سلطان جمیل نسیم
عبدالغنی قریشی کو سینتیس (۳۷) سال کی ملازمت نے تھکادیا تھا۔ رہی سہی کثر بیوی کی موت نے پوری کردی، وہ اِس بات کو بھی قدرت کی کوئی مصلحت سمجھتا تھاکہ کوئی بیٹی نہیں تھی اب گھر میں کسی عورت کی آواز سننے کی ایک ہی سبیل رہ گئی تھی کہ اُس کے دونوں بیٹے وجاہت اور شباہت، جن کا یونیورسٹی میں یہ آخری سال تھا۔ وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں تو گھر میں بیٹی کی کمی دور ہو اور بہوؤں کی چوڑیوں کی کھنک گھر کو گھر ہونے کی صدا دے، بیٹی کی خواہش کا اظہارکبھی اُس کی بیوی نے بھی نہیں کیا تھادونوں اپنی تمنا دل میں لئے بیٹھے رہے، خیر بیوی تواپنی آرزو اپنے ساتھ لیکر چلی گئی لیکن قریشی کی خواہش بیٹوں کے ساتھ جوان ہوتی رہی ،بیٹوں کا نتیجہ آنے سے پہلے قریشی کو ایک غیر متوقع امتحان سے گزرنا پڑا۔ بڑے بیٹے وجاہت نے ایک دن، رات کے کھانے پربظاہرچھوٹے بھائی کو مخاطب کرکے کہا۔
’’ مجھے امریکا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے فیس اور رہائش کے لئے یونیورسٹی میں ہی ایک جاب کی بھی آفر ہے۔ دو سال کا کورس ہے۔ اُس کے بعد پھرآگے راستہ کھلا ہی کھلاہے۔‘‘ یہ آخری جملہ کہتے ہوئے اس نے اپنے والد کی طرف کن انکھیوں سے دیکھا۔
عبدالغنی قریشی نے کسی ردعمل کا اظہارتو دور کی بات ہے بیٹے کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھا بھی نہیں اور جس دھیمے انداز میں کھانا کھا رہا تھا اسی طرح چھوٹے چھوٹے نوالے توڑ کر کھاتا رہا۔البتہ شباہت نے اِس اطلاع پر جواباََ کہا۔’’ بھائی۔ مجھے یقین ہے کہ اس بار بھی میری پوزیشن آئے گی۔ وہاں میرے لئے بھی کوئی جاب دیکھئے گا‘‘
’’تم اپنا رزلٹ آجانے دو۔ تمہارے لئے تووہاں بڑی گنائش ہے ․․․․فزکس کے لوگ ملتے کہاں ہیں۔مجھے تو ابا میاں کی فکر ہے۔ اکیلے رہ جائیں گے‘‘
اب قریشی نے منھ کانوالہ نگل کر کہا۔
’’ میری فکر نہ کرو․․․․تمہاری ماں کے گذر جانے کے بعد بھی کوشش یہی کی ہے کہ تمہارے کسی کام میں کوئی خلل نہ پڑے۔۔رہی میری زندگی تووہ جتنی بھی ہے جیسے تیسے گذر ہی جائے گی۔تم لوگ اپنے مستقبل کی طرف دھیان دو‘‘
یہ سن کر وجاہت کے چہرے پر ایک اطمینان کی جھلک نظر آئی مگر اُس نے پہلے سے ذرا دھیمی آوازیں کہا۔
’’مگر ابا میاں وہاں جانے کے لئے تو کچھ رقم کی ضرورت ہوگی ہی۔‘‘
’’کتنی رقم کی۔؟‘‘
’’اندازاً پچھتر ہزار کا تو ٹکٹ ہو گا۔ اور ہاتھ میں بھی کم از کم ہزار پانچ سو ڈ الر تو ہونے ہی چاہئیں۔‘‘
’’کیوں آپ تو کہہ رہے تھے وہاں جاب مل جائے گی‘‘شباہت نے کہا
’’ جاب تو مل جائے گی․․․․مگر تنخواہ تو ایک مہینے بعد ہی ملے گی۔‘‘
’’میں نے سنا ہے وہاں ویکلی بیسس( Basis) پر پیمنٹ (Payment) ہوتا ہے۔‘‘
’’اب یہ سب تووہاں جاکر ہی پتہ چلے گا۔‘‘
عبدالغنی قریشی نے بیٹوں کی بات سنی اور آخری نوالہ نگلنے کے بعد کہا۔
’’پردیس میں آدمی کوخالی ہاتھ نہیں جانا چاہئے․․․میں تمہیں ہزار ڈ یڑھ ہزار کا ڈرافٹ بھی بنواکرلادوں گا․․․․مگر جانا کب ہے۔؟‘‘
جواب سننے سے پہلے عبدا لغنی قریشی کھانے سے فارغ ہوکر ہاتھ دھونے کے لئے اُٹھ گیا۔وجاہت بھی اُٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔قریشی نے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ سلگایا اور ابھی اطمینان سے دو کش بھی نہیں لئے تھے کہ وجاہت ایک فائل لے کر اُن کے پاس آیا․
’’دیکھئے ابامیاں اس فائل میں وہاں کی یونیورسٹی کا لیٹر بھی لگا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ During the study وہ جاب بھی provideکریں گے۔۔‘‘
قریشی نے فائل کو ہاتھ لگائے بغیرکہا۔’’مجھے کیا دکھا تے ہو․․․․یہ سب تمہارے سوچنے سمجھنے کی باتیں ہیں․․اپنا مستقبل دیکھو اور بس۔‘‘
دوسرے دن دفتر سے آنے میں معمول کی تاخیر ہوئی لیکن قریشی نے وجاہت کو دیکھتے ہی کہا․․․․
․’’آج میں نے کہہ دیا ہے ۔ کل تک تمہیں ڈرافٹ مل جائے گا۔۔ کپڑے لتوں کی ضرورت ہو تو وہ بھی بتادینا۔
دونوں بھائیوں کے لئے باپ کا رویہ توقع کے خلاف تھا۔ کم ازکم وجاہت تو یہ سمجھ رہا تھا کہ اکیلے رہ جانے کا ضرور تذکرہ کریں گے۔ جب کھانے کی میز پر بیٹھے تو قریشی نے چھوٹے سے پوچھا۔
’’تم نے بھی کہیں باہر جانے کا سوچا ہے یا یہیں نوکری کروگے۔؟‘‘
’’ فی الحال تو میں یہ دیکھوں گا کہ اگر یہاں کوئی قائدے کی جاب مل جاتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ بھائی وہاں میرے لئے کچھ کریں گے۔یا پھر آپ ہی کچھ سوچیں گے۔‘‘
’’دیکھویہ ملک میری عمر اور مجھ سے بڑی عمر کے لوگوں نے بے شمار قربانیاں دیکرحاصل کیا ہے․․․․ہمارے قائدین میں جناح صاحب تھے سر آغا خان تھے، چودھری خلیق الزماں اورچودھری ظفر اللہ تھے ، شیرِ بنگال مولوی عبد الحق تھے․․․․․جس پاکستان کا تصور تھا․․․․وہ تو جناح صاحب کی موت اور لیاقت علی کی شہادت کے بعد بتدریج ختم ہوتا گیا․اب بظاہریہ اسلامی ملک بھی نہیں ہے اور ایسا سیکیولر بھی نہیں ہے جس کا تصور بانیانِ ملک کے ذہن میں تھا۔اب لوٹ کھسوٹ،ایک دوسرے کے حقوق چھیننے میں سب لگے ہیں․․․․تمہاری ماں کے گذر جانے کے بعد،میں بھی اس لئے جئے جارہا ہوں کہ خود کشی کرنے کی ہمت نہیں ہے․․․․جب میں اپنے بارے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو تم لوگ جو ‘ موجودہ عہد کے پروردہ ہو․․․․اردو سے زیادہ انگریزی سمجھتے ہو․․․․اِ س ملک سے زیادہ مغربی معاشرہ میں رہنے کے خواہش مند ہو تو میں تمہارے بارے میں کیا سوچوں․․ممکن ہے میری رائے تمہاری راہ میں رکاوٹ بنے․․․․اس لئے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرو۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب تمہارا ہی ہے․․․․مجھے ساتھ نہیں لے جانا۔․․․․میرے بعد بھی تمہارا ہوگا․․․․اِس لئے اپنی کوئی ضرورت روکو مت۔ ․․․میں کیوں کہ آج کا آدمی نہیں رہا اس لئے تمہارے بارے میں یا تمہارے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ بھی نہیں کر سکتا․․․․بس یہی میری رائے ہے اور یہی میرا کہنا۔‘‘قریشی نے اتنا کہنے کے بعداخبارآنکھوں سے لگالیا۔
یہ انداز قریشی کا آج کا نہیں تھا۔ کم بولتا اور کم کھاتا تھا۔دنیا داری میں بھی بیوی ہی نے لپیٹا تھا۔اُسی کے کہنے سے مکان خرید لیا۔ اسی کی منشا کے مطابق دوسری منزل بنوالی ، اُسی کے مشورے سے انشورنس کرالی ۔جب بیوی زندہ تھی تب بھی وہ اپنی ساری تنخواہ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا۔ بس کا کرایہ اور اخبار کابل․․․․یہ اُس کی ضرورت تھے۔ ناشتہ کے بعد بیوی دس روپے کانوٹ خاموشی سے میز پر رکھدیتی تھی، جب دوچار دفعہ ایسا ہوا کہ قریشی کو واپس آنا پڑا کہ وہ نوٹ اُٹھاناہی بھول گیا تھا تب بیوی چلتے وقت یہ کہہ کر آمد ورفت کا کرایہ دے دیتی تھی کہ احتیاط سے رکھنا کہیں راستے میں گر نہ جائے یا کوئی ایسی چیز منگانا ہوتی جس کے ملنے کا امکان محلے کی دوکانوں پر نہ ہوتا تو مطلوبہ شے کانام ایک کاغذ پر لکھ کراسی میں قیمت رکھ دیتی تھی۔اپنی بیماری کے دوران گھر کی دیکھ بھال اور کھانا پکانے کی ذمہ داری بیوی نے شکورے کی ماں کے سر ڈال دی تھی جس کو وہ اپنے بچپن سے جانتی تھی۔
قریشی جنسی طور بھی کوئی گرم آدمی نہیں تھا․بیوی خود ہی پہلو میں آکر لیٹ جاتی تھی․․․․ وجاہت کی پیدائش کے بعدقریشی نے صاف طور سے کہہ دیا کہ مجھے سویرے اُٹھ کر کام پر جا نا پڑ تا ہے اور رات بھر بچے کے کلبلانے اور تمہارے کروٹیں لینے اور بچے کو بہلانے پچکارنے کی وجہ سے دن بھر نیند آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہے ۔بس اُسی دن سے بیوی نے اپنا بستر دوسرے کمرے میں لگا لیا․․․․پہلا بیٹا تو ہونا ہی تھا۔ دوسرے بیٹے شباہت کے بعد بیوی کے بیٹ میں رسولی ہوگئی تو سال بھر تک علاج معالجہ ہوتا رہا اور وہ قریشی کے کمرے کی طرف جھانکنے سے بھی اجتناب کرتی رہی، قریشی نے بھی کبھی اسے آواز دینے کی کوشش نہیں کی․․․․سال بھر سے زیادہ الگ رہنے کے بعد ایک رات وہ خود ہی آگئی۔
میاں بیوی ہونے کے باوجود ان میں کبھی اشاروں کنایوں بھی جنسی موضوعات پر باتیں نہیں ہوتی تھیں، ہاں اخبار میں کوئی ایسی خبر آجائے جس میں قتل کی وجہ جنسی ہیجان یاشدت بیان کی گئی ہو․․․یا کوئی بال بچوں والی عورت کسی کے ساتھ فرار ہو جائے ․․․․یا کوئی نابالغ لڑکی اپنی عزت لٹا بیٹھے․․․․یاایک عورت کی آبرو ریزی کے لئے کوئی ٹولی گھر میں کود پڑے تو ایک سطر کی سرخی سناکے قریشی یہ ضرور کہہ دیتا کہ․․․․یہ عجیب خبر ہے فرصت ملے تو پڑھ لینا․․․اور جب بھی اسے گھر کے کام کاج سے فرصت ملتی وہ اُس خبر کو پڑھنے کے ساتھ دوسری خبریں بھی پڑھ ڈالتی اور شام کو جب قریشی کھانا کھانے کے بعد اپنی آرام کرسی پر بیٹھا ہوتا تو وہ تمام اہم خبریں گوش گزار کرکے صرف اتناتبصرہ کرتی’’کیسا زمانہ آگیا ہے۔ آج کی عورت کو نہ بچوں کا خیال ہے نہ اپنے گھر کا․․․․․اور مرد بھی کتنے بے غیرت ہوگئے ہیں کہ ایک لڑکی کے ساتھ چار پانچ․․․․․‘‘
اور قریشی ہلکے سے طنزیہ انداز میں کہتا۔’’زمانہ ترقی کر رہا ہے۔‘‘
اور وہ خالص گھریلو انداز میں کہتی۔’’ خاک پڑے ایسی ترقی پر‘‘
جب وہ دوسری مرتبہ آپریشن کے لئے اسپتال میں داخل ہوئی تھی تو قریشی کے معمول میں فرق یہ پڑا تھا کہ بینک جانے کے لئے گھنٹہ بھر پہلے نکلتا،بیوی کے پاس ہوتا ہوا دفتر جاتا اور دفتر سے اٹھنے کے بعداسپتال میں گھنٹہ دو گھنٹہ بیوی کے پاس جاکے ضرور بیٹھتا۔ ڈاکٹر نے کوئی نئی دوا لکھی ہوتی تو وہ لاکے رکھ دیتا۔ ڈاکٹری رپورٹ پڑھتا۔اِس دوران وہ پوچھتی رہتی ․․․․شکورے کی ماں سویرے وقت پہ آکے ناشتہ بنا دیتی ہے۔؟ دونوں بچوں کو آپ خود اسکول چھوڑ کر آتے ہیں۔؟معلوم نہیں اسکول سے واپسی پر وہ کھانا ٹھیک سے کھاتے بھی ہونگے یانہیں․․․․․․․رات کو تو آپ اپنے ساتھ ہی بٹھا کر کھلاتے ہونگے؟ اس کے سب سوالوں کا جواب اثبات میں دیتا رہتا․․․․اتوار کی اتوار دونوں بچوں کو ساتھ لاکے ماں سے ملوا دیتا․․․․جب بچے سامنے ہوتے تو وہ ایک طرح سے قریشی کو نظر انداز کردیتی․․․․اور وہی سب باتیں پوچھتی رہتی جو ہفتہ بھر قریشی سے معلوم کرتی رہی تھی․․․․قریشی کو مخاطب کرکے صرف اُس کمی کی نشان دہی کرتی جو بچوں کو دیکھ کر محسوس کی ہوتی۔
’’شکورے کی ماں کو وجاہت کی یہ قمیض دکھائیے گا ایک بٹن آستیں کا ٹوٹا ہے اور ایک گلے کا بھی جھول رہا ہے۔اسکول کے یونیفارم تو ٹھیک سے دھو کے استری کر دیتی ہے یا اُن میں بھی میل چمٹا رہ جاتا ہے۔؟‘‘
دو مہینے تک وہ اسپتال میں رہی جس روزاُس کے چہرے پر صحت مندی کے آثار قریشی کو دکھائی دیئے اُ س کے دوسرے ہی دن وہ دینا سے پردہ کر گئی ۔اُس دن دونوں بچوں کے سالانہ امتحان کا پہلا دن تھا۔ قریشی ان کو امتحانی مرکز چھوڑنے گیا تو راستہ میں صرف اتنا پوچھا اب تمہارا امتحان کے دن بعد ہے۔ ؟ بچوں کا جواب سننے کے بعد پوچھا۔ اسٹڈی تو مکمل ہے ۔؟ دونون نے اطمینان بخش جواب دیا جس کو سن کر قریشی نے کہا ۔
’’آج میں نے بینک سے چھٹی کی ہے اس لئے تمہیں لینے میں ہی آؤں گا۔کب تک پرچہ ختم ہو جائے گا۔؟ دونوں لڑکوں نے اندازاَ وقت بتادیا۔ اُ س نے کہا، فرض کرو مجھے ذرا دیر ہو جائے پھر بھی تم اسکول میں ہی رہنا،میں چوکیدار کو سمجھائے دیتا ہوں، میرے آنے تک وہ تمہارا خیال رکھے گا۔‘‘
پانچویں چھٹی کلاس کے دونوں بیٹوں کو اسکول چھوڑ کر اسپتال گیا۔ وہاں سے بینک فون کیا اور غیر حاضری کی وجہ بتائی پھر قریبی عزیزوں کو فون کرکے اطلاع دی پھر اسپتال کا حساب کتاب چکتا کرکے ایمولنس میں بیوی کی میت گھر لایا۔ خاندان کی اور محلے کی چند خواتیں جمع ہو گئی تھیں۔ میت گھر میں آتے ہی رونے اور آہ و بُکا کا شور اٹھا۔گھنٹہ بھر میں سارے ہی عزیز جمع ہوگئے تھے ۔کسی قریبی رشتہ دار نے اطلاع دی کہ قبر کی جگہ کا انتظام ہو گیا ہے، کسی نے کہا، غسل کرانے والی خاتون اپنے ساتھ ہی کفن سینے والی کو بھی لے آئی ہیں اوریہ اُن کے خرچہ کا حساب ہے۔ قریشی نے فورا حساب صاف کیا۔ کسی فلاحی ادارے کی میت گاڑی بھی قبرستان لیجانے کے لئے آ گئی تھی۔ ظہر کی نماز کے بعد تدفین ہوئی۔ گھر سے قبرستان تک جو کچھ خرچ ہوتا رہاوہ ادا کرتا رہا،اس تمام عرصہ میں وہ بالکل پُرسکون تھا۔ اگر فکر تھی تو صرف اتنی کہ اسکول کے چوکیدار کو جو وقت دیا ہے اُس سے پہلے ہی بچوں کو لینے کے لئے پہنچ جائے، عزیز اقارب میں سے جو بھی آتا وہ گلے مل کر پُرسا دیتا، صبر کی تلقین کرتا اور قریشی یہ سوچتا کہ بچوں کو لینے وہ مقررہ وقت پر پہنچ بھی سکے گا یا نہیں․․․․جو رشتہ دار اپنی گاڑی میں اُس کے گھر آئے تھے اُن میں سے چند میت گاڑی میں ہی بیٹھ کر قبرستان گئے۔تدفین کے وقت بے اختیار نکل آنے والے قریشی کے چند آنسو بھی دفن ہو گئے ۔واپسی پر اُس نے اپنی بہن سے کہا کہ وہ دونوں لڑکوں کو لینے جا رہا ہے۔ تب بہت سے عزیزوں کو یہ معلوم ہوا کہ دونوں بیٹے اسکول میں ہیں تو کسی خاتون نے اعتراض کیا، یہ تو سراسر ظلم ہے بچوں کو آخری بار ماں کی شکل تو دکھادی ہوتی۔ خواتین اِس بحث مباحثہ میں الجھی رہیں۔ قریشی نے بیٹوں کو اسکول سے ساتھ لیا، پہلے اُن سے پوچھا کہ پرچہ کیسا ہوا۔۔ پھر رکشا میں بیٹھ کر اُس نے لمحہ بھر یہ سوچا کہ بیٹوں کو یہ خبر کیسے سنائے۔!
’’تمہاری امی دو مہینے سے اسپتال میں تکلیف جھیل رہی تھیں۔ آج وہ ساری تکلیفوں سے نجات پا گئیں۔‘‘
دونوں بیٹوں نے باپ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو دیکھے تو قریشی سمجھا کہ جو زبان سے نہیں کہہ سکا وہ اُس کے آنسوؤں نے بیٹو ں کو بتا دیا․۔کسی عزیز نے تیسرے دن سوئم کا انتظام کردیاتھا اور اسی دن دونوں لڑکوں کا دوسرا امتحانی پر چہ تھا۔۔قریشی کو بتایا گیا تواُس نے پوچھا کیا گھر پر بھی کھا نے کا بندبست کرنا ہوگا تو بہن نے کہا۔ اے بھیا کیا پُرسے کو آنے والوں اور مرحومہ کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے لئے کلام مجید پڑھنے والوں کو بھو کا مارو گے ․․؟ قریشی نے تو اپنے طور پر یہ انتظام یہ کیا تھا کہ مسجد میں ظہر اور عصر کے درمیان قرآن خوانی رکھی تھی ، پیش امام صاحب کو، اُن سے پوچھ کر ہی وہ رقم ادا کردی تھی جو تلاوت کرنے والے مدرسہ کے بچوں کو دینے کیلئے انہوں نے بتائی تھی، اور قریب کے ایک بھٹیار خانے سے کہہ دیا تھا کہ دس بجے سے ظہر تک جتنے فقرا ء آئیں ان کو کھانا کھلا دیا جائے۔ اب ہمشیرہ کے کہنے سے ایک پکوان ہاؤس جاکر شیر مال قورمہ اور میٹھے کا آرڈر دیا۔ گھر کا پتا لکھوا یا اِس تاکید کے ساتھ کہ یہ سب وقت پر پہنچنا لازمی ہے۔
بیٹوں کو ماں کی دائمی جدائی کا شدید احساس ہوا لیکن ساتھ میں نہ کوئی خالہ رہتی تھیں نہ پھوپی اسی لئے بچوں نے صرف باپ کے اکیلے رہ جانے کو ہی محسوس کیا ۔ماں کی عدم موجودگی اور باپ کی بھر پور شفقت کا ردِ عمل یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز تعلیم کو اور پھر اپنے والد کی خوشنودی کو بنا لیا۔جب بڑے بیٹے نے ملک سے باہر جاکر مزید تعلیم حاصل کرنے کاارادہ کیا تو اُس کو توقع تھی کہ باپ کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا ہو گا۔ لیکن معاملہ برعکس نکلا۔
پھر یہ ہوا کہ چھے مہینے کے اندر دونوں بیٹوں کو قریشی نے ائر پورٹ پر گلے لگا کے ہزاروں میل کے لئے رخصت کر دیا۔اپنے بیٹوں کے بغیر گھر کا سُونا پن پہلی رات اس طرح محسوس ہوا کہ وہ بہت دیر تک گھٹی ہوئی چیخوں کے ساتھ نہیں بلکہ بلند آواز میں روتا رہا اور اِ س رونے میں بیٹوں کی جدائی تو وجہ بنی ہی تھی مگر جس صبر و ضبط کے ساتھ اس نے برسوں پہلے بیوی کو لحد میں اتارا تھا وہ دکھ بھی تنہائی کا روپ دھار کے آنکھوں سے اچھلنے لگا تھا۔
دکھ کیسا بھی ہو․․․․وقت کے بہاؤ کے سامنے زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکتا․․․․چناچہ گھر میں اکیلے رہنے کی عادت سی ہو گئی۔ کبھی کبھار چھوٹے بہن بھائی ملنے کے لئے آجاتے․․․․کبھی کوئی دوست چکر لگا لیتا․․․․لیکن ہر آنے والے کو یہ احساس ہوتا کہ عبد الغنی قریشی کی صحت ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے۔۔دس پندرہ دن کے بعد ایک بیٹا فون کرتا اور کبھی دوسرا․․․․یوں ایک ماہ میں دونوں بیٹوں سے بات کرکے ذرا سااطمینان اور سکون مل جاتا۔
جس طرح وہ اپنی کیفیت کا اظہارایک ہی شہر سے ملاقات کرنے کے لئے آنے والوں کے سامنے نہیں کرتا تھا ، پردیس میں اپنے اپنے مستقبل سے جوجھتے بیٹوں کو کیسے بتادیتا۔ایک روز چھوٹے بیٹے کا فون آیا، دو چار منٹ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے بتایا کہ وجاہت نے ایک صاحبِ کتاب لڑکی سے نکاح کرلیا ہے۔ یہ خبر دینے کے بعد وہ کسی منفی ردِ عمل کا منتظر تھا کہ قریشی نے کہا۔
’’چلو یہ اچھا ہوا۔ مجھے تم لو گوں کی طرف سے یہی ایک فکر لگی رہتی تھی کہ کھانا پینا ڈھنگ سے ہو رہا ہے یا نہیں۔ اب اِس فکر سے تو چھٹکارہ ملا‘‘
یہ سن کر شباہت ذرا ہنسا اور کہا۔’’ابا میاں۔کھانا تو یہاں ہم لڑکے باری باری پکا لیتے ہیں۔ یہی بھائی کرتے ہیں‘‘
قریشی نے فوراَ پوچھا۔ ’’لڑکے۔! کیاتم اور وجاہت ساتھ ساتھ نہیں رہتے ۔؟‘‘
’’ابا میاں۔بھائی دوسرے شہر میں رہتے ہیں میں دوسرے شہر میں۔‘‘
’’کیوں۔ یہ الگ الگ کیوں رہتے ہو۔‘‘
’’ بھائی کو جس شہر میں جاب ملی وہ وہاں ہیں۔ مجھے جس شہر میں ملی میں وہاں ہوں۔‘‘
’’مگر یہ بات پہلے تم نے نہیں بتائی تھی․․․․تم وجاہت کی شادی میں شریک ہوئے تھے یا نہیں۔۔۔ ؟‘‘
’’ ابامیاں ۔ انشاء اللہ نیکسٹ ویک اینڈ (Next Weekend) پر جاؤں گا۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ قریشی کوئی اور سوال کرے، شباہت نے کہا’’ میں نے آپ کی اسپانسر شپ کے پیپر داخل کئے ہیں۔ ایک سیٹ آپ کو بھی بھیج رہا ہوں۔ جہاں جہاں میں نے پینسل سے نشان لگائے ہیں، وہاں دستخط کرکے جو پتا لکھا ہوا لفافہ ہے اُس میں رکھ کر TCSسے بھیج دیجئے گا۔‘‘
’’بیٹا میں جہاں ہوں مجھے رہنے دو۔بس تم لوگ آپس میں خوشی اور میل جول کے ساتھ رہو۔‘‘
’’ہم لوگ تو ٹھیک ہیں لیکن میری خواہش تھی کہ آپ بھی ہمارے پاس آجائیں۔کب تک اکیلے رہیں گے۔‘‘
’’دیکھو بیٹا۔ میں نے زندگی کا سفر بہت طے کرلیا ہے۔اب اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمہارے پاس آنے کے لئے اتنا طویل سفر کروں۔‘‘
’’اچھا جو پیپر میں نے بھیجے ہیں ، وہ تو آپ بھیج دیجئے گا۔ اس تمام پروسس میں بھی سال چھے مہینے لگ جائیں گے۔۔ پھر میں خود آکر آپ کویہاں لے آؤں گا۔‘‘
’’مجھے بلانے کے بجائے اگر تم اور وجاہت یہاں آ کے مل جاؤ تو اچھا ہے۔‘‘
’’آپ پیپر تو سائن کرکے بھیج دیجئے گا۔ پھر ہم دونوں بھی آپ کو لینے آئیں گے۔۔‘‘
’’وجاہت سے کہنا۔مجھے اپنی شادی کی ایک دو ایک تصویریں تو بھیجے۔‘‘
’’میں جا رہاہوں نا اگلے ہفتہ اُن کے پاس۔۔ میں تصویریں بھیج دونگا․․․․‘‘
’’وجاہت کیا اتنا مصروف رہتا ہے کہ اپنی شادی کی اطلاع بھی نہ دے سکا اور اب تصویریں بھی تم۔۔۔‘‘
قریشی کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ٹیلیفون ٹوں ٹوں کرنے لگا۔
ٹیلیفون کی لائن کٹ جانے پر اس نے سوچا فون کارڈ کا وقت ختم ہو گیا ہوگا۔ ہر بات اور ہر کام کے لئے کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے ۔شباہت چھ ماہ بعد گیا تھا میں نے جاتے وقت تاکید کی تھی اپنا فون لگوا لینا، وجاہت کی طرح چار پانچ ڈالر کا ایک کارڈ خریدنے کے لئے ہزار دفعہ سوچنا نہیں پڑے گا۔ مگر خدا جانے وہاں جاکے سب ایک ہی رنگ میں کیوں رنگ جاتے ہیں وجاہت نے اپنے پہنچنے کی اطلاع اتنی بھاگ دوڑ میں دی کہ میں پوری طرح اُس کی آواز کو دل میں بھی نہیں اُتارسکا․․․․ہاں شباہت نے جانے کے بعدفوراَ فون کیااور بڑی تسلی سے بات کی مگر مہینہ بھر بعد وہ بھی بھاگ دوڑ میں فون کرنے لگا۔ پھر بھی غنیمت ہے اپنی آواز سنا دیتا ہے، مہینہ دو مہینہ بعد فون کرکے اپنی اور بڑے بھائی کی خیر خبر دیتا ہی رہتا ہے۔لیکن وجاہت․․․․کیا اُس کے پاس فون کرنے کے لئے بھی وقت نہیں ہے․․․․یہ سوچتے سوچتے قریشی کے سینے میں کھانسی کا غبارہ اوپر اُٹھنے لگا․․․․اِس کھانسی سے جان چھڑانے کے لئے اُس نے بیٹوں کے جانے بعد سگریٹ بھی چھوڑ دی تھی،مگراپنی صحت کی طرف سے وہ کبھی فکر مند نہیں رہاپہلے بیوی کی بیماری نے مستقبل کی طرف سے فکر مند کردیا تھا․․․․مگر بچوں کی پرورش کے خیال نے اِس فکر کو بھی دُور پٹخ دیاپھر جب بیٹے پڑھ لکھ کرفکری طور پر الگ ہو ئے تو اُن کا دور دراز ملک میں جا بسنا ہی ایک ایسا روگ بن گیا تھا جس کو وہ لا علاج سمجھتے ہوئے کسی کے سامنے بیان بھی نہیں کرتا تھا۔ جب کبھی بڑا بیٹا وجاہت فون کرتا تو قریشی اُس سے ضرور یہ کہتا کہ دیکھو بیٹا تم پردیس میں ہو‘ چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا اور پیسہ کی ضرورت ہو تو بلاجھجک بتا ؤ․․․․․ایک دفعہ چھوٹے شباہت نے فون کیا اور چند باتیں ادھر اُدھر کی کرنے کے بعد اُس نے کہا۔
’’ابا میاں۔ بھائی جب آپ کو فون کیا کریں تو اُن سے روپے بھیجنے کے لئے اور میرا خیال رکھنے کے لئے نہ کہاکیجئے۔۔ وہ آپ کے کہے بنا میرا خیال رکھتے ہیں اور اب تو ہم لوگ بھی کما کھا رہے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ آپ کو ہر دوسرے تیسرے مہینے کچھ بھیج دیا کروں۔ـ‘‘
’’ارے نہیں بیٹا۔ میری پینشن ہی بہت ہے۔۔ اور پھر ریٹائرمنٹ کے وقت سارے لون شون کٹ کے اتنا پیسہ مل گیا کہ میں نے بچت سرٹیفیکیٹ خریدلئے ہیں ہر چھے ماہ بعد اچھی خاصی رقم ہا تھ میں آجاتی ہے اور․․․․․ارے یہ فون پھر کٹ گیا۔ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنا فون نمبر مجھے دیدو․․․․مگر شرم آتی ہے شاید․․․․فرق بھی تو دن رات کا ہے․․․․معلوم نہیں کب جاگتے اور کب سوتے ہو ں گے۔ اچھا ہوا جو وہ نیک بخت اِن کے چھٹپن ہی میں چل بسی․․․․ورنہ پہلے تو اِن کے اتنی دور جانے کے خیال سے ہی مر گئی ہوتی․․․․زندہ رہ بھی جاتی تو یہ ادھوری ادھوری سی باتیں اُسے مار ڈالتیں․․․․حیرت ہے آج اتنے برسوں بعد ․․․․اتنے تواتر سے اُس کا خیال کیوں آرہا ہے۔؟؟؟ آرام کرسی پر جھولتے ہوئے دیر تک مرحومہ کے بارے میں سوچتا رہا․․․․پھر یکایک یہ خیال آیا برسوں ہو گئے وہ قبر پہ فاتحہ پڑھنے بھی نہیں گیا․․․․کل چلا جاؤں گا۔
دوسرے دن شباہت نے جو کاغذات بھیجے تھے اور اُن پر جہاں نشان لگائے تھے وہاں دستخط کرکے اور ان کے ساتھ تمام متعلقہ فارم بھر کے اور اندازہ سے زیادہ ہی رقم لیکر وہ خود TCSکے دفتر گیااور بیٹوں کامطالبہ پورا کردیا۔ ۔واپسی میں رکشامیں بیٹھتے ہی اُس نے کہا․․․․پا پوش نگر کے قبرستان چلو․․․․جب قبرستان کے دروازے پر اترا توچند لمحوں تک یہ سوچتا رہا․․․اسی دروازے سے اندر جانا ہے۔!مزید سوچے سمجھے بغیر وہ وہ اندر چلا گیا․․․․اندر جاکے پھر کس طرف جانا ہے․․؟؟
گھنٹہ بھر تک ڈھونڈنے کے بعد بھی جب لحد کے آثار نہ ملے تو قریشی نے قبر تلاش کرنے کا رادہ ملتوی کرنے کے بعد گورکن کے لئے معلوم کرنا شروع کردیا کہ شاید وہ رجسٹر دیکھ کر جگہ بتا سکے۔گورکن مل گیا۔قریشی نے جیب سے پچاس روپیہ کا نوٹ نکال کر پہلے اُس کے ہاتھ پر رکھا پھر دن تاریخ مہینہ سال بیوی کا نام بتاکر قبر کے بارے میں معلوم کیا تو گورکن نے تفصیل سن کرمٹی اور پسینہ میں لت پت شلوکے کی جیب میں رکھے ہوئے نوٹ کومٹھی میں دبوچ کر کہا۔’’بابو ،مجھے تو یہاں کام لگے چار چھہ برس ہی ہوئے ہیں۔شاید باباکچھ بتا سکے۔‘‘ اتنا کہہ کرذرا چپ ہواپھر اپنی چپ میں ہونٹو ں تک آنے والی ہنسی دباکر بولا۔ ’’اُس قبر میں تو ملوم نئیں اور کتنے مُردے لٹا دیئے گئے ہو ں گے۔ یاں تو کوئی سال چھے مہینے پھول ڈالنے نہ آئے تو اسی قبر کو دوسروں کے لئے تیار کرلیا جاتا ہے۔ تم تو بیس پچیس سال بعد معلوم کرنے آئے ہو۔یہ تو شایدبابا بھی نہ بتا سکے۔‘‘
قریشی نے مسکراکر قبرستان کے رکھوالے کا شکریہ ادا کیا پھر قبلہ رو ہوکر جو آیات ازبر تھیں اُن کا ورد کیا اور تمام اہلِ قبور کے لئے مغفرت کی دعا کی، گھر آگیا۔راستہ بھر وہ شرمندہ شرمندہ سا رہا․․․․تمہارے بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہا․․․․امید ہے تم نے میری غیر حاضری پر برا نہیں مانا ہو گا۔
بچوں کے فون آتے رہے․․․․دل بہلتا رہا․․․․شباہت نے تین چار تصویریں وجاہت کی بھیجیں جن میں وہ اپنی دلہن کے ساتھ کھڑا تھا۔ پھراپنی بھابی کے ساتھ شباہت کی بھی دو تصویریں تھیں۔ عینک کو آگے پیچھے کرکے دیکھنے سے بھی وجاہت کی دلہن کے نقش و نگار سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔بظا ہر نہ پاکستانی لگتی تھی نہ انڈین ․․․․انگریز بھی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ دونوں بیٹوں کی تصویر نے دل میں سرور کی کیفیت بھر دی۔ وجاہت کچھ دبلا ضرور معلوم ہوا مگر چہرے پر سجی ہوئی مسکراہٹ قریشی کو اچھی لگی۔
دوسرے دن وہ بلا ضرورت بازار گیا۔ ایک اسٹیشنری کی دکان سے اُس نے محدب شیشہ خریدا․․․․گھر آکے وجاہت کی بیوی کی تصویر کو دُور پاس کرکے دیکھا․․․․پہلے جاپانی سمجھا․․․․پھر چینی․․․کبھی بانگلہ دیشی کبھی فلپائینو․․․․ابھی طے نہیں کر پایا تھا کہ وجاہت کا فون آگیا۔ خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد قریشی نے پو چھ ہی لیاکہ دولہن کون سے ملک کی لائے ہو۔؟۔ قریشی کے سارے اندازے غلط نکلے ۔۔ لڑکی ملیشیا کی ہے ظاہر ہے مسلمان ہے اور نکاح بھی اسلامی طریقہ سے ہوا ہوگا، تفصیل بتانے کے بعدوجاہت نے پوچھا۔
آپ کو ایمبیسی کا کوئی لیٹر ملا۔؟
بیٹا تمہاری تصویریں مل گئیں اب مجھے کسی لیٹر کی ضرورت نہیں ہے۔
ابا میاں․․․لیٹر ملنے کے بعد آپ اپنا پاسپورٹ اور کم سے کم چار تصویریں اُن کو بھیج دیجئے گا ۔ پندرہ بیس دن کے بعد آپ کو پانچ سال کا ویزا مل جائے گا۔ میں آپ کا ٹکٹ بنوا رہا ہوں جو کل یا پرسوں تک آپ کو مل جائے گا ․․․․اور پہلی بار قریشی نے بیٹے کی بات کاٹی ․․․․میرا ٹکٹ بھیجنے کے بجائے تم اپنی دلہن اور شباہت کو لیکر آجاؤ اس طرح․․․․
بیٹے سے بات کرتے ہوئے کھانسی کا غبارہ گلے سے باہر نکل کے پھٹنے کے بجائے گلے میں ہی اٹکا رہ گیا۔
بیٹے نے کئی مرتبہ ہلو ہلو کرنے کے بعد ․․․․کالنگ کارڈ کی وارننگ سنی کہ One Minute leftپھر بیٹے نے غصہ میں
رسیور رکھا․․․․․بڑے میاں کسی کی سنتے ہی نہیں ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔۔
دسمبر ۸۹ میں آپ کے یہاں اس پیاری سی شام کے بعد آج سارا دن میں نے آپ کے ساتھ بِتایا ہے۔’’سایہ سایہ دھوپ‘‘ کی تقریباََ ساری کہانیاں پڑھ لی ہیں اور اِس بھرپور ملاقات پر خوب خوب محظوظ ہوا ہوں۔ آپ کی یہ خوبی نہایت پسندیدہ ہے کہ آپ اپنی کہانی کو کہیں کھڑا نہیں ہونے دیتے بلکہ وہ کرداروں کے ہی رویوں اور عمل سے خود رو ہو کر ندی کے مانند آپ نقطہء عروج تک آ پہنچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا قاری اپنے نتائج خود آپ مرتب کئے جانے کی تخلیقی سہولت کے اسباب پاکر بے تحفظ آپ کی وارداتوں شریک ہو جاتا ہے۔آپ کی کہانی ’’سایہ سایہ دھوپ ‘‘میں نے آخر میں پڑھی ہے اور اس کے specificsکے طلسم سے باہر آنا نہیں ہو پا رہا ہے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے اور آپ اسی مانند دھونی رمائے اپنی تپسیا میں مگن رہیں۔
جوگندر پال
’’ایک شام کا قصہ‘‘ملتے ہی میں نے فوراَ پڑھ ڈالا۔ سب سے پہلا تاثر تو کہانیوں کی عام فضا کا ہوا، یہ اس دھواں دھواں سی کیفیت کا ہی اثر ہے کہ ساری کہانیوں میں آمد ہی آمد ہے۔ہر کہانی نے خود کو لکھوایا ہے۔۔ آپ نے سوچ سمجھ کر ضرور لکھا ہوگا لیکن مجھے تو ہر کہانی میں بے ساختگی کا احساس ہوا۔ دوسری بات یہ کہ ماحول کی وحشت ‘سراسیمگی‘گھٹن اور ہمہ وقت کسی حادثے یا ذہنی اذیت سے دوچار ہونے کے خوف کے باوجود‘ مایوسی اور مکمل تاریکی نہیں ہے۔ دوسری طرف بے جا اور’’ ترقی پسندانہ‘‘ رجائیت بھی نہیں ہے جو بیشتر کہانیوں کو پروپیگنڈہ بنا ڈالتی ہے۔یہاں تو صرف حقیقت ہے اور انتہائے غم و اندوہ میں بھی’’میں مرا نہیں۔۔ میں زندہ ہوں ‘‘ کا طنطنہ۔ایہام یا رجائیت سے الگ ہٹ کر آپ نے کہانی کو زندگی کے قرار واقعی تناظر میں پرکھا اور برتا ہے․․․․․
قیصر تمکین