“مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا!” سر ہاتھوں میں گرائے وہ بےبسی سے بولا
ماورا سے ملن6 کے بعد وہ سیدھا ڈاکٹر کے پاس آیا تھا۔۔۔۔ اس نے ان سے ماورا کی کنڈیشن ڈکسکس تھی۔
“تمہیں کیا سمجھ نہیں آرہا معتصیم؟ ماورا کی کنڈیشن؟۔۔۔۔ وہ تو تمہارے سامنے ہیں!” ڈاکٹر نے کندھے اچکائے
“مگر یوں؟ وہ ایسے ایک لمحے میں بھول گئی مجھے۔۔۔۔انداز ایسا تھا کہ جیسے پہچانتی نہ ہو مجھے۔۔۔۔ وہ ہماری پچھلی ملاقات مکمل طور پر بھول گئی تھی۔”
“یہ سب ڈرگز کے سائڈ ایفیکٹ ہیں۔۔۔ جب میں نے ماورا کا بلڈ ٹیسٹ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ کافی عرصہ سے ڈرگز لے رہی ہے۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ پر گہرا اثر ہوا ہے۔۔۔۔ایسے میں کل کی بات کو آج بھول جانا عام ہے۔”لیے کی بات پر اس نے بےبسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا
کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔ ماورا کا یوں ایسے اسے یہاں ملنا۔۔۔اپنوں سے دور۔۔۔۔ ڈرگز۔۔۔۔ اور پھر فہام جونیجو؟
فہام جونیجو؟
اس کا دماغ ٹھٹھکا تھا۔۔ آخر فہام جونیجو کا اس سے کیا تعلق؟ آخر کیوں وہ کویت سے لنڈن آیا تھا اس کے لیے۔۔۔۔
دماغ پھٹنے کے قریب تھا۔
مگر اب اس کے ہر سوال کا جواب فہام جونیجو کو ہی دینا تھا۔۔۔۔ وہی معتصیم کو بتاسکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“آؤ!” دروازہ کھول کر سنان نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا تھا
ہچکچاتی زویا, ہاتھ ملتی کمرے میں داخل ہوئی جو اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
ایک تو اندھیرے کا ڈر اور دوسرا سنان کا خوف۔۔۔۔ بےبسی سے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں چمکنے لگ گئی تھی۔
ہاتھ ملتے وہ یونہی سر جھکائے بےبسی سے لب کچلنے میں مگن تھی جب سنان نے ہاتھ بڑھائے کمرے کی لائٹس اون کی تھی۔
ایک پل کو اس کی آنکھیں چندھیا گئیں تھی۔
آہستہ سے آنکھیں کھولے اس حیرانگی سے اس نے پورے کمرے پر نظر دوڑائی تھی۔
اس پورے کمرے میں فرنیچر کا نام و نشان تک نا تھا۔۔۔۔بس تھی تو تصویروں سے بھری دیواریں۔
وہ منہ کھولے تمام تصویروں کو دیکھ رہی تھی۔
ہر تصویر میں تین بچے تھے۔۔۔ سنان نے بھی اس کے ساتھ ہی ان تمام تصویروں کو دیکھا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔
کسی تصویر میں بارہ سال کا سنان,اس کے ساتھ پانچ سال کی گڑیا اور چند دنوں کی زویا۔
کہی اسے گود میں اٹھاتے ہوئے, کہی دونوں کو جھولا جھلاتے, زویا کی تینوں برتھڈے کی تصویریں۔
ان سب تصویروں سے نگاہیں ہوتے اس کی نظریں ایک تصویر پر آرکی تھی۔
زویا نے حیرانگی سے اس تصویر کو دیکھا تھا۔
“یہ؟” وہ ایک مکمل فیملی پک تھی۔
“نیلم شہباز شاہ۔۔۔ زویا شہباز شاہ کی ماں” اس کی بات پر زویا کی آنکھیں پھیلی تھی۔
چند قدم آگے بڑھائے زویا نے تصویر میں موجود نیلم کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔
کتنی مماثلت تھی دونوں کی شکلوں میں۔
“مم۔۔۔ماما؟” کانپتے لہجے میں سوال کیا گیا۔
“ماما!”
“ممم۔۔۔۔میری ماما؟” انگلی تصویر میں موجود ایک ایک نقش کو چھوتے دوبارہ سوال کیا۔
“ہماری ماما!” اس کے بالکل قریب کھڑا وہ نم لہجے میں بولا تھا۔
“ہماری؟” اس کی جانب مڑے اس نے مزید حیرت سے سوال کیا تھا۔
“ایسا بہت کچھ ہے جو تمہیں پتہ چلنا ضروری ہے۔۔۔۔ آؤ!” پینٹ کی جیب میں سے ہاتھ نکالے اس نے زویا کی جانب بڑھایا تھا جسے اس نے تھام لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سے بات کرکے اب رخ فہام جونیجو کے فارم ہاؤس کی جانب تھا جہاں وہ آج کل ٹھہڑا ہوا تھا۔
“تم ایسا کیسے کرسکتے ہو فہام؟ تمہاری ڈیل مجھ سے ہوئی تھی۔۔۔۔ اس لڑکی کو ڈھونڈنا میرا کام ہے۔۔۔۔ تم یہ ڈیل معتصیم آفندی کو کیسے دے سکتے ہو؟ تم نے دھوکا دیا ہے ہمیں” بشیر زبیری کا غصے سے برا حال تھا۔
“کیسا دھوکا؟۔۔۔۔ مجھے لڑکی چاہیے اور تم دونوں کو کلب۔۔ جو پہلے لڑکی لے آئے گا کلب اس کا۔۔۔ سمپل ایز ڈیٹ۔۔۔”کندھے اچکائے وہ مزے سے بولا تھا
شبیر زبیری ایک غصیلی نگاہ اس خبیث شخص پر ڈالے,جھٹکے سے وہاں اٹھتے وہ لمبے ڈگ بھرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔
جیسے ہی معتصیم کی گاڑی پورچ میں رکی, اسی وقت شبیر زبیری کی گاڑی وہاں سے نکلی تھی۔
گاڑی سے نکلتا وہ گارڈ کو اپنے آنے کی اطلاع دیتا وہی بےصبری سے چکر لگانا شروع کردیے تھے۔
“آپ جاسکتے ہے سر!” اجازت ملتے ہی وہ تیزی سے اندر داخل ہوا تھا۔
“معتصیم آفندی تم یہاں؟” مسکراتے وہسکی کا سپ لیے اس نے سوال کیا۔
“وہ لڑکی؟ کون ہے وہ؟” اس نے سیدھا سوال کیا,فہام جونیجو کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
“آہ معتصیم! تمہاری یہی بات مجھے ایٹریکٹ سب سے زیادہ پسند ہے۔۔۔۔ کتنی لگن ہے تمہیں اپنے کام سے۔۔۔۔۔ مطلب کے آتے ہی کام کی بات؟۔۔۔۔۔”
“بکواس نہیں فہام جونیجو۔۔۔۔جواب, جواب چاہیے۔۔۔۔۔ وہ لڑکی کون ہے, اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ اور تمہیں وہ کیوں چاہیے۔۔۔ جب تک ان تمام سوالات کے جواب نا مل جائے۔۔۔ وہ لڑکی تمہارے حوالے نہیں کروں گا!” معتصیم کی بات پر فہام کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“تو تم نے اسے ڈھونڈ لیا؟” وہ بیتاب سا اپنی جگہ سے اٹھا تھا
معتصیم نے سر اثبات میں ہلایا۔
“کہاں ہے وہ؟”
“پہلے میرے سوال کا جواب۔۔۔۔کون ہے وہ؟ کیا تعلق ہے تمہارا اس سے؟ اور کیوں چاہیے وہ تمہیں؟” معتصیم کا لہجہ بالکل ثپاٹ تھا۔
“وہ۔۔۔۔۔ شی۔۔ شی از ایشین بیوٹی۔۔۔۔۔ مائی ایشین بیوٹی!۔۔۔۔۔ میری پہلی نظر کی چاہ, پہلی نظر کی محبت تھی وہ۔۔۔ مگر اس نے۔۔۔۔ اس نے دھوکا دیا مجھے۔۔۔۔ میری پیٹھ پر چھرا گھونپا۔۔۔۔۔ میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اس نے۔۔۔۔”
“اا۔۔۔اور۔۔۔۔اور۔۔۔اب۔۔۔اب کیا کروں گے؟۔۔۔اس۔۔۔اس کا؟” اپنے لہجے کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پائے اس نے سوال کیا تھا۔
“معلوم نہیں۔۔۔۔ مگر وہ چاہیے مجھے۔۔۔۔۔ ہر قیمت, ہر صورت پر۔۔۔۔۔ تو اب تم بتاؤ کب دے رہے ہو اسے مجھے؟” فہام نے اب ڈائیریکٹ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا تھا۔
“بہت جلد!” گہری سانس بھرتا, الٹے قدم اٹھاتا وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کلب میں داخل ہو کر اس نے ایک گہری سانس بھری تھی۔۔۔۔ بس اب چند دنوں کا کھیل تھا یہ
شبیر زبیری کو شروع سے ہی فہام جونیجو پر بھروسہ نہ تھا اسی لیے وہ شزا کے ذریعے اپنے طور پر اس کلب پر قبضہ جمانے کی سر توڑ کوشش میں تھے۔۔۔۔
فہام جونیجو سے کسی بھی اچھائی کی امید رکھنا بےوقوفی تھی۔
ڈانس بار پر کھڑے اس نے خود کو مانوس نظروں کے حصار میں محسوس کیا تھا۔
“بس چند دن اور” اس نے جیسے خود کو تسلی دی تھی۔
ڈانس کے ختم ہوتے ہی وہ سٹیج سے اترتی چینجینگ روم کی جانب بڑھی تھی۔
روم میں داخل ہوتے ہی اسے کچھ غیر معمولی سا محسوس ہوا تھا۔
آیک نگاہ ادھر ادھر دوڑائے کندھے اچکائے وہ ڈریسنگ مرر کی جانب بڑھی تھی۔
اچانک سے دروازہ لاک ہونے کی آواز پر وہ جھٹکے سے مڑی تھی۔
وائے۔زی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیلے تھی۔ اس سے پہلے وہ چیختی وہ آگے بڑھتا اس کے لبوں پر سختی سے ہاتھ جمائے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا۔
“کہاں تھی اتنے دنوں سے میری لیلی۔۔۔ جانتی ہو کتنا انتظار کیا تمہارا میں نے؟۔۔۔۔ کتنا تڑپا ہوں تمہارے لیے!” اس کان کے قریب جھکا وہ اپنی بےتابیاں بیان کررہا تھا جب کہ شزا کا تمام زور اس کی گرفت سے نکلنے پر تھا۔
“تمہارا یہ مجنوں کتنا تنہا ہوگیا تھا تمہارے بنا!” اب کی اس کا لہجہ خماری لیے ہوا تھا۔
“چھوڑو مجھے!” اپنی پوری قوت اس نے دھکا دیا تھا۔
“چھوڑ رہا ہوں۔۔۔مگر ابھی کے لیے, مگر بہت جلد تم میری ہوگی” اس کی پیٹھ اپنے سینے سے لگائے وہ مسکراتا اس کے کان میں بولا تھا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا مزے سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔
“کمینہ!” اپنی کلائی کو ملتی وہ غصے سے بڑبڑائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام کہانی اسے سنائے وہ اب اس کے چہرے کے تاثرات جاننے کی کوشش کررہا تھا جو سر جھکائے بےآواز رو رہی تھی
“زویا۔۔۔۔ مانو” اس کے رونے پر وہ تڑپ اٹھا تھا۔
“میں نے, میں نے اپنی زندگی کے سترہ سال اس تکلیف میں گزارے کہ میرا کوئی نہیں۔۔۔۔ اس ڈر, اس خوف میں کہ مجھے میم سے بچانے والا کوئی نہیں۔۔۔۔ مگر,مگر میری ایک فیملی ہے۔۔۔۔ میری بھی ایک فیملی ہے۔۔۔۔ نہیں ہے نہیں تھی” اس کے شانے پر سر رکھے وہ سسکی تھی۔
“ایسے نہیں کہتے مانو۔۔۔۔ میں ہوں نا۔۔۔۔ مانو کا بھائی” محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے وہ بولا تھا۔
“ببب۔۔۔۔بھائی” وہ دوبارہ سسکی
“ہاں تمہارا بھائی۔۔۔۔ بس میری جان اب اور نہیں رونا۔۔۔ میں ہوں نا یہاں۔۔۔۔ اپنی مانو کا نان بھائی”
“نان؟” وہ اس نام پر ہنسی تھی۔
اس کی ہنسی دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔
“ہمیشہ ایسے ہی ہنستی رہنا۔۔۔۔ تم نہیں جانتی تمہارے بھائی کو تمہاری اس ہنسی نے کتنی طاقت دی ہے۔۔۔۔دنیا کی کتنی بڑی خوشی دی ہے۔۔” اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما وہ مسکرا کر بولا تھا۔
اس کی بات پر زویا نے بھی مسکراتے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
سر گاڑی سے ٹکائے اس نے کب سے روکے آنسوؤں کو بہنے دیا تھا۔
“اور کون کون؟۔۔۔کس کس کے سچے جزبوں کی ناقدری کی ہے تم نے؟ کس کس کو اپنے معصوم چہرے سے جھانسا دے کر اس کے دل کو چکنا چور کیا؟ اس کے جذبات کا مزاق اڑایا تم نے ماورا!!………… کیوں؟ کیوں کیا تم نے ایسا؟۔۔۔ کیا ملا تمہیں یہ سب کرکے؟ اور اب دیکھو کہاں آگئی ہو تم۔۔۔۔کچھ نہیں بچا تمہارے پاس۔۔۔۔ مگر,مگر میں چھوڑوں گا نہیں تمہیں۔۔۔۔ سزا تو ضرور ملے گی تمہیں۔۔۔۔ اور یہ سزا دوں گا میں تمہیں۔۔۔۔ لوں گا اپنا بدلا۔۔۔۔ نہیں جاننا مجھے تمہارے ساتھ کیا ہوا۔۔۔ تم اس قابل نہیں۔۔۔۔ تم صرف نفرت اور بدلے کے قابل ہو۔۔۔۔” آنسوؤں کو بےدردی سے صاف کیے اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔
“تم لوگوں کے پاس صرف دو دن ہیں۔۔۔۔ دو دن کے اندر اندر مجھے وہ لڑکی مل جانی چاہیے۔۔ کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا میں۔۔۔۔ جتنی جلدی ہوسکے وہ لڑکی فہام جونیجو تک پہنچنی چاہیے” بشیر زبیری کا غصے سے برا حال تھا۔
کسی نے بےدردی سے اس کے خاص آدمی کا قتل۔کردیا تھا اور جب سے ڈیوڈ کے کمرے میں شزا نے خفیہ واردات کی تھی اور وہ یو۔ایس۔بی اٹھائی تھی تب سے ڈیوڈ مزید محتاط ہوگیا تھا۔
ایک وقت تھا جب بشیر اور ڈیوڈ مل کر یہ ال لیگل کام کرتے تھے مگر ڈیوڈ نے کچھ عرصہ بعد ہی کڑوڑوں کا گھپلا کیے اپنا بزنس علیحدہ کرلیا تھا۔۔۔۔
بشیر کس دھچکا تھا زوروں کا لگا تھا مگر جلد ہی وہ خود کو سنبھال چکا تھا۔
اور اب یہ کلب صرف اپنے کالے دھندوں کا نہ صرف چھپانے کے لیے بلکہ ڈیوڈ کو اس کی اوقات بھی یاد دلانا تھی۔
۔۔۔۔۔۔
گاڑی سے اترتا وہ گلی میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ ان تمام لوگوں کو نظرانداز کرتا وہ کوڑے کچرے کے ڈھیر کی جانب بڑھا تھا۔
اس کی توقع کے عین مطابق وہ وہی نشے میں دھت زمین پر گری پڑی تھی۔
اسے باہوں میں اٹھائے وہ وہاں سے نکلا تھا جب چھوٹا شیطان اس کے راستے میں در آیا تھا اور اسے اپنے دانت دکھا کر ڈرانا چاہا تھا۔
اس پر ایک کڑی نگاہ ڈالے اس کے دانتوں کو نظر انداز کرتا وہ ماورا کو اپنی گاڑی کی جانب لے آیا تھا۔ چھوٹا شیطان ابھی بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
اس نے پھر سے معتصیم کو اپنے دانت دکھائے تھے جس پر معتصیم نے ماورا کو سیٹ پر بٹھائے زرا دور کھڑی پولیس کی جانب اشارہ کیا تھا۔
اس پر وہ چھوٹا شیطان بھیگی بلی بنا وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا تھا۔۔۔
معتصیم نے ہلکی سی مسکراہٹ لیے سر نفی میں ہلایا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...