(Last Updated On: )
عزیز ہم وطن جرنیلو اسلام علیکم!
میں ہمیشہ سے ہی آپ لوگوں کی صلاحیتوں کا معترف رہا ہوں لیکن جو کارنامہ اب کی بار آپ نے سر انجام دیا ہے وہ ہمارے ہاں عالم بالا میں موجود ارسطو کو بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ کم بخت سیاست کا بہت بڑا فلسفی بنتا تھا۔یوں تو آپ نے جو بات کی لاجواب کی مگر اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کا یہ انوکھا واقعہ میرے پیارے چچا سام کو بھی نہیں سوجھا حالانکہ موصوف کو تیسری دنیا میں بے شمار مارشل لاء لگوانے کا تجربہ ہے۔ میں جوں جوں آپ کی ایمرجنسی پر غور کرتا ہوں توں توں آپ کے سیاسی بالغ پن کا گروید ہ ہوتا جاتا ہوں۔ آپ نے مارشل لاء بھی لگا دیا ہے اور عوام کی منتخب حکومت کی شکل میں جمہوریت بھی جوں کی توں موجود ہے۔آپ نے تو محاورے ہی غلط کر ڈالے یعنی سانپ کو بھی نہیں مرنے دیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے دی ۔
اب لگے ہاتھوں دو چار اور کام کر دیجئے۔ یہ جو ہر دفعہ جمہوریت بحال کر دیتے ہیں نا ، اس سے اس دفعہ پرہیز کیجئے۔ سچ پوچھئے تو میں جنرل ایوب خان کے اس فلسفے کا قائل ہوں کہ جمہوریت برطانیہ ایسے ٹھنڈے موسم والے ملکوں کے لئے ہے، یہ ہم گرم موسموں والے ملکوں کو راس نہیں آتی۔ ایسے بھی ہماری قوم ڈنڈے کی قوم ہے۔ میری مانئے تو اس دفعہ جمہوریت بحال ہی مت کیجئے اور اگر کرنا ہی ہے تواس دفعہ آپ آزادانہ، منصافانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات سے باز رہئے۔ اب کی بار خدا را ایسے انتخابات کروائیے جو نہ تو آزادانہ ہوں ، نہ منصفانہ اور نہ ہی غیر جانبدارانہ۔ رہی حزب مخالف تو اس کا کیا ہے وہ تو ہر دفعہ ہی ہارنے کے بعد دھاندلی کا الزام لگاتی ہے۔ نالائق حزبِ اختلاف آج تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ منصفانہ، ّزادانہ اور منصٖفانہ انتخابات سے مراد یہ ہے کہ انتخابات پولنگ شروع ہونے تک منصفانہ، پولنگ شروع ہونے کے بعد آزادانہ اور نتائج آنے کے بعد غیر جانبدارانہ ہوتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے آپ میرے مشورے کو پسند کرنے کے باوجود اسے عملی جامہ نہیں پہنائیں گے کیونکہ میرے چچا آپ پر جمہوریت کے لئے دبائو ڈالیں گے۔چچا بھی عجیب ہیں۔ جمہوریت آئے تو مارشل لاء لگوا دیتے ہیں۔ مارشل لاء ہو تو جمہوریت کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔ خیر چھوڑئے۔ بات ہو رہی تھی مستقبل میں آپ کو کیا کرنا چاہئے۔
ایک کام اور کیجئے۔ اگر چچا کے دبائو پر جمہوریت بحال کرنی ہی پڑ گئی تو اس دفعہ آئین بحال مت کیجئے گا۔ شریف الدین پیرزادہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسے اب آرام کرنے دیں۔ ایک درخواست اور کروں گا۔آئندہ جب کوئی مسلم لیگ بنائیں تو خدا را قائد اعظم کی مسلم لیگ مت بنائیں۔ ممدوٹ کی بنا لیں، قیوم کی بنا لیںبلکہ میری مانیں تو گاندھی کی مسلم لیگ بنا لیں۔قائد اعظم کی مت بنائیں،جناح صاحب بہت برا مناتے ہیں۔ پچھلی دفعہ آپ نے قائد اعظم والی مسلم لیگ بنائی تو محمد خان جونیجو کو اس کا صدر بنا دیا۔ جناح صاحب یہ سوچ کر خاموش رہے کہ چلو جونیجو بھی انکی طرح سندھی ہے۔ اب کی بار جو آپ نے قائد اعظم والی مسلم لیگ بنا کر شجاعت حسین کے ہاتھ میں دی تو جناح صاحب بہت سٹپٹائے۔
دریں اثناء آپ اپنا کام جاری رکھئے۔ لوگوں کی باتوں پر کان مت دھرئے۔ یہ جو آپ کا مذاق اڑاتے پھر رہے ہیں نا کہ فوج نے اپنے پہرے کے لئے ہر میس کے باہر پولیس تعینات کر رکھی ہے، انہیں ہر گز یہ احساس نہیں کہ آپ کا ہر جنرل کتنا قیمتی ہے۔ ٹھیک سے اندازہ تو مجھے بھی نہیں تھامگر گذشتہ دنوں عائشہ صدیقہ کی کتاب پڑھی تو پتہ چلا کہ سارے رقبے تمہارے لئے ہیں۔ رقبوں سے یاد آیاکہ لاہور میں دور دور تک کوئی رقبہ نہیں بچا جس پر ڈیفنس ہاوسنگ اسکیم کی آئندہ فیز شروع کی جا سکے۔ میری مانیں تو کشمیر کے دو چار ضلعے انڈیا کو دے دیں اور امرتسر کی دو چار تحصیلیں لے لیں۔ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بے چارے کرنل اور جرنل بے گھر ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیجئے۔ اگر آپ کے افسر اور جوان طالبان کو دیکھتے ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج خون خرابہ کرنے کے خلاف ہے۔ سوچئے اگر مسلح طالبان کے ساتھ ہماری ایٹمی فوج کا ٹکرائو ہو جائے تو کتنا خون خرابہ ہو گا۔ ویسے بھی طالبان کوئی غیر تھوڑا ہی ہیں۔اپنے ہی پالے ہوئے ہیں۔ آپ نے تو ڈھاکہ میں غیروں کے ساتھ بھی خون خرابے سے پرہیز کیا تھا ورنہ اگر نوے ہزار ہتھیار ڈالنے کی بجائے ہندوستانی فوج سے لڑ پڑتے تو سوچئے کتنا خون خرابہ ہوتا۔ آپ صرف خون کیا کیجئے، خرابہ اچھی بات نہیں۔ آپ کوئی دہشت گرد تھورا ہی ہیں۔
آخر میں ایک شکایت بہر حال مجھے ضرور کرنی ہے۔ این ایل سی والوں سے کہئے گا کہ پل ذرا دھیان سے بنایا کریں۔ لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ حکومت امریکہ پل بناتی ہے جو دوشہروں کو آپس میں ملاتے ہیں، حکومت برطانیہ پل بناتی ہے جو دو ملکوں کو آپس میں ملاتے ہیں، اور حکومت پاکستان پل بناتی ہے جو انسانوں کو اللہ سے ملاتے ہیں۔
اب اجازت دیجئے۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد
سعادت حسن منٹو مرحوم
8 نومبر 2007ء
…٭…