیا۔ ہمارے خیال میں وہ برِصغیر کے پہلے اردو ادیب ہیں، جنھیں اپنی تحریروں کی بنا پر فوجداری مقدمات میں ملوث ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مقدمات سے وہ بری تو ہو گئے، لیکن سماجی عدالتوں میں ان کے خلاف فوجداریاں نہ صرف ان کی مختصر سی زندگی میں چلتی رہیں، بلکہ یہ سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ غالبؔ کی طرح منٹو کی زندگی میں بھی ان کے طرفداروں اور عقیدت مندوں کا ایک مختصر گروہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ ان کے انتقال کے بعد، غالبؔ کے حالات کے بعینہٖ، عقیدت مندوں اور مداحوں کا یہ مختصر ساگروہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ منٹو کے فن پاروں اور ان کی تحریروں پر نئے نئے انداز اور نئے نئے زاویوں سے تنقید و تحقیق ہو رہی ہے۔ ان کی تخلیقات کی فنّی اور نفسیاتی باریکیوں کا ازسرِ نو جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ متضاد تبدیلیوں کا دور ہے۔ بین الاقوامی، قومی اور مقامی سطحوں پر انقلاب آفریں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اس پس منظر میں جبکہ سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی اقدار میں تغیر و تبدل ہو رہا ہے۔ منٹو کے ادبی کارناموں کا ازسرِنو تجزیہ ایک اہم ادبی تقاضہ ہے۔ اس طرح منٹو کے فن اور ان کے سیاسی اور سماجی افکار کے نئے گوشے منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔
(۲)
منٹو نے جس سیاسی اور سماجی پس منظر میں کہانیاں لکھیں وہ آج کل کے ہندو پاکستان، بلکہ پورے برصغیر کے حوالے سے کئی لحاظ سے اور کئی معاملات میں مختلف نہیں ہے۔ انھوں نے جن موضوعات کو سامنے رکھ کر اپنی کہانیاں تخلیق کیں، وہ آج بھی ہمارے سامنے سوالیہ نشانوں کی طرح ہم سے اسی طرح جواب طلب کر رہے ہیں، جس طرح آج سے ۴۰ یا ۵۰ برس قبل کر رہے تھے۔ مذہب کے نام پر انسانی دلوں کی تقسیم ہو، یا غربت اور افلاس کے دلدل میں پھنسی گمنام رعایا، سیاستدانوں کی ریا کاریاں ہوں، یا ملاؤں اور پنڈتوں کی مکاریاں، علمائے دہر کی پریشانیاں ہوں، یا جہلائے وقت کی کامرانیاں، سب منٹو کے وقت کے موضوعات ہیں اور موجودہ دور کے سوالات بھی۔ اس لحاظ سے منٹو کی تخلیقات کی ابدیت اور آفاقیت، اور ان کی تخلیقات کا تجزیہ و تذکرہ، زمان و مکان کی قیود کا متحمل نہیں ہے۔
منٹو کی تخلیقات مختلف خوبیوں اور خصوصیات سے مزیّن ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ بادی النظر میں ان کی کہانیوں اور تحریروں یں ایک تضاد بھی نظر آتا ہے، لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ ایک ربطِ مسلسل ہے۔ وہ اشتراکیت سے کہیں کہیں متاثر ضرور نظر آتے ہیں لیکن وہ اشتراکیت کو ہندوستانی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا واحد حل نہیں مانتے۔ اس لحاظ سے وہ کسی مخصوص سیاسی نظریے کے اسیر نہیں دکھائی دیتے۔ وہ بالغ نظر تھے۔ ایک مخصوص سیاسی اور سماجی شعور رکھتے تھے جس کو عمومی طور پر آزاد خیالی سے محمول کیا جا سکتا ہے۔ اپنے گردو پیش کے حالات اور واقعات کا تجزیہ ان کے اسی مخصوص شعور کا نتیجہ ہے۔ منٹو متانت، سلیقے اور کبھی کبھی سپاٹ لہجے میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ بقول منٹو:
“میرے متعلق عام لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ میں عشقیہ کہانیاں نہیں لکھتا۔ میرے افسانوں میں چونکہ عشق و محبت کی چاشنی نہیں ہوتی اس لیے وہ بالکل سپاٹ ہوتے ہیں۔ میں اب یہ عشقیہ کہانی لکھ رہا ہوں، تاکہ لوگوں کی یہ شکایت کسی حد تک دُور ہو جائے۱۔ “
منٹو نعرے باز نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ ادب کے نام پر سیاست کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے ادبی سفر کے جائزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو با ضابطہ طور پر کسی سیاسی نظریے کا پابند نہیں بنایا تھا۔ وہ سیاسی حد بندیوں کے قائل بھی نظر نہیں آتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے چند پُر جوش زعما کے ساتھ ان کی ٹھن گئی۔ یہ اُردو کی ادبی تاریخ کا المیہ ہے کہ سعادت حسن منٹو کو اپنے عہد میں وہ پذیرائی، جس کے وہ حقدار تھے، محض اس لیے حاصل نہیں ہوئی کہ ترقی پسند تحریک کے چند کرم فرماؤں نے انھیں رجعت پسند (Reactionary) قرار دیا تھا۔ اسی لیے منٹو نے شدید الفاظ میں اس طرح کے القابات کے خلاف یہ ردِّ عمل ظاہر کیا تھا:
“مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ تھی۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے تھے جو نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چاندی کی لٹیا سے دودھ پینے والا کامریڈ سجاد ظہیر میری نظروں میں ہمیشہ ایک مسخرہ رہا۔ محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات ان کا اپنا پسینہ ہی بطریقِ احسن بیان کرسکتا ہے۔ اس کو دولت کے طور پر استعمال کر کے اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے، ہوسکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں۔ مگر معاف کیجیے گا میں اب بھی انھیں بہروپئے سمجھتا ہوں۲۔ “
منٹو کا یہ ردِّ عمل شدید ضرور ہے لیکن ان کے ردِ عمل میں وزن ہے۔ دلیل ہے۔ وہ ایک غیر ملکی فلسفے کو ہندوستانی حالات پر منطبق کرنے کے عمل کو رد کرتے ہیں۔ اور اس کے برعکس گراس روٹس (Grass Roots) کی بات کرتے ہیں۔ حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہی عمل مسائل کے حل کا احسن طریقہ ہے۔
(۳)
منٹو نے افسانہ نگاری کے بنیادی لوازمات، اس کی فنی و تکنیکی حد بندیوں اور باریکیوں کو حد درجہ ملحوظِ نظر رکھا۔ منٹو بھلے ہی سماج اور سیاسی بندشوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوں، لیکن وہ افسانہ نگاری کی فنی اور تکنیکی بندشوں کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ ان کے افسانوں میں ایک بھی فاضل لفظ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں کی شناخت الگ ہے۔ ان کی ایک منفرد پہچان ہے۔ منٹو کے الفاظ میں:
“یوں تو میرے افسانوں، ڈراموں اور نیم افسانوی مضمونوں میں بھی اکثر ایسی باتیں ہوتی ہیں، جن کا تعلق براہِ راست میرے دل و دماغ کے اس خانے سے ہوتا ہے، جو عام طور پر انسان کی اپنی ذات کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ لیکن ان پر چوکھٹا چونکہ افسانے کا ہوتا ہے اس لیے آپ انھیں اسی شکل میں دیکھتے رہے ہیں۳۔ “
منٹو کی تحریروں کے تجزیے کے سلسلے میں ذہن میں لازماً کئی سوال اُبھرتے ہیں۔ اس لیے ان سوالات کے جواب ان کی تحریروں کے تناظر میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ کیا بحیثیت افسانہ نگار منٹو محض افسانے اور کہانیاں تخلیق کرتے تھے؟ کیا یہ افسانے ان کی شعوری یا غیر شعوری کاوشوں کا نتیجہ تھے؟ کیا یہ افسانے صرف ان کے دور کے واقعات اور حالات کا ایک مجموعہ ہیں؟ ہمارے خیال میں ان سوالوں کے جوابات صرف ان کی کہانیوں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کی ساری تحریروں کے جائزے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ منٹو شعوری طور پر اپنے خیالات کی ترسیل چاہتے تھے۔ اس لیے وہ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے مختلف وسیلوں اور دوسری ادبی اصناف کا بھی سہارا لیتے تھے۔ جہاں افسانہ نگاری کی حد بندیاں ان کے کھل کر اظہارِ خیال پر حائل ہوتی تھیں، وہاں وہ مرقع نگاری اور انشائیوں کا سہارا لیتے تھے۔ ان کے مرقعوں کے دو مجموعے مرقع نگاری کی صنف میں قابل ستائش اضافہ ہیں۔ “میرا صاحب”، “باری صاحب”، “مرلی کی دھن”، “نرگس”، “اللہ کا بڑا فضل ہے”اور پھر ان کا خود نوشت خاکہ، اُردو ادب میں گراں قدر حیثیت رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اُردو ادب کی ایک اور صنف، جس کے خالق مرزا غالب تھے۔ یعنی خطوط نگاری کو بھی انھوں نے خیالات کی ترسیل کا ذریعہ بنایا۔ چچا سام کے نام نو خطوط اور چچا منٹو کے نام بھتیجے کا خط اس بات کا بین ثبوت ہیں۔
منٹو کے موضوعات سماجی بھی ہیں، نفسیاتی اور سیاسی بھی۔ ان کا قلم زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو چھوتا ہے۔ مذہب کے نام پر عوام اور سماج کی تقسیم، فرقہ وارانہ فسادات اور فسادات میں انسانی درندگی اور بربریت کے مظاہرے۔ انسانی طبیعت کا دوغلا پن یعنی Duplicityمنٹو کے مخصوص موضوعات ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ ان کی مشہور کہانی ہے۔ اس مشہور کہانی کی مختلف تاویلیں پیش کی گئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کہانی کے مرکزی کردار، پاگل بشن سنگھ غالباً خود منٹو ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں شامل ہے نہ پاکستان ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے باشندے ہندوستانی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ یہ سوالات منٹو کے ہیں اور برصغیر کے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی اُلجھی ہوئی گتھی بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ، برصغیر کے کروڑوں انسانوں کی آماجگاہ ہے۔ زندہ جاوید انسان، اپنی اپنی دھرتی، اپنے اپنے سماجی ماحول، اپنی اپنی مقامی بولیوں اور اپنی اپنی تاریخی قدروں کے ساتھ اپنے اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد تھے۔ اچانک ایک دن ایک بھیانک زلزلے میں ان کے بسے بسائے ٹوبہ ٹیک سنگھ اجڑ جاتے ہیں۔ تاریخ کے ایک بے رحم فیصلے میں جس میں ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، نہ صرف ان کے گھربار، ان کی زمینیں، ان کی اقدار، سماجی اور ثقافتی رشتے، یہاں تک کہ ان کے خواب بھی لٹ جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی تاریخ بدل دی جاتی ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جس پاگل خانے کا ذکر ہے وہ پاگل خانہ دراصل اُن اَن گنت ہوشمند، بصیرت اور بصارت سے بہرہ ور، پُر وقار انسانوں کی آماجگاہ ہے جو تقسیم ہند کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ملاحظہ ہو:
“ایک پاگل پاکستان اور ہندوستان، ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا۔ اور ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو ہندوستان اور پاکستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اُترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا “میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اسی درخت پر رہوں گا۴۔
زبذ”
اسی کہانی میں رقمطراز ہیں:
“مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟”تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا: “ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۶۔ “
سچ تو یہ ہے کہ ذہنی اور جذباتی طور پر آج بھی لاکھوں لوگ بقول منٹو، اوندھے منہ لیٹے ہیں، ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان ہے، ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ یہ لوگ درمیان میں زمین کے ایک ٹکڑے پر جس کی کوئی سیاسی شناخت نہیں، ٹوبہ ٹیک سنگھ میں موجود ہیں۔ افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑھتے وقت اکثر میرے ذہن میں ایک سوال اُبھرتا ہے۔ کیا اس دنیا میں دھرتی کی اس طرح کی بے رحم تقسیم کا سلسلہ بند ہو گیا ہے؟ ہم نے تو یہ طے کر لیا تھا کہ انسانی تاریخ کا یہ المناک باب، جس میں تقریباً بیس لاکھ جانیں تلف ہو گئیں، ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ ایسا غیر منطقی سیاسی عمل، جو جذبوں، رشتوں اور دلوں کو دو لخت کر دیتا ہو، کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔ لیکن یہ عمل نہایت سفاکی سے پھر دہرایا جا رہا ہے۔ اس بار ایشیا میں نہیں بلکہ یورپ یں۔ بوسنیا ہر زہِ گووینا میں ۱۹۴۷ء کا برصغیر دوبارہ دہرایا بلکہ Re-enactہو رہا ہے آج وہاں بھی شاید کوئی منٹو ایک نئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تخلیق میں مصروف ہو گا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ موضوع اور تحریر کے اعتبار سے ایک شاہکار افسانہ ہے جو آفاقی بھی ہے اور لافانی بھی۔
ان کے دو افسانوں “ٹھنڈا گوشت”اور “کھول دو”کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ دونوں افسانوں کے تلخ سیاسی اور سماجی مسائل کے آئینہ دار ہیں کہ جب انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر کے نفرت کی دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، تو انسان درندوں کا روپ دھارن کر لیتے ہیں۔ افسانہ “ٹھنڈا گوشت”میں درندہ اِیشر سنگھ، خود بھی اس کرب سے گزرتا ہے جس کرب سے دوسرے لوگ اس کی درندگی کے باعث گزرتے ہیں۔ اسی طرح افسانہ “کھول دو”میں انسانی حیوانیت کی شکار ایک مظلوم عورت انسانی درندوں اور ایک ہمدرد ڈاکٹر میں کوئی تمیز نہیں کر پاتی ہے۔ “کھول دو”کے حیوانی کردار اور وہ مظلوم عورت دونوں ہم مذہب ہیں۔ اگر سارے معاملے کی بنیاد مذہب ہے تو سکینہ ہم مذہبوں کے ہاتھوں میں کیوں محفوظ نہیں؟ یا پھر حیوانیت، درندگی اور بربریت کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں افسانے، جن کو ذہنی امراض میں مبتلا، کمزور اعصاب کے لوگوں نے کبھی فحش تو کبھی غیر معیاری قرار دیا، دراصل ایک زبردست سماجی اور سیاسی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ مسئلے آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اس طرح کے واقعات آج بھی کبھی گجرات میں، کبھی ممبئی میں اور کبھی کراچی میں رونما ہوتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ان دونوں افسانوں میں منٹو اگر اپنے مخصوص طرزِ تحریر میں ذراسی بھی تبدیلی لاتے ہیں تو افسانوں کی شدّت (Intensity) کافی حد تک زائل (Dilute) ہو جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں ان تینوں افسانوں “ٹوبہ ٹیک سنگھ”، “ٹھنڈا گوشت”اور “کھول دو”کا ایک نئے زاویے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تینوں افسانے مخصوص سیاسی حالات کے سماجی ردِ عمل ہیں، ان تینوں کہانیوں میں منٹو ایک سماجی ماہر نفسیات (Social Psychologist) کے طور پر اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس پر کافی تبصرہ ہو چکا ہے کہ منٹو انسانی نفسیات کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن ہمیں نہ صرف منٹو کے افسانوں بلکہ ان کے انشائیوں کا بھی سماجی نفسیات کے زاویے (Angle) سے ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ ان کی وہ تحریریں جوان کے نقلِ وطن کے بعد پاکستان میں لکھی گئی ہیں، اس مفروضے کو مزید تقویت پہنچاتی ہیں۔
(۴)
منٹو کو انتقال وطن کے بعد مملکت خدا داد پاکستان میں کم و بیش ان ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے خدشات کے بنا پر وہ اپنے وطن ہندوستان کو خیر باد کہتے ہیں۔ لیکن مملکت خداداد میں انھیں ایک اور صبر آزما تلخ حقیقت کا سامنا ہونے لگا۔ ہندوستان میں رہ کر اگر انھیں ایک اقلیتی فرد ہونے کے ناطے جانبداریوں کا شکار ہونے کا اندیشہ تھا تو پاکستان میں غیر مقامی (Outsider) ہونے انہیں نئے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ آگے چل کر نہایت ہی خطرناک سیاسی اور سماجی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اور اسی مسئلے کو لے کر پاکستان میں گاہے گاہے تشدد اور کشیدگی کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کا اظہار ان کے ایک انشائیے ’ضرورت ہے‘میں یوں ہوتا ہے:
“محکمۂ خدماتِ خاصہ کو مندرجہ ذیل عارضی اسامیوں کے لیے درخواستیں مطلوب ہیں۔ صرف انھی امیدواروں کی درخواستوں پر غور کیا جائے گا جو پاکستان کے باشندے ہوں۔ مقامی مہاجرین کو ترجیح دی جائے گی۔ جو مہاجرین ہیں ان کو دس کی بجائے بیس روپے کی منی آرڈر کی رسید اپنی درخواست کے ساتھ بھیجنی چاہیے۔ دفتر میں چونکہ پردے کا خاطر خواہ انتظام نہیں، اس لیے خواتین درخواست بھیجنے کی زحمت گوارا نہ کریں۶۔ “
مقامی اور غیر مقامی (Local and Outsider) برصغیر کا ایک مستقل اور پیچیدہ معاملہ ہے۔ مختلف حالات میں یہ مسئلہ مختلف شکلوں میں نمودار ہوتا آیا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے سے یہ معاملہ طے نہیں ہوا۔ یہ بات تاریخ نے بھی ثابت کر دی ہے۔ اور اسی حقیقت کو منٹو بارہا اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی انشائیے میں آگے چل کر منٹو، گرتی ہوئی سماجی قدروں، نااہلیت کو سرکاری ایوانوں میں پروان چڑھانے اور کارِ غبار بدست گلکار کی روایات کو آگے بڑھانے کے مسائل کو، جو کہ آج کے برصغیر ہندو پاک کے مشترکہ مسائل میں شامل ہیں ،طنز و مزاح کے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ایک دفتر میں ریسرچ آفیسر کی آسامی کے لیے درخواستیں مطلوب ہیں۔ اُمیدوار کی قابلیت (Qualification) یوں مقرر کی گئیں ہیں:
ایک ریسرچ آفیسر: تنخواہ تین سو پینسٹھ روپے پونے آٹھ آنے ماہوار۔
سالانہ ترقی پچیس روپے چار آنے ایک پائی۔
تنخواہ کی آخری حد: سات سو بیس روپے گیارہ آنے نو پائی۔
خصائص🙁Specializations) (۱)پابندِ صوم صلوٰۃ ہو (۲) ہارمونیم بجانے میں مہارت رکھتا ہو (۳) کم از کم سَوا دو برس تک کسی ریلوے ورکشاپ میں کام کر چکا ہو (۴) ناک میں بولتا ہو (۵) خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر والا بنانے کی ترکیب جانتا ہو (۶) بیلوں کی نسل کشی کے متعلق کافی معلومات رکھتا ہو (۷) عمر انتیس برس ایک دن۔ وہ امیدوار جو گرلز اسکول میں دینیات کا معلّم رہ چکا ہو اسے ترجیح دی جائے گی۷۔ “
طوائفیں اور عصمت فروش عورتیں منٹو کے افسانوں کا موضوع رہی ہیں۔ اس کے لئے انہیں کبھی کبھی بے جا تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ ان کے انشائیوں سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ طوائفوں اور عصمت فروش عورتوں کے مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور ایک سماجی مسئلے کی حیثیت سے اس پر خود بھی تبصرہ کرتے ہیں اور قاری کو بھی اس مسئلے پر سوچنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
“گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے۔ مگر وہ اسباب و علل دُور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سرِ بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استحصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۸۔ “
اس طرح کے سماجی مسائل کا حل منٹو کے پاس کیا ہے؟ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ان مسائل کا حل وہ کسی پہلے سے طے شدہ سیاسی اور سماجی نظریے میں نہیں ڈھونڈتے بلکہ ان لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ان سے افہام و تفہیم کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ان کی یہ اپروچ ان کے اور ترقی پسندوں کے درمیان اختلاف کا سبب بن گئی تھی۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کی اس خبر پر کہ وہاں کی طوائفیں مل کر ایک ٹریڈ یونین قائم کر رہی ہیں، منٹو کا ردِّ عمل یہ ہے:
“حال ہی میں راولپنڈی سے، جہاں قائد ملّت خان لیاقت علی خاں کو قتل کیا گیا تھا یہ خبر آئی تھی کہ وہاں کی طوائفیں مل کر ایک ٹریڈ یونین قائم کر رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض اصحاب یہ خبر سن کر ہنس دیئے ہوں یا زیرِ لب مسکرادیئے ہوں مگر میں اس خبر کو بہت اہمیت دیتا ہوں۔ کیونکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ طبقہ معاشی اور سیاسی طور پر بیدار ہو رہا ہے۔ اور بیداری خواہ وہ طوائف کی ہو یا کسی گھریلو عورت کی، شرابی کی ہو ریا صوفی کی، حاکم کی ہو یا محکوم کی میرے نزدیک ایک نیک فال ہے۔ راولپنڈی کی طوائفیں کم از کم اپنا نقطۂ نظر تو پیش کریں گی جو خالصۃً ان کا اپنا نقطۂ نظر ہو گا۔ اور خود انہی کے دماغ اور انہی کے منہ سے نکلے گا۹۔ “
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ منٹو طوائفوں کے اپنے نقطۂ نظر پر، جو ان کے دماغ سے نکلا ہوا ہو، زور دیتے ہیں۔ اور یہیں سے اصلی حالات کو کھوجنے اور ان کا علاج ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ منٹو کے یہ انشائیے جن میں ان سماجی مسائل پر انھوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے، محض بیانیہ نہیں ہیں اور نہ ہی تقاریر کی صورت میں لکھے گئے ہیں، بلکہ ان تحریروں میں طنز کی کاٹ بھی ہے اور مزاح کے وار بھی۔ یہ تحریریں فن کے اعلیٰ نمونے نہیں ہیں۔ لیکن ان میں عامیانہ پن بھی نہیں ہے۔ یہ تحریریں منٹو کے سیاسی اور سماجی نظریات اور فلسفے کو سمجھنے میں نہایت ہی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
منٹو کی کہانیوں کے کردار عصمت فروشی کے اڈوں اور جرائم پیشہ دنیا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آج تک اس بات پر دھیان نہیں دیا گیا ہے کہ منٹو نہ صرف اس دنیا کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان جرائم کے محرکات، ان کے پروان چڑھنے اور اصلاحِ احوال کی طرف سے بھی غافل نہیں ہیں۔ ملاحظہ ہو:
“میں سزائے موت کا قائل نہیں، میں جیل کے حق میں بھی نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جیل انسان کی اصلاح نہیں کرسکتا۔ لیکن میں ایسے اصلاح خانوں کے حق میں ہوں، جو غلط رو انسانوں کو صحیح راستہ بتاسکیں۔ ہم ایسے درویشوں، ایسے بزرگوں کی عام باتیں کرتے ہیں، جن کے ایک لفظ پر بڑے بڑے بد کرداروں نے اپنے بُرے راستے چھوڑ دیئے۔ کوئی معمولی سا فقیر ملا اور شیطان سیرت فرشتہ بن گئے۔ روحانیت یقیناً کوئی چیز ہے۔ آج کے سائنس کے زمانے میں، جس میں ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے اور جراثیم پھیلائے جا سکتے ہیں، یہ چیزیں بعض اصحاب کے نزدیک مہمل ہوسکتی ہیں لیکن وہ لوگ جو نماز اور روزے، آرتی اور کیرتن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں ہم انھیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔ یقیناً روحانیت مسلم چیز ہے۱۰۔ “
جرم و سزا کے بارے میں منٹو کے یہ مشاہدات نہایت اہم ہیں۔ جرمیات اور سماجیات (Criminology and Sociology) کی اصطلاح میں یہ اصلاح (Reformation) کی تھیوری ہے، جس پر دنیا بھر میں پچھلی ایک صدی سے بحث چل رہی ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔ منٹو کے یہ مشاہدات ان کے علم اور دنیا میں ہو رہے سماجی مسائل کے مذا کرات کے کماحقہ‘واقفیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ منٹو جس روحانیت کی بات کرتے ہیں اس کی جڑیں ہماری اپنی زمین میں پیوست ہیں۔ منٹو کا تجویز کردہ علاج ہماری اپنی دیسی دریافت (Indigenous Discovery) ہے۔ جو صدیوں سے آزمایا ہوا نسخہ ہے۔
منٹو سماجی اقدار یعنی Value Systemکو دو زاویوں سے دیکھتے ہیں، پرکھتے ہیں اور جراحی (Surgery) کرتے ہیں۔ ایک انسانوں کی انفرادی قدریں، جو سماج کے اندر ایک تاریخی تسلسل کا نتیجہ ہیں۔ یہ سماج میں رہنے والے افراد کا وہ سرمایہ ہیں جن کو سماج میں رہنے والا ہر فرد اپنے سینے سے لگا کر ان کی حفاظت کرتا ہے۔ ان قدروں میں منٹو کو جہاں بھی دو غلا پن یا Duplicityنظر آتا ہے، ان کو وہ بڑی بے رحمی سے بے نقاب کر دیتے ہیں۔ بے نقابی کا یہ کھیل منٹو کو بہت مہنگا پڑا۔ اس عمل میں منٹو کو اپنے دور میں مختلف سمتوں سے مختلف حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے افسانے، “مسٹر معین الدین”میں ’زہرہ‘اپنے خاوند مسٹر معین الدین سے طلاق مانگ کر، کروڑ پتی مسٹر احسن سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہیں۔ جس کے لیے معین الدین صاف انکار کر دیتے ہیں کہ مسٹر احسن کے ساتھ وہ اپنے جنسی تعلقات قائم رکھ سکتی ہیں، لیکن دنیا کی نظروں میں وہ بدستور بحیثیت اس کے خاوند کے موجود رہیں گے۔ مسٹر معین الدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی بیوی ان سے طلاق لے کر ایک کروڑ پتی سے شادی کر لیتی ہے، تو یہ ان کی اپنی عزت اور ناموس پر حرف لانے کا موجب ہو گا۔ لیکن جب مسٹر احسن کروڑوں روپے کی جائداد زہرہ کے نام منتقل کرنے کے بعد انتقال کرتے ہیں تو مسٹر معین الدین اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہیں۔ وہ اپنی بیوی کو یہ کہہ کر اطلاع دیتے ہیں:
“یہ سب یہ ہے کہ مجھے اپنی عزّت اور اپنا ناموس بہت پیارا ہے۔ جب میری جان پہچان کے حلقوں کو یہ معلوم ہو گا کہ احسن تمھارے لیے جائداد چھوڑ کر مرا ہے تو کیا کیا کہانیاں گھڑی جائیں گی۱۱۔ “
سماج کی ان قدروں، جہاں حاجی صاحب رشوت لینے، چور بازاری کرنے اور چرس اور افیون کی اسمگلنگ کو بُرا نہیں سمجھتے، ایک طوائف محرّم کے ماتم میں حصّہ لینے کے لیے ایک عدد کالی شلوار حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتی۔ کوٹھے پر بیٹھنے والی کوئی دوسری عورت اپنا دھندہ شروع کرنے سے پہلے بھگوان کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکتی ہے۔ یہ سب متضاد حقیقتیں (Contradictory Realities) منٹو کے قلم کی زد میں آتی ہیں۔ اخلاقی اقدار (Moral Values)، مذہبی اعتقادات (Religious Beliefs) اور کشمکش حیات (Struggle of Life) کے تقاضوں کو الگ الگ خانوں (Compartments) میں بانٹنا اور ان مختلف خانوں میں باہمی ربط (Inter-Relationship) قائم رکھنا انسانی فطرت کا ایک دلچسپ کھیل ہے۔ منٹو اس کھیل سے لطف بھی اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کھیل کا تماشہ دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی کھیل سے لطف اندوز ہو کر وہ اپنی کہانیوں کا تانا بانا بنتے رہتے ہیں۔
منٹو نہ صرف کھوکھلی اقدار کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیتے ہیں بلکہ عام انسانوں کے ادراک (Perceptions) کو بھی اُلٹ(Reverse) دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہ کام بھی آگ میں انگلیاں ڈالنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی تواریخ میں یزید کا کردار ایک ایسے ظالم اور سفاک بادشاہ کے طور پر نمایاں ہے، جس کے حکم سے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل خاندان پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن ان کی کہانی “یزید”میں جب کریم دادا کا بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اس کا نام یزید رکھ دیا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
“جیناں کی آواز بہت نحیف ہو گئی۔ “یہ تم کیا کہہ رہے ہو کریمے؟ یزید!“
کریم دادا مسکرایا “کیا ہے اس میں، نام ہی تو ہے۔ “
جیناں صرف اس قدر کہہ سکی “مگر کس کا نام؟”
کریم دادا نے سنجیدگی سے جواب دیا “ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔ اس نے دریا کا پانی بند کیا تھا۔ یہ کھولے گا۱۲!”
اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک طرح کی سرکشی ہے۔ لیکن اس میں جدت بھی ہے اس میں ایک اہم کوشش یہ بھی ہے کہ انسانی ذہن میں جو بھی سٹیر و ٹائپس (Stereo Types) اپنی جگہ بناتے ہیں، ان کو بدل دینے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔
اقدار کے سلسلے میں منٹو کا دوسرا زاویۂ نگاہ ان بیرونی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا جائزہ ہے، جو ان کے اپنے گردو پیش کے سماجی حالات، ثقافت اور اقتدار پُر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ترقی پسندوں اور اشتراکیوں کے بارے میں ان کے ردِّ عمل کا ہم اوپر مختصر سا جائزہ پیش کر چکے ہیں۔ لیکن وہ امریکی پیش قدمی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکی فوجی اور معاشی امداد کا پیش منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں:
“امریکی اوزاروں سے کتری ہوئی بسیں ہوں گی۔ امریکی مشینوں سے سلے ہوئے شرعی پاجامے ہوں گے۔ امریکی مٹی کے “اَن ٹچڈ بائی ہینڈ” (Untouched by Hand) قسم کے ڈھیلے ہوں گے۔ امریکی رحلیں ہوں گی اور امریکی جائے نمازیں ہوں گی۔ بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپ ہی کے نام کے تسبیح خواں ہوں گے۱۳۔ “
منٹو بیرونی سیاسی نظریات سے متاثر ضرور نظر آتے ہیں مگر ان کی رو میں بہتے نہیں ، ان سے استفادہ حاصل کرتے ہیں، مگر ان کو حرفِ آخر نہیں مانتے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ اقتباس نہایت اہم ہے:
“زیادہ افسوس ترقی پسندوں کا تھا۔ جنھوں نے خواہ مخواہ سیاست کے پھٹے میں ٹانگ اڑائی۔ ادب اور سیاست کا جوشاندہ تیار کرنے والے یہ عطا ئی کریملن (Kremlin) کے تجویز کردہ نسخے پر عمل کر رہے تھے۔ مریض جس کے لیے جوشاندہ بنایا جا رہا تھا اس کا مزاج کیسا ہے۔ اس کی نبض کیسی ہے، اس کے متعلق کسی نے غور کیا؟ نتیجہ جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے کہ آج سب ادب کے جمود کا رونا رو رہے ہیں۱۴۔ “
اس لحاظ سے منٹو انسانیت پسند (Humanist) ہیں۔ وہ اپنے سوالات کا جواب اپنی زمین اور اس کی جڑوں میں، اس کی تاریخ میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ذہن ایک آزاد خیال (Free Thinker) انسان کا ذہن ہے۔ جو حقائق کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور ذہن سے سوچتا ہے بلکہ ان کو کون سی حقائق دیکھنا ہیں، اس کا بھی منٹو خود تعین کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ پر کوئی مخصوص لیبل نہیں لگوانا چاہتے۔
سعادت حسن منٹو ایک صاحبِ نظر دانشور تھے۔ سیاسی، سماجی اور انسانی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس لحاظ سے برصغیر کے مسلمانوں کی ذہنی پیچیدگی اور باہر کے تضادات (Contradictions) کا بھی ان کو اندازہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ تضادات اور زیادہ گہرے ہو گئے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد سیاسی حالات کی بنا پر ان کی ذہنی پیچیدگیوں اور جذباتی بحر ان میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ منٹو یہ تضادات، یہ پیچیدگیاں اور بحران بغیر کسی خوف یا تردُد کے ابھار کر سامنے لاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی ایسے پُر خطر موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں جہاں فرشتوں کے بھی پر جل جائیں۔ ملاحظہ ہو:
“پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑتے تھے۔ جس کو انھوں نے پیٹ اور انعام وا کرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کر لیا تھا۔ اب وہ خود دو حصوں یں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے۔ رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔ پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیری مسلمانوں کے لیے؟ اگر انھیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آباد اور جونا گڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں انھیں لڑنے کے لیے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں وہ اس میں کیوں حصّہ نہیں لیتے۱۵۔ “
یہ اقتباس ان کی کہانی “آخری سلیوٹ”سے ہے جو اکتوبر ۱۹۵۵ء میں لکھی گئی تھی۔ اسی کہانی میں منٹو اور بھی بے باکی سے لکھتے ہیں:
“انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ رب نواز سے سوال کیا، “یار سچ سچ بتا، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیے؟”ربّ نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا، “ہاں رام سنگھا”رام سنگھ نے اپنا سرہلایا “نہیں میں نہیں مان سکتا۔ تمھیں ورغلایا گیا ہے”رب نواز نے اسے یقین دلانے کے انداز میں کہا، “تمھیں ورغلایا گیا ہے۔ قسم پنجتن پاک کی۔ “رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “قسم نہ کھا یارا ٹھیک ہو گا۔ “لیکن اس کا لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ اس کو رب نواز کی قسم کا یقین نہیں۱۶۔ “
یہ افسانہ برصغیر ہندو پاک میں مسلمانوں کے ذہنی تضادات، جن کا تعلق براہِ راست ملک کی تقسیم کے ساتھ ہے، نمایاں طور پر اجاگر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہب کے نام پر سیاست گری کے مستقل کھیل سے پیدا شدہ صورت حال سے مسلمانوں کی ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کا ایک خاکہ بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ آج تقریباً پچاس سال گزرنے کے باوجود بھی اس افسانے کی اہمیت اور معنویت وہی ہے جو آج سے پچاس سال قبل تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تحریریں برصغیر کے ہر طبقے کے موافق نہیں ہیں۔ جن میں صرف صاحبِ اقتدار لوگ ہی نہیں بلکہ وہ صاحبِ طرز تنقید اور تبصرہ نگار بھی شامل ہیں جو محتاط روی کو دانشمندی کی پہلی سیڑھی مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کی تحریروں اور ان کے حالاتِ زندگی کی کوئی مکمل اور بھرپور تصویر سامنے نہیں آتی ہے۔ ان کے تصوّرِ حیات، ان کا سیاسی اور سماجی نظریہ یا نظریات اور ان کے فن کا غیر جانبدارانہ جائز ہ بھی تسلی بخش طور پر سامنے نہیں آتا۔
(۵)
منٹو ایک گوشت پوست کے انسان تھے۔ ایک نارمل گھرکے، جس میں ان کی بیوی اور بچیاں رہتی تھیں، سربراہ تھے۔ ان کی ساری زندگی تندستی، تہی دستی اور محرومیوں سے عبارت تھی۔ وہ ان سرکاری عنایات سے ساری عمر محروم رہے، جن عنایات کے سائے میں چند ترقی پسند زعماؤں نے ساری عمر مزے لوٹے۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان میں بھی وہ اپنی بے باک تحریروں کے باعث انعام و ا کرام تو دور، سرکاری غیض و غضب کا نشانہ بنتے رہے۔ ان پر ماسکو کی نظریاتی عنایت بھی نہ تھی، کیونکہ ترقی پسند پہلے ہی ان کو رجعت پسند قرار دے چکے تھے۔ لیکن لگتا ہے کہ ان آزمائشوں اور اس کشمکش نے ان کو سخت جان بنا دیا تھا۔ ان کی بے باکی اور ان کی خود اعتمادی شاید انھی آزمائشوں کا نتیجہ ہیں۔ لیکن تلخی حیات نے منٹو کو ایک عجیب مزاح کی حس دی تھی۔ وہ خود پر بھی ہنستے تھے اور دوسروں کی بھی ہنسی اُڑاتے تھے۔ ’میری شادی‘جو ان کی اپنی شادی کے ’حادثے‘سے متعلق ہے، اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
منٹو نظریوں کے دائروں سے بالکل آزاد نہیں ہیں۔ انھوں نے لاکھ اس بات پر زور دیا ہو کہ وہ کسی مخصوص سیاسی اور سماجی نظریے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن ان کی تحریروں اور ان کے افسانوں سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وہ مختلف نظریوں سے خاصے متاثر ہیں۔ انھی نظریوں کے پس منظر میں وہ سماج کی حقیقتوں کو دیکھتے ہیں۔ سماج مسائل پر تبصرہ کرتے ہیں اور ان مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ ان کے کردار اپنے وجود (Existence) کے تقاضوں سے نبرد آزما ہیں۔ وہ فرشتے بھی ہیں اور شیطان بھی۔ رحم دل بھی ہیں اور ظالم بھی۔ ان کا کردار جو خود ڈاکٹر سے ایک سوئی لگوانے سے ڈرتا ہے، نہایت سفاکی سے دوسرے انسان کا قتل کرسکتا ہے۔
منٹو کی تحریروں کے اس مختصر سے جائزے کو میں منٹو کے اس اقتباس پر ختم کرتی ہوں:
“جیل سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ زندگی جو بسر کر رہا ہوں، جیل سے کم تکلیف دہ نہیں۔ اگر اس جیل کے اندر ایک اور جیل پیدا ہو جائے اور مجھے اس میں ٹھونس دیا جائے تو چٹکیوں میں دم گھٹ جائے۔ زندگی سے مجھے پیار ہے۔ حرکت کا دلدادہ ہوں۔ چلتے پھرتے سینے میں گولی کھا سکتا ہوں۔ لیکن جیل میں کھٹمل کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر مضمون سناتے سناتے آپ سب سے مار کھالوں گا اور اُف تک نہیں کروں گا۔ لیکن ہندو مسلم فساد میں اگر کوئی میرا سر پھوڑ دے تو میرے خون کی ہر بوند روتی رہے گی۔ میں آرٹسٹ ہوں، اوچھے زخم اور بھدے گھاؤ مجھے پسند نہیں۱۷۔۔۔ “
حوالہ جات
۱عشقیہ کہانی از منٹو نامہ: مصنّف سعادت حسن منٹ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ۱۹۹۰ء ص۷۴)
۲”گناہ کی بیٹیاں گناہ کے باپ”از اوپر نیچے اور درمیان: مصنّف سعادت حسن منٹو، ساقی بک ڈپو، دہلی ۱۹۸۹ء میں۱۲۸:
۳’حبیب کفن‘ از منٹو نامہ ص ۲۲۱
۴’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘از منٹو نامہ ص۱۲
۵ایضاً ص: ۱۱
۶’ضرورت ہے‘از ’اوپر نیچے درمیان‘ص: ۱۲۲۔ ۱۲۳
۷ایضاً ص: ۳۱۔ ۳۰
۸’گناہ کی بیٹیاں گناہ کے باپ‘از “اوپر نیچے درمیان”
۹ایضاً ص:۱۲۸۔ ۱۲۷)
۱۰قتل و خوں کی سرخیاں‘از “اوپر نیچے درمیان”ص:۷۵۔ ۷۴
۱۱”مسٹر معین الدین”از منٹو نامہ ص:۶۵)
۱۲”یزیدب‘از منٹو نامہ ص۱۰۸:
۱۳”چچا سام کے نام چوتھا خط”از ’اوپر نیچے درمیان‘
۱۴”حبیبِ کفن”از منٹو نامہ ص: ۱۲۶
۱۵ایضاً ص۱۲۷
۱۶”لذتِ سنگ”از منٹو نامہ ص۶۲۱
۔۔۔۔۔۔