اس سال (2012) مارچ میں جب میں ہندوستان کے سفر کے دوران پونا میں تھا، بمبئی سے کچھ دوست مجھ سے ملنے کے لیے آئے، کیونکہ ویزا کی پابندیوں کے باعث میرے لیے بمبئی جا کر ان سے ملنا ممکن نہ تھا۔ ان دوستوں میں اسلم پرویز بھی شامل تھے جنھوں نے گفتگو کے دوران اپنے منصوبے کا ذکر کیا کہ وہ سعادت حسن منٹو پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں جس میں مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے تاثرات شامل ہوں گے جن کی زندگی میں منٹو کو پڑھنا ایک اہم تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ میرے تاثرات بھی حاصل کرنا چاہتے تھے اور میری رہنمائی کے لیے ایک سوالنامہ بھی تیار کر کے لائے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس میں شامل سوالات کا تعلق زیادہ تر منٹو پر لکھی جانے والی تنقید ( ’’منٹوشناسی‘‘) سے تھا، اور ان کا جواب دینے تک محدود رہنے سے ایک پڑھنے والے کے طور پر میرے تجربے کا احاطہ ہونا دشوار تھا۔ اس لیے زیر نظر تحریر میں میں نے ان میں سے چند سوالوں کا جواب دینے سے پہلے منٹو کی تحریروں کے ساتھ اپنے تجربے کے خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
1
میرا تعلق اس نسل سے ہے جو منٹو کی وفات (1955) کے چند برس بعد دنیا میں آئی۔ جس وقت میرا تعارف منٹو کی کتابوں سے ہوا (یعنی 1973 کے آس پاس) اس وقت تک پاکستان کے قیام، اور اس کے جلو میں ہونے والے فسادات اور دو طرفہ جبری نقل مکانی کو چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ بلکہ تب تک مشرقی پاکستان بھی الگ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ میں نے حیدرآباد سندھ کے سٹیلائٹ ٹاؤن لطیف آباد میں، جو اردو بولنے والے مہاجروں کی اکثریت کا علاقہ ہے، ایک ایسے ہائی اسکول سے کچھ عرصہ پہلے ہی میٹرک کیا تھا جسے جماعت اسلامی کے ہمدردوں پر مشتمل ایک گروپ نجی طور پر چلاتا تھا۔ اسکول میں ہمیں مولانا مودودی، اقبال اور نسیم حجازی کی کتابیں پڑھنے پر اکسایا جاتا تھا اور جماعت کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کی رکنیت کے مرحلے طے کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ سندھ کے شہری علاقوں (کراچی، حیدرآباد، سکھر وغیرہ) میں آ کر بسنے والی مہاجر آبادی اس وقت مذہبی جماعتوں کے زیر اثر تھی۔ اس سیاست کا ایک واضح نسلی و لسانی پہلو بھی تھا کیونکہ مضبوط مرکز کی حامی اور قدامت پرست مذہبی سیاست کو چھوٹے صوبوں کی مقامی اکثریت کی ناگوار ثقافتی اور سیاسی امنگوں کی نفی کرنے کا ایک موثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے زیر اہتمام کرائے جانے والے 1970 کے عام انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں اپنی فتح کا یقین تھا، لیکن مارشل لا حکومت کی سرپرستی کے باوجود انھیں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں مشرقی پاکستان میں کیے جانے والے بہیمانہ فوجی ایکشن کو مغربی پاکستان کی تمام قابلِ ذکر پارٹیوں کی مکمل حمایت حاصل رہی جن میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔
مذہبی سیاست، اور اس کی سطح کے نیچے چلنے والی اقتدارپرست اور عوام دشمن زیریں لہر، کے دوغلے پن کے انکشاف نے میرے ذہن کو پچھلے کئی برسوں کے زبردست پروپیگنڈے سے متنفر اور سخت پراگندہ کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک نوعمر فرد کے طور پر میں ذات برادری کے بھید بھاؤ پر مبنی قدامت پرست معاشرے میں اپنی آزادی کے امکانات تلاش کر رہا تھا اور انھیں نہایت محدود پا کر فرسٹریشن اور تلخی میں مبتلا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب میرا، اور غالباً میری نسل کے بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی، منٹو سے تعارف ہوا۔ منٹو کے اٹھائے ہوئے سوالات نے نہ صرف میرے ذہن میں اردگرد کے ماحول کی منافقت اور اقدار کے دیوالیہ پن کو واضح کیا بلکہ بحیثیت قوم ہماری پچھلے تقریباً سو برس کی تاریخ کے بارے میں بولے گئے تقریباً ہر جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ چونکہ منٹو کی آخری دور کی تحریریں — کہانیاں اور مضامین — تقسیم کے موقعے پر ہونے والے ہلاکت خیز فسادات اور ان کے بعد کے واقعات سے گہرا ربط رکھتی ہیں، مجھے ان تحریروں میں ہماری قومی تاریخ کا حقیقت پر مبنی خاکہ دکھائی دیا جس کی روشنی میں ان بھیانک واقعات کو ان کے درست تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جو منٹو کی موت کے بعد کی دہائیوں میں پیش آئے۔
منٹو کے اسلوب کی جس خصوصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر اور حیرت زدہ کیا وہ ان کی جرأتِ اظہار ہے۔ میلان کنڈیرا کا یہ قول تو میں نے کہیں پندرہ برس بعد پڑھا کہ ’’کافکا معاشرے کے ایک بے حد تسلیم شدہ تصور کو چیلنج کرتا ہے، اور یہی سارے ناول نگاروں کا کام ہے کہ وہ متواتر ان بنیادی تصورات کو چیلنج کرتے رہیں جن پر ہمارا وجود قائم ہے، ‘‘ لیکن اپنی نوعمری کے دنوں میں، جب طے شدہ سماجی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی اقدار کا جبر میرے ذہن پر بڑی حد تک مسلط تھا، منٹو کی تحریروں میں مجھے وہ اعتماد نظر آیا جو ان کے جرأت مندانہ اسلوب کی روح ہے اور جس سے کام لیتے ہوئے انھوں نے ان مروج اقدار کی منافقت، فرسودگی اور بربریت کو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
منٹو کے ادبی کارنامے کو، جو زبان، اسلوب، موضوعات اور تہذیبی و سیاسی نقطۂ نظر کے اعتبار سے ہماری روایت سے ایک گہرے انحراف پر مبنی ہے، اپنے طور پر پوری طرح سمجھنا میرے لیے بعد میں، رفتہ رفتہ ممکن ہوا جب میں نے ان کے ہم عصر لکھنے والوں اور ان کے پیشرووں کو پڑھا۔ اپنے مطالعے کے عمل میں میں اس سادہ نتیجے پر پہنچا کہ کسی تخلیقی ادیب کے کام کو درست طور پر سمجھنے کے لیے اسے اس کے دور کے تاریخی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ تنقید نے، چند اہم اسباب کی بنا پر جن کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا، اس عمل میں میری بہت کم مدد کی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو تنقید کے خاصے بڑے حصے نے اس سلسلے میں روشنی کے بجائے تاریکی اور کنفیوژن پھیلانے کا کام کیا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں جب برصغیر کی دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی مشینی طباعت متعارف ہوئی، اور اس کے نتیجے میں چھپے ہوئے لفظ کا دور دورہ ہوا تو تاریخی عوامل کے زیر اثر طباعتی اداروں، اخباروں اور رسالوں کا انتظام شرفا (یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی اعلیٰ سمجھی جانے والی ذاتوں کے افراد) کے حصے میں آیا جو نام نہاد ’’علمی گھرانوں ‘‘ سے تعلق اور علمی وسائل پر اجارہ داری رکھتے تھے اور 1857 سے پہلے تک بادشاہوں، نوابوں اور امرا کی سرپرستی پر گزربسر کرتے آئے تھے۔ (اردو صحافت اور طباعت کے آغاز میں سورن ہندو ذاتوں کے افراد کا بھی اہم حصہ تھا، لیکن بیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے وہ اردو کے مرکزی دھارے سے قریب قریب مکمل طور پر نکل گئے یا نکال دیے گئے۔ ) اردو میں پہلے پہل شائع ہونے والے مواد کا جزوِ اعظم تو مذہبی نوعیت کی تحریریں تھیں (یہ صورتِ حال آج بھی ہے ) لیکن ادب کے زمرے میں آنے والی تحریریں بیشتر داستانوں پر مشتمل تھیں جو اس سے پہلے امرا اور ان کے متوسلین کی تفریحِ طبع کے لیے زبانی سنائی جایا کرتی تھیں۔ ان داستانوں کا مرکزی موضوع اصلی یا خیالی مسلمان جنگجوؤں کی اصلی یا خیالی فتوحات ہوتی تھیں جن کے گرد مختلف قسم کی کہانیاں تیار کی جاتی تھیں۔ طباعت اور اشاعت سے وابستہ شرفا نے ’’قومی زوال‘‘ کا ایک بیانیہ تیار کر کے اسے ایک مسلمہ روایت کی صورت دے دی جس کی رو سے ’’مسلمان‘‘ (جس سے ان کی مراد اونچی ذاتیں تھیں ) ہندوستان میں باہر (عرب، وسط ایشیا اور ایران) سے مسلمان جنگ آزماؤں کی فتوحات کے نتیجے میں حکمرانوں کے طور پر آئے تھے اور امتدادِزمانہ نے انھیں حکمرانی سے محروم کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک ’’ہنداسلامی تہذیب‘‘ کا احیا (یعنی کسی نہ کسی صورت میں ’’مسلمانوں کی حکمرانی‘‘ کی بحالی) برصغیر کے مسلمانوں کے قومی مقصد کا درجہ رکھتی تھی۔ نئے دور میں رسل و رسائل کی نئی سہولتوں کے ذریعے سے جب انھیں برصغیر سے باہر کی بدلتی ہوئی دنیا کا ادراک ہوا تو ’’مسلم امّہ‘‘ کا تصور ایجاد کیا گیا جس کا اس سے پہلے کہیں کوئی نشان نہیں ملتا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں، جب ترکوں کی عثمانی سلطنت مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور بلقان کے علاقوں میں اپنے نوآبادیاتی مقبوضات سے دستبردار ہونے کی تاریخی کشمکش میں مبتلا تھی، اردو کی ادبی اور صحافتی دنیا کو ایک بنی بنائی مسلمان خلافت ہاتھ آ گئی جس سے برصغیر کی مسلمان آبادی کی سیاسی امنگوں کو، مقامی اور حقیقی مسائل سے ان کا رخ موڑ کر، وابستہ کیا جا سکتا تھا— اور کیا گیا۔
اردو کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے پڑھنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھوں نے نوآبادیاتی حکومت کی متعارف کرائی ہوئی عام تعلیم حاصل کی تھی اور نئے سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے پیشے اختیار کیے تھے۔ یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ اردو کے شرفا ادیبوں اور صحافیوں کی مطبوعات کو خرید کر پڑھنے والے، جنھوں نے امرا کی سرپرستی کا دور ختم ہونے کے بعد ان شرفا کو ایک جدید ذریعۂ معاش فراہم کیا، ’’زوال‘‘ اور ’’احیا‘‘ کے اس غیر حقیقت پسند بیانیے پر ایمان لے آئے، اگرچہ ان کی اکثریت مقامی درمیانہ اور نچلی ذاتوں سے تبدیلی مذہب کے ذریعے مسلمان ہوئی تھی۔ یہ لوگ نہ کہیں باہر سے آئے تھے اور نہ کبھی حکمران طبقوں میں شامل رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں اپنی نوآبادیات قائم کرنے والی ترک سلطنت سے ان کا نہ ماضی میں کوئی رشتہ رہا تھا اور نہ اس کے خاتمے کے دور میں تھا۔ پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ شرفا کے پروپیگنڈے کے اثر میں آ گئے اور بعض معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ہیں۔ آگے چل کر داستانوں کے مرکزی موضوع — یعنی فتح اور حکمرانی، زوال اور احیا — نے (حالی اور اقبال کی ’’قومی شاعری‘‘ کے علاوہ) ’’اسلامی تاریخی ناول‘‘ کے روپ میں اپنا جلوہ دکھایا اور یہ روایت 1947 کے بعد پاکستان کے جنگی ادب اور حالیہ دنوں کے جہادی ادب میں کارفرما دیکھی جا سکتی ہے۔
اردو میں جدید دور کے ابتدائی فکشن نے اپنے لیے جو مرکزی موضوع چنا وہ بدلے ہوئے، زوال پذیر دور میں شرفا کو درپیش مشکلات اور اپنی وضعداری اور قدیم اقدار کو قائم رکھنے کی کوششوں سے متعلق تھا۔ نئے دور کی بابت ڈپٹی نذیر احمد، مرزا رسوا، راشدالخیری، خواجہ حسن نظامی وغیرہ کا رویہ بڑی حد تک مخاصمت اور شک پر مبنی تھا۔ امرا کی سرپرستی کا سنہری دور ماضی کا خواب ہو گیا تھا اور نئے نوآبادیاتی حکمرانوں کی سرپرستی اور نئے دور میں اپنا بلند مقام حاصل کرنے میں سورن ہندوؤں سے مسابقت کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ اس کے علاوہ نئے دور کے نئے خیالات سے، جن میں انسانی گروہوں اور فرقوں کی برابری، مردوں اور عورتوں کی مساوات اور جمہوریت کے رجحانات شامل تھے، اقدار کے اس از کار رفتہ نظام کو زک پہنچنے کا اندیشہ تھا جسے ’’ہنداسلامی تہذیب‘‘ کے نام سے برصغیر کے مسلمانوں کے مسلمہ قومی ورثے کی شکل میں ڈھال دیا گیا تھا اور جس میں کسی قسم کی تبدیلی سخت ناروا سمجھی جاتی تھی۔ یہی رویہ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری میں بھی کارفرما دکھائی دیتا ہے۔
تاہم، عام تعلیم کے پھیلاؤ، پیشوں کی تبدیلی اور برصغیر کے معاشرے میں عمومی بیداری کے نتیجے میں سماجی تبدیلی کا جو عمل شروع ہوا اس کا ادب اور صحافت پر اثرانداز ہونا ناگزیر تھا۔ پریم چند نے اردو میں اس قسم کے جدید فکشن کی طرح ڈالی جو بنگلہ، ہندی اور دیگر مقامی زبانوں کی ادبی پیش رفت سے ہم آہنگ تھا اور جس میں نئے دور کے موضوعات کو نئے اسلوب میں برتا جاتا تھا۔ یہ موضوعات اور اسلوب دونوں اردو فکشن کی اس وقت تک کی روایت سے واضح انحراف کی حیثیت رکھتے تھے۔ 1932 میں نئے خیالات کے زیر اثر چار دوستوں کے ایک گروپ نے — جو سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمودالظفر پر مشتمل تھا — لکھنؤ سے انگارے کے عنوان سے اپنی کہانیوں کا مجموعہ شائع کیا، جو ادبی معیار کے لحاظ سے کچھ خاص قابلِ ذکر نہ تھیں لیکن اردو فکشن کے نئے رجحانات کی سمت کا پتا دیتی تھیں۔ اس مجموعے کی اشاعت پر قدامت پرست شرفا نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کیا اور نوآبادیاتی سرکار سے فریاد اور احتجاج کر کے اس پر پابندی عائد کروا دی، لیکن یہ رجحانات آگے چل کر اور زیادہ مضبوط ہوئے اور 1936 میں لکھنؤ ہی میں ہونے والے ایک اجتماع میں نئے ادب کی باقاعدہ داغ بیل پڑی۔ اردو کے ان نئے لکھنے والوں نے ماضی کے جنگجو فاتحین کے قصیدے اور نئے دور کے ماضی پرست شرفا کے طبقاتی زوال کے نوحے لکھنے کے بجائے برصغیر کے بدلتے ہوئے معاشرے کے کرداروں اور مسائل کو اپنی کہانیوں، ناولوں اور نظموں کا موضوع بنایا اور ہیئت اور اسلوب کے نئے اور کامیاب تجربے کیے۔ 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں — جسے اردو میں نئے فکشن اور نئی شاعری کا سنہری دور کہنا ہرگز مبالغہ نہیں — بہت سے نئے اور باصلاحیت لکھنے والے سامنے آئے۔ منٹو بھی ان میں سے ایک تھے اور اپنے مخصوص اسلوب اور تہذیبی و سیاسی نقطۂ نظر کے باعث انھوں نے اپنا منفرد مقام حاصل کیا۔
شرفا کی قائم کردہ ادبی روایت سے انحراف کی جو صورت منٹو کی تحریروں میں دکھائی دیتی ہے اس میں مجھے دو نمایاں خصوصیات محسوس ہوتی ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے، جس کی طرف منٹو کے مضامین، دیباچوں اور تقریروں میں بھی واضح اشارہ کیا گیا ہے، کہ انھوں نے اپنے بہت سے کردار اس نچلے طبقے سے چنے جو روایتی قدامت پرست معاشرے میں بھی زندگی گزارنے کے وسیلوں اور عزت دونوں سے محروم تھا اور نئے، بدلتے ہوئے نوآبادیاتی معاشرے میں بھی اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دوسری، اور میری نگاہ میں کہیں زیادہ اہم، خصوصیت یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں برصغیر کے روایتی مسلمان معاشرے کی مروج اقدار کی فرسودگی، منافقت اور بربریت کو واضح کر کے دکھانے کے معاملے میں منٹو نے کسی ابہام یا عذرخواہی کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ سیاسی اعتبار سے بھی منٹو کا نقطۂ نظر مسلمان شرفا سے مختلف رہا جو ڈپٹی نذیر احمد اور سرسید سے لے کر سر اقبال تک نوآبادیاتی حکومت سے بنا کر رکھنے اور اس کے خلاف چلنے والی آزادی پسند تحریکوں سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کرتے آئے تھے۔ پریم چند کی طرح منٹو نے بھی اپنی افسانہ نگاری کا آغاز نوآبادیاتی غلامی کے خلاف احتجاج سے کیا۔ منٹو کی کہانیوں کا اشتعال انگیز پہلو اتنا واضح تھا کہ انھیں 1947 سے پہلے اور بعد میں، سماجی غیظ و غضب کے علاوہ، کئی بار مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
منٹو کی ادبی زندگی کا آخری دور، جو تقسیم کے بعد کے لاہور میں گزرا، سب سے زیادہ اہم اور ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ اس میں انھوں نے تقسیم کے موقعے پر رونما ہونے والے انسانی المیے اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ فسادات اور جبری نقل مکانی کے بھیانک سانحے کے متعلق منٹو نے اپنی مخصوص جرأت مندی سے اس واضح خیال کا اظہار کیا کہ مروجہ اخلاقی اقدار، بشمول مذہبی اقدار، جو شروع سے ان کی شدید تنقید کا ہدف رہی تھیں، اس سانحے کو رونما ہونے سے روکنے کی ہرگز صلاحیت نہ رکھتی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد کے اس دور میں منٹو نے اپنی تخلیقی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس تہذیبی بحران کی سنگینی کا وہ تجزیہ پیش کیا جو صرف ان کی سطح کے ایک عظیم تخلیقی فنکار ہی سے ممکن تھا۔
2
اردو کی ادبی تنقید نے، مجموعی طور پر، منٹو کے تخلیقی کارنامے کو درست تناظر میں سمجھنے میں پڑھنے والوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ منٹو کو، یا کسی بھی تخلیقی ادیب کو، اس کے دور سے الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا، اور نہ اس کے ہم عصروں سے جدا کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اردو تنقید عموماً اس سے پرہیز کرتی ہے۔ ہمارے بیشتر نقاد اپنا بیشتر وقت ادیبوں کو ان کے ہم عصروں وغیرہ کے مقابلے میں ’’پلیس‘‘ کرنے یا ان کو مختلف مقامات پر فائز کرنے کے عجیب و غریب مشغلے میں گزارتے ہیں۔ اس کارگزاری سے، ظاہر ہے، ادب پڑھنے والوں کا کچھ بھلا نہیں ہوتا۔
وہ سب ادیب جس معاشرے میں رہتے ہوئے اس کے بارے میں لکھ رہے تھے، اس کی سب سے نمایاں خصوصیت تبدیلی تھی۔ صدیوں پرانا جامد سماجی نظام ٹوٹنا شروع کر رہا تھا۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں نیا ادب، اور اس کے پڑھنے اور لکھنے والے وجود میں آئے تھے۔ منٹو اور ان کے ہم عصروں کے کام کا اہم ترین حصہ یہ تھا کہ انھوں نے ادب کے ذریعے انسانی زندگی کو دیکھنے کے نئے طریقے اور اسے بیان کرنے کے لیے نئے لسانی اور ادبی پیرائے وضع کیے۔ اور اس عمل میں بدلتی ہوئی اقدار کا ساتھ دیا۔ ان تخلیقی ادیبوں کے عمل کے برعکس اردو تنقید کا رویہ مجموعی طور پر قدامت پرست اور اشراف پسند رہا ہے۔ ترقی پسند نقادوں کے رد عمل میں، جنھوں نے نئے ادب کو مارکسی حدود میں قید کرنے کی ناکام کوشش کی، ان قدامت پرست نقادوں کے ایک حلقے نے خود کو ( ’’نئے ادب‘‘ سے ممتاز کرنے کے لیے ) ’’جدید ادب‘‘ کا علمبردار قرار دے لیا، اگرچہ وہ واضح طور پر تبدیلی کے مخالف اور قدیم ادبی و تہذیبی اقدار کے حامی تھے۔ اس علمبرداری یا اصطلاحوں کی شعبدہ بازی سے، ظاہر ہے، سنجیدہ اور روحِ عصر سے ربط رکھنے والے تخلیقی ادیبوں کو تو کیا فرق پڑ سکتا تھا، البتہ بہت سے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں اس نے خاصا کنفیوژن پیدا کیا اور کم صلاحیت رکھنے والے بعض ادیب اسے شہرت حاصل کرنے کا ایک ریڈی میڈ نسخہ سمجھ بیٹھے۔
جدیدیت کی علمبرداری کرنے والے اس کی کوئی واضح تعریف متعین کرنے سے بچتے ہیں۔ جب کبھی اس کی وضاحت کی جاتی ہے تو عموماً اسے محض ترقی پسند تنقید کی ضد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یعنی ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے نعرے کا جواب ’’ادب برائے ادب‘‘ کے نعرے سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر جدیدیت کی اس تعریف کو پیش نظر رکھا جائے جو محمد حسن عسکری نے اپنے آخری دور کے کتابچے جدیدیت یعنی مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ میں بیان کی ہے تو اس کنفیوژن کا بڑی حد تک مداوا ہو سکتا ہے۔ عسکری نے جدیدیت کو ایسے سماجی، علمی اور ادبی رجحان کے طور پر — اگرچہ شدید مخاصمانہ انداز میں — بیان کیا ہے جو قدیم تعبیروں اور تعبیر کنندوں کے استناد کو تسلیم نہیں کرتا، کسی الوہی ہستی کے بجائے انسان کو تمام فلسفیانہ اور اخلاقی جستجو کا مرکز سمجھتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو پر انسانی عقل اور تجربے کے ذریعے غور کرنے کو قدیم صحیفوں کے اقتباسات نقل کرنے پر ترجیح دیتا ہے۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے، روایت پسندی اور جدیدیت پسندی کے رجحانات میں یہی بنیادی فرق ہے، اور اگر اس فرق کو درست مانا جائے تو پھر ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’جدید‘‘ کی بحث 1930 کی دہائی میں شروع ہونے والے نئے ادب کے رجحان کی ایک ضمنی، داخلی بحث محسوس ہونے لگتی ہے۔ مثلاً عسکری کی بیان کردہ اس تعریف کی رو سے آپ فیض، نم راشد اور میراجی کے مابین کیونکر فرق کریں گے اور ان میں سے کس کو ’’غیر جدید‘‘ قرار دیں گے ؟
’’منٹوشناسی‘‘ کی اصطلاح بھی مجھے بے خیالی میں گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس سے مجھے ’’اقبال شناسی‘‘ کی اصطلاح یاد آتی ہے جو پاکستان میں سرکاری وظیفہ خواروں یا تنخواہیوں کی بنائی ہوئی ہے اور جس کی مدد سے وہ اقبال کی شاعری اور نثری بیانات کو اپنے محدود اور تنگ نظر سیاسی مقاصد اور ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا کرتے ہیں۔ اس کی دیکھا دیکھی کئی اور قسم کی شناسیاں بھی وجود میں آ گئی ہیں۔ میرے نزدیک منٹو کو ایسی کسی شناسی کی ضرورت نہیں۔ ایک زندہ اور بامعنی ادیب کے طور پر منٹو کو پڑھ کر ہم در اصل انفرادی طور پر خود سے اور اپنے اجتماعی ماضی اور حال سے شناسائی پیدا کرتے ہیں۔ جہاں تک ادبی نقادوں کی کار گزاریوں کا تعلق ہے وہ عموماً اس عمل سے یکسر بے تعلق رہتی ہیں۔
اردو تنقید کی اس بے مصرفیت کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس کا خطاب سراسر لکھنے والوں سے رہا ہے نہ کہ پڑھنے والوں سے۔ سادہ لوحی پر مبنی جو سوال ہماری تنقید میں شدومد سے زیر بحث رہے ہیں وہ عموماً یہ ہوتے ہیں: لکھنے والوں کو لکھتے وقت کس سمت رخ کر کے کیا نیت باندھنی چاہیے، کن موضوعات پر لکھنا چاہیے اور کن سے پرہیز کرنا چاہیے، کن مروجہ اور مسلّمہ اقدار کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اور (یہاں تک کہ) کیسے لکھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کوئی معقول لکھنے والا ان ہدایات کو خاطر میں لانے سے رہا؛ یہ سب فیصلے خود اس کے کرنے کے ہیں نہ کہ کسی اور کے، اور نقاد جیسی غیر تخلیقی مخلوق پر تو انھیں ہرگز نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اور باقی رہا پڑھنے والا، تو یہ سب اس کا دردِسر ہی نہیں، سواے اس کے کہ اس سے کسی ادبی تحریر کے متن پر توجہ دینے کے بجائے لکھنے والے کی نیت بھانپ کر اسے قبول یا مسترد کرنے کی توقع کی جائے۔ منٹو نے اس تمام سرگرمی کا تصفیہ یہ کہہ کر بخوبی کر دیا تھا کہ اردو ادب کا بھلا اس میں ہے کہ نقاد جو کچھ کہتے ہیں اس کا الٹ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات منٹو نے اس بے معنی شور سے تنگ آ کر کہی ہو گی جو در اصل اس مقدس مقصد سے مچایا جاتا ہے کہ تخلیقی ادیب کو، جو ایک بدلتے ہوئے معاشرے کے بدلتے ہوئے فرد کی حیثیت سے اپنا تخلیقی اظہار کرنے میں خود کو آزاد سمجھتا ہے، کسی نہ کسی قسم کی شریعت کی قید میں لایا جائے۔
منٹو کے بارے میں بھی جو کچھ تنقید کے نام پر لکھا گیا وہ ان کی تحریروں میں سے چند ایک کو چن کر انھیں اپنی ترجیح کے معنی مطابق پہنانے اور ان کی تحسین یا تنقید کر کے ادبی اور غیر ادبی سیاست کے میدانوں میں اپنی پسند کی ادبی اور سماجی اقدار کو آگے بڑھانے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ ممتاز شیریں اور محمد حسن عسکری نقادوں کے دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے جو بائیں بازو کے نقادوں کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا اور اب تک اسی رد عمل میں مبتلا ہے۔ ان دونوں نے تقسیم کے بعد کے برسوں میں منٹو کی تحریروں کو اپنے اختیار کردہ ادبی اور سیاسی موقف کو قوت دینے کی کوشش میں استعمال کیا۔ اس عمل میں انھیں منٹو کی تحریروں کے ایک بڑے حصے اور خود اس کے ادبی اور سیاسی موقف کو نظرانداز کرنے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ وہ ان کے موقف کی عین ضد تھا۔ ممتاز شیریں اور عسکری کا بول بالا (اور مخالف گروہ کے نقادوں کا منھ کالا) کرنے کی کوشش کرنا اردو ادبی تنقید کی مخصوص سیاست کا حصہ رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پڑھنے والوں پر اس سیاست سے دلچسپی لینا فرض ہے۔ اس قسم کی بحث میں منٹو کی تحریروں کے متن اور معنی سے اتنا سروکار نہیں رکھا جاتا جتنا ان لاجواب نظریوں سے جو ممتاز شیریں اور عسکری نے (یا مخالف کیمپ کے نقادوں نے ) اپنی اپنی پتنگ اڑانے کے لیے ایجاد کیے۔ منٹو (یا عصمت یا میراجی یا کرشن چندر یا کسی اور) کا نام لے کر شروع ہونے والی بحث ان کی تحریروں پر بات کرنے کے بجائے اس قسم کی لن ترانیوں میں پڑ جائے کہ شریف عورتوں اور صالح مردوں کو چھوڑ کر رنڈیوں، دلّالوں اور تماش بینوں پر کہانیاں لکھنا حلال ہے یا حرام، اور حملہ آور شرفا کی قصیدہ گوئی اور مٹتی ہوئی شریفانہ ہنداسلامی تہذیب کی نوحہ خوانی جیسے پاکیزہ مضامین کو نظرانداز کر کے مفلسی، مشت زنی، غلامی، خودکشی، قحط، اغلام، کشمیر، فسادات وغیرہ وغیرہ کو ادب کے موضوعات بنانا جائز ہے یا ناجائز، تو پھر بھلا اس قسم کی تنقید کا کیا مصرف ہو سکتا ہے۔
منٹو پر ممتاز شیریں (اور عسکری) کی نام نہاد تنقید پر ایک پڑھنے والا اگر اردو تنقید کے مروجہ طریق کار سے الگ رہ کر اپنے اعتراضات کو واضح اور درست طور پر بیان کرے اور ان کے حق میں متن اور ریکارڈ پر مبنی شواہد اور دلائل بھی فراہم کرے تو اس کا جواز موجود ہے۔ اگر آپ اپنے نقطۂ نظر میں دوسرے پڑھنے والوں کو شریک کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ متن سے دور نہ جائیں اور اپنی بات معقول طریقوں سے کہیں۔ اس تمام کے بعد بھی ہر پڑھنے والے کا حق ہے کہ پیش کی گئی دلیلوں سے قائل نہ ہو۔ اس طریق کار کو وکیلانہ کہنے میں یوں تو کوئی حرج نہیں، تاہم ایک قباحت یہ ضرور ہے کہ وکیل چاہے سرکاری ہو یا غیرسرکاری، وہ ایک عدالت کے وجود اور اس کے فیصلہ صادر کرنے کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ادبی (یا سماجی اور سیاسی) بحثوں کا فیصلہ اس طرح نہیں ہوتا۔ یہ ایک جمہوری فورم ہے جس میں مختلف پڑھنے والے اپنے اپنے نقطۂ نظر میں دوسرے پڑھنے والوں کو شریک کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے واسطے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تو نقادوں کو بھی متن سے آزاد ہو کر نظریہ سازی کرنے اور لکھنے والوں کے نام غیر ضروری اور غیر طلبیدہ ہدایت نامے جاری کرنے کے بجائے یہی طریق کار اختیار کرنا چاہیے تاکہ ان کی تحریروں سے پڑھنے والے بھی کچھ فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں خود کو عدالت یا سرکار سمجھنے کا رویہ ترک کرنا ہو گا اور اس خوش فہمی سے بھی آزاد ہونا ہو گا کہ پڑھنے والے انھیں عدالت یا سرکار کا مقام دیتے ہیں یا ان سے ادب کے معاملات میں فیصلے صادر کرنے کی توقع کرتے ہیں۔
موجودہ صورت حال میں تو پڑھنے والوں کو منٹو (اور دوسرے تخلیقی ادیبوں ) کی تحریروں سے نقادوں کی مدد کے بغیر ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے — جو کوئی ایسی بدقسمتی کی بات نہیں۔ انھیں اس سے کم ہی غرض ہوتی ہے کہ کس نقاد نے کس ادیب کو کس مقام پر فائز کیا یا ادبی اصناف کی سرکاری درجہ بندی میں افسانے کو شاعری سے کتنا کمتر اور غزل کو نظم سے کتنا برتر قرار دیا گیا۔ نقاد عموماً یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ سماجی اقدار اور معیارات کی طرح ادبی اقدار اور معیارات میں ہونے والی تبدیلیاں بھی ان کے فیصلوں کی پابند نہیں ہوتیں۔ یہ ایسے معاملات ہیں جو تخلیقی ادیبوں اور ان کے پڑھنے والوں کے درمیان طے ہوتے ہیں، اور ان میں بنیادی کردار خود مقرر کردہ منصف یا حاکم نہیں، بلکہ سماجی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی اقداری تبدیلی ادا کرتی ہے۔
میں ایک پڑھنے والے کی حیثیت سے محسوس کرتا ہوں کہ ادبی اسلوب کے اعتبار سے اردو فکشن منٹو سے فیض پا کر اس سے آگے جا چکا ہے۔ میرے نزدیک کسی ادب کے بڑے تخلیقی فنکار اس ادب کی روایت کا اسی طرح حصہ بنتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والے فنکار ان کی تحریروں سے روشنی حاصل کر کے اپنی بات کو آگے بڑھاتے جائیں۔ جیسے مرزا رسوا، سرشار، نذیر احمد، پریم چند، سب اردو فکشن کا جزوِ بدن ہو چکے ہیں اور ان کے بعد آنے والوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے ان سب سے اپنے اپنے انداز میں فیض پا کر آگے کی راہ نکالی ہے۔ مثال کے طور پر مرزا اطہر بیگ اور سید محمد اشرف نے (اور دوسرے اہم فکشن نگاروں نے بھی) اپنے اردگرد کی انسانی حقیقت کو اپنے انفرادی نقطۂ نظر سے اظہار میں لانے کے لیے جو منفرد تخلیقی اسلوب وضع کیا ہے وہ ایسا نہ ہوتا اگر ہمارے فکشن میں منٹو جیسا ادیب نہ ہو گزرا ہوتا۔ بڑا ادیب اسی طرح ایک طرف اجتماعی ادبی حافظے میں زندہ رہتا ہے اور دوسری طرف اپنے بعد کے لکھنے والوں کے ادبی عمل میں۔
جہاں تک پڑھنے والے کا تعلق ہے، ہر ادیب کی تحریریں اس کے انفرادی تصورِ دنیا یا ورلڈ ویو کی تشکیل کرتی اور اسے زیادہ حساس، باریک بیں اور گہرا بناتی جاتی ہیں۔ پاکستانی پڑھنے والے منٹو کو زمانۂ حال کے ادیب کے طور پر پڑھتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سماجی صورت حال کے بہت سے عناصر اب تک وہی ہیں جو منٹو کی تحریروں میں جھلکتے ہیں، حالانکہ انھیں دنیا سے رخصت ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی زندگی کے پہلے آٹھ برسوں میں منٹو نے تنگ نظر اور جنگجو مذہبیت کے زبردستی لادے جانے، جمہوری اقدار کے کچلے جانے اور خارجی طور پر ملک کو سرد جنگ میں امریکہ کا سپاہی بنا دیے جانے کے جن سرکاری رجحانات کو اپنی تخلیقی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، آگے چل کر وہ اور زیادہ مضبوط ہوئے اور ان کے تباہ کن نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پڑھنے والوں کا خود کو منٹو کے ساتھ شناخت کرنا بالکل فطری بات ہے۔
٭٭٭