“خدائے بر تر،
یہ داریوشِ بزرگ کی سر زمیں،
یہ نوشیروانِ عادل کی داد گاہیں،
تصوّف و حکمت و ادب کے نگار خانے،
یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے
آج پھر ابلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟”
“ہم اس کے مجرم نہیں ہیں، جانِ عجم نہیں ہیں
وہ پہلا انگریز
جس نے ہندوستاں کے ساحل پہ
لا کے رکھی تھی جنسِ سوداگری
یہ اس کا گناہ ہے
جو ترے وطن کی
زمینِ گل پوش کو
ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!
یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے،
مگر فرنگی کی رہزنی نے
اسی سے نا چار ہم کو وا بستہ کر دیا ہے،
ہم اس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں!
وہ راہزن جو یہ سوچتا ہے:
“کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ
جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے،
اور اس کا آغوشِ آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے،
اور ایشیائی،
قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژادِ کاہل،
اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جا رہے ہیں”۔۔
مگر یہ ہندی
گرسنہ و پا برہنہ ہندی
جو سالکِ راہ ہیں
مگر راہ و رسمِ منزل سے بے خبر ہیں
گھروں کو ویران کر کے،
لاکھوں صعوبتوں سہ کے
اور اپنا لہو بہا کر
اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی،
۔کہ شاید انہی کے بازو
نجات دلوا سکیں گے مشرق کو
غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے۔
یہ سوچتے ہیں:
۔یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے
لا کے ان کو ترے وطن میں
وہ آنچ بن جائے،
جس سے پھنک جائے،
وہ جراثیم کا اکھاڑا،
جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اٹھتی ہے
اور دنیا میں پھیلتی ہے!۔
میں جانتا ہوں
مرے بہت سے رفیق
اپنی اداس، بے کار زندگی کے
دراز و تاریک فاصلوں میں
کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند
آ نکلتے ہیں، رہگزاروں پہ
جستجو میں کسی کے دو “ساقِ صندلیں” کی!
کبھی دریچوں کی اوٹ میں
نا تواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ
ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں؛
وہ دستِ سائل
جو سامنے ان کے پھیلتا ہے
اس آرزو میں
کہ ان کی بخشش سے
پارۂ نان، من و سلویٰ کا روپ بھر لے،
وہی کبھی اپنی نازکی سے
وہ رہ سجھاتا ہے
جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے!
تو ان مناظر کو دیکھتی ہے!
تو سوچتی ہے:
۔۔یہ سنگدل، اپنی بز دلی سے
فرنگیوں کی محبّتِ نا روا کی زنجیر میں بندھے ہیں
انہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے۔۔!
محبّتِ نا روا نہیں ہے
بس ایک زنجیر،
ایک ہی آہنی کمندِ عظیم
پھیلی ہوئی ہے،
مشرق کے اک کنارے سے دوسرے تک،
مرے وطن سے ترے وطن تک،
بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں
ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!
مغول کی صبحِ خوں فشاں سے
فرنگ کی شامِ جاں ستاں تک!
تڑپ رہے ہیں
بس ایک ہی دردِ لا دوا میں،
اور اپنے آلامِ جاں گزا کے
اس اشتراکِ گراں بہا نے بھی
ہم کو اک دوسرے سے اب تک
قریب ہونے نہیں دیا ہے۔