منٹو کا اُسلوب دراصل افسانوی ادب کا وہ روشن اُسلوب ہے جو قاری کے شعور واحساس کو متاثر کرتا ہے اور بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ان کی افسانوی اور فنکارانہ بصیرت نے ان کے اُسلوب کو خلق کیا ہے۔منٹو کی زبان و بیان کے ذریعہ ہندوستان کی سماجی صورتِ حال اور تہذیبی وحدت کا پتہ چلتا ہے۔ان کے اُسلوب میں ان کی شخصیت کے کئی پہلوؤں کو شدید طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے کرداروں کے تجربے ان کا اپنا تجربہ بن گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر مشتمل منٹو کے افسانوں کے فنکارانہ پیشکش کرداروں کے جذبات واحساسات اور ذہنی کشمکش کے جوہر کو جس طرح نمایاں کرتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منٹو نے کس طرح تمام واقعات و حادثات اور کرداروں کے اعمال کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ان کے افسانوں کے مختلف موضوعات، مواد اور بعض پیچیدہ اور نازک issuesکو سمجھنے میں ویژن کا کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ منٹو کے ویژن ہی کا کرشمہ ہے کہ افسانوں کے کئی بے معنی الفاظ اور جملوں کے ذریعہ نہ جانے کتنے بامعنی مفاہیم اور سچائیوں تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ملتی ہے۔ کرداروں کے جذبات کے اظہار میں توازن ہے۔جنسی تسکین اورجنسی تلذذ حاصل کرنے کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبو کے ذکر سے قاری کے احساس و شعور اور اس کے پورے وجود کو معطر کرنے کا جو اسلوب منٹو نے خلق کیا ہے وہ کسی دوسرے افسانہ نگار کے بس کی بات نہیں ہے۔مختلف نوعیت کے جنسی تجربوں کے بیان میں مطابقت اور ہم آہنگی کا بھی ایک منفرد اور خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ مختلف کرداروں کی نفسیات،حرکات وسکنات اور ان کی گفتار کے آہنگ کو منٹو نے اس طرح پیش کیا ہے کہ اُسلوب کی دل کشی اور دل آویزی اور بڑھ گئی ہے۔ان کے اسلوب میں موضوع اور ہیئت کی مطابقت اور ہم آہنگی انبساط بھی عطا کرتی ہے اور انسانیت کے تئیں بیدار بھی کرتی ہے۔ منٹو کے اسلوب کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ قاری کے حواس بیدار ہونے لگتے ہیں، وہ منٹو کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگتے ہیں۔ منٹو کے اسلوب میں ابلاغ کا ایک خاص حسن ہے۔افسانوں کی عبارتوں کے داخلی آہنگ نے ان کے افسانوی اسلوب میں بڑی مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کی ہے۔افسانوں کے موضوعات اور خیالات و جذبات کی وحدت نے ان کے اسلوب کو اور زیادہ موثر اور جاذب نظر بنا دیا ہے۔ تمام افسانوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے اسلوب کی کئی جہتیں نمایاں ہوں گی۔منٹو کے افسانوں کی نفسیاتی پیچیدگی کو آسان بنانے اور دل و دماغ میں اتارنے کے لیے ان کے اسلوب کی کئی صورتیں مزید نمایاں ہوئی ہیں۔ اسلوب کی ان جہتوں میں جو توانائی اور آہنگ ہے وہ ان کے افسانوں کے موضوعات سے گہرا رشتہ رکھتی ہیں۔
ناقدینِ منٹو نے ہمیشہ ان کی شخصیت اور فن کو فحش نگاری اور حقیقت نگاری میں الجھائے رکھا جبکہ بیشتر ناقدینTextualityاورSexualityکے جوہرکوسمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس مقالے میں منٹو کو ان کے افسانوی اسلوب کے جمالیاتی پہلو کے آئینہ میں دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کیوں کہ اسلوبیات کے مروجہ اصولوں کے ذریعہ ادب کے اصل جوہریاکسی فنکار کے فن کی روح تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ ماہرین اسلوبیات کا بھی خیال ہے کہ ’’اسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں ‘‘ اسلوبیات صرف تنقید کی مدد کرتا ہے لیکن اس کے پاس ادبی ذوق یا جمالیاتی ویژن نہیں ہوتا ہے۔لہٰذا منٹو کو ان کے اسلوب کے خارجی پہلوؤں کے بجائے جمالیاتی پہلوؤں یعنی اسلوب بہ حیثیت تزئین کاری سے قطع نظر اس کے معنیاتی پہلوؤں اور اس کے جمال کی روشنی میں دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
منٹو کے اسلوب کی تشکیل میں ان کی مخصوص طبیعت کا بھی اہم رول رہا ہے۔ مثلاّ منٹو بنیادی طور پر لاابالی اور باغی طبیعت کے انسان تھے۔نظام تعلیم اور دین و مذہب سے لاتعلقی ان کے مزاج میں تھی۔جوئے،شراب اور بدنام لوگوں کی صحبت سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔انہوں نے اپنی نوجوانی کے حالات اور ذہنی کیفیات کے متعلق لکھا ہے:
’’یہ وہ زمانہ تھا جب میں نے آوارہ گردی شروع کر دی تھی۔طبیعت ہر وقت اچاٹ سی رہتی تھی۔ایک عجیب قسم کی کھدبد ہر وقت دماغ میں ہوتی رہتی تھی۔جی چاہتا تھا کہ جو چیز بھی سامنے آئے اسے چکھوں، خواہ وہ انتہائی درجہ کی کڑوی کیوں نہ ہو۔‘‘
شاید یہی وجہ ہے کہ منٹو نے عام روایت سے ہٹ کر اپنے بیشترافسانوں میں ایسے افراد کا انتخاب کیا اور ان کی زندگی اور مسائل کو موضوع بنا یا جوسماج کے دبے کچلے، ناپسندیدہ اور انتہائی غلیظ قسم کے انسان تصور کیے جاتے ہیں۔ جن کے متعلق بات کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن منٹو نے سماج کے سفیدپوش طبقہ کی پرواہ کیے بغیر ان کے احساسات و خیالات اور سوچ و فکر سے ہمیں متعارف کرایا اور ان کے مسائل کے متعلق ہمیں سوچنے کے لیے مجبور کیا۔ منٹو نے سماج کی بدصورتی اور پستی کی تصویر کشی کے لیے جو اسلوب اور پیرایہ بیان خلق کیا ہے وہ قاری کی شدتِ احساس کو تیز سے تیز تر کر دیتا ہے اور قاری خود کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ سنسکرت جمالیات کے مطابق اسی کو ’رس ‘کہتے ہیں اور یہی تخلیقی عمل کا نقطۂ عروج بھی ہے۔ایک طوائف کی زندگی میں جو اتھل پتھل،انتشار،اضطراب، غلاظت اور ناپاکیاں ہوتی ہیں ان کی جیتی جاگتی تصویر افسانہ ’’ہتک‘‘ کی مرکزی کردار ’سوگندھی‘ کا چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی چیزیں مثلاًاس کا خارش زدہ کتّا،ایک طوطے کا لٹکتا ہوا پنجرہ اور دیوار گیر پر رکھے ہوئے میکپ کے سامان ہیں جن کی تصویر منٹو نے اس طرح کھینچی ہے:
’’کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپّل پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منھ رکھ کر ایک خارش زدہ کتّا سورہا تھا اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منھ چڑا رہا تھا۔اس کتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اڑ رہے تھے، دورسے اگر کوئی اس کتّے کو دیکھتا تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پرانا ٹاٹ دوہرا کر کے زمین پر رکھا ہے۔اس طرف چھوٹے سے دیوارگیرپرسنگارکا سامان رکھا تھا گالوں پر لگانے کی سرخی،ہونٹوں کی سرخ بتّی، پاوڈر،کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔پاس ہی میں ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا،جو گردن کو اپنے پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سورہا تھا۔پنجرہ پکے کچے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں سے بھرا ہوا تھا۔ان بدبو دار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھر یا پتنگے اُڑ رہے تھے۔‘‘(ہتک )
منٹو نے سوگندھی کے کمرے کی تصویر کشی جس اسلوب اور پیرایۂ بیان میں کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے خود بھی اس زندگی کو جیا ہے۔ویسے ایک بڑے فنکار کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی زندگی جینے کے بعد ہی اس طرح کے افسانے کی تخلیق کرے۔ایک بڑا تخلیق کار تخلیقی عمل سے گذرتے وقت اپنے لیے ایک نئی دنیا، نئے کردار نیا ماحول نئے مناظر خلق کر لیتا ہے جس کے ذرّے ذرّے میں اسی کا پرتو نظر آتا ہے یا جس دنیا کی مخلوق اور فضا کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتا ہے اس کے تمام کرداروں کے جذبات واحساسات سے اپنی روح کو ہم آہنگ کر لیتا ہے اور ان کے ماحول اور فضا کو اپنی آنکھوں میں ایسے بسالیتا ہے کہ کرداروں کے سانسوں کے زیر و بم میں اس کی سانس کی گرمی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیق کار کا جواسلوب وضع ہوتا ہے اس میں فنکار کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔منٹو نے طوائفو ں کے کردار،ان کے جذبات واحساسات،ان کی زندگی اور ان کے ماحول کو اپنے اندر جذب کر کے جواسلوب خلق کیا ہے اس میں طوائفوں کی زندگی کی غلاظت،پستی اور تاریکی کی منظر کشی فطری معلوم ہوتی ہے اورایسامحسوس ہوتا ہے کہ طوائفوں کی دنیا کے تمام کرداروں کے سینوں میں منٹو کا ہی دل دھڑک رہا ہے، ان کے رگوں میں منٹو کاہی خون دوڑ رہا ہے اور ان کے جذبات واحساسات میں منٹو کے جذبات واحساسات کاعکس نظر آتا ہے۔منٹو کے قاری بھی خود کو اس دنیا سے قریب ترمحسوس کرنے لگتے ہیں اور ان کے غم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ یہی منٹو کے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔پروفیسر شکیل الرحمٰن نے منٹو کے پیرایۂ بیان اور اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا لکھا ہے:
’’منٹو کے تخلیقی عمل کے ہیجان انگیز بہاؤ سے گہرائی ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لگتا ہے ’’گہرائی‘‘ آہستہ آہستہ اوپر آ رہی ہے، ان کے اکثر افسانوں میں ’’گہرائی‘‘ کے اوپر آنے کا منظر ملتا ہے، تاریکی کی روح یا آتما کو تخلیقی فنکار جوہر اور جلوہ بنا دیتا ہے، تاریکی کے اندر جو حسن نظر آتا ہے وہ زندگی کی کئی جہتوں سے آشنا کر کے آسودگی حاصل کرنے کے لیے اکساتا ہے۔ ہم گہرائی کے جمال سے محظوظ ہوتے ہیں، ’’گہرائی‘‘ سے ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے، ہم گہرائی سے پیار کرنے لگتے ہیں، جتنا بھی تکلیف دہ منظر ہو، جتنی بھی اداسی اور گہری اداسی ہو، فنکار کا تخلیقی ذہن ایسے منظر اور اداسی کو روحانی کپکپی (Spiritual trembling) میں تبدیل کر دیتا ہے اور ہم باطنی سطح پر تخلیق کے حسن کو پا لیتے ہیں۔ ‘‘ (منٹو شناسی، ص۔15)
فکشن کے بیشتر ناقدین کا خیال ہے کہ کرشن چند کے افسانوں میں جو رومانی اسلوب پایا جاتا ہے وہ منٹو کے اسلوب میں موجود نہیں ہے۔لیکن ناقدین شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ کرشن چند کے بیشترافسانے کشمیر کی حسین وادیوں کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں جبکہ منٹو کا محبوب ترین موضوع طوائفوں کی زندگی، ان کی زندگی کی پستی، تاریکیاں اور ان کے مسائل رہے ہیں۔ پھر بھی ان کے بعض افسانوں اور تحریروں میں فطرت کے حسین مناظر کی بھی تصویر کشی ملتی ہے۔منٹو نے اپنی کہانیوں، کرداروں اور ماحول کی مناسبت سے خوبصورت اور پُر لطف فضا اور قدرت کے حسین مناظر کو اپنے اندر جذب کر کے سحرانگیزاسلوب خلق کیا ہے۔منٹو کے ایسے اسلوب کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب اس منٹو کا نہیں ہو سکتا جس نے ’’ہتک‘‘ کی غلاظت اور ’’ٹوبا ٹیک سنگھ‘‘کے پاگلوں کی نفسیاتی کشمکش کی تصویر کھینچی ہے۔دراصل بڑا فنکار جب کسی خاص ماحول یا فضا کی تصویر کی تشکیل کرتا ہے تو اس میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اوراس میں اس طرح حرکت پیدا کر دیتا ہے کہ قاری کے سامنے تمام مناظر رقص کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے مختلف افسانوں کے مندرجہ ذیل اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔
’’جب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی طلائی کرنیں چیر کے دراز درختوں سے چھن چھن کر ہمارے پاس والے نالے کے خشم آلود پانی سے اٹکھیلیاں کر رہی ہوتیں اورآس پاس کی جھاڑیوں میں ننھے ننھے پرندے اپنے گلے پھلا پھلا کر چیخ رہے ہوتے۔یوں کہیے کہ قدرت کو اپنے خواب سے بیدار ہوتا دیکھتے تھے۔صبح کی ہلکی پھلکی ہوا میں شبنم آلودسبزجھاڑیوں کی دلنوازسرسراہٹ، نالے میں سنگریزوں سے کھیلتے ہوئے کف آلود پانی کاشوراوربرسات کے پانی میں بھیگی ہوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو چند ایسی چیزیں تھیں جو ہمارے سنگین سینوں میں ایک ایسی لطافت پیدا کر دیتی تھیں جو زندگی کے اس دوزخ میں ہمیں بہشت کے خواب دکھلانے لگتیں۔ ‘‘(شغل)
’’دور بہت دور جہاں سمندر اور آسمان گھل مل رہے تھے،بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا ایک بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین جسے ادھر ادھر سے سمیٹا جا رہا ہے۔ساحل کے سب قمقمے روشن تھے جن کا عکس کنارے کے لرزاں پانی پر کپکپاتی ہوئی موٹی موٹی لکیروں کی صورت میں جگہ جگہ رینگ رہا تھا۔میرے پاس پتھریلی دیوار کے نیچے کئی کشتیوں کے لپٹے ہوئے بادبان اوربانس ہولے ہولے حرکت کر رہے تھے۔سمندر کی لہروں اور تماشائیوں کی آواز ایک گنگناہٹ بن کر فضا میں گھلی ہوئی تھی۔‘‘(بانجھ)
منٹو نے الفاظ کی آرائش یا زیبائش کے ظاہری جمال و جلال پر جتنی توجہ دی ہے اس سے کہیں زیادہ توجہ زبان کی امتیازی کیفیت پر دی ہے اور اس کے پوشیدہ امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اس کی بہترین مثال افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ہے جو تقسیم ہند کا المیہ ہے جس میں ان کے اسلوب نے اسے نفسیاتی احساس میں تبدیل کر دیا ہے۔یہ ایک غیر معمولی افسانہ ہے جو ہماری تاریخی، سماجی، تہذیبی اور نفسیاتی عوامل کے قصے کی ایک معنی خیز استعارہ بن چکا ہے۔ منٹو نے اس افسانہ کے مرکزی کردار بسن سنگھ کی ذہنی کیفیت جس اسلوب اور پیرایۂ بیان میں پیش کی ہے اس سے قاری تڑپ کر رہ جاتا ہے اور وہ بسن سنگھ کی ذہنی کیفیت کو اسی طرح محسوس کرنے لگتا ہے جس طرح منٹو نے محسوس کیا تھا :
’’اوپڑی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیان ونگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ پھر بعد میں ’’اوپڑی گڑگڑدی انیکسی دی بے دھیان ونگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘
ان جملوں کی کیفیت کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے حرف و الفاظ کی ترتیب سے اس کے حسن و خوبی کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ہے۔ بشن سنگھ کے یہ بے معنی جملے صرف اس کی ذہنی کیفیت کا آئینہ نہیں ہیں بلکہ منٹو کی ذہنی کرب اور کیفیت کے بھی ترجمان ہیں۔ اس افسانہ میں منٹو نے انکشاف ذات کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔
منٹو ایک فطری فنکار تھے۔فطری تخلیق کار کا کمال یہ ہے کہ وہ جس چیز کو دیکھتا ہے اسے بہت غورسے دیکھتا ہے اوراس سے محبت کرنے لگتا ہے۔اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔منٹو نے بھی جس موضوع پرلکھااسے پہلے اپنے دل کی گہرائیوں میں اتار لیا۔وہ اپنے کرداروں کو اپنے رگ و پے میں پیوست کر لیا۔اسی لیے ان کے کرداروں میں ان کے ہی دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ منٹو نے کئی افسانوں میں اپنے کرداروں کی ذہنی کرب، ذہنی اور جذباتی تصادم کی خوبصورت تصویریں پیش کی ہیں۔ ان افسانوں میں ’ہتک‘ کا مرکزی کردار’سوگندھی ‘قابل ذکر ہے۔سوگندھی کو ایک سیٹھ کے ذریعہ ٹھکرا دیئے جانے کے بعد جب اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اس کی ’ہتک ‘یعنی بے عزتی ہوئی ہے تو وہ تلملا کر رہ جاتی ہے اور اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ منٹو نے اس کی ذلت آمیز کیفیت، ذہنی کرب اور ردِّ عمل کے اظہار کے لیے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہتک سوگندھی کی نہیں، منٹو کی ہوئی ہے :
’’سوگندھی سوچ رہی تھی اور اس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں، اس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا اور کبھی رام دلال پر جس نے رات کے دو بجے اسے بے آرام کیا لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پاکر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی، اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی بانہیں، اس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ مڑتا تھا کہ اس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے، اس کے اندر یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہو رہی تھی کہ جو کچھ ہو چکا ہے ایک بار پھر ہو، صرف ایک بار151 وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ باہر نکالے اور اس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ سوگندھی اندھا دھند اپنے پنجوں سے اس کا منھ نوچنا شروع کر دے، وحشی بلی کی طرح جھپٹے اور151 اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے اس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے، بالوں سے پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑادھڑ مکے مارنا شروع کر دے اور جب تھک جائے151 جب تھک جائے تو رونا شروع کر دے۔‘‘(ہتک)
اس عبارت میں منٹو کے جارحانہ اسلوب نے سیدھی سادی سوگندھی کو ایک وحشی بلّی بنا دیا ہے۔
منٹو کا اسلوب بظاہرسادہ معلوم ہوتا ہے لیکن بعض افسانوں میں طنز کی نشتریت بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پرتقسیم ہند کے موضوع پر لکھا گیا افسانہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں مذہب کے نام پر تقسیم ہند کے دوررس اثرات اور مسائل کے مد نظر منٹو نے شدید ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔افسانے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ منٹوتقسیم ہند کے شدید مخالف تھے اور عجیب و غریب کرب محسوس کر رہے تھے۔منٹو نے اپنے ذہنی اذیت کے اظہار کے لیے ایسے کرداروں کو خلق کیا جو پاگل ہیں اور لاہور کے جیل میں بند ہیں۔ تقسیم ہند کے کرب کے اظہار اور پاگلوں کی گفتگو کے لیے جو طنزیہ پیرایۂ بیان یااسلوب اختیار کیا ہے اس کی نشتریت سے اس دور کے نہ صرف رہنما بلکہ قاری بھی تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔ منٹو کے طنزیہ اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں طنزیہ نثر کی تخلیق میں بلا کی قدرت حاصل تھی۔طنزیہ ادب کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے سنسکرت اچاریوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ ادب، ادب کہلانے کامستحق نہیں ہے جس میں طنز کی نشتریت نہ ہو۔مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
’’ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا ’’مولوی صاحب،یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟تواس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔ ‘‘یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔‘‘۔۔۔ ’’وہ خود اسی الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیال کوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھاپر اب سناہے کہ پاکستان میں ہے۔کیا پتہ کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے، کب ہندوستان میں چلا جائے گایاساراہندوستان ہی پاکستان بن جائے گا۔اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب نہیں ہو جائیں گے۔(ٹوبا ٹیک سنگھ )
منٹو نے پاکستان کوہندوستان کے ایک ایسے خطہ سے تعبیر کیا ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔ منٹو کا یہ بیان پاکستان کے وجود پر گہرا طنز ہے۔منٹو نے تقسیم کے دوررس اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے جس طرح دونوں ملکوں کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور پاگلوں کی زبان سے یہ کہہ کر کہ’’سیال کوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سناہے کہ پاکستان میں ہے۔کیا پتہ کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے، کب ہندوستان میں چلا جائے گایاساراہندوستان ہی پاکستان بن جائے گا۔اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب نہیں ہو جائیں گے‘‘ گہرا طنز کیا ہے۔یہی منٹو کا منفرداسلوب ہے جسے دورسے پہچانا جاسکتا ہے۔
جنس منٹوکاپسندیدہ موضوع رہا ہے کیوں کہ یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ بقول شکیل الرحمٰن ’’ہر مرد کے اندر عورت ہے اور ہر عورت کے اندر مرد، یہ دونوں حقیقتیں ایک دوسرے سے اس وقت ملتی ہیں جب یوگ سے انہیں بیدار کیا جاتا ہے‘‘۔سیکس جمالیاتی انبساط وآسودگی کاسب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔جنسی عمل کے انبساط میں جسم کا جمال و جلال مختلف رنگوں میں ابھرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔سیکس موضوع اوراسلوب کی تخلیق کاسرچشمہ بھی ہے۔ لیکن اس موضوع کے اظہار کے لیے زبان و بیان پر گرفت ہونا ضروری ہے۔ورنہ اس کے اظہار میں ذراسی لغزش فنکار کو فحش نگار کے زمرے میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔لیکن اگر فنکار سیکس کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کرے اور زبان کی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو پیش کرے تو قاری سیکس کی اس دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں آنند ہی آنند ہے۔منٹو نے اپنے افسانوں میں سیکس کی اصل روح کوہی پیش کیا ہے لیکن زیادہ تر نقادوں نے ان کے اسلوب کی نفاست اور لطافت کوسمجھے بغیر ان پر فحش نگاری کا الزام عاید کر دیا۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمے بھی چلائے گئے اور انہیں صفائی دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا:
’’عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں ہے۔ان کا ذکر بھی فحش نہیں۔ لیکن جب اس رشتے کوچوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے اور لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تخلیے میں اس رشتے کو غلط زاویے سے دیکھیں تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناونا،مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔‘‘
منٹو نے اس موضوع کے لیے جو اسلوب وضع کیا ہے اس سے جنسی تلذز کی نفیس اور لطیف کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس میں تخریبی یا درندگی کے جذبات نہیں ابھرتے ہیں۔ منٹو نے اس قسم کے افسانوں میں صرف سیکس کے ان تجربات کو پیش کیا ہے جن سے ہمیں جنسی آسودگی حاصل ہوتی ہے اورجنسی تلذذ کی روحانی کیفیت کااحساس ہوتا ہے۔’بلاؤز‘،’دھنوا‘،’شاردا‘،’خوشیا‘ اور ’بو‘ وغیرہ افسانوں میں جنسی تلذذ کے مختلف سطحیں ہیں اور تلذذ کی ان کیفیات کے اظہار کے لیے منٹوں نے جواسلوب خلق کیا ہے اس کے بھی کئی Shades(رنگ) نظر آتے ہیں۔ طوائفوں کے ساتھ جنسی تعلق کے جوModesہیں وہ دیگرجنسی تجربوں سے متعلق افسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً افسانہ ’ہتک‘ میں سیکس کا جو Degree of Satisfactionہے وہ دوسرے نوعیت کی ہے۔اس افسانہ کے پہلے ہی پیراگراف،’’دن بھر تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سوگئی تھی۔میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی،جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی،ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور،گھرکوواپس گیا تھا۔۔۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ منٹو ’کام سوتر‘کے اصل جوہر سے واقف ہیں۔ منٹو کے بعض نقادوں نے ’’ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ نے‘‘ کی رعایت سے لکھا ہے کہ منٹو نے اس عبارت میں سوگندھی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے۔ دراصل نقادوں نے اس عبارت کے اسلوب کو سمجھے بغیر یہ رائے دی ہے۔جبکہ حقیقت یہ کہ مباشرت کے پرم آنند کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ مہا کوی کالی داس نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔انہوں نے ’’رگھوونشم‘‘میں سیتا اور رام کی شادی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ راجہ’ دس رتھ‘ اپنی وِشال سیناکے ساتھ بارات لے کر جب جنک نگری پہنچے تو ان کی سینانے وہاں کے باغوں کے پھولوں اور کھیتوں میں لگے فصلوں کو روند ڈالا۔ پھر بھی اس نگری نے سینا کے اس عمل کوویسے محظوظ کیا جیسے عورتیں اپنے پریتم کے کٹھورسنبھوگ کو محظوظ کرتی ہیں۔ ’خوشیا‘ اور ’بو‘ میں جنسی آسودگی کی سطح کچھ اور ہی ہے۔ افسانہ ’خوشیا‘ میں کانتا کے عریاں بدن کو دیکھنے کے بعد خوشیا کے اندرآہستہ آہستہ جنسی خواہش اس طرح بیدار ہونے لگتی ہے جیسے ’’کام دیو‘‘ نے ’سوتروان‘خوشیا کے سینہ میں پیوست کر دیئے ہوں لیکن اس کے اندر کا مرد اس وقت بیدار ہوتا ہے جب کانتا اس کے سامنے ننگی چلی آتی ہے اور خوشیا کے اعتراض کے بعد کہتی ہے کہ تو کیا ہوا تم اپنا خوشیا ہی تو ہو۔منٹو نے اس خاص لمحے کے بیان کے لیے جو پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے اس کی دو خوبیاں ہیں۔ سیکس کے سوئے ہوئے جذبہ کو گدگدا کر بیدار کرنے کی خوبی اور دوسری خوبی احساسِ ’ہتک ‘ہے جو سیکس کے جذبے کی شدّت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اسی طرح افسانہ ’بو‘ میں سیکس کی لذت کے اظہار کے لیے جواسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ منٹو کے جنسی تجربے اور روحانی لذتیت(Eroticism) سے اس طرح ہم آہنگ ہو گیا ہے کہ قاری بھی پرم آنند کی کیفیت سے محظوظ ہونے لگتا ہے۔اس افسانہ میں گھاٹن لڑکی کے پستانوں کو دیکھنے کے بعد رندھیر کے جسم میں بھی وہی برقی لہر دوڑ جاتی ہے جو کالی داس کی تخلیق ’’کمارسمبھو‘‘میں پاروتی کے سینے سے چادر کھسک جانے کے بعد اس کے پستانوں کو دیکھ کر شیوجی کے ریشے ریشے میں سیکس کی برقی لہر دوڑگ ئی تھی۔ رندھیر گھاٹن کے ساتھ صرف ایک رات اپنے کمرے میں رہتا ہے اور ایک ہی رات میں اس نے سیکس کی وہی Ultimateلذت حاصل کر لی جو شیوجی نے یوگوں یوگوں تک پاروتی کے ساتھ ’ہمالیہ پروت پر حاصل‘ کی تھی۔ایسامعلوم ہوتا ہے کہ منٹو نے صدیوں سے چلے آرہے ہندوستانی جنسی تقدس کے تصورکوازسرنوقاری سے متعارف کراکراس عمل کے ان پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے جسے لوگ بھول چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا تھا کیوں کہ لوگ جنسی عمل کو فحش عمل سمجھنے لگے تھے۔ رندھیر اور گھاٹن لڑکی کے Sexo-Yogicلمحات کے بیان کے لیے منٹو نے جو اسلوب خلق کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکس کی دیوی ’’مہاناگنی‘‘ نے سیکس کے دیوتا ’مہا ناگ‘ کو دبوچ لیا ہے اور آسمان سے جنسی تلذز کے رسوں کی امرت ورشا شروع ہو گئی ہے۔بنجر دھرتی زرخیز ہو رہی ہے، پیڑ پودے سبزوشاداب ہو رہے ہیں۔ پھول کھلنے لگے ہیں اور ان کی خوشبوؤں سے عالم مہک اٹھا ہے۔یہ منٹو کے اسلوب کی جادوگری کا کمال ہے۔سیکس کی ایسی کیفیت اور فضا منٹوجیسافنکار ہی پیداکرسکتا ہے۔ منٹو کے اسلوب سے منٹو کا فن،ان کے تجربے اور روح ہم آہنگ ہو کر جنسی تلذذ کو لافانی بنا دیا ہے۔منٹو کا کمال یہ ہے کہ مختلف النوع جنسی تجربات واحساسات کے اظہار کے لیے جو پیرایہ بیان اختیار کیا ہے اس میں ان کے اپنے تجربے شامل ہو گئے ہیں اور ان کے قاری بھی ویسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسے ان کے افسانوں کے کرداروں نے محسوس کیا تھا۔ان کے افسانوں کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
’’پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔۔۔پھندنے کی تلاش میں نکلا۔۔۔دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔نئے لٹھے کی بو بھی یہیں کہیں سے آنا شروع ہوئی۔پھر نہ جانے کیا ہوا۔۔۔ایک کالی شاٹن کے بلاؤزپراس کا ہاتھ پڑا۔۔۔کچھ دیر تک وہ کسی دھڑکتی ہوئی چیز پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔پھر دفعتاً ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکاکہ کیا ہو گیا ہے۔اس کے بعد اسے خوف،تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی۔۔۔پہلے اسے تکلیف و حرارت محسوس ہوئی۔مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اس کے جسم پر رینگنے لگی ‘‘( ’بلاؤز‘)
’’کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے پتّے رات کے دودھیالے اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے اور نہا رہے تھے اور وہ گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ کپکپاہٹ بن کر چمٹی ہوئی تھی۔‘‘( ’بو‘ )
’’رندھیراس کے پاس بیٹھ گیااور گانٹھ کھولنے لگا۔جب نہیں کھلی تو تھک ہارکراس کے ایک ہاتھ میں چولی کا ایک سراپکڑا،دوسرے ہاتھ میں دوسراسرااورزورسے جھٹکا دیا۔گرہ ایک دم پھسلی،رندھیر کے ہاتھ زورسے اِدھر اُدھر ہٹے اور دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر نرم نرم گندھی ہوئی مٹّی چابک دست کمہار کی طرح دو پیالوں کی شکل دے دی ہے۔‘‘( ’بو‘)
’’اس بو نے اس لڑکی اور رندھیر کو ایک رات کے لئے آپس میں حل کر دیا تھا۔دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ان عمیق ترین گہرائیوں میں اتر گئے تھے،جہاں پہنچ کر انسانی لذت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ایسی لذت جو لمحاتی ہونے کے باوجود دائمی تھی۔جو مائلِ پرواز ہونے کے باوجودساکن اور جامد تھی۔۔۔دونوں ایک ایساپنچھی بن گئے تھے جوآسمان کی نیلاہٹوں میں مائلِ پرواز رہنے پربھی غیر متحرک دکھائی دیتا ہے۔
۔۔۔اس بو کو،جواس گھاٹن لڑکی کے ہرمسام سے پھوٹ رہی تھی، رندھیر اچھی طرح سمجھتاتھا۔حالانکہ وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔جس طرح بعض اوقات مٹی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بو نکلتی ہے۔لیکن نہیں، وہ بو کچھ اور ہی طرح کی تھی۔اس میں لونگ اور عطر کا مصنوعی پن نہیں تھا،وہ بالکل اصلی تھی۔۔۔عورت اور مرد کے باہمی تعلقات کی طرح اصلی اورمقدس۔‘‘(بو)
قدیم ہندوستانی فنکاروں نے جنسی عمل کے دوران عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوؤں کو کبھی مٹّی کی سوندھی خوشبو تو کبھی جنگلی پھولوں اور خوشبو دار پتوں کی خوشبوسے تعبیر کیا ہے۔جدید ماحولیاتی وجنسیاتی مطالعے کی روسے دوران مباشر ت عورت کے بدن سے نکلنے والی خوشبوسے ماحول کی کثافت دور ہوتی ہے۔منٹو نے بار بار ’بو‘ کا ذکرکر کے شاید حد درجہ آگہی کا ثبوت دیا ہے۔بعض جنسی ماہرین کا خیال ہے کہ مباشرت کے عمل کے دوران مرد کی پسندیدہ خوشبو عورت کے بدن سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے جو مردکواس قدر مدہوش کر دیتی ہے کہ وہ جنسی عمل سے کبھی فارغ نہیں ہونا چاہتا ہے۔شکیل الرحمٰن نے اسی نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’حساس فنکاروں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ ہر عورت کی اپنی خوشبو ہوتی ہے، خوشبو کا رشتہ قائم ہو جائے تو سچی جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ نیز سچا انبساط ملتا ہے، جو عورتیں جسم پر خوشبوؤں کا استعمال نہیں کرتیں ان کے بدن سے مٹی کی سوندھی سوندھی وہ خوشبو ملتی ہے جو آدم کو حوا سے ملی ہو گی۔ مٹی کی یہ سوندھی سوندھی خوشبو عورت کے ہر عضو پر ہونٹوں کو رکھ دینے پر مجبور کر دیتی ہے، یہ خوشبو جادو ہے، جہاں ہونٹ رکھئے وہی خوشبو ملے کہ جس سے احساس و شعور کی بے قراری بڑھ جائے اور پھر محسوس ہو جیسے اس خوشبو نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وہ عورت کہ جس نے حضرت سلیمان کو چوم کر یہ کہا تھا میرا بستر دارچینی کی خوشبو سے معطر ہے اور میرے بدن کی فطری خوشبو کستوری جیسی ہے، آپ آ جائیے۔ ہم دونوں رات بھر ایک دوسرے میں جذب رہیں، وہ عورت ایسے گہرے جنگل کی ہو گی کہ جہاں پھولوں کے رنگ انتہائی تیز اور شوخ ہوں گے، جہاں کے پھل رسوں سے بھرے ہوں گے، جہاں کی مرچیں حد درجہ تیز ہوں گی اور جہاں جسم آزاد ہو گا! ایسی عورت کا تجربہ پوری زندگی کے حسن و جمال، نرمی اور گرمی اور پوری زندگی کی جنسی آسودگی کے تجربوں کے رس کا استعارہ ہے۔ عورت کے جسم کی خوشبو اگر اس طرح ملے کہ لوبان کی خوشبو وجود میں جذب ہونے لگے، دارچینی کی مہک کا احساس کو گرفت میں لینے لگے تو ٹپکتا ہوا تجربوں کا رس کتنا شیریں ہو گا۔(‘‘ منٹوشناسی اور شکیل الرحمٰن‘‘، ص – 125)
منٹو کے اسلوب کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی، ہندی اور کشمیری الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کا اسلوب آسان ہے۔مکالموں میں عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ مشکل الفاظ اور نامانوس تراکیب ان کے یہاں شاید ہی کہیں نظر آتی ہیں۔ ان کی تحریر میں ایک بے ساختہ پن ہے۔ان کا مشاہدہ جتنا باریک ہے ان کا بیان اتنا ہی صاف اور تفصیلی ہے۔منٹو کے اسلوب میں سادگی کے ساتھ ساتھ تاثیر اور جادو بیانی پائی جاتی ہے۔منٹو کے اسلوب کے متعلق یہ تمام باتیں درست ہونے کے باوجود ان سے منٹو کے افسانوی اسلوب کی اصل روح تک رسائی نہیں ہوتی کیوں کہ افسانوی اسلوب کے متعلق ایسے بیانات کسی بھی افسانہ نگار کے لیے دیئے جاسکتے ہیں۔ منٹو کے اسلوب کی اصل روح کو اردو حروفِ تہجی کی ترتیب و نظام،اسماء،افعال اور مصمتوں و مصوّتوں کے خوشوں کے حساب کتاب یا اردو کی’ کوزی‘ اور’معکوسی‘ آوازوں میں بھی تلاش نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان کے اسلوب کی اصل روح ان کے کرداروں کے حرکات وسکنات،جذبات واحساسات اور ان کے آس پاس کے ماحول سازی و فضا میں نظر آتی ہے جن میں منٹو کی شخصیت کا پرتو بھی موجود ہے۔منٹو کا اسلوب طوائفوں کی تاریک اور پست زندگی کی سسکیوں کے بیان میں، بشن سنگھ کے ذہنی کرب میں بھی اور ’سوگندھی‘کی جھنجھلاہٹ کے اظہار میں یا پھر ان تحریروں میں نظر آتا ہے جہاں منٹو نے Sexualityکو Texualityمیں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہUltimateجنسی لذتیت کے ان لمحوں کے بیان میں نظر آتا ہے جہاں منٹو کے نسوانی کرداروں کے بدن سے طرح طرح کی خوشبو نکلنے کااحساس ہوتا ہے۔ان کے اسلوب کا اصل جوہر وہاں بھی نظر آتا ہے جہاں ان کے فن کی جمال و جلال اور ان کی روح افسانوں کے کرداروں کے جذبات واحساسات اور اعمال سے ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ مختلف رنگوں کے پھولوں کی طرح منٹو کے اسلوب کے بھی کئی رنگ ہیں جو ایک دوسرے میں ضم ہو کر آفتاب کی شعاعوں کی طرح روشن اور تابناک ہو گئے ہیں جنہیں پہچاننے کے لیے کسی Prismکی نہیں بلکہ جمالیاتی ویژن کی ضرورت ہے۔