” منحوس۔ میرے بیٹے کو مار دیا تو نے۔ کیا بگاڑا تھا میرے بیٹے نے تیرا۔ کتنا خوش تھا وہ۔ جان لے لی اسکی۔ خوشی دیکھی نہیں گئی میرے بیٹے کی۔ ”
” امی بس کر دیں۔ آپ بھابھی کو الزام کیوں دے رہیں ہیں۔ بھائی کی موت ایکسیڈنٹ میں ہوئی تھی ۔ بھابھی کا کیا قصور ہے۔ وہ تو خود کس غم سے گزر رہی ہیں۔ اور آپ مزید انہیں تکلیف دے رہیں ہیں۔”
اسامہ کی موت کا وہ دوسرا دن تھا جب تائی امی جزباتی ہوکر سیمل کوسنے لگ گئیں تھیں۔ پہلے بھی دو بیٹے کھو دینے کے بعد ان کے لیے یہ دکھ بہت گہرا تھا۔ ردا جس قدر ہوسکے انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اور سیمل وہ لانج کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اسکے چہرے پر خود سے نفرت کے آثار تھے۔
” منحوس ” یہ ایک لفظ تھا جو ہٹھوڑے کی طرح سر پر برس رہا تھا ۔ منحوس ہی تو تھی وہ ۔ اسکی وجہ سے موسی گھر سے نکلا۔ ابا آج تک اس سے نفرت کرتے تھے۔ اسکی وجہ سے فرزانہ بھی مر گئی۔ اس نے گل رخ کو بھی اپنی منحوسیت سے مار ڈالا۔ مایا اور یوسف کی گمشدگی کی بھی وہ وجہ تھی۔ اور اب اسامہ۔ نا جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ۔ وہ واقعی منحوس تھی۔ اس وقت جو واحد چیز اسکے زہن میں آرہی تھی وہ خود کو کوسنا ہی تھا۔
تائی امی اسے ناجانے کیا کیا کہہ رہیں تھیں اور وہ بس خالی زہن سے سنے جارہی تھی۔
□□□
کورٹ سے داود سیدھا ہسپتال پہنچا تھا۔ کاریڈور میں کھڑی زینت ملی۔ ایک کاٹ دار نظر ڈالتا اس تک آیا۔
وہ بہت پریشان سی لگ رہی تھی۔
” کیسا ہے اب وہ ؟ ”
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی ایک ڈاکٹر اور ساتھ سروت چلتے ہوئے قریب آئے۔
سروت زینت کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ وہ دونوں غالبا کزن تھیں۔
ڈاکٹر سے بات کرکے وہ واپس زینت کی طرف مڑا ۔
سروت ڈاکٹر کے ساتھ ہی واپس چلی گئیں تھیں۔
” تمہے اس غلطی کی سزا ملے گی۔ ” انگلی اٹھا کر تنبیہ کی اور واپس پلٹ گیا۔
یوسف سکندر اسکے لیے وہ زنجبیل تھا جس سے وہ جو چاہے نکال سکتا تھا۔ ایک خزانے کی مانند ۔ اسکے بظاہر دنیا کو نظر آنے والے سارے کاروبار کے سب سے بڑے حمایتی اور مخالف بھی سکندر صاحب تھے۔ سکندر فیملی سے جس قدر ہو سکے اسے بہتر تعلقات
رکھنے تھے۔
□□□
سیمل کو گھر چھوڑ کر وہ واپس آفس کی طرف نکلا تھا۔ آج صبح ہی اسامہ نے اسکے لیے گفٹ لیا تھا۔ ارادہ تو ڈنر پر دینے کا تھا لیکن وہ آفس بھول گیا تھا۔ اب لینے نکلا تھا ۔ وہ واپسی کے راستے پر تھا جب اسکا زہن سیمل کی باتوں کی طرف بھٹکا۔ جو اس نے کہا تھا وہ واقعی سچ نکلا تو۔ وہ ایک مرد تھا اور یہ بات کبھی پسند نہیں کر سکتا تھا کہ وہ جس عورت کو پسند کرے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہو۔
وہ شادی جہاں اس نے پہلی بار سیمل کو دیکھا تھا۔ زبردستی جہاں بابر اسے لے گیا تھا۔۔۔۔۔۔
□□□
(عائشہ اور حمزہ کی شادی کا دن )
اس روز اسامہ کا کاروباری سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا۔ وہ جب بھی وہاں جاتا تھا ہوٹل رکنے کی بجائے بابر کی طرف رکتا تھا ۔ بابر جو کہ پیشے سے ایک وکیل تھا۔ بقول اسامہ کے وکالت کے نام پر ایک کلنک۔ اسکے کیرئیر کا کوئی ایک کیس نہیں تھا جو وہ جیتا ہو۔ بابر وہی وکیل تھا جس نے بعد میں مایا کا کیس لڑا تھا اور پہلی پیشی میں ہی حمزہ کے ہاتھوں ناکام ہوا تھا۔
اسامہ نے ایئر پورٹ سے نکلتے ہی بابر کو فون کیا تاکہ اسے اپنے آنے کی اطلاع دے سکے۔ فون اٹھا یا نہیں گیا۔ وہ مصروف ہوگا شاید۔ یہ سوچ کر وہ سیدھا آفس ہی پہنچا اور میٹنگ سے فارغ ہو کر دوبارا کال کی ۔ اب بھی فون بند جا رہا تھا۔ وہ بابر کے گھر ہی پہنچ گیا۔
اسکے پاس گھر کی چابیاں تھیں جن سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اندر آتے ہی اسے بابر کے گنگنانے کی آوازیں آئیں۔
” میں کب سے تمہے کال کر رہا ہوں اور تم یہاں گانا گانے میں مصروف ہو۔” اسامہ نے بابر کے کمرے میں گھستے ہی غصے سے کہا۔ ساتھ ہی شیشے کی طرف منہ کیے کھڑے تیار ہوتے بابر کی گردن بھی پیچھے سے دبوچی ۔
” میرا موبائل خراب ہے کوئی کال نہیں آئی۔ اور گردن چھوڑ میری۔ دو گھنٹے سے بال سیٹ کر رہا ہوں سب برباد کر دیا ۔ ” بابر نے گردن کو جھٹکا دیتے ہوئے چھڑایا۔
اسمامہ پیچھے کرسی کھینچ کر بیٹھا۔
” یہ تیاری کس خوشی میں۔ کس کے ولیمے میں جا رہا ہو ” بابر کی تیاری دیکھ کر سوال کیا۔
” ایک وکیل دوست ہے ۔ آج اسکے ولیمے میں ۔ اور بہت جلد خود کے ولیمے میں۔” پرفیوم کی شیشی اٹھائی اور دھیڑ سارا خود پر چھڑکا۔
اسمامہ کو بے اختیار اپنا سانس بند کرنا پڑا۔
” بیچاری لڑکی۔ چچ ۔۔چچ۔۔ مجھے افسوس ہے اس لڑکی کے لیے جو تم سے شادی کرے گی۔ چچ۔” اسامہ چھیڑنے والے انداز میں افسوس کر رہا تھا۔
” ہنس لو ہنس لو کل کو تم ہی آگے آگے ناچ رہے ہوگے بارات کے۔ ” خود پر ایک آخری طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے منہ بنا کر بولا۔
” میرا تو پتا نہیں لیکن میرے بچے ضرور تمھاری شادی پر ناچ لیں گے۔ کیونکہ ابھی تو دور دور تک اس کا کوئی چانس نہیں۔ ” ساتھ ہی زور دار قہقہہ لگایا۔
” آجا چلیں۔ دعوت کھا کر آتے ہیں۔ کیا معلوم وہاں تیری ہونے والی بھابھی بھی مل جائے۔ تم ساتھ ہوگے تو مشورہ بھی دیدو گے۔ ” بابر نے اسے اچانک سے آفر کی۔
” میں کہیں نہیں جارہا ۔ اور بہت تھکا ہوا بھی ہوں۔ ” اسامہ نے فورا انکار کیا۔
” دوست کی خاطر چل لے۔ میں وہاں اکیلا بور ہو جاوں گا ۔ بڑے بڑے لوگ آئے ہونگے وہاں ۔ مجھ جیسے عام اور نا تجربہ کار وکیل کے ساتھ کون بیٹھنا چاہے گا۔” بابر نے اب کی بار ٹھوڑی منت کی۔
” تھیک ہے ۔ میں فریش ہو جاوں ۔ ”
کچھ دیر بعد وہ دونوں عائشہ اور حمزہ کے ولیمے پر موجود تھے۔ بابر اسے کمپنی کے لیے ساتھ لایا تھا اور خود غائب ہو گیا تھا۔ اسے رہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھا۔ اس جگہ وہ زاتی طور پر کسی کو نہیں جانتا تھا۔۔ ایک بار وہ اسکے ہاتھ لگے پھر خبر لیگا اسکی۔
بیگانی شادی میں عبدللہ دیوانہ جیسی حالت ہورہی تھی اسکی جب اسکی نظر سٹیج پر موجود لڑکی پر پڑی۔ وہ دراز قد سرخ وسپید رنگت والی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ ڈانس کر رہی تھی۔ لڑکے کے کچھ کہنے پر پہلے وہ شاکڈ سی ہوئی پھر سر پیچھے گرا کر ہلکا سا ہنسی۔
اسامہ کی نظر اسی لڑکی پر جم سی گئی۔ اسکی ہر ایک ادا اسکے دل کو بھا گئی۔ یہاں آنے کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ اسکے دل نے تصدیق کردی۔
واپسی پر وہ بابر کو بتائے بغیر ہی آگیا۔ بابر پر آیا سارا غصہ بھی ہوا ہو گیا۔ زہن میں صرف ایک خیال رہ گیا اور وہ تھا سیمل کمال کا۔۔۔۔۔
□□□
وہ ہارن کی آواز تھی جو اسامہ کو واپس حال میں کھینچ لائی تھی۔ اچانک ایک تیز آنکھوں کو چوندیا دینے والی روشنی اسکی آنکھوں میں پڑی۔ بے اختیار اسنے چہرے کے آگے ہاتھ رکھا۔ بریک پر پاوں گیا لیکن وہ کام نہی کیے۔ گاڑی سڑک پر ٹھوڑی سی ڈولی اور سیدھا سامنے سے آتے ٹرک سے جا ٹکرائی۔
کچھ ہر دیر میں وہاں لوگوں پولیس اور ہسپتال کے عملے کا رش لگ گیا ۔
کار اور ٹرک میں تصادم ہوگیا ۔ ٹرک کا مالک تو بچ گیا مگر کار میں بیٹھا شخص سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے موقع پر ہی مر گیا۔
زخمی اور مردہ کو جب جائے وقوع سے ہتا لیا گیا۔ تو سڑک کے چاروں اطراف ” ڈو نوٹ اینٹر ” کی پیلی پٹی لگا دی گئی۔
پولیس کو ابھی زخمی اور مردہ کے گھر والوں کو اطلاع دینی تھی۔
□□□
موسی کی پریشانی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی۔ یوسف تھا کہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ اسے کیس ہارنے سے زیادہ یوسف کی فکر تھی۔ اسے کورٹ آنے سے روکنے کے لیے داود نے اسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچا دیا تھا۔ اسے یوسف پر بھی غصہ آرہا تھا۔ آخر اسے بتانا چاہیے تھا اسے کہ وہ عائشہ کے کہنے پر داود کی جاسوسی کر رہا تھا۔ اور شاید اسی کی وجہ سے اسے سکندر صاحب نے گھر سے نکالا تھا۔
وہ فلیٹ پر پہنچا تو سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
دراز سے تین چار گولیوں کے پتے نکالے اور پانی کے ایک ایک گولی گٹک لی۔
یوسف کے پاس کوئی ثبوت تھا مگر کونسا۔
اسکا زہن الجھا ۔
اگلے لمحے آفس میں موجود تھا جہاں عائشہ خود بھی پریشان سی بیٹھی تھی۔
” چار گھنٹے ہوگئے ییں اور یوسف کا کوئی پتا نہیں ہے۔ اگر اسے کچھ ہوا تو داود سے زیادہ اسکی قصور وار آپ ہونگی” وہ اسکی باس ہے یہ لحاظ کیے بنا وہ ٹیبل پر جھکتا دانت پیس کر بولا۔
” تم کیسے بات کر رہے ہو مجھ سے۔ ” عائشہ کا لہجا بے یقین ہوا۔
” میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میرا دوست لا پتا ہے۔ اور اگر اسے کچھ ہوا تو میں تمہے کبھی معاف نہیں کروںگا۔ اور اس روز خود ہی کہا تھا آپ نے کہ داود اپنے دفع میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آپ کوئی اور نہیں ملا تو میرے دوست کو ہی پھنسا دیا۔ ”
وہ پھٹتے ہوئے سر اور تیز ہوتے تنفر کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
” میں نے اسے فورس نہیں کیا۔ وہ خود مدد کرنا چاہتا تھا۔ اور ایسے بھی تو ہو سکتا ہے وہ داود کی ہی سائڈ پر ہو ۔ آخر اسکے ڈیڈ بڑے اچھے بزنس پاڑٹنر ہیں داود کے۔ کیا معلوم اسے سکندر صاحب نے فورس کیا ہو ۔ اور وہ داود کی طرف ہوگیا ہو۔ ” عائشہ نے الٹا سارا ملبا یوسف پر گرایا۔
” آہا ہا ” موسی استہزائیہ ہنسا۔
” یہ سب پہلے کیوں نہیں سوچا آپ نے ۔ یہ سب امکانات پہلے بھی تو سوچ سکتی تھیں آپ۔ اور اوپر سے مجھے بتایا تک نہیں۔ یہ غلطی ہوگئی مجھ سے کہ پوچھا نہیں کون آپکی مدد کر رہا ہے۔ اور آپ جسے دھوکے باز کہہ رہیں ہیں نا وہ آپکی مدد کے چکر میں اپنے گھر سے نکالا گیا۔ کونسا ایسا ثبوت تھا جس کی وجہ سے آج شاید میرا دوست مصیبت میں ہے۔ ” چبا چبا کر کہتا اب وہ عائشہ کا چہرا ٹکتا پوچھ رہا تھا۔
” وہ داود کی جاسوسی کر رہا تھا۔ اسنے داود کو بہت بار ریڈ لائٹ ایریا جاتے دیکھا تھا۔ داود ہمیشہ رینا نام کی لڑکی سے ملتا تھا۔ دراصل وہ اس جگہ پر ڈرگز کی ڈیلنگ کر رہا تھا ۔ اور رینا اسکی مدد کرتی تھی۔ وہاں آنے والے بہت سے گاہکوں کو ڈرگز سمگلنگ کی جاتی تھی جو کام بڑی راز داری کے ساتھ رینا کیا کرتی تھی۔ اس روز وہ وہاں رینا کا منہ کھلوانے گیا تھا لیکن اس کے رینا سے کچھ اگلوانے سے پہلے ہی رینا نے اس پر گن تان لی۔ کھینچا تانی اور بچاو میں گولی چل گئی۔ رینا مر گئی تھی اس روز۔ مگر نکلنے سے پہلے یوسف نے کمرے کی تلاشی لی تھی۔ اسے کچھ پیپرز ملے تھے جن میں تمام ڈیلنگز کا ریکاڑد تھا۔ اگر آج وہ فائل یوسف کورٹ لیکر پہنچ جاتا تو وہ ایک ٹھوس ثبوت ہوتا داود کے خلاف۔ ” عائشہ نے ساری حقیقت کھولی۔
” مڑڈر ۔ اس روز یوسف کے ہاتھوں ایک مڑدر ہوا تھا ۔ یہ بات ضرور داود کو بھی معلوم ہوگی۔ ہوسکتا ہے اس نے اس بات سے اسے بلیک میل کیا ہو۔ یہ آپ کا مسئلہ تھا ۔ آپ کا زاتی مسئلہ ۔ میری جاب تھی مگر یوسف ۔۔۔! ” آنکھ بند کرکے کنپٹی مسلی۔
” بے وقوف ” سر جھٹک کر بولتا آفس سے نکل گیا۔
□□□
دو مہینے ہوگئے تھے اسامہ کی موت کو۔ تائی اما نے اسے باتیں سنا سنا کر برا حال کیا ہوا تھا۔ انکی نظر میں اسامہ کی موت والے دن اسکا جھگڑا ہوا تھا سیمل سے کیونکہ اس روز وہ انہیں ٹھوڑا پریشان سا لگا تھا وہ اس سے پہلے کچھ پوچھتی وہ دوبارہ نکل گیا تھا۔ اور اب کی بار ہمیشہ کے لیے سب کی زندگیوں سے۔
ردا کبھی آجاتی تو ماں کو سمجھاتی۔ سیمل خود بھی انکی باتیں سنتی رہتی خاموشی سے۔ وہ بھی یہ ہی سمجھ رہی تھی کہ اسامہ اس روز اسکی وجہ سے گھر سے اپ سیٹ ہو کر نکلا تھا۔
غلط فہمیاں۔ اور اس
سیمل کی زندگی اور اسے سے جڑے بہت سے لوگوں کی زندگی میں غلط فہمیاں ہی بھری ہوئیں تھیں۔
” بیگم کیا قصور ہے سیمل کا ۔ ہر وقت اسے کوستی رہتی ہو۔ اسامہ صرف تمھارا بیٹا نہیں تھا وہ ہمارا بھی کچھ لگتا تھا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے مگر تمھارے ایسے سیمل کو طعنے دینے سے وہ واپس نہیں آسکتا۔ کبھی سوچا تم نے کہ اس پر کیا بیت رہی ہوگی۔وہ کیسے برداشت کرتی ہوگی اس سب کو۔ ایک ماہ کی دلہن سے بیوہ ہوگئی وہ۔ بہو کی حیثیت سے نہیں کم سے کم بھتیجی کی حیثیت سے ہی اس کا دکھ سمجھنے کی کوشش کرو۔ ” بلاآخر تایا ابا اپنا صبر کھو کر اس روز تائی امی کو انکی غلطی کا احساس دلانے کے لیے بول پڑے۔
” کوئی دکھ نہیں ہے اسے ۔ بہت خوش ہے وہ۔ وہ تو چاہتی ہی یہ ہی تھی کہ میرا بیٹا مر جائے۔ اسے یہ شادی منظور نہیں تھی۔ ” تائی امی بھی طیش سے بولیں۔
سیمل کچن میں کھڑی سب سن رہی تھی۔ کیا واقعی وہ چاہتی تھی اسامہ مر جائے۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا۔ ” تایا ابا سنجیدگی اور حیرت سے بولے۔
” میں صرف اپنے بیٹے کی وجہ سے چپ تھی۔ سیمل اسکی پسند تھی اور وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ نہیں تو میں ایک گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کو کبھی اپنی بہو نا بناتی۔ ”
تایا ابا کی جہاں حیرت سے آنکھیں پھٹی وہیں سیمل ساکت پٹھر سی ہوئی۔
” تمہے اندازہ بھی ہے کہ کیا کہہ رہی ہو۔ ” کافی لمحے بعد تایا ابا بامشکل بولے۔
” سچ کہہ رہی ہوں۔ مجھے تو نکاح کے بعد علم ہوا کہ آپ کی لڈلی بھتیجی گھر سے بھاگ گئی تھی۔ اور بےحیائی کی انتہاہ دیکھیں اگلے روز واپس بھی آ گئی تھی۔ پوچھیں اس سے کس منہ سے واپس آئی تھی۔ جب بھائی صاحب کی عزت اچھال کر چلی گئی تھی تو واپس کیوں آئی تھی تماشہ لگا نے۔ پوچھیں اس سے کون تھا وہ جس کی خاطر بھاگی تھی گھر سے۔
میں تو اس موقع کی تلاش میں تھی کہ سب کو حقیقت سے آگاہ کروں مگر۔۔۔۔ ” انکے الفاظ کو آنسوں نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔
تایا ابا پر یہ سب انکشاف بہت بھاری پڑے۔
وہ جو سیمل کی طرف داری کر رہے تھے انکی ساری مخالفت اسکی جانب اٹھنے لگی تھی۔
” سیمل ۔!” مٹھیاں بھینچ کر اس پکارا۔ انداز میں بلا کا طیش تھا۔
کچن میں کھڑی سیمل کانپ سی گئی۔
” کیا تمھاری تائی امی ٹھیک کہہ رہیں ہیں۔ ” اسکے آتے ہی وہ پوچھنے لگے تھے۔
” جج جی۔ ۔۔۔ ” وہ لرزتی آواز میں بولی ۔
تایا ابا نے ہاتھ اٹھا کر خاموش ہونے کا کہا۔
” اپنا ساماں باندھ لو۔ کمال سے کہتا ہوں تمہے لے جائے۔ ایک بد کردار لڑکی کی میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔ اب اس گھر سے تمھارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مجھے ہر گز یہ گوارا نہیں کہ لوگ مجھ پر یا میرے گھر والوں پر تمھاری وجہ سے باتیں بنائے یا طعنا کسیں۔ ” سنجیدگی اور سخت لہجے میں تایا ابا نے اسے اپنا فیصلہ سنایا۔
” آپ نے یہ تو کہہ دیا میں گھر سے بھاگ گئی تھی۔ میں بد کردار ہوں مگر یہ نہیں جانیں گے کہ کیوں بھاگی تھی۔ کس وجہ سے بھاگی تھی۔ ” آنسوں سے بھاری ہوتی آواز میں وہ تقریبا چکائی تھی۔
تایا ابا اور تائی امی دونوں اسکے انداز پر دنگ رہ گئے تھے۔
” ابا جانتے تھے میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں۔ پھر بھی انہوں نے اپنی مرضی مجھ پر مسلط کی۔ آخر کیوں ایک لڑکی کو اسکی مرضی کا حق نہیں ہے۔ اگر وہ زبردستی نا کرتے تو شاید یہ سب نا ہوتا۔ ایک بار صرف ایک بار وہ مجھ سے میری مرضی پوچھ لیتے۔ اور وہ جانتے بھی تھے کہ میں کیا چاہتی ہوں مگر پھر بھی۔ ۔۔ ”
گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے وہ زارو قطار رو پڑی۔
” انہیں لگتا تھا اسامہ سے شادی ہوکر سب ٹھیک ہو جائے گا میں موسی کو بھول جاوں گی۔ لیکن یہ تو مر کر بھی ناممکن ہے۔ ہاں بھاگ گئی تھی میں گھر سے ۔ ہاں یہ قصور تھا میرا کہ خود کے لیے ایک فیصلہ کیا تھا اور یہ قصور بھی کہ برسوں جو خواب دیکھا وہ تعبیر سے پہلے ہی ٹوت چکا تھا۔ ” اتنے عرصے کی برداشت آج گویا ہار مان گئی تھی۔
” اور میں منحوس نہیں ہوں۔ نہیں ہوں میں منحوس۔ ” گلا پھاڑ کر غرائی۔
” اور تائی امی بے شک میں اسامہ کو پسند نہیں کرتی تھی مگر وہ میرا شوہر تھا۔ میرا کزن تھا میں کیوں چاہوں گی کہ وہ مر جائے۔ میں تو سب کچھ قسمت سمجھ کر قبول کر چکی تھی مگر ۔۔۔۔ ” ایک بار پھر الفاظ حلق میں اٹکے۔
” دیکھ رہے ہیں آپ ۔ کیسے زبان درازی کر رہی ہے۔ یہ ہوتا ہے بن ماں کی تربیت کا نتیجہ ۔ میں کہتی ہوں ابھی بھائی صاحب کو بلوائیں اور اسکو میرے گھر سے روانہ کریں۔ میں اب زندگی بھر اسکی شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ ” تائی امی اس پر ایک نفرت بھری نظر ڈال کر کمرے سے نکل گئیں۔ اسکی موجودگی بھی انہیں کھٹک رہی تھی۔
کمال صاحب آئے تو تایا ابا نے انہیں اچھی خاصی سنا کر رخصت کیا۔ صرف سیمل کی غلطی کی وجہ سے وہ خاموشی سے سب سن کر اسے لیکر ساتھ آ گئے۔
اسکا خیال تھا کہ ابا گھر آکر اسے بہت سنائے گے مگر وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ کئی دن یہ خاموشی بر کرار رہی۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے خطا کار تھے۔ دونوں ہی خود خو قصور وار سمجھ رہے تھے۔ اور اس سب کے درمیان سنی بہت متاثر ہو رہا تھا۔ اسکے زہن پر بہت برا اثر پڑھ رہا تھا۔
□□□
” کیا اس طرح خود کو کمرے میں بند کرنے سے خود کو سچائی سے بچالو گی۔ نہیں ۔ اس طرح تمھاری تکلیف اور بڑھے گی۔ اب جبکہ سچائی تمھارے سامنے آچکی ہے تو پوری طرح سے اس کا سامنا کرو ۔ اب تک تم ایک غلط شخص سے نفرت کرتی آئی ہو۔ دیکھو مایا ۔ تمہے موقع مل رہا ہے اپنی غلطی سدھارنے کا ۔ اس سے مل کر ساری غلط فہمیاں دور کرلو۔ اس طرح یوں کمرے میں بند ہونے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ” مایا کیڈنیپنگ کیس کے یہ دو روز بعد کی بات تھی۔ دو دن سے وہ کمرے میں بند تھی۔ سروت نے اسے سمجھانے کا فیصلہ کیا اور اب وہ اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھیں کہہ رہیں تھیں۔ وہ اب اسے حیا کی بجائے مایا کہتی تھیں۔
” میں اسکا سامنا کیسے کروں گی۔ ” بکھرے بالوں میں انگلیاں گھسیڑتی وہ الجھن سے بولی۔
” پہلے یہ سوچتی تھی کہ میں اسے کیسے معاف کروں گی۔ اب یہ سوچ کر سر پھٹ رہا ہے کہ وہ مجھے کیسے معاف کرے گا۔ میں کیا کہوں گی اس سے۔ ناجانے وہ مجھ سے ملنا بھی چاہے یا نہیں ” ۔ سر پھر سے ہٹھلیوں میں دھس دیا۔
سروت نے اسے افسوس سے دیکھا۔
” جانتی ہو تمھارا مسئلہ کیا ہے۔ تم شروع سے بلکہ ہمیشہ سے اپنے خیالات میں عدم اعتماد کا شکار ہو۔ سب مسئلے پہلے سے پہلے سوچ لینے اور غلط فہمی کے ہیں۔ تم پہلے سے ہی ہر بات کو سوچ لیتی ہو۔ پہلے سے ہی سب فرض کر لیتی ہو۔ تمھارا کزن تمہے پسند کرے گا اس بات کا فرض ۔ یوسف اور تمھاری دوست کے درمیان کچھ ہے اس بات کا فرض ۔ یوسف نے تمھارا کیڈنیپ کیا اس بات کا فرض۔ اور ان سب فرضی باتوں کو اس قدر خود پر سوار کر لیا کہ یہ تمہے حقیقت لگنے لگیں۔ اور جب حقیقت اس کے برعکس ہوئی تو تمہے تکلیف ہو رہی ہے۔ حالانکہ حقیقت تمھارے اچھے میں جا رہی تھی لیکن تم نے ہر دفعہ منفی پہلو کو ہی فرض کیا۔
اور اب تمھارا زہن اس قدر منفی سوچ رہا ہے کہ یہ مثبت حقیقت کو بھی ماننے سے انکاری ہے۔
میں ایک نیورولو جسٹ ہوں اور اتنے عرصے میں تمھاری نفسیات کو اس حد تک تو جان ہی چکی ہوں۔” سروت نے اس کی نفسیات کا خلاصہ کیا تھا گویا اور اسکی غلطی کی بھی نشاندہی کی تھی۔ انکا مقصد اسے اس عدم اعتماد سے نکالنا تھا۔ جس خا خول وہ خود پر چڑھائے بیٹھی تھی۔
” مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ کیسے میں خود کو درست کر سکتی ہوں۔ ” ایک امید کے تحت مایا نے سر اٹھایا ۔
” خود میں سے منفی سوچ نکال کر۔ تمھارے ارد گرد کے لوگوں نے خاص کر تمھاری اپنی فیملی نے تمھارے ظاہری شخصیت پر اس قدر طعنے دیے ہیں اور ڈی گریڈ کیا ہے کہ تم خود بھی یہ ہی سوچنے لگی ہو۔ سب تمھارے رنگ کو باتیں بناتے ہیں ۔ حیدر نے کہا تھا کون تمہے پسند کرے گا۔ حیدر اور باقی سب کی آنکھوں نے تمھارا رنگ دیکھا ہے۔ اور یہ جہالت ہے جہاں محض رنگ اور ظاہری شخصیت کی بنا پر کسی کو ڈی گریڈ کیا جائے۔ کسی کو خود سے کم سمجھا جائے۔” سروت تفصیلا کہہ رہی تھیں اور وہ دم سادھے سن رہی تھی۔
” لوگوں نے ایسی باتیں کر کے تمھارے زہن کی رو کو منفی طرف کر دیا ہے ۔ اور کچھ تو یہ باتیں اس لیے بھی کرتے ہونگے کیونکہ وہ تم سے حسد کرتے ہیں یا جیلس ہیں۔ ”
” حسد ۔ مگر کیوں ؟”
” تم نے اپنی آنکھیں دیکھیں ہیں۔ تمھارے پوری فیملی میں کسی کی آنکھیں اس قدر حسین نہیں ہونگی۔ تمھاری آنکھیں تمھاری شخصیت کی خوبصورت چیز میں سے ایک ہے مگر سب سے زیادہ اہم چیز سیرت ہوتی ہے” وہ ایک لمحے کو سانس لینے کو رکی۔
مایا کا دماغ انکی باتیں تیزی سے ہضم کر رہا تھا۔
” کچھ لوگ کبھی صورت کے دائرے میں سے نکلتے ہی نہیں ہیں۔ انکے نذدیک صرف ظاہری شخصیت ہی معنے رکھتی ہے۔ وہ ظاہری شخصیت پر ہی تمہے جج کرتے ہیں اور منفی اور مثبت ریمارکس دے دیتے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ کو ظاہری شخصیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ وہ انسان کی سیرت کو پرکھتے ہیں۔ وہ تمہے تمھارے کردار اور قابلیت کی بنا پر جج کرتے ہیں۔ تم سمجھ رہی ہونا ”
اپنی تسلی کے لیے پوچھا کہ وہ سمجھ بھی رہی ہے یا نہیں۔
” میں سمجھ گئی ہوں۔ میں سمجھ گئی ہوں کہ مجھے پہلے سے پہلے ہر بات فرض نہیں کر لینی۔ مجھے مستقبل کی فکر کرنی ہے مگر اس کو خود پر حاوی نہیں کرنا ہے۔ لوگوں کی باتوں میں مثبت پہلو ڈھونڈنا ہے۔ کسی کے میرے رنگ کو برا کہنے سے مایوسی اور عدم اعتماد کا شکار نہیں ہونا ہے۔ مجھے اللہ نے بنایا ہے اور مجھے اللہ نے بہت خوبصورت بنایا ہے۔ کسی کے مزاق بنانے سے میں ہر گز بد صورت نہیں ہو جاوں گی۔ ” اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی۔ ہلکے سبز رنگ کی آنکھوں میں چمک تھی۔ سروت کو اتنے عرصے میں پہلی بار وہ چمک نظر آئی تھی۔
” مجھے خوشی ہے کہ میں تمہے سمجھا سکی۔” سروت بھی مسکرائی ۔
” مگر یہ تو دماغ کا معاملہ تھا ۔ دل کا معاملہ وہیں ہے۔ جو تکلیف دل کو پہنچی ہے اس کا مرحم کیسے ملے گا ۔” اسنے سروت کے سامنے سوال رکھا تھا۔
” دعا سے ۔ اللہ سے دعا کرو کہ تمھارے دل کو سکون نصیب ہو۔ شکر کرو کہ تمھارا دل پتھر نہیں ہے۔ معافی مانگوں اپنی غلطیوں کی ۔ ان شکووں کی جو تم اللہ سے کرتی تھی صرف اس لیے کہ لوگ تمھے باتیں کرتے تھے۔ کیا لوگوں کی باتیں طعنے اور مزاق اس قدر اہم تھے کہ تم اپنے اللہ سے گلہ کرنے لگی۔ تم خود سے ہی نفرت کرنے لگی۔ ” سروت کا لہجا زرا بھاری جھنجھوڑ دینے والا ہوا۔
مایا کچھ بولی نہیں بس خاموشی سے سر ہلا دیا۔
” جو ہوگیا اس کی معافی مانگو۔ جو ہونےبوالا ہے اسکے بہتر ہونے کی دعا کرو ۔ تمھارے فیصلے درست ہو ۔ تم صحیح قدم اٹھاو اسکے لیے مدد مانگو۔ اور سب سے اہم دل کا قرار مانگو ۔ زہن کی پختگی مانگو کہ تبھی تم درست فیصلے کر سکو گی۔ اور تمھارے ہر فیصلے میں اللہ کی رضا ہو یہ بہت ضروری ہے۔ تمھاری من چاہی خواہش اگر پوری نا ہو تو یہ سوچنا کہ اس میں تمھاری بہتری نہیں تھی۔ اور جو ہوتا ہے وہ بھی بہتری کے لیے ہوتا یے کبھی غور کرنا اس بات پر۔” وہ اسے سوچوں میں غرق چھوڑ کر کمرے سے نکل گئیں۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔ وضو کیا اور جائے نماز پر بیٹھ گئی۔ خطاوں کی معافی۔ فیصلوں میں پختگی اور رضا کی دعائیں۔ بلاآخر وہ کافی دیر بعد ایک فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اسے یوسف سکندر سے ملنا تھا اور تمام غلط فہمیاں دور کرنی تھیں۔ اسے معافی مانگنی پڑے وہ مانگے گی۔ مگر۔۔۔ اور اس مگر سے آگے اس نے اپنی سوچ کو منفی نہیں ہونے دیا۔ دل میں چپھے تمام خدشات کو جھٹک دیا اور اللہ سے مدد طلب کی ۔۔۔
□□□
ابا روز صبح ڈیوٹی پر چلے جاتے تھے۔ وہ ایک ہفتہ تک گھر میں بند رہی پھر جاب شروع کردی۔ جاب کا فیصلہ صرف اور صرف زہن کو مصروف رکھنے اور اسے زہنی بیماری سے بچانے کے لیے تھا۔ رات کو سونے سے پہلے سنی کچھ دیر اس کے پاس بیٹھتا تھا۔ اپنے دن بھر کی روٹین سناتا تھا جسے وہ بظاہر دلچسپی سے سنتی تھی۔ جب وہ یہاں نہیں تھی سنی کا زیادہ تر وقت نور بابا کے ساتھ گزرتا تھا۔
سنی جب سو جاتا تو وہ وضو کرتی۔ جائے نماز لیکر بیٹھ جاتی۔ نیند تو ویسے ہی آنکھوں سے خفا ہو چکی تھی۔ عشاء کی نماز پڑھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی۔ غلطیوں کی معافی۔ وہ کسی خواہش کی تکمیل کے لیے دعا نہیں کرتی تھی بلکہ اس چیز کے لیے دعا کرتی جو اس کے لیے بہتر ہے۔ ۔ ساری خواہشیں گویا ختم ہو چکی تھیں۔ خود کو ہر تمنا سے آزاد کر لیا تھا۔ دل کو اللہ کے فیصلے پر تابع کر لیا تھا۔
سیمل اور کمال صاحب کے درمیان جو دیوار تھی اس میں اس شام ٹھوڑی سی دڑار پڑی۔
اور کمال صاحب نے ہی وہ دڑار ڈالی تھی۔
” جو خط تم چھوڑ گئی تھیں ۔ وہ پڑھا تھا میں نے اور بہت غور بھی کیا تھا اس پر۔ ” شام کے کھانے پر وہ تینوں جب میز کے گرد موجود تھے تب کمال صاحب ایک دم بول اٹھے۔ وہ جو بے دلی سے پلیٹ میں چمچا چلا رہی تھی ایک دم ٹھٹکی۔
” تھیک کہا تھا تم نے۔ میں بے جا موسی سے آج تک نفرت کرتے آیا تھا۔ اسے قصور وار سمجھتا آیا تھا۔ میں غلط تھا۔ تمھارے کہنے پر مینے اسے تلاش کیا تھا۔ تاکہ اس سے معافی مانگ سکوں۔ ”
سیمل کا سانس اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے ہوا۔
” میں نے اس تلاش تو کر لیا مگر میں خود میں اس سے معافی مانگنے کہ ہمت پیدا نہیں کر سکا ۔ ” کمال صاحب کہہ رہے تھے۔ اور وہ ساکت سی سن رہی تھی۔
” ابا آپ نے کم سے کم ایسا سوچا تو ۔ کم سے کم اب آپ اسے قصور وار تو نہیں سمجھتے نا ” گلے میں کچھ تھا جو بار بار اٹک رہا تھا۔ شاید آنسووں کا گولہ
” اب وہ جہاں بھی جیسے بھی ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ اور بلکہ وہ تو بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ شادی کرلی یے اس نے ایک بیٹی ہے اسکی۔ ابا اچھا ہوا نا اس نے شادی کرلی۔ میری غلط فہمی بھی دور کردی اور میری منحوسیت سے بھی بچ گیا۔ ” وہ بےدردی سے کھوکھلا سا ہنسی۔ ۔
” مگر اس نے شادی تو نہیں کی۔ وہ بچی اسکی باس کی بیٹی ہے۔ ” کمال صاحب نے حقیقت بتائی ۔ سیمل کو لگا وہ سانس نہیں لے سکے گی۔
آدھی بات سے پوری بات کا تصور کرلینا۔ پہلے سے پہلے ہی ہر چیز کو فرض کر لینا۔ اور غلط فہمی کا شکار ہوجانا ۔ وہ بھی اپنے ساتھ یہ ہی ظلم کر چکی تھی۔
سیمل جیسی عقلمند لڑکی ایسا کیسا کر سکتی تھی۔شاید معاملہ دل کا تھا ۔ دل کا معاملہ جو زہن کو مووف کر دیتا ہے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ۔۔۔۔
□□□
اسکی آنکھ کھلی تو خود کو بستر پر موجود پایا ۔ کمرے میں کھنکھی پھیلی تھی۔ جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ زہن کچھ پل کوئی بھی چیز سمجھنے سے انکاری رہا۔ پھر آہستہ آہستہ شعور بیدار ہوا۔ وہ کہاں تھا۔ وہ کیا کر رہا تھا۔ اس کورٹ پہنچنا تھا۔ رینا کے پاس سے ملی فائل اسے کورٹ پہنچانی تھی۔ وہ بہت تیزی میں تھا ۔ جب سڑک پار کرتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکڑا گیا تھا۔ اسکے بعد ہوش کی وادیاں کہیں ڈوب چکی تھیں۔
مگر اب وہ کہاں تھا۔ اسنے اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھا نا گیا ۔ اچانک کمرے میں روشنی ہوئی تو دیکھا اسکی ٹانگ پٹیوں میں جکڑی ہوئی تھی۔ جسم سے الگ اور بے حس محسوس ہو رہی تھی۔
” میرا نام زینت ہے۔ لائٹ جلانے والی عورت نے کہا۔ یوسف نے اسکی طرف چہرا موڑا۔
” میری کار سے تمھارا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ میں تمہے ہوسپیٹل سے یہاں لائی ہوں۔جب تک تم ٹھیک نہی ہو جاتے ۔ تم یہی رہو گے۔ ” زینت قدم با قدم چلتی بیڈ تک آئی۔
وہ بے یقینی سے اس عورت کو دیکھ رہا تھا ۔
” آج کیا تاریخ ہے ” اڑتے ہوئے الفاظ لب سے نکلے۔
” 14جون ”
یوسف کا دماغ بھک سے اڑا ۔
□□□
[ ] ” مجھ سے وعدہ کرو میری بیٹی کی حفاظت کرو گے۔ اسے داود سے بچا کر رکھو گے ۔ ” وہ اکھڑتے ہوئے سانس سے بولی۔
[ ] موسی اسکے پاس کھڑا تھا۔ وہ بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر واضح زکر بیٹی کا تھا۔ پری کا تھا۔
[ ] ” تم خود اپنی بیٹی کی حفاظت کرو گی۔ ” موسی نے ایک دم اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا مگر اگلے جملے سے پہلے ہی وہ رک گیا ۔ وہ ہاتھ سرد تھا ۔ بے جان تھا۔
داود حمدانی نے اپنی تباہی قبول نہیں کی تھی
جب سارے پاسے اسکے خلاف جارہے تھے اسنے یہ آخری حربہ اپنایا۔ مخالف کو راستے سے ہٹانے کا اور وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا اس میں۔
موسی نے ایک تکلیف دہ سانس لی ۔ جو جنگ وہ شروع نہیں کرنا چاہتا تھا داود حمدانی کر چکا تھا۔
یہ انتہاء تھی اور اب اسے ہر حالت میں اسے روکنا تھا۔ یہ معاملہ اب اسکا زاتی بن چکا تھا۔
□□□