باذل نے شوٹ سے فری ہونے کے بعد شانزے کے ساتھ چائے پی اور پوچھا…
” شانزے کیابات ہے ؟
تم خوش نہیں ہو کیا…؟؟
وہ اس وقت کسی سوچ میں گم تھی اسکے سوال پہ اک دم چونکی….
ارے نہیں تو ایسی تو کوئی بات نہیں ہے….!!
تمہیں کیوں لگ رہا ہے ایسا…؟؟؟
شانزے نے چائء کا سپ لیتے ہوئے اس سے پوچھا…
بس جب اس دن ہم تمہارے گھر آئے تھے تو تم مجھے کھوئی کھوئی سی لگی تھیں اسلیے میں نے پوچھا…..
تمہیں کوئی اور پسند ہے تو بتادو شانزے میں ہٹ جاؤں گا رستے سے….
باذل نے اس سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اس سے سوال بھی کردیا….
وہ جانتا تھا شانزے کے کئی امیدوار ہیں اور ہوسکتا ہے کہ شانزے کسی اور میں انٹرسٹڈ ہو….
ارے نہیں باذل ایسا کچھ نہیں ہے بس ایسے موقع پہ ماما کی کمی محسوس ہورہی ہے تو بس اسلیے اور پاپا کے بھی یہاں کوئی رشتہ دار نہیں ہیں میں بچپن سے اکیلی ہی پلی بڑھی ہوں میں نے کسی رشتے کو نہیں دیکھا سوائے پاپا اور ریشماں بوا کے…
ماما کی دیتھ تو میری پیدائش کے چند برس بعد ہی ہوگئی تھی تو میں انکے قریب ہی نا ہوسکی اور پاپا نے مجھے بہت لاڈ سے پالا میری ہر خواہش پوری کی ہے مجھے روپے پیسے کی کبھی کوئی کمی نہیں ہوئی اور جہاں تک بات ہے کہ میرے کسی اور کو پسند کرنے کی
تو ایسا کچھ نہیں ہے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تو تم ہی مجھے اچھے لگے تھے
بس باقی امیدوار تو بہت ہیں مگر میں کسی کو اپنے قابل نہیں سمجھتی اسلیے تم نے مجھے چنا اور میں نے تمہیں…..”
شانزے نے تفصیل سے وضاحت دی اور باذل مطمئن ہوگیا….
اور اسکے ہاتھ پہ اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگا..”
ڈئیر شانزے تمہیں میرے گھر میں بھی کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی”
شانزے نے کہا مجھے یہی امید ہے…..”
اور میں تمہاری امید پہ پورا اترنے کی کوشش کروں گا…”
باذل نے اسکو یقین دلاتے ہوئے کہا اسکی آنکھوں میں اسکے لیے بے پناہ محبت تھی اسکو وہ حسین لڑکی اپنے ہر روپ کے ساتھ قبول تھی…..”
*******
منگنی کی تیاری ہونے لگی تھی باذل نے مکرم سے کہہ دیا تھا کہ ابھی وہ شوٹ پہ نہیں جائے گا وہ شانزے کے لیے بہت کچھ لینا چاہتا تھا اسکی پسند سے….
اور اسنے شانزے کو بھی کہہ دیا تھا کہ وہ شام کو تیار رہے وہ اسکو لینے آئے گا شاپنگ پہ لے جانے کے لیے…..
ہادیہ بیگم نے بھی اپنے بہن بھائیوں کو باذل کے رشتے کے بارےمیں بتادیا تھا اور منگنی میں آنے کی دعوت بھی دی تھی….
انکی بہن کی بہت خواہش تھی وہ اپنی بیٹی کو ہادیہ کی بہو بنتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھیں
مگر جب ہادیہ نے باذل کی پسند کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہ وہ مجبور ہیں اپنے بیٹے کی وجہ سے تو وہ خاموش ہوگئیں…..
مگر دل میں اک حسرت تھی انکی بیٹی مونا بھی باذل کو پسند کرتی تھی مگر ان سب سے ہٹ کر شانزے بازی لے گئی تھی
اور باذل کی کئی امیدواروں کی طرح مونا کا دل بھی ٹوٹ گیا تھا…..
مگر وہ لڑکی بس چپ چاپ اپنے دل ٹوٹنے کا تماشا دیکھ رہی تھی…..
اور اپنے محبوب کے لیے دعا گو تھی…..
باذل شانزے کو مارکیٹ لے آیا تھا اسکی چوائس بہت اچھی تھی اور کافی ایکسپینسیو بھی تھی
مگر کمی تو باذل کے پاس بھی نا تھی اس نے اسکو اسکی پسند کے مطابق ساری چیزیں دلوادیں تھیں…..
اس روز شانزے بہت خوش تھی گھر واپسی سے پہلے ان دونوں نے ساتھ اک اچھے سے ریسٹورینٹ میں ڈنر بھی کیا وہ دونوں اک ساتھ کافی خوش تھے…..
اور انکی یہی خواہش تھی کہ آنے والی زندگی انکی ایسے ہی خوشگوار گزرے…..
شانزے نے اسکو یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا…..
مگر وقت کا دھارا کب بدل جائے کب کیا سے کیا ہوجائے کون جان سکتا ہے….
سوائے اللّٰہ کی ذات کے….
حریم اک روز صفائی کرتے ہوئے ناجانے کیوں اسکی تصویر دیکھ کر بےقرار ہوگئی وہ ہمیشہ اسکی تصویر کو بس دیکھتی تھی
مگر اس روز اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور وہ اسکی تصویر سے باتیں کرنے لگی….
” کاش آپ میرے ہوسکتے کبھی….
میں نے آپکو بہت چاہا ہے
مگر قسمت کبھی مجھے آپکا نہیں ہونے دیگی….
چند روز….
صرف چند روز ہیں پھر میں آپ سے ہمیشہ کے لیے دور چلی جاؤں گی
، کاش….
کاش ایسا ہوسکتا کہ آپ مجھے روک لیں…..
کاش آپ مجھے اپنا بنالیں….
کاش آپ کہہ دیں کہ حریم تم میری ہو…..
وہ بے اختیار روئے جارہی تھی اور کہے جارہی تھی….
جدا ہونے کا غم اسکو رلا رہا تھا…..
مگر آج وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی…. وہ اس کے سامنے اظہار نہیں کرسکتی تھی نا اس سے کچھ کہہ سکتی تھی کیونکہ وہ مالک تھا وہ غلام تھی وہ کیسے اسکی بن سکتی تھی یہ ناممکن تھا…..
اسکے بس میں کچھ نہیں تھا ہاں وہ روسکتی تھی دعا کرسکتی تھی…..
شاید قسمت مہربان ہوجائے اس پہ….
مگر ایسا کہاں ہوسکتا تھا…..
اسکو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کتنی زور سے بول رہی ہے، دروازہ کے باہر کھڑے شخص نے اسکی ساری باتیں سن لی تھیں….
باہر کھڑے اس شخص کو اندازہ تھا کچھ کچھ….
کیونکہ عشق اور دھواں چھپائے نہیں چھپتے….
مگر اب یقین ہوچلا تھا کہ حریم اس سے محبت نہیں عشق کرتی ہے……
اور وہ…؟؟؟
*****
منگنی کا دن آپہنچا تھا اک چھوٹی سی تقریب میں باذل نے شانزے کو اور شانزے نے باذل کو اپنے نام کی انگوٹھی پہنا دی تھی….
جہاں وہ دونوں خوش تھے وہیں کسی کے دل کا خون ہوا تھا،
آنکھوں میں نمی تھی جس کو اس نے بہت محتاط انداز میں صاف کیا تھا….
وہ خوش تھا اور وہ اسکی خوشی میں خوش تھی….
مگر گھر آکر وہ بہت روئی…..
مونا بیٹا سنبھالو خود کو… ایسے نا رو میری جان میری گڑیا…..!!!
ہادیہ کی بہن نازیہ نے اپنی بیٹی مونا کو سمجھاتے ہوئے کہا…. وہ انکے گلے لگ کے بہت رورہی تھی وہ باذل سے بہت محبت کرتی تھی وہ کسی اور کا ہوگیا تھا ….
نازیہ اسکو تسلی دے رہی تھیں انہوں نے اسکو حوصلہ دیا، اسکی طرف سے بہت فکر مند ہورہی تھیں،
ہادیہ بھی مونا کو اپنی بہو بناناچاہتی تھیں مگر باذل کی مرضی نہیں تھی وہ اس سے زبردستی کیسے کرسکتی تھیں بس انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا باذل سےمگر اس نے صاف انکار کردیا تھا اور شانزے کو دیکھا تو پہلی نظر میں اسکو اپنا دل دے بیٹھا اور اسی سے ہی شادی کی خواہش ظاہر کی…..
ہادیہ بھی بہت شرمندہ تھیں وہ اپنی بہن اور بھانجی سے نظریں نہیں ملا رہیں تھیں مگر نازیہ نے انکی شرمندگی دور کردی اور کہا…”
آپی آپ شرمندہ نا ہوں اس میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے….
یہ تو قسمت کی بات ہے بس اور رشتے تو آسمانوں پہ بنتے ہیں ہم زمین والوں کی کہاں مرضی چلتی ہے جو نصیب ہوتا ہے وہ خود چل کر آتا ہے اور باذل کا نصیب شانزے کے ساتھ جڑا ہے اور یہی حقیقت ہے اسکو تسلیم کرلینا چاہیے…..”
ہادیہ نے افسردہ ہوکر انکو دیکھا تو نازیہ نے انکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر انکو تسلی دی…..
ہادیہ نے اپنے بہن بھائیوں کو روک لیا تھا منگنی کی تقریب کے بعد مگر انکے دونوں بھائی اور بھابھیاں چلی گئیں تھیں بس بہن اور بھانجی رک گئیں تھیں سو صبح فجر تک وہ دونوں جاگتی رہیں اور باتیں کرتی رہیں مونا الگ کمرے میں تھی….
وہ مونا کے کمرے سے نکل کر ہادیہ کے پاس آگئیں تھیں اور بہت افسردہ سی تھیں مگر ہادیہ کو افسردہ دیکھا تو انکو سنبھالنے لگیں……
******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...