منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور بین و دور رس نگاہ، اس کی جرات آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت اور مذہب کے اجارہ داروں پر اس کی تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی مزے دار فقرہ باز یوں کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔ اور سیاسی، مذہبی معاشرتی اور ان سب سے بڑھ کر جنسی زندگی پر اس نے مخصوص اور منفرد انداز سے نظر ڈالی ہے اس پر اسے مطعون کیا گیا ہے۔ اور اس داد تحسین اور ہجو و تضحیک میں لوگوں کا جو رویہ رہا ہے اس میں حق پسندی اور توازن بھی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ افراط و تفریط کا جذبہ غالب آتا ہے۔ تنقید و تبصرہ کے اس سارے کھیل میں جو برسوں سے منٹو کی زندگی اور اس کے افسانوں کے محور پر کھیلا جا رہا ہے، منٹو ایک مثالی ہیرو بھی نظر آتا ہے اور مثالی ولن بھی۔ کچھ نظریں اس بات کی عادی ہو گئی ہیں کہ اسے بس حسن کا مجسمہ سمجھ کر دیکھیں اور کچھ نگاہوں کو اس میں برائیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں طرح کے دیکھنے والوں کی جذباتی شدت پسندی نے اصل حقیقت تک پہنچنے اور اس کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے کا موقع نہیں دیا۔
دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ ’’ محض‘‘ اچھا ہے اور نہ ’’ محض‘‘ برا۔ اس کے افسانے نہ خالصتاً حسن و جمال کے مظاہر ہیں اور نہ محض برائیوں کے حامل۔ اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور درس اور دور بین نظر، اس کی جرات آمیز حق گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز اور اس کی شگفتہ فقرہ بازی کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں : کبھی بہت برے، کبھی بہت اچھے۔
ان اچھے برے اور کبھی کبھی بہت اچھے اور بہت برے پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلے انسان کی نظر ان بے شمار موضوعات پر پڑتی ہے جس تک منٹو کی نظر پہنچی ہے: کلرک، مزدور، طوائف، رند خرابات اور زاہد پاکباز، کشمیریا بمبئی، دہلی، لاہور، فلم اسٹو ڈیو، کالج بازار، گھر ، ہوٹل، چائے خانے، بچے بوڑھے،جوان، عورتیں ، مرد اور ان سب کی ذہنی الجھنیں اور ان ساری چیزوں سے بڑھ کر جنس اور اس کے گو ناگوں مظاہر منٹو کے موضوعات ہیں ۔
ان موضوعات میں سے بعض منٹو کو زیادہ عزیز ہیں ۔ بعض کوچوں میں پہنچ کر اس پر جو سرشاری طاری ہوتی ہے وہ دوسری جگہ پر نظر نہیں آتی اور بعض افراد کا ذکر وہ جس ادائے خاص سے کرتا ہے وہ ادا ہر موقع پر نمایا نہیں ہوتی اور بعض باتیں کہنے اور بعض رموز آشکارا کرنے میں اسے جو مزا آتا ہے وہ دوسری باتیں کہتے اور کرتے وقت شاید محسوس نہیں ہو تا لیکن ذکر کسی کوچے کا ہو اور کسی بات کا ہو یہ کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ منٹو اس کوچے کے سارے پیچ و خم، اس شخص کے دل کے سارے بھید اور اس بات کی ساری نزاکتوں اور لطافتوں سے واقف نہیں ۔ جہاں تک ان گو نا گوں موضوعات کو اپنے افسانوں میں جگہ دے کر منٹو نے بہت سوں کی دل آزاری کی ہے، بہت سوں کی برائی مول لی ہے اور بہت سوں کی گالیاں سنی ہیں ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے پڑھنے والوں نے ان ہی گالیوں کو معیار بنا کر منٹو کے فنی مرتبہ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے اور یہ بات بہت کم کہی گئی ہے اور اکثر دبی زبان سے کہی گئی ہے کہ افسانہ نگار کی حیثیت سے منٹو کو پہچاننے کے لئے اس کے فن پر سب سے پہلے نظر ڈالنی ضروری ہے اس لئے کہ منٹو کی افسانہ نگاری میں ان موضوعات کی بھی اہمیت ہے۔ جن کا منٹو نے پوری فنی ذمہ داری سے انتخاب کیا ہے اور اس نقطہ نظر کی بھی اہمیت ہے جو ان موضوعات کے انتخاب کا ذمہ دار ہے۔ لیکن حقیقت میں جس چیز نے منٹو کو منٹو بنایا، جس چیز نے اسے وہ بڑائی دی جس میں کوئی دو سرا فسانہ نگار اس کا ہم سر نہیں ، وہ اس کا فن ہے اور منٹو کی شخصیت اور اس کی افسانہ نگاری کے خواہ کسی پہلو پر کچھ لکھا جائے اس کے فن کا ذکر ناگزیر ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں : فن کا ذکر نا گزیر ہے تو ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ منٹو نے جو بے شمار باتیں اپنے افسانوں کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائی ہیں ، ان کے اظہار کا اسلوب کیا ہے! اس اسلوب کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں!
لیکن اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے کہ منٹو کی افسانہ نگاری کا فن کیا ہے اور منٹو کے اسلوب فن کی کیا حدیں ہیں ، شاید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جب منٹو کے موضوعات اور اس کے نقطہ نظر سے الگ ہم اس کے فن کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فن کا مفہوم کیا ہوتا ہے! اس ضمن میں سب سے پہلی چیز جو منطقی طور پر بحث کرنے والے کے سامنے آتی ہے: تکنیک کے مبادیات اور مطالبات ہیں جو ادب کی ایک صنف اور دوسری صنف میں مابہ الامتیاز سمجھے جاتے ہیں ۔
داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ بنیاد طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ اچھا داستان گو، ناول نگار، ڈرامیٹسٹ اور افسانہ نگار…. داستان، ناول، ڈراما یا افسانہ لکھتے وقت ان اصول و قواعد کی پابندی کو اپنا فرض اولین جانتا ہے۔
ایک خاص صنف ادب کے ساتھ اس نے جو رشتہ قائم کیا ہے اس کے خلوص اور صداقت کا تقاضا ہے کہ وہ صنف ادب کے ان امتیازی اصول و قوانین کو پوری طرح برتے۔ ان اصول و قواعد کو جن کا دوسرا نام اس صنف کی تکنیک اس کی روایات یا اس کا فن ہے جاننا، سمجھنا اور ان کا صدق دل سے احترام کرنا اس رشتہ کا پہلا مطالبہ ہے جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا۔ اس لئے کسی فنکار کے فن کا جائزہ لینے کی پہلی منزل ہی یہ دیکھنا ہے کہ اس فنکار نے فن کے ابتدائی مطالبات کو، ان اصول و قوانین کو اس کی روایات کو کس حد تک جانا، سمجھا، محترم جانا اور اپنے فن میں برتا ہے۔
فنی جائزے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فنکار نے فن کی روایات کی پابندی کرنے کا حق ادا کر کے اپنے خیال اور احساس کو دوسروں تک پہنچا نے کے کیا کیا وسیلے استعمال کئے ہیں ۔ ان مختلف وسائل کے استعمال میں فنکار کے تخیل، فکر اور ذہنی کاوش اور انہماک و توجہ کو خاصا دخل ہوتا ہے، اس لئے جو فنکار اپنے فن کو جس حد تک زیادہ عزیز رکھتا ہے اور جس حد تک اسے اس فن سے اپنے رشتہ اور تعلق کا احساس زیادہ گہرا اور شدید ہوتا ہے، اسی حد تک اس کی توجہ، انہماک اور ذہنی کاوشوں کی بدولت اظہار اور ابلاغ کے اچھے سے اچھے اور نئے سے نئے وسیلے اس کے ہاتھ آتے ہیں ۔
اظہار اور ابلاغ کی یہی منزل ہے جہاں مصنف کا تخیل اور فکر جو حقیقت میں اس کی شخصیت کے مختلف اجزاء اور عناصر ہیں ، اظہار اور ابلاغ کے وسائل میں نئے نئے رنگ بھرتا ہے۔ یہی رنگ مصنف کے انداز اور اسلوب کی خصوصیت کا مظہر ہے اور اسے اس فنی جائزے کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے جس میں فنی روایات اور اظہار ابلاغ کے دوسرے وسائل شامل ہیں ۔
فنی جائزہ لیتے وقت اور اس جائزے کی بنا پر فنکار کے فنی مرتبہ کا اندازہ لگاتے وقت چند اور باتیں بھی ایسی ہیں جو پیش نظر نہ رکھی جائیں تو یہ فنی جائزہ ادھورا رہتا ہے:
ان میں سے ایک بات تو یہ ہے کہ فن کار اپنے انہماک، توجہ اور کاوش سے اظہار کے وسائل میں جو نئے نئے پہلو پیدا کرتا ہے اور اپنی شخصیت کی قوت اور انفرادیت سے جو رنگ بھرتا ہے، ان پہلوؤں کا تیکھا پن اور اس رنگ کی شوخی ہمیشہ قائم نہیں رہتی۔ فن کار کے اعصاب ایک خاص منزل پر پہنچ کراس کی شخصیت کے مختلف عناصر میں انتشار کا غلبہ ہوتا ہے تو فن کا رنگ بھی پھیکا ہونے لگتا ہے۔یہ باتیں فنی جائزہ لینے والا نظر انداز نہیں کر سکتا اس لئے کہ ان حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر فنکار کے فن کے ارتقا کا سراغ لگانا ممکن نہیں ۔
اس سلسلہ کی دوسری اہم کڑی یہ بات ہے کہ گو شخصیت کے عناصر کے انتشار کے ساتھ ساتھ فن میں انحطاط پیدا ہونا لازمی ہے، لیکن فن کار کو فن کے ساتھ ایک خاص مدت تک تعلق رکھنے کی بنا پر اظہار کے وسائل پر ایک قدرت حاصل ہو جاتی ہے اور یہ قدرت اس کی شخصیت کے انتشار اور انہماک اور کاوش کی کمی کے باوجود اسکے اسلوب اظہار میں ان عناصر کو باقی اور قائم رکھتی ہے جو اس کے فن کی امتیازی خصوصیت سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ یہ عناصر ہمیشہ ظاہر ہونے کے بجائے صرف کبھی کبھی ابھرتے اور اندھیرے میں چمک دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں ۔
منٹو کے افسانوی فن میں فن کے یہ سارے مدارج بدرجہ اتم موجود ہیں اس کے فن نے یہ ساری منزلیں جس طرح طے کی ہیں اردو کے کسی اور افسانہ نگار کے یہاں اس کا سراغ نہیں ملتا۔
افسانہ، ناول، ڈرامہ، داستان، کہانی ان سب میں بعض عناصر مشترک ہیں ۔ کوئی نہ کوئی واقع اس قصے سے تعلق رکھنے والے کردار، واقع کی ابتداء اور اس کے خاتمہ تک اس کے مختلف مدارج، مصنف کا ایک مخصوص انداز فکر و نظریہ سب کچھ اس کہانی میں بھی ہوتا ہے جو چوپال میں بیٹھنے والے بڑی سادگی سے ایک دوسرے کو سناتے ہیں ، ا س کہانی میں جو بڑی بوڑھیاں رات کی خاموشی میں بچوں کو سناتی ہیں ۔ اس افسانے، ناول اور ڈرامہ میں بھی جو فن کے پورے احساس کے ساتھ لکھا جاتا ہے لیکن ان کئی مشترک پہلوؤں سے قطع نظر کہانی کی ان مختلف اصناف میں سے ہر ایک کی ایک نہ ایک امتیازی خصوصیت بھی ہوتی ہے جو اسے صنف سے منفرد کرتی ہے۔
داستان میں تخیل اور تصور کی رنگینی، ڈرامے میں کوئی نہ کوئی کشمکش، ناول میں زندگی کی وسعت اور گہرائی اور افسانے میں موضوع کی اکائی پر امتیازی اور انفرادی خصوصیات ہیں ۔
افسانہ دوسری طرح کی کہانیوں سے اسی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ اس میں واضح طور پر کسی ایک چیز کی ترجمانی اور مصوری ہوتی ہے۔ ایک کردار، ایک واقع، ایک ذہنی کیفیت ، ایک جذبہ ، ایک مقصد، مختصر یہ کہ افسانے میں جو کچھ بھی ہو ، ایک ہو، عام طور پر افسانہ نگار افسانہ کی اس بنیادی خصوصیت کی طرف سے غفلت برت کر افسانہ لکھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افسانے پڑھنے والے کے ذہن پر وہ گہرا تاثر قائم نہیں کر سکتے جو ہر اچھے افسانہ کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔
اردو کے افسانہ نگاروں میں پریم چند نے اکثر افسانے کی امتیازی خصوصیت کو پیش نظر رکھا ہے لیکن کبھی کبھی جذبات کی رو میں بہہ کر ان سے بھی اس معاملہ میں کوتاہی ہوئی ہے۔ ایک فن کار کی حیثیت سے منٹو نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ انہیں اپنے افسانہ میں کوئی ایک بات کہنی ہے اور اس طرح پڑھنے والے کے ذہن پر خاص تاثر قائم کرنا ہے۔
ان کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے افسانے کا مطالعہ کرنے کے بعد پڑھنے والے کے سامنے بے شمار چیزیں آتی ہیں یعنی منٹو کا ہمہ گیر مشاہدہ جس ماحول پر اپنی نظر ڈالتا ہے اس کے باریک سے باریک پہلو کو نظر میں رکھ کر اسے اپنے افسانہ کا پس منظر بناتا ہے۔ واقعہ اور کردار کے ذکر میں منٹو بہت کم ا س جرم کے مرتکب ہوئے ہیں کہ وہ واقع اور کردار کی پوری تفصیلات پر عبور حاصل کئے بغیر اس کے متعلق کچھ کہنے کی کوشش کریں لیکن ایک مخصوص ماحول یا کردار کے ہر پہلو اور اس کی ہر فروعی اور جزوی کیفیت سے پوری طرح واقف ہونے کے بعد بھی وہ اس ماحول یا کردار کی مصوری کو اپنی افسانہ نگاری نہیں بناتے۔
یہ سار ا علم عموماً ایک مخصوص تاثر پیدا کرنے کے لیے پس منظر یا وسیل کا کام دیتا ہے لیکن حقیقت میں اس پس منظر کے پیچھے کوئی ایک تاثر، جذبہ ، ذہنی کیفیت موجود ہوتی ہے جسے سامع یا ناظر کے ذہن تک پہنچانا افسانہ نگار کا مقصود ہے مثلاً ان کے افسانے نیا قانون، خوشیا، نعرہ اور نیا سال پڑھ کر پڑھنے والا افسانہ نگار کے مشاہدے ، اس کے تخیل، فکر اور تجزیہ حیات کی بدولت بے شمار چیزوں کا عکس اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کرتا ہے لیکن ان بے شمار چیزوں کا مشاہدہ مجموعی طور پر اس کے ذہن میں ایک خاص کردار کی ذہنی کیفیت کا نقش بٹھاتا ہے۔
افسانہ پڑھتے وقت ایک نئے ماحول اور ایک نئی فضاء کی ان گنت تصویریں اس کی نظر سے سامنے آتی اور رخصت ہوتی رہتی ہیں اور ان سے حسب موقع پڑھنے والا لطف و حظ محسوس کرتا رہتا ہے لیکن افسانہ ختم کر چکنے کے بعد افسانہ نگار کے مصورانہ قلم کے بنائے ہوئے یہ بے شمار نقش رخصت ہو جاتے ہیں اور خود رخصت ہوتے وقت صرف ایک چیز پڑھنے والے کے ذہن پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ یہ چیز نیا قانون، خوشیا، نعرہ اور نیا سال کے مرکزی کردار کی ایک مخصوص ذہنی کیفیت ہے۔ یہ سب افسانے اپنی واقعاتی اور نفسیاتی رنگا رنگی کے باوجود مجموعی حیثیت سے صرف اس گہرے تاثر اور اس جذباتی کیفیت کے ترجمان ہیں جس میں ایک خاص فرد مبتلا ہے ’’منتر‘‘ اور ’’میرا اور اس کا انتقام‘‘ اپنی دلچسپ اور رومانی تفصیلات کی بناء پر شروع سے آخر تک پڑھنے والے کو متاثر کرتے رہتے ہیں ۔ ان افسانوں میں جو کردار پڑھنے والے کے سامنے آتے ہیں ان کی ایک ایک بات میں ان کے مخصوص مزاج اور اس مزاج کی منفرد خصوصیات کا عکس ہے لیکن افسانہ پڑھ چکنے کے بعد پڑھنے والا جس چیز کا سب سے زیادہ نمایاں اثر قبول کرتا ہے، وہ صرف ایک واقعہ ہے۔ ایک صورت میں واقعہ کی ہلکی پھلکی ہنسا دینے والی کیفیت اور دوسری میں رومان اور مزاح کا ایک ملا جلا تاثر پڑھنے والے کے ذہن پر ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں اپنا نقش چھوڑ کر جاتا ہے۔
اسی طرح ’’ہتک‘‘ ایک مخصوص ماحول اور فضاء اور اس ماحول اور فضاء میں رہنے بسنے والے گوناگوں کرداروں کی انفرادیت کا نقش ہونے کے باوجود مجموعی طور پر ’’ہتک‘‘ کی ہیروئن سوگندھی کے کردار کی ایک مکمل تصویر ہے۔
وہ ساری فضاء جو افسانہ نگار نے مشاہدہ، تخیل اور فکر کی پوری قوتوں سے کام لے کر تخلیق کی ہے اور وہ سارے کردار جن کی مدد سے اس فضاء کا خصوصی رنگ واضح ہوتا ہے،مل جل کر سوگندھی کے کردار کو مکمل کرنے میں حصہ لیتے ہیں اور اس طرح افسانہ میں بہت کچھ ہونے کے باوجود سوگندھی ہی سب کچھ ہے۔ افسانہ ختم کرنے پر ہم سوگندھی کے علاوہ باقی سب چیزوں کو، باقی کرداروں کو بھول جاتے ہیں ۔
وہ گرد و پیش کی ہر چیز غالب آ کر اس طرح چھا جاتی ہے کہ ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ صرف سوگندھی کو یاد رکھیں اور اس طرح یاد رکھیں جیسے ہم برسوں سے اسے جانتے اور پہچانتے ہیں ۔ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات انہی آنکھوں سے دیکھی ہے اور اس کے دل کا ہر راز ہمارا راز ہے۔
منٹو کی افسانہ نگاری فن کی مختلف منزلوں سے گزر ی ہے۔ ان منزلوں میں سے بعض منزلیں ترقی کی ہیں اور بعض تنزل کی لیکن ان میں سے ہر منزل میں منٹو نے اپنے اس منصب کو برابر یاد رکھا ہے کہ اسے کہانی کے ذریعے صرف ایک چیز یا ایک بات قاری کے ذہن تک پہنچانی اور اس کے دل میں اتارنی اور جاگزیں کرنی ہے۔ افسانہ نگاری کے اسی بنیادی اصول نے یہ بات بھی سکھائی ہے کہ کہانی ختم ہونے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک واحد تاثر قائم ہونا چاہیے۔
لیکن یہ واحد تاثر پیدا کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے اسے مختلف فنی وسیلے استعمال کرنے پڑتے ہیں ۔ یہ فنی وسیلے اگر پوری ذمہ داری اور پورے فنی اور احساس اور خلوص کے ساتھ کام میں نہ لائے جائیں تو مجموعی تاثر کا حصول بھی ناممکن ہو جاتا ہے اور کہانی کی اس وحدت میں بھی فرق پیدا ہو جاتا ہے جو اس کی بنیادی اور امتیازی خصوصیت ہے۔
افسانہ نگار یہ سوچ کر اور یہ فیصلہ کر لینے کے بعد کہ اسے اپنے افسانے کے ذریعے قاری کے ذہن پر کون سا واحد نقش قائم کرنا ہے، اپنے افسانے کا ایک ڈھانچہ بناتا ہے ، وہ سوچتا ہے کہ افسانہ کس طرح شروع ہوگا، کس طرح آہستہ آہستہ آگے بڑھے گا اور کس طرح ختم ہوگا۔
اچھی کہانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ لکھنے والے نے کہانی کے مختلف حصوں میں آہستہ آہستہ ایسی فضاء بنا ئی ہو کہ پڑھنے والے کا ذہن اس مجموعی تاثر کو بڑے فطری انداز میں قبول کرے۔
فضا ء بنانے اور ذہن کو ایک خاص تاثر قبول کرنے پر آمادہ کرنے کا مشکل کام یوں تو پوری کہانی میں جاری رہتا ہے لیکن اس کا نقطہ آغاز افسانے کے وہ ابتدائی الفاظ یا جملے ہیں جنہیں ہم افسانہ کی تمہید کہتے ہیں ۔
افسانہ کی تمہید افسانوی فن کی بڑی اہم دشوار اور افسانہ نگاری کے نقطہ نظر سے بڑے کام کی منزل ہے۔
افسانہ نگار نے اپنے سفر کی ابتداء اگر پوری طرح قدم جما کر ہمواری اور استواری کے ساتھ کی ہے تو آگے کا سفر ا س کے لیے خود بخود آسان ہو جائے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ اسے اپنے سفر کے بالکل شروع ہی سے ایسے ہم سفر مل جائیں گے جو قدم سے قدم ملا کر اس کے ساتھ چلیں گے۔ یہ ہمسفر وہ قاری ہیں جو افسانہ کی موزوں تمہید سے متاثر ہو کر افسانہ کے آنے والے حصوں کو دلچسپی اور اشتیاقی کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ اچھے افسانہ نگار کبھی اپنے افسانے کی تمہید کی طرف سے غفلت نہیں برتتے۔ قاری کے ذہن پر پوری طرح چھا جانے کاجو نصب العین افسانہ نگار کے سامنے ہے، وہ مناسب اور موزوں تمہید کے ذریعہ آدھا بلکہ بعض اوقات آدھے سے بھی زیادہ اس کے قبضے میں آ جاتا ہے۔
منٹو نے ایک دیانت دار اور مخلص فن کار کی طرح ہمیشہ اپنی جیت اسی میں جانی ہے کہ وہ موزوں تمہید سے شروع ہی سے قاری کے ذہن پر چھا جائے۔
منٹو نے اچھے اور برے جتنے بھی افسانہ لکھتے ہیں ۔ ان کے موضوع اور خیال سے پڑھنے والا خواہ متفق ہو یا نہ ہو لیکن افسانے کی تمہید میں اسے ضرور ایک دلکشی محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو افسانہ پڑھنے پر مجبور سا پاتا ہے۔
منٹو نے اپنے افسانوں کی تمہید سے مختلف موقعوں پر مختلف کام کئے ہیں لیکن کام خواہ کچھ بھی لیا، قاری کے ذہن پر ابتداء ہی سے ایک گہرا نقش بٹھانے میں کامیابی ضرور حاصل کی ہے۔
منٹو کے چند افسانوں کی تمہیدیں دیکھ کر اندازہ لگائیے کہ تمہید کو پڑھنے والے کے لیے د ل نشین بنانے کے علاوہ اس نے کن کن فنی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔
’’نیا قانون اس طرح شروع ہوتا ہے :۔
’’منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ا س کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔‘‘
اسی طرح ’’بلاؤز‘‘ کی تمہید یہ ہے :
’’کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے حتی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر وہ بیان بھی کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔‘‘
ان دونوں تمہیدوں کے ذریعہ قاری کا تعارف دو کرداروں سے ہوتا ہے لیکن ایک ایسے انداز میں ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ان دونوں کے متعلق کچھ اور جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جو اسے افسانہ کا باقی حصہ پڑھنے پر اکساتی اور مجبور کرتی ہے۔
دو تمہیدیں اور دیکھئے:
’’گھر میں بہت چل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے، لڑکیوں بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے اور وہ شور برپا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں تو دوسرے میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ڈھولکی لئے بے سُری تانیں اڑ ا رہی ہیں ۔ نہ تال کی خبر ہے نہ لے کی، بس گائے جا رہی ہیں ۔ نیچے ڈیوڑھی سے لے کر بالائی منزل تک مکان مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ کیوں نہ ہو، ایک مکان میں دو بیاہ رچے تھے۔ میرے دونوں بھائی اپنی چاند سی دلہنیں بیاہ لائے تھے۔‘‘
’’میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہلے اپولو بندر پر ہوئی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ سورج کی آخری کرنیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چکی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑے کی لہریں معلوم ہوتی تھیں ۔ میں گیٹ آف انڈیا کے اس طرف پہلا بینچ چھوڑ کر جس پر ایک آدمی چمپئی والے سے اپنے سر کی مالش کرا رہا تھا جہاں سمندر اور آسمان گھل مل رہے تھے، بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت گہرے رنگ کا قالین ہے جسے ادھر سے ادھر سمیٹا جا رہا ہے۔‘‘
پہلی تمہید ’’شوشو‘‘ کی ہے اور دوسری ’’بانجھ کی‘‘ دونوں تمہیدوں میں افسانہ نگار نے آنے والے واقعات کے لیے ایک فضاء تیار کی ہے اور اس فضاء میں دونوں موقعوں پر اتنے زیادہ رنگ بھرے ہیں کہ دیکھنے والا خود کو ان رنگوں کی کثرت میں ڈوبتا اور جذب ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے اور پھر یہ سوچ کر کہ دیکھیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے، افسانوں کو آگے بڑھتا ہے۔
’’پھاہا‘‘ کی تمہید صرف ایک جملہ ہے لیکن اس جملے سے افسانہ نگار نے اپنا کام ایک دوسری طرح نکالا ہے:
’’گوپال کی ران پر جب یہ پھوڑا نکلا تو اس کے اوسان خطاء ہو گئے……..‘‘
گوپال کے متعلق افسانہ نگار نے اچانک جو خبر سنائی ہے اس سے قاری کے اوسان بھی تھوڑے بہت ضرور خطا ء ہو جاتے ہیں اور وہ گھبرا کر اپنے دل سے سوال کرتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا ہوگا۔ یہی افسانہ کی جیت ہے اس نے ایک معمولی سی خبر سنا کر قاری کو اپنے ساتھ یا اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر دیا۔
ایک اور افسانے کی تمہید دیکھئے:۔
’’ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وھسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایک ایسی عورت کی تلاش کی جائے جو ہوٹل اور وھسکی کے پیدا کردہ تکدر کو دور کر سکے۔‘‘
یہ تمہید ’’پہچان‘‘ کی ہے اس میں نہ کسی کردار کا تعارف ہے نہ کوئی فضاء یا ماحول بنانے یا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نہ کوئی چونکا دینے والی خبر سنائی گئی ہے بلکہ بڑے واضح اشاروں میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ آگے کیا کچھ ہونے والا ہے اور اس طرح آنکھ کے اشارے سے قاری کو گویا یہ دعوت بھی دی گئی ہے کہ آؤاگر تم بھی ان شرابیوں کی سرگردانی دیکھنا چاہتے ہو تو آ جاؤاور معصوم قاری فوراً یہ دعوت قبول کر لیتا ہے۔
اور سنئے:
’’اسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں ۔‘‘
یہ ’’نعرہ‘‘ کی تمہید ہے اور اس میں افسانے کے مرکزی کردار کیشو لال کی ذہنی کیفیت کا نقش قاری کے دل میں بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے اور ہر قاری شاید یہی کہے گا کہ افسانہ نگار اپنی کوشش میں کامیاب ہوا ہے اس لیے کہ کیشو لال کے اس شدید احساس کے پیچھے کیا واقع کام کر رہا ہے، اس کے دل میں جاننے کی خلش پید ا ہو گئی ہے اور اس طرح یوں سمجھئے کہ افسانہ نگار کا تیر نشانہ پر بیٹھا۔
’’دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی، ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور گھر واپس گیا تھا، وہ رات کو یہیں ٹھہر جاتا مگر اسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اس سے بے حد پریم کرتی تھی۔‘‘
یہ تمہید ’’ہتک‘‘ کی ہے اور اس میں افسانہ نگار نے ایک کے بجائے کئی باتیں کہی ہیں ۔ ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں اس لیے کہ افسانہ میں آگے چل کر جو گھمسان شروع ہونے والا ہے ا س کا تقاضا ہی یہی ہے کہ وہ بات سیدھے سادھے انداز میں کہنے کے بجائے ذرا تیکھے تیور کے ساتھ کہے۔ قاری افسانہ نگار کے ان تیکھے تیوروں کو پہچان جاتا ہے اور یہ سوچ کر کہ دیکھیں یہ تھک ہار کر سو جانے والی اور اپنی بیوی کا محبوب داروغہ صفائی آگے جا کر کیا گل کھلاتے ہیں ، افسانے کے منجدھار میں کود پڑتا ہے۔
منٹو نے افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنے منصب کو پوری طرح پہچانا اور اپنے ترکش کے ہر تیر کی اہمیت کا صحیح اندازہ لگایا ہے۔ ان ہی تیروں میں سے ایک تیر اس کے افسانہ کی تمہید ہے جو ہر افسانہ میں ایک نیا کام کرتی ہے، کردار کو متعارف کرنے کا، ایک خاص فضاء یا ماحول بنانے کا، ایک پھڑکتی ہوئی خبر سنانے کا، کسی کردار کی ذہنی کشمکش کی مصوری کرنے کا، آنے والے واقعات کے لیے زمین ہموار کرنے کا اور کبھی کبھی بیک وقت کئی ملے جلے مقصد پورے کرنے کا……..لیکن ان گوناگوں کاموں کے علاوہ جو کام منٹو کے افسانہ کی ہر تمہید نے اپنے ذمہ لیا ہے یہ ہے کہ وہ قاری کے ذہن کو بیدار کر کے ، اس کے دل میں گدگدی پیدا کر کے یا اس کے ذہن میں آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کر کے افسانہ پڑھ لینے پر آمادہ کر دے۔
منٹو کی فنی کامیابی کی یہ بڑی اہم منزل ہے اور یہ منزل طے کرنے کے لیے اس نے عموماً پورے سوچ و بچار سے قدم اٹھایا ہے۔
تمہید افسانہ کا پہلا قدم ہے اور ا س کا انجام اس کی آخری منزل۔ افسانہ نگار اپنی تمہید کے ذریعے پڑھنے والے کے ذہن اور دل پر تسلط جماتا اور اسے افسانے کے آنے والے حصوں میں دلچسپی کی طرف مائل کرتا ہے۔ آنے والے حصے سفر کی مختلف منزلیں ہیں جن میں طرح طرح کی صعوبتیں مسافر کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ۔ نہ جانے کیسے کانٹے ہیں جو اس کے تلوؤں میں چبھنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں ۔
افسانہ پڑھنے والا ان صعوبتوں کو آسان بنانے اور راستے میں پھیلے اور بکھرے ہوئے کانٹوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے افسانہ نگار کی راہنمائی اور مدد کا طالب ہوتا ہے۔ بالآخر افسانہ نگار کی راہنمائی اسے منزل مقصود تک پہنچاتی ہے جسے ہم افسانے کا انجام کہتے ہیں ۔ راہ کی ساری کٹھن منزلیں طے کرنے اور چبھنے والے کانٹوں کی خلش کو گوارہ اور آسان بنا لینے کے بعد اس کی سب سے بڑی خواہش اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کی منزل اس کے قلب و ذہن کے لیے سکون و راحت کا سرمایہ بہم پہنچا سکے۔ پڑھنے والے کے ذہن کو یہ سکون اور ا س کے دل کو یہ راحت دینے کے لیے افسانہ نگار کو ایک ایسے انجام کی جستجو کرنی پڑتی ہے جو فنی حیثیت سے طے کی ہوئی منزلوں کا منطقی نتیجہ بھی معلوم ہو اور پڑھنے والے کے لیے قابل قبول بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ افسانہ نگار کو اپنے انجام کی تلاش میں پوری ذہنی کاوش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
افسانے کے خاتمہ پر افسانہ نگار کی ذرا سی سستی، ذرا سی تن آسانی، ذرا سی سہل نگاری اور بالکل معمولی سی غفلت اور تھکن اس کے افسانے کا خون بھی کر سکتی ہے اور پڑھنے والے کے لیے کوفت اور خلش کا باعث بھی بن سکتی ہو۔
منٹو نے اپنے افسانوی فن کی ان نزاکتوں کو پوری طرح محسوس کر کے عموماً اپنا فن منصب پورا کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔ اس نے اس ’’انجام‘‘ سے قاری کے ذہن کو متاثر کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے اور افسانے کو افسانے کی حیثیت سے مکمل کرنے کا کام بھی لیا ہے۔ منٹو کے بعض افسانوں کے انجام دیکھ کر اس کے فن کی خصوصیت کا اندازہ لگائیے۔
ان کا افسانہ ’’نیا قانون‘‘ ا س طرح ختم ہوتا ہے :۔
’’استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر وہ نیا قانون ، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔‘‘
’’نیا قانون‘‘ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا۔‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔
’’پھاہا‘‘ کا انجام یہ ہے :
’’نرملا بڑے انہماک سے پھاہا تراش رہی تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں قینچی سے بڑا نفیس کام لے رہی تھیں ۔ پھاہا کاٹنے کے بعد اس نے تھوڑا سا مرہم نکال کر اس پر پھیلایا اور گردن جھکا کر اپنے کرتے کے بٹن کھولے، سینے کے داہنی طرف چھوٹا سا ابھار تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نلکی پر صابن کا چھوٹا سا نامکمل بلبلا اٹکا ہوا ہے۔‘‘
’’نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اسے ابھار پر جما دیا۔‘‘
’’شہ نشین‘‘ کے آخری الفاظ یہ ہیں :۔
’’وہ دیر تک سوچتی رہی۔ وہ اب زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ا س نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا ’’مجھے زندہ رہنا ہوگا۔‘‘
اس کے اس دھیمے لہجے میں عزم کے آثار تھے۔ اس تھکی ہوئی جوانی کو اونگھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر اپنے فلیٹ پر چلا آیا اور سو گیا۔
’’ہتک‘‘ کی ہیروئن سوگندھی ہم سے اس طرح رخصت ہوتی ہے:۔
’’بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کتے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹا کر سو گئی۔‘‘
’’…….. اس کے حلق سے ایک نعرہ…….. کان کے پردے پھاڑ دینے والا نعرہ، پگھلے ہوئے گرم گرم لاوے کی مانند نکلا…….. ہت تیری……..!‘‘
جتنے کبوتر ہوٹل کی منڈیروں پر اونگھ رہے تھے، ڈر گئے اور پھڑپھڑانے لگے۔ نعرہ مار کر جب اس نے اپنے قدم زمین سے بڑی مشکل کے ساتھ علیحدہ کئے اور واپس مڑا تو اسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہوٹل کی عمارت اڑا اڑا دھم سے نیچے گر گئی ہے اور یہ نعرہ سن کر ایک شخص نے اپنی بیوی سے جو یہ شور سن کر ڈر گئی تھی، کہا ’’پگلا ہے۔‘‘ (نعرہ)
’’…….. پہلے پہل تو میں بہت متحیر ہوا کہ یہ کس کی حرکت ہے مگر فوراً ہی سب معاملہ صاف ہو گیا۔ سیلو ا جی میری غیر حاضری میں اپنی ہمسایہ سلطنت پر نہایت کامیابی سے چھاپہ مار گئے تھے۔‘‘ (میرا اور اس کا انتقام)
’’اس واقعہ کو ایک زمانہ گزر چکا ہے مگر جب کبھی میں اس کو یاد کرتا ہوں ، میرے ہونٹوں میں سوئیاں سی چبھنے لگتی ہیں ۔ یہ نامکمل بوسہ ہمیشہ میرے ہونٹوں پر اٹکا رہے گا۔‘‘(نامکمل تحریر)
’’جب اس کو غسل دینے لگے تو ہسپتال کے ایک نوکر نے مجھے بلایا اور کہا ’’ڈاکٹر صاحب! اس کی مٹھی میں کچھ ہے۔‘‘ میں نے اس کی بند مٹھی کو کھول کر دیکھا، لوہے کے دو کلپ تھے۔ ا س کی بیگو کی یادگار! ’’ان کو نکالنا نہیں ،یہ اس کے ساتھ ہی دفن ہوں گے۔‘‘ میں نے غسل دینے والوں سے کہا اور دل میں غم کی ایک عجیب و غریب کیفیت لئے دفتر چلا گیا۔‘‘ (بیگو)
’’وہ گھبرا کر اٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ ا س نے اپنا ماتھا رگڑنا شروع کر دیا جیسے وہ اس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔سر جھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کر کے اس نے تھکی ہوئی آواز میں کہا ’’اے خدا! میرا سجدہ مجھے واپس دے دے……..‘‘(سجدہ)
منٹو کی مختلف کہانیوں کے یہ سب خاتمے جہاں ایک طرف اس مشترک خصوصیت کے حامل ہیں کہ ان سے پڑھنے والے کو اپنے ذہنی انتشار کو مجمع کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ کہانی کے انجام سے اس اشتیاق کی تسکین تلاش کر لیتا ہے جو کہانی کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس میں پیدا ہوتا اور بڑھتا رہا تھا۔
دوسری طرف وہ ان میں سے ہر ایک خاتمہ کو اس منطقی ربط کی آخری کڑی بنا کر جو کہانی کی تمہید سے شروع ہو کر برابر زیادہ منظم بنتا رہا تھا، افسانے کی فنی زنجیر کو مکمل کر لیتا ہے۔ ان میں سے ہر خاتمہ کی ایک نفسیاتی اور جذباتی حیثیت ہے اور دوسری فنی۔ منٹو نے جذبات، نفسیات اور فن کے رشتے جوڑنے اور انہیں مضبوط بنانے میں ہمیشہ اپنی کہانیوں کے انجام سے کوئی نہ کوئی کام لیا ہے۔
’’نیا قانون‘‘ کے خاتمہ میں استاد منگو خاں کی اس جذباتی شدت کا ایسا متضاد رد عمل ہے جس سے پڑھنے والے کے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی ہے۔
’’پھاہا‘‘ کا انجام واقعہ نگاری اور نفسیاتی تجزیہ کا بڑا سیدھا سادہ اور ایک ایسا غیر متوقع امتزاج ہے جو ایک معمولی سے واقعہ کو اس کی نظر میں بڑی اہمیت دے دیتا ہے۔
’’شہ نشین پر‘‘ کا انجام جذباتی کھنچاؤ،کشمکش اور اس کے بڑے سادہ لیکن فن کارانہ حل کی تصویر ہے…….. ’’ہتک‘‘ کے انجام میں افسانے کے وسیع پس منظر، ایک خاص کردار کے شدید رد عمل اور زندگی کے ایک بڑے دکھتے ہوئے ناسور کو بظاہر ایک معمولی سے واقعہ کے ذکر سے اس طرح حل کیا گیا ہے کہ تاثر کی شدت کم ہونے کی بجائے ایک مستقل صورت اختیار کر لیتی ہے اور پڑھنے والا سوگندی کی جذباتی شدت میں اس کا ہم نوا ہو کر اس چیز سے نفرت کرنے لگتا ہے جو سوگندھی کے نزدیک قابل نفرین ہے…….. ’’نعرہ‘‘ کے آخری چند جملوں میں کہانی کے مرکزی کردار کیشو لال کی جذباتی شدت اور اعصابی کشمکش کو تھوڑے سے لفظوں میں بیان کر کے افسانے کو جس جملے پر ختم کیا ہے، اس کی سادگی فضاء کی شدت کو اور بھی نمایاں کر کے زندگی کی ٹریجڈی کو تلخ تر بنا دیتی ہے۔ جذباتی شدت اور فضاء کی تلخی کو اس طرح کی سادگی سے نمایاں کرنا منٹو کے افسانوں کے خاتموں کی ایک واضح خصوصیت ہے۔
’’بیگو‘‘ کا انجام منٹو کے فن کی ایک اور خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ منٹو اپنے افسانہ کے خاتمہ پر ایک بظاہر بالکل غیر اہم اور معمولی بات کہہ کر پڑھنے والے کے ذہن کو ایک بار پھر بڑی تیزی سے ان سارے واقعات میں گزار دیتے ہیں جو افسانے میں اس سے پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ اس مرتبہ یہ معمولی سی غیر اہم بات گزرے ہوئے واقعات میں ایک ایسا رنگ بھر دیتی ہے جو اس سے پہلے پڑھنے والے کی نظر سے اوجھل رہا تھا۔
’’میرا اور اس کا انتقام‘‘ میں آخری جملے میں چھپی ہوئی ہلکی سی ایمائیت کہانی کے دونوں مرکزی کرداروں کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو آئینہ کی طرح روشن کر دیتی ہے۔ دونوں کرداروں نے کہانی میں شروع سے آخر تک جو کچھ کیا اور کہا ہے اس سے مختلف پڑھنے والے جو مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں اس سیدھے سادھے جملے سے ان میں مکمل ہم رنگی اور ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہر پڑھنے والا صرف ایک واضح اور صریح نتیجے کے سوا کسی دوسرے نتیجے پر نہیں پہنچتا۔
’’نامکمل تحریر‘‘ میں آخری جملے میں بات کہنے کے ایک نئے انداز سے ایک معمولی سے روحانی واقع کو ایک ناقابل فراموش یاد کی حیثیت مل جاتی ہے۔
’’سجدہ‘‘ کا انجام منٹو کی اس منفرد خصوصیت کی ترجمانی کرتا ہے جس میں افسانہ نگار کوئی ایسی بات کہہ کر جس سے پڑھنے والوں میں سے بعض کے تصورات پر ایک چوٹ سی لگتی ہے، اپنے فن کے لیے زندگی کا سامان مہیا کرتا ہے۔
منٹو کی مختلف کہانیوں کے ان خاتموں پر نظر ڈال کر ان افسانوں کا فنی تجزیہ کرنے والا واضح طور پریہ بات محسوس کرتا ہے کہ فن کے نقطہ نظر سے سب خاتمے افسانے کے مجموعی تاثر کو مکمل کرنے کی خدمت انجام دینے کے علاوہ پڑھنے والے کے ذہن کے لیے اس مسرت کا باعث بنتے ہیں جو ہر اچھی فنی تخلیق کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔
ان سب خاتموں میں لکھنے والے کی قدرت بیان اور اس کے انداز فکر کی ندرت اور شوخی ہر جگہ ایک نیا رنگ پیدا کرتی ہے۔ کبھی محض سادگی بیان سے، کبھی تضاد سے، کبھی تکرار سے، کبھی مزاج کی شوخی سے، کبھی طنز سے اور کبھی مشاہدہ، فکر اور تخیل کے امتزاج سے وہ اپنے فن کی تکمیل میں مدد لیتا ہے اور پڑھنے والا اگر غور سے دیکھے تو یہ محسوس کرنے میں دقت نہیں ہوتی کہ افسانہ کے خاتمہ کا یہ انداز پوری طرح سوچا سمجھا ہوا ہے۔
افسانہ نگار کے خاتمہ کے وہ چند جملے جن میں ہر جگہ اس کی ذہانت، فطانت اور شوخی نمایاں ہے محض اتفاق کا نتیجہ نہیں افسانہ اتار چڑھاؤکے مختلف مرحلے طے کر کے یہاں تک پہنچا ہے بلکہ شاید یوں کہنا زیادہ صحیح ہے کہ افسانہ نگار نے اسے اس منزل تک پہنچایا ہے اور اس طرح پہنچایا ہے کہ تھکن کا شائبہ کبھی پیدا نہیں ہونے پایا۔
افسانہ کے انجام میں وہی تازگی و توانائی یہاں بھی ہے جواس کے آغاز میں تھی اور یہ نتیجہ ہے افسانہ نگار کی اس فنی توانائی کا جو ہر مرحلہ پر اور ہر منزل میں اس کی ہم عناں اور ہم سفر ہے۔
افسانہ کا آغاز اور اس کا انجام۔ ان دونوں مرحلوں کے درمیان افسانہ نگار کو جن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ اگر ان میں سے کسی ایک کی اہمیت کی طرف سے بھی غفلت یا بے نیازی برتے تو افسانہ کے مجموعی تاثر میں فرق پیدا ہو جانا ضروری ہے۔ منٹو کو فن کے ان مراحل کا پورا احساس ہے اس لیے ان کا ہر افسانہ آغاز سے انجام تک بعض واضح مرحلے طے کرتا ہے اور اس طرح ہر انجام میں ایک ایسی منطق ہوتی ہے جس کا پڑھنے والے کو احساس تو نہیں ہوتا لیکن اس سے وہ متاثر اور مسرور ضرور ہوتا ہے۔
افسانہ شروع ہو کر دھیمی لیکن نپی تلی چال سے، بڑے نرم لیکن بڑے توانا قدم رکھتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور جوں جوں آگے بڑھتا ہے، پڑھنے والے کے دل و دماغ پر اس کا قبضہ زیادہ مستحکم اور زیادہ یقینی ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس دھیمی اور جچی تلی رفتار سے افسانہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور افسانے کے ہر مرحلہ پراس کا ساتھ دینے والا قاری سفر کے اختتام پر ایک طرح کا سکون، ایک طرح کی مسرت محسوس کرتا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے اس نے کوئی بہت بڑا مرحلہ طے کیا ہے او ربڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔
یہ احساس ہی حقیقت میں افسانہ نگار کی فنی کامیابی کی دلیل ہے۔ ایک ایسی کامیابی جو یوں ہی اتفاقاً ہاتھ نہیں آ جاتی۔ ا س میں لکھنے والے کو پورے سوچ بچار سے کام لینا پڑتا ہے۔ آغاز اور انجام کے درمیان کی ہر چھوٹی بڑی کڑی کو بڑی احتیاط سے اس جگہ جوڑنا پڑتا ہے جو اس کے لیے زیادہ موزوں ہو۔ کوئی کڑی ذرا بھی جگہ سے بے جگہ ہو جائے تو ساری زنجیر درہم برہم ہو جائے۔ اس کے ابتدائی سرے اور آخری سرے میں جو ہموار ربط ہے اس میں جھٹکے پڑ جائیں اور پڑھنے والے کو اس ربط میں ایک خوشگوار جھنکار کاجو تصور پوشیدہ ہے، وہ ریزہ ریزہ ہو جائے۔
ہمارے کم افسانہ نگاروں نے کڑیوں کے ربط کی اس جھنکار کے احساس کو اہمیت دی ہے اور جنہوں نے دی ہے انہوں نے ہمیشہ اس کے فنی مطالبات کا پابند رہنا ضروری نہیں سمجھا۔
منٹو کے فن کا یہ اور امتیاز ہے کہ اس نے آغاز اور انجام کو ایک زنجیر میں منسلک کرنے کی اہمیت کبھی نہ بھلاتے ہوئے ہمیشہ ہر افسانے کی ضرورت کے مطابق اس کے درمیانی حصوں کی ساخت، ترتیب، رفتار اور اتار چڑھاؤکو پوری فنی ذمہ داری کے ساتھ برتا ہے۔
منٹو کے نزدیک فن کے ان مراحل کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ منٹو کے بعض افسانوں پر نظر ڈال کر کیجئے۔
’’نیا قانون‘‘ کے استاد منگو خاں کے جذبات کی پہلی منزل تو وہ ہے جب وہ ہندوستان میں نافذ ہونے والے جدید آئین کی خبر سن کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اس کا انجام یہ ہے کہ نیا قانون نافذ ہو جانے کے بعد بھی اس ایک گورے سے لڑنے کے جرم میں حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔
اس آغاز اور انجام کے درمیانی حصوں کو اس طرح پُر کرنا افسانے کا انجام پڑھنے والے کے لیے حد درجہ کرب انگیز بن جائے۔ منٹو کے فنی احساس کی پیدا کی ہوئی ترتیب تنظیم کا مظہر ہے۔
یہی صورت ’’کالی شلوار‘‘ کے ساتھ ہے۔کالی شلوار میں طوائف کی زندگی اور ا س کے گھناؤنے ماحول سے تعلق رکھنے والی بہت سی چیزیں پڑھنے والے کے سامنے آتی ہیں ۔ اسی ماحول میں واقعات میں اتار چڑھاؤپیدا ہوتا ہے اور وہ ایسے پیچ در پیچ مراحل سے گزرتے ہیں کہ پڑھنے والا ماحول کے گھناؤنےپن کی طرف متوجہ ہوئے بغیر صرف ان نفسیاتی محرکات میں دلچسپی لیتا ہے جو کرداروں کو ایک خاص طرح کے عمل کی طرف مائل کرتے ہیں ۔
’’کالی شلوار‘‘ طوائفوں کی گندی کہانی ہونے کے باوجود پڑھنے والے کو اس لیے متاثر کرتی ہے کہ اس میں اس ماحول کے دو کرداروں کی ذہنی کیفیتوں کا ایسا تجزیہ ہے جس میں کہانی کی ساری دلکشی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ افسانہ نگار نے شروع سے آخر تک افسانے میں جتنی چھوٹی بڑی باتوں کو ایک زنجیر میں مربوط کیا ہے ان میں ایک ایسا رشتہ پیدا ہو گیا ہے جو کسی سخت سے سخت حادثہ سے بھی نہیں ٹوٹ سکتا۔
کہانی کے مختلف ٹکڑوں میں یہ کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم کرنا، اس کے آغاز اور انجام کو اس طرح چھوٹی بڑی بہت سی اہم اور غیر اہم باتوں کے ذریعہ آپس میں جوڑنا کہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہونے لگیں اور دونوں منطقی طور پر یوں شیر و شکر ہو جائیں کہ ایک دوسرے کا سبب اور نتیجہ بن جائیں ، منٹو کے فن کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو ان کے افسانے میں (یا کم از کم اکثر افسانوں میں ) موجود نظر آئے گی۔ منٹو نے اپنی اس خصوصیت کے ذریعے بہت سے پڑھنے والوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔