امین خیال پنجابی کے معروف و ممتاز شاعروادیب ہیں۔پنجابی زبان میں ان کی ادبی خدمات کاایک مستقل سلسلہ رہا ہے۔ادھر انہوں نے اردو زبان و ادب کو بھی اپنی تخلیقات سے نوازا ہے۔اردو ماہیا میں ان کی گراں قدر علمی و تخلیقی خدمات ہیں۔اردو ماہیا کی طرف ان کی توجہ سے اردو ماہیا کی تحریک کو بڑی تقویت ملی تھی۔علمی مباحث کے حوالے سے بھی اور تخلیقی اجافے کے حوالے سے بھی۔اردوماہیا کے ساتھ امین خیال نے اردو میںہندی لہجے کو اپناتے ہوئے دوہے بھی کہے ہیں۔
”من کی آنکھیں کھول“امین خیال کے دوہوں کا مجموعہ ہے۔دوہے کی ماتراؤں کے شمار کے حساب سے اخلاق حیدرآبادی نے کتاب میں شامل اپنے تنقیدی جائزہ میں بتایا ہے کہ ”امین خیال نے چھیالیس حرفی سے لے کرچھپن حرفی تک دوہے لکھے ہیں“ ۔یوں دوہا بھی رباعی کی طرح کثیرالاوزان دکھائی دیتا ہے۔تاہم میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جن ماتراؤں کا تعین کیا گیا ہے،ان کے شمار کے ساتھ دوہا میں بسرام کا ہونا ضروری ہے۔بسرام سے عاری دو مصرعوں کو ”دوہا نما“کہا جا سکتا ہے،دوہا نہیں۔چاہے ایسے دوہا نما کو دوہا کے نام پر کسی بھی عالی نسب نے کیوں نہ پیش کیا ہو،وہ دوہا نما رہیں گے،دوہا نہیں۔امین خیال کے دوہوں میں سے چند دوہے یہاں پیش ہیں
رہ جاوے اس جگ میں جگمگ کرتا تورا نام کہت خیال سنو بھائی سادھو کیجو ایسا کام
رے جوگی کی جوگنی، ایسی پیت لگا میں اور تو کے بیچ میں فرق رہے نہ کا
بھری کٹوری موت کی ہر کوئی لے گا پی آخر یہ جگ چھوڑنا،سال ہزاروں جی
پاکستان میں اردو دوہے کے حوالے سے امین خیال کا مجموعہ ”من کی آنکھیں کھول“ بھی موضوعِ گفتگو رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔