حسن عباس رضا(نیو یارک)
کوچہء شعرمیں آوارہ گردی کرتے ہوئے عمر کا ایک طویل حصہ بیت گیا ، الزام بھی اکثر لگے ، اور طعنہ و دشنام بھی بہت ملے ، مگر صد شکر کہ ’’ ہر داغ ہے اس دل میں ، بجز داغِ ندامت ‘‘ ۔
یوں تو دشتِ حرف میں بادیہ پیمائی پر ہمیشہ فخر رہا ، اور لفظ کی بازی گری بھی کرتے رہے ، مگر اپنے بارے میں کچھ کہنے اور لکھنے کا مرحلہ جب بھی آیا ، زبان میں لکنت آگئی اور قلم پر لرزہ طاری ہوگیا ، کہ میرے نزدیک یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے،مگر اس بار حکم ، اپنے یارِ دیرینہ حیدر قریشی کی طرف سے آیا ، اور بقول میاں محمد ؛ پَھس گئی جان شکنجے اندر ، جیوں ویلن وچ گنّا
روہ نوں کہو ، ہُن رہو محمدؔ ، ہُن جے رہویں تے منّاں
سو ، نجات اسی میں ہے کہ کچھ عرض کر کے ، جان بچا لی جائے،
۲۰نومبر ۱۹۵۱ کی کسی عام سی شام کو راولپنڈی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوا ، والد محترم صوفی محمد زمان ، ایک فرشتہ صفت، انتہائی ہمدرد اور نیک انسان تھے ، والدہ مرحومہ کا نام زینب بی بی تھا۔ ہم پانچ بھائی اور ایک بہن تھی ، تین بھائی ایام جوانی ہی میں داغِ مفارقت دے گئے ، ان تینوں کی موت نے مجھے بھی توڑ کے رکھ دیا ۔ اسلامیہ ہائی سکول ، راولپنڈی کے مدرّس کی حیثیت سے والد صاحب نے ہزاروں طالب علموں کو فارسی اور اردو کی تعلیم دی ۔ آپ کے بے شمار طالبعلموں نے ادب و شعر کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے میں نام کمایا ۔ میں نے میڑک تک ابا جی مرحوم سے فارسی اور اردو پڑھی ، بعد ازاں گورنمنٹ کمرشل کالج سے ڈی کام کرنے کے بعد پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا۔
شاعری مجھ پر کب مہربان ہوئی ، اس کا علم نہیں ، تاہم سکول کے زمانے ہی میں کچھ تُک بندی کرتا تھا ، تاہم پہلا شعر ۱۹۷۲میں لکھا، ، قافیے ردیف میں تھوڑی گڑ بڑ تھی ، لیکن شعر وزن میں اور موزوں تھا ، میر ا بھی یہ ایمان ہے کہ شاعر پیدائشی ہوتاہے، البتہ وقت ، مطالعہ ، تجربہ ، اور مشاہدہ اسے پالش کرتا رہتا ہے ۔ میرے دو بڑے بھائی ادب و شعر کی کتابیں پڑھتے تھے، لہذا گھر میں کافی مواد میسر تھا ، جس کو پڑھ کر ادبی ذوق دوگونہ ہوا ا ، سچ بات تو یہ ہے کہ فیض صاحب کی نظم ’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ پڑھ کر ہی مجھے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا ۔ موسیقی سننے کا شوق جنون کی حد تک تھا ، اور ہے ، میں خوش قسمت ہوں کہ پاک و ہند کے بہت سے نامور گلوکاروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا ، میڈم نورجہاں سے دوستی تھی ، بلاشبہ وہ بہت عظیم گلوکارہ اور بہت شفقت کرنے والی شخصیت تھیں ۔
محکمہ تعلیم پنجاب سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا ، بعد ازاں میرے محترم اور دوست احمد فراز مجھے اکیڈمی آف لیٹرز لے گئے ، وہاں چھ برس تک فرائض سرانجام دیئے ۔ اس دوران آمر ضیاع الحق کا مارشل لا لگ گیا ، فراز صاحب کو تو گرفتار کر کے وہ اٹک قلعہ لے گئے ، مگر مجھ کو تین روز تک روزانہ جی ایچ کیو کے کسی آفس میں لے جاتے ، پوچھ گچھ کرتے ، اور ’’معصوم‘‘ جان کر شام کو گھر چھوڑ جاتے ۔ اکیڈمی آف لیٹرز کے بعد میں نے ایک اور نیم سرکاری ادارے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے زیر اہتما م شایع ہونے والے میگزین ’’ یارانِ وطن ‘‘ کو جوائن کر لیا ، یہاں پر محترم ممتاز مفتی مرحوم ، ضیا اقبال شاہد مرحوم ، اور محمد علی چراغ کے ساتھ دو برس تک کام کیا ۔
دورانِ ملازمت میں نے اپنے ادبی میگزین ’’ خیابان ‘‘ کی اشاعت جاری رکھی ، مارشل لاء کے عروج کا زمانہ تھا ، جب خیابان کا تیسرا شمارہ منظرِ عام پر آیا ، اس میں میرا اداریہ ، میری نظموں کے علاوہ ، اختر حسین جعفری مرحوم ، ظفر خان نیازی کی نظم ، رشید احمد کی نظمیں، اعجاز راہی مرحوم کا مضمون ، احمد داؤد مرحوم کا افسانہ، احمدفراز کی غزل ، غرضیکہ بہت سی دیگر تخلیقات پر سرخ نشان لگا کر ، خیابان پر پابندی لگا دی گئی ، اعتراض وہی پرانے ، کہ اسلام ، فوج اور پاکستان کے خلاف مواد ہے ، نیز فحاشی کا بھی الزام لگایا گیا ، خیر فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے میرے گھر کا محاصرہ کیا ، اور گھر میں موجود خیابان کے نئے ، پرانے شمارے اور بہت سی دیگر کتابیں اپنے ساتھ لے گئے۔
میں اس وقت گھر پر نہیں تھا ، اور اتفاق سے وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (P.N.C.A)میں میری ملازمت کا پہلا دن تھا ، میں اس شام پی این سی اے کے زیر اہتمام لیاقت میموریل ہال میں ہونے والی محفل موسیقی میں ڈیوٹی پر مامور تھا اور اس وقت ہال میں اقبال بانو غزل سرا تھیں ، جب کسی دوست نے مجھے وہاں آکر اطلاع دی ، اور یہ مشورہ بھی دیا کہ فوری طور پر روپوش ہو جاؤں، ابھی میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ تازہ اطلاع ملی کہ میری گرفتاری کی شرط پرپولیس میرے والد صاحب کو اپنے ساتھ لے گئی ہے ، لہذا فوری طور پرمیں نے گرفتاری ے دی ،دوسرے دن پولیس نے عدالت سے دس روزہ جسمانی ریمانڈ لے کر مجھے ہتھکڑی پہنائی ، اور صدر بازار لے گئے ، اور وہاں کے تمام بک سٹالز سے خیابان کے شمارے ضبط کر لیے ، ایک بک سٹال کے مالک خواجہ صاحب نے مجھے پولیس کی حراست میں ہتھکڑی پہنے دیکھا تو انہوں نے پولیس سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا کہ آپ ایک شاعر کو یوں ہتھکڑی لگا کر سرِ بازار گھما رہے ہیں ، یہ علم و ادب کی توہین ہے ، مگر پولیس کو ایسی باتیں سننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، بہرحال اس روز مجھے فیض صاحب کی نظم ’’ آج بازار میں پابجولاں چلو ‘‘ بہت یاد آئی ۔خیر اجمالاً بتا دوں کہ بارہ روز تک مجھے حراست میں رکھا گیا ،حکام شاید مجھے بہت ہی ’’ خطرناک ‘‘ مجرم سمجھتے تھے ، کیونکہ دن کو و ہ میرے ہاتھوں میں اور رات کو پاؤں میں زنجیر ڈال کر رکھتے تھے ، ان دنوں مجھے کسی استاد کا شعر بہت یاد آتا تھا تھا مجھے طفلی میں ہی ذوقِ اسیری اس قدر
کھیلتا رہتا تھا دروازے کی زنجیروں کے ساتھ
خیر رہائی کے کچھ عرصے بعد آمر ضیاع الحق کی حکومت کا خاتمہ ہوا ، اور عدالت کے ذریعے مجھے ملازمت پر بحال کر دیا گیا۔تادمِ تحریر میں پی این سی اے ، ہی سے منسلک ہوں۔
۱۹۹۹میں ایک نظم لکھی تھی ’’ میرے بادشاہ ‘‘ اس پر بھی سرکار دربار کے حکم سے مقدمہ تیار کیا گیا ، لیکن اس دوران نہ صرف حکومت کا خاتمہ ہوگیا ، بلکہ میں خود بھی امریکہ آگیا ،یوں ا وہ مقدمہ پایہء تکمیل تک نہ پہنچ سکا،اور دوبارہ سرکاری مہمان بننے کی’’ خواہش ‘‘دل ہی میں رہ گئی۔
میری ادبی تربیت میں حلقہ اربابِ ذوق کا بہت اہم کردار ہے ، میں کافی عرصے تک حلقے کا سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری رہا ، اور تنقیدی نشستوں میں اپنے سینئر اور ہم عصروں سے بہت کچھ سیکھا ، یہ بھی میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے محترم فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، احمد فراز ،اور دیگربہت سے سینئر شعراء اور ادیبوں کی رفاقت مل گئی ، جس کے باعث میں نے ان سے بہت سیکھا ، میرے ادبی دوستوں اور مہربانوں میں گلزار ، کشور ناہید ، محسن احسان ، افتخار عارف ، جمال احسانی مرحوم ، ثروت حسین مرحوم ، ثروت محی الدین ، نیلوفر اقبال ، ڈاکٹر انور سجاد ، اصغر ندیم سیدشامل ہیں ۔ فکری اور نظریاتی اعتبار سے سیکولر ہوں ، اور بائیں بازو کی سیاست اور نظریات کا حامل ہوں ۔
یہ میری خوش بختی تھی کہ۱۹۸۵ میں میرے پہلے شعری مجموعے ’’ خواب عذاب ہوئے‘‘ کا فلیپ فیض صاحب نے لکھا ، اور یہ فیض صاحب کی زندگی کی آخری تحریر تھی ، اس کتاب کا پیش لفظ کشور ناہید نے تحریر کیا تھا ۔ ٹھیک دس برس بعد ۱۹۹۵میں میرا دوسرا شعری مجموعہ ’’ نیند مسافر‘‘ شایع ہوا ، جس کا دیباچہ قاسمی صاحب نے لکھا تھا ، اور فلیپ احمد فراز نے۲۰۰۰میں مجھے بوجوہ امریکہ آنا پڑا ،یوں میں پہلے دو برس ورجینیا میں اور بعد ازاں نیویارک میں مقیم ہوں ،میرا تیسرا اور تادمِ تحریر نیا شعری مجموعہ ’’ تاوان ‘‘ ۲۰۰۴میں اسلام آباد سے شایع ہوا جس کا دیباچہ گلزار نے لکھا ہے ۔میرا نیا شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے اور انشا اللہ ۲۰۰۸کے آخر تک شایع ہو جائے گا ۔ یوں تو میں نے بے شمار نظمیں بھی لکھی ہیں ، مگر غزل میری پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔ مجھے لندن ،اور بھارت جاکرکئی مشاعرے پڑھنے کا موقع بھی ملا ، گزشتہ برس میں نے نیویارک سے خیابان کا دوبارہ اجراء کیا ، اور امریکہ کے پچاس شاعروں کی پانچ پانچ غزلوں پر مشتمل غزل نمبر شایع کیا ۔
پاکستان میں قیام کے دوران میں نے ٹی وی ، ریڈیو اور سٹیج کے لیے متعدد ڈرامے ، گیت اور سکرپٹ تحریر کیے ، اور پی این سی اے کے زیر اہتمام منعقدہ ڈرامہ فیسٹیول میں ہونے والے ڈراموں کو کتابی شکل میں شایع کیا ۔
۱۹۸۴میں میری شادی ہوئی ، خوش قسمتی سے میری اہلیہ روبینہ شاہین نہ صرف شعر شناس ، اور ادب دوست تھیں ، بلکہ وہ باقاعدہ افسانہ نگار بھی ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسے ’’ منتشر ‘‘ شخص کو اس نے سمیٹا ہوا ہے ، اور ابھی تک میری آوارہ گردیوں کو برداشت کرتی ہے ۔ اللہ پاک نے مجھے دو خوبصورت بیٹے عطا کیے ہیں ، بڑا بیٹا فرہاد حسن ، پاکستان میں ہے ، اور پاکستان ایئر فورس میں پائلٹ ہے ،دوسرا بیٹا وامق حسن ہے ، جو ہمارے ساتھ نیویارک میں ہے،اور ہائی سکول میں زیر تعلیم ہے ۔ اللہ پاک دنیا کے تمام بچوں کے طفیل میرے بیٹوں کو بھی زندگی ، صحت اور کامیابی عطا کرے ۔ (آمین)
اللہ کرے میری اس قلم برداشتہ بے ربط تحریر ، شکستہ جملوں اوردھندلے خوابوں کی طرح ادھورے واقعات کو پڑھ کر میرے دوست اور قارئین کو قدرے ’’ تسلی‘‘ ہو جائے۔ وما علینا الالبلاغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن عباس رضا
شعری مجموعے
۱۔خواب عذاب ہوئے ۱۹۹۲۔ ۱۹۸۵
۲۔نیند مُسافر ۱۹۹۵ ۳۔ تاوان ۲۰۰۴
بطور مرتّب
۴۔پاکستان کے بہترین افسانے ۱۹۹۹ ۵۔ہندوستان کے بہترین افسانے ۱۹۹۹
۶۔فسادات کے افسانے ۱۹۹۹ ۷۔پاکستان کی بہترین غزلیں ۲۰۰۲
۸۔ہندوستان کی بہترین غزلیں ۲۰۰۲ ۹۔محبت کی نظمیں ۲۰۰۲
بطور مدیر
خیابان ۱۹۷۹تا ۱۹۹۶ دوست (بچوں کا رسالہ) ۱۹۸۰تا ۱۹۸۱
رابطہ کے لیے
Hasan Abbas Raza
80-06, 30th Ave: East Elmhurst
NY – 1137 0- New York (USA)
E.Mail. [email protected]
Tel:718-290-6570- 718-651-4382
Website: www.hasanabbasraza.com