ایمان کیا کر رہی ہو ایمان اس وقت ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی ہوئی تھی -نائلہ ایمان کے پاس ہی بیٹھ گئی -بس نائلہ آپی ٹی وی دیکھ رہی تھی – ایمان پھر شام کو فری ہو تو میرے ساتھ شاپنگ پر چلو گئی -کیوں نہیں آپی میں بھی کچھ دن سے شاپنگ کے بارے میں سوچ رہی تھی کچھ چیزیں لینے تھی – آپی زوہیب بھائی کی منگنی کی شاپنگ مکمل ہو گی -ہاں ایمان وہ تو امی جان اور چچی نے مکمل کر لی ہے -اور سناؤ ایمان تمہاری یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے -بس ٹھیک جا رہی ہے آپی -اچھا فائزہ کیسی ہے میں تو کب سے ملی نہیں ہوں -آپی ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی – میں زوہیب بھائی کی منگنی پر انوائٹ کروں گی آپ مل لینا -ہاں یہ ٹھیک ہے –
ایمان رات کے اس وقت اپنے بیڈروم میں بیٹھی اسائنمنٹ تیار کر رہی تھی – پتہ نہیں یہ سکندر اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے کہہ کیسے مزے سے رہا تھا مجھے آپ سے محبت ہے شادی کرنا چاہتا ہوں- پتہ نہیں ایسے لڑکے کہاں سے آجاتے ہیں ہوں سکندر کی وجہ سے آج مجھے اتنی رات کو بیٹھ کر اسائنمنٹ تیار کرنی پڑ رہی ہے -اس وقت دل میرا کر رہا تھا ایک تھپڑ لگا دو پھر پتہ چل جاتا اس میں کیسی لڑکی ہوں -یہی سوچ کر میں نے اس کو چھوڑ دیا کہ یونیورسٹی میں میرا بھی تماشا بن جائے گا -میں بھی میرے خیال میں فضول میں سکندر کو سوچ رہی ہوں -اب اسائنمنٹ مکمل کرنی چاہئے-
**************
سکندر بیٹا کیا کر رہے ہو سکندر اس وقت رائٹنگ ٹیبل کے پاس بیٹھا اسائنمنٹ تیار کر رہا تھا ۰ پاپا آپ اس وقت ہاں سکندر کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی یہاں سے گزار رہا تھا تو تمہارے روم کی لائٹ آن دیکھی تو چلا آیا – وہ باپ کو شانوں سے تھامے بیڈ پر بٹھاتے ہوئے بولا پاپا کیا ہوا ہے مجھے تو مما اور فاطمہ نے بتایا ہی نہیں کچھ آپ نے میڈیسن لی ہے -سکندر بیٹا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہاں میرے پاس بیٹھ جاؤ بس ہلکا سا سر میں درد ہے ٹھیک ہو جائے گا میڈیسن لی ہے “- جی پاپا ” اچھا بیٹا صبح یونیورسٹی میں کوئی خاص کام تو نہیں وہ بات کرتے ہوئے اس وقت غور سے اپنے فرمابردار بیٹے کو دیکھ رہے تھے جو اس وقت نیلی جینز اور بلیک ٹی شرٹ میں ملبوس بھورے آنکھیں بلیک بالوں کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہا تھا -پاپا نظر لگانی ہے آج آپ نے اپنے بیٹے کو سکندر مسکراتے ہوئے بولا -ہاہاہاہا نہیں یار ویسے میں دیکھ رہا تھا میرا بیٹا کتنا بڑا ہو گیا -اچھا پاپا آپ کوئی یونیورسٹی کی بات کر رہے تھے تو مجھے کل کوئی خاص کام نہیں ہے آپ کو کوئی کام تھا -ہاں سکندر بیٹا آفس تو پہلے بھی آتے جاتے ہو کبھی کبھی تو میں سوچ رہا تھا کل کی میٹنگ تم دیکھ لینا میری کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو شاید میں کل آفس نہ جاؤں -جی پاپا آپ کل ریسٹ کریں آپ کی طبیعت بھی ٹھیک ہو جائے گی آپ میٹنگ کی فکر نہ کریں وہ میں دیکھ لوں گا -اوکے سکندر بیٹا میں چلتا ہوں تم بھی سو جاؤ رات بہت ہو گئی ہے شب بخیر -جی پاپا میں بھی بس سو رہا ہوں شب بخیر –
پیاری ڈائری آج میں نے اس لڑکی سے محبت کا اظہار آخر کار کر ہی دیا -لیکن اس نے تو میری باتوں پر یقین تک نہیں کیا اس کے خیال ہے کہ میں اس کو بیوقوف بنا رہا ہوں -مجھ سمجھ نہیں آرہی ہے اب کیسے اس کو یقین دلاؤں کہ میں کوئی دھوکہ نہیں دے رہا نہ ہی ٹائم پاس کے لیے ایسا بول رہا ہوں -خیر میں پھر بات کرؤں گا -مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہے سکتا میں بہت زیادہ اس سے محبت کرنے لگا ہوں -مجھے اپنے اللہ پر یقین ہے کہ ایک دن اس کو میری محبت پر یقین آ جائے گا -اوکے پیاری ڈائری آج بہت باتیں ہو گئی کل صبح مجھے آفس بھی جانا ہے اب شب بخیر –
السلام علیکم کیا حال ہے آج تو سکندر بیٹا ہمارے آفس آیا ہوا ہے حیات آفندی جو زوہیب کے پاس میٹنگ کے سلسلے میں بات کرنے آئے تھے زوہیب کے کیبن میں سکندر کو دیکھتے ہوئے بولے -وعلیکم السلام انکل میں ٹھیک بس پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو آج میں انکل میٹنگ کے سلسلے میں آیا ہوں -سکندر بیٹا یہ تو اچھی بات ہے “-جی انکل “اور میرے بزنس پاٹنر دوست وقار کی طبیعت کو کیا ہوا -وہ سکندر کے سامنے چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولے -انکل بس ہلکا سا بخار تھا میڈیسن لی ہے پہلے سے بہتر ہیں -چلو آج شام کو میں آپ کی طرف چکر لگاتا ہوں “-جی ضرور انکل “اچھا زوہیب بیٹا وہ فائل دینا جو صبح آپ کو ایک مرتبہ دیکھنے کے لیے دے تھی “-جی پاپا یہ لیں “ٹھیک ہے بیٹا میں چلتا ہوں آپ دونوں دس منٹ تک میٹنگ میں آ جانا -جی انکل ہم آ جائیں گے -اور سناؤ زوہیب مجھے تمہارے بارے میں ایک خبر ملی ہے -کیا میرے بارے میں سکندر “-ہاں یار “اچھا کیسی خبر -مما آج صبح بتا رہی تھیں کہ زوہیب آفندی کی کل منگنی ہے تم نے تو بھئی بتایا بھی نہیں یار کیسے دوست ہو -ہاہاہاہاہا یار میں تو سوچ رہا تھا پتہ نہیں کیا بات ہو گئی اصل میں یہی سمجھ لو اچانک منگنی ہو رہی ہے اس لیے کسی کو بتایا بھی نہیں ابھی تک میرا تو ابھی منگنی شادی کا کوئی موڈ نہیں تھا یہ تو امی جان کو جلدی تھی لڑکی بھی ان کی پسند کی کوئی ہے -لڑکی سے ملے بھی نہیں -نہیں یار صرف تصویر دیکھی ہے میں نے پہلے ہی مما کو بول دیا تھا کہ مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں آپ کو جو اچھی لگے میں اس سے شادی کر لوں گا -اتنا شریف تو شکل سے لگتا تو نہیں سکندر مسکراتے ہوئے بولا “-ہاہاہاہا یار کیا کرؤں اب شکل ہی ایسی ہے “چلو یار سکندر باتیں بہت ہو گئی میٹنگ شروع ہونے والی ہے میرے خیال میں اب چلنا چاہیے ہمیں- ہاں کیوں نہیں چلو –
یہ فائزہ بھی کبھی ٹائم پر نہیں آتی وہ یونیورسٹی میں بینچ پر بیٹھی فائزہ کا انتظار کر رہی تھی – پتہ نہیں اس لڑکی نے اسائنمنٹ بھی مکمل کی ہو گئی یا نہیں سارا دن سیل فون پر لگی رہتی ہے پتہ نہیں کرتی کیا ہے -ہیلو ایمان کیسی ہو ؟میں ٹھیک ہوں پہلے تم مجھے یہ بتاؤ وقت پر یونیورسٹی نہیں آسکتی ہو میں یہاں پر صبح سے بیٹھی تمہارا انتظار کر رہی ہوں -سوری ایمان یار وہ رات کو لیٹ نیند آئی اس وجہ سے آج صبح جلدی آنکھ نہیں کھلی تھی -ہاں فائزہ سیل فون پر جو ساری رات لگی رہو گئی نیند کہاں آنی ہے ایمان طنز کرتے ہوئے بولی -ایمان غصہ تو نہ کرؤ دیکھو سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور اب خود ہی باتوں میں لگی ہوئی ہو پھر لیکچر شروع ہو گیا تو تم نے مجھ پر ہی الزام لگانا ہے -تمہاری وجہ سے لیٹ ہو گئی – اچھا اچھا اب چلو اور اسائنمنٹ تو تیار ہو گئی تھی ناں -ہاں یار اب میں اتنی نالائق بھی نہیں جو اسائنمنٹ تیار نہ کرؤ-
ایمان پوری توجہ سے اکنامکس کا لیکچر سن رہی تھی کہ اس کو فائزہ کی آواز سنائی دی – ایمان یار یہ اکنامکس کا لیکچر کتنا بورنگ ہے قسم سے مجھے تو نیند آرہی ہے -خاموش ہو جاؤ فائزہ پروفیسر صاحب نے دیکھ لیا تو تمہارے ساتھ ساتھ مجھے بھی کھڑا کر دیں گے -ایمان سچ میں تم تو کتابی کیڑا ہو -فائزہ کی بچی میں تمہیں کب سے کہہ رہی ہوں خاموش ہو جاؤ تم ہو کہ بولی جارہی ہو تمہاری باتوں کی وجہ سے مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی -اف توبہ میری جو اب تمہارے ساتھ بات بھی کرو -بہت مہربانی فائزہ –
سیل فون کی مسلسل بجنے والی بیل سے فائزہ کی آنکھ کھل گئی -اس نے کال رسیو کی – ہیلو کون صبح صبح نیند خراب کر دی -فائزہ کبھی وقت پر اٹھ جایا کرو کتنا سوتی ہو -میں ہوں ایمان -ایمان یار کیا ہے میری نیند خراب کر دی -صبح کے آٹھ بج گئے ہیں میں نے کوئی صبح سویرے نہیں جگا دیا -اتنی نیند کی پرواہ ہے تو رات کو جلدی سو جایا کرو ساری رات جو سیل فون پر لگی رہتی ہو -ایمان یار اب تم مما کی طرح نصیحتیں شروع نہ کر دینا۔۔۔
سکندر ہلکی سے دستک دے کر روم میں داخل ہوا السلام علیکم پاپا کیسی طبیعت ہے آپ کی – سکندر بیٹا اللہ کا شکر ہے میں تو ٹھیک ہوں صبح سے دوپہر ہونے والی ہے تمہاری ماں نے کمرے میں بند کیا ہوا ہے وہ مسکراتے ہوئے بولے -آپ اپنے بیٹے سے میری شکایت کر رہے ہیں -نہیں بیگم ہماری اتنی جرات کہاں ہے کہ آپ کی شکایت کریں -سکندر بیٹا تمہارے جانے کے بعد یہ کسی دوست کے پاس جا رہے تھے بس میں نے منع کر دیا کہ آپ بیمار ہیں نہ جائیں اس لیے وہی شکایت ہو رہی ہے وہ ناراض سے لہجے میں بولیں -پاپا پھر تو میں اپنی پیاری مما کے ساتھ ہوں لاڈ سے وہ ان کے شانے پر بازو پھلاتے ہوئے بولا -بھئی سکندر یہ تو زیارتی ہے میرے ساتھ بالکل نہیں پاپا پہلے آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں پھر آپ کو کوئی روکنے والا نہیں ہو گا -ہاں بھئی اب تو تم دونوں کی بات ماننی پڑے گئی -یہ ہوئی ناں بات پاپا -مما ایک اچھی سی چائے تو پلا دیں ٹھیک ہےآپ دونوں باتیں کریں میں ابھی چائے لے کر آتی ہوں -سکندر بیٹا میٹنگ کیسی رہی ہے اور تم اتنی جلدی آگئے -پاپا میٹنگ تو اچھی رہی ہے مجھے پاپا آپ کی فکر تھی آپ اپنا خیال جو نہیں رکھتے اس لیے میں نے سوچا گھر سے ایک چکر لگا آتا ہوں -سکندر بیٹا میری اتنی فکر نہ کیا کرو بھئی عمر کے اس حصے میں چھوٹی موٹی بیماریوں کا ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ویسے بھی دیکھو میڈیسن لی ہے ہلکا سا تو بخار تھا اب بالکل ٹھیک ہوں -ماشاءاللہ سے پاپا ابھی تو آپ جوان ہیں -اس میں تو کوئی شک نہیں وہ پچاس سال کی عمر میں بھی چالیس کے لگ رہےتھے ان کی پرسنیلٹی ہی ایسی ہے – سکندر بیٹا آپ لوگوں کی باتیں تو ختم نہیں ہونے والی یہ چائے پی لو – شکریہ مما چائے تو آپ بہت مزے کی بناتی ہیں جو ذائقہ آپ کے ہاتھوں میں ہے وہ کسی اور میں نہیں -ہاں سکندر بیٹا یہ تو بالکل درست بات کی ہمیں تو چائے بھی صرف ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی پسند ہے وہ چائے پیتے ہوئے بولے -اب زیادہ باپ بیٹے کو مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے خاموشی سے چائے پی لیں -بھئی سکندر تمہاری ماں شرما رہی ہیں آج ہماری تعریفوں سے -ان نے گھور کر اپنے شوہر کو دیکھا لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا-سکندر مسکراہٹ ہوئے اپنے ماں باپ کی خوشگوار باتوں کو سن رہا تھا -اوکے مما پاپا میں چلتا ہوں اب آفس اور پاپا آپ دوپہر کی میڈیسن یاد سے کھا لینا -سکندر بیٹا تمہاری ماں کے ہوتے ہوئے میں میڈیسن کیسے بھول سکتا ہوں -سکندر بیٹا لانچ کا ٹائم تو ہونے والا ہے لانچ کر لو پھر چلے جانا -نہیں مما بس میں چلتا ہوں لانچ آج آفس میں کر لوں گا -اوکے بیٹا جیسے آپ کی مرضی پھر -اوکے مما خدا حافظ –
*****************
وہ بہت مگن ہو کر پکوڑوں کا آمیزہ بنانے میں مصروف تھی -نظروں کی تپش نے احساس دلایا کہ کوئی اس کو گھورنے میں مصروف ہے -اس نے کچن کے دروازے کی طرف دیکھا تو بے ساختہ غصہ آگیا ہوں پتہ نہیں یہ سکندر شاہ آج کسی خوش میں لانچ ٹائم پر گھر آگیا -واہ ملکہ عالیہ آج تو بھئی کوکنگ ہو رہی ہے پکوڑے بنانے میں مصروف ہیں وہ بھی ہماری پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے -اس بارش کے موسم میں چائے کے ساتھ مجھے پکوڑے بہت پسند ہیں پتہ ہے آج یہی سوچ کر میں جلدی آفس سے آیا تھا کہ آپ کے ہاتھوں کے پکوڑے کھانے ہیں دیکھو پھر ملکہ عالیہ اللہ نے بھی میرے دل کی بات جان لی اور مجھے آپ کو کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیوں کہ آپ تو پہلے سے مصروف ہیں پکوڑے بنانے میں -وہ اس کے قریب آتے ہوئے بولا -سکندر شاہ میرے قریب آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے -یہ صرف میں پاپا کے کہنے پر بنارہی ہوں تمہیں زیادہ خوشی فہمی میں مطلع ہونے کی ضرورت نہیں ہے وہ اس وقت پیچھے کھڑا اس گھور رہا تھا -اس نے کوئی چیز اٹھانے کے پیچھے رخ کیا تو اس کے ساتھ ٹکڑا گئی -اس نے ناگواری سے پیچھے ہٹنا چاہا تو سکندر نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا “سکندر شاہ ” جی میری جان “میرا ہاتھ چھوڑو اس نے سختی سے کہا ”
سکندر کے لبوں پر اس وقت شرارتی سی مسکراہٹ تھی – یہ کیا بد تمیزی ہے سکندر -بد تمیزی نہیں محبت ہے -آخری بار کہہ رہی ہوں میرا ہاتھ چھوڑ دو ورنہ میں سب گھر والوں کو شور مچا کر بلا لوں گئی – اس کی دھمکی پر سکندر نے بےاختیار قہقہہ لگایا تھا فاطمہ تو ابھی کالج ہے مما پاپا اپنے روم میں ہیں وہاں تک تمہاری آواز جانے والی نہیں ہے اگر فرض کیا چلی بھی گئی تو کیا کہو گئی -وہ اس کی باتوں سے شرمندہ سی ہو گی -اتنی نازک سی جان میں اتنا غصہ کہاں سے آجاتا ہے -سکندر یہ ڈرامے بازی اب بند کرؤ لنچ کا ٹائم ہونے والا ہے میں نے ابھی کچھ تیار نہیں کیا میں لیٹ ہو جاؤں گئی چھوڑو میرا ہاتھ اس بار وہ نرم لہجے میں بولی -اوکے یہ لو چھوڑ دیا بس کیا یاد کرؤ گئی وہ مسکراہٹ ہوئے بولا اور وہاں سے چلا گیا –
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...