“اللہ پاک وہ مجھے لوٹادیں پلیز اللہ پاک میں دل سے معافی مانگتا ہوں میں نے بہت گناہ کئے لیکن اللہ تیری رحمت تو تیرے غصہ پر حاوی ہے نا پلیز اللہ پاک میں نے بہت برا کیا اس کے ساتھ تجھے بھی ناراض کیا اللہ انسان ہوں خطا کا پتلا یوں شیطان حاوی ہوگیا تھا تو بھی تو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے نا مجھ پر رحم کر مالک مجھے میری زندگی لوٹادے۔۔۔ترے در کے علاوہ کوئی در نہیں تو بھی خالی ہاتھ لوٹا دیگا تو کس کے پاس جاؤں کہاں جاؤں کس سے مانگوں تجھے تو بندے کو خالی ہاتھ لوٹتے شرم آتی ہے نا مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹا تو تو سمندر کے برابر گناہوں کو بھی ایک آنسوؤں سے معاف کردیتا ہے اللہ میرے ان آنسوؤں کا واسطہ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ میرے گناہ معاف کرے مجھے وہ لوٹادے اب میں تیری بندی کو دکھ نہیں دونگا بس ایک بار اور موقع دے دے ” شایان رات کی چار بجے تہجد کی نماز پڑھ کر زار و قطار دعائیں مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا آنسوؤں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔دل درد کی شدت سے پھٹنے کو تھا۔۔۔ لیکن وہ مانگ رہا تھا بھیک مانگ رہا تھا
اسکو سکون مل رہا تھا رب کے سامنے روتے ہوئے۔۔ اس سے اپنے دکھ بانٹتے ہوئے۔۔۔ اس سے التجا کرتے ہوئے
سچ ہے انسان کو کبھی کبھار ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ سیدھا سجدے میں جا گرتا ہے
________________
شہوار اور فیضان کی جانے کا سن کر بڑے تایا حمزہ کاشان اور پھپھو کی پوری فیملی گھر آگئی تھی
بڑے تایا کو جب شایان اور بینش کی شادی کی خبر ملی تو وہ بے حد غصہ ہوئے اور تائی پر بہت چیخے بھی تھے جسکی وجہ سے تائی کمرے میں بند ہوگئی تھیں باہر سب بیٹھے ان دونوں کے بارے میں پوچھ کچھ کر رہے تھے
اریبہ اٹھ کر حوریہ کے پاس آئی تھی حوریہ کی حالت دیکھ کر اسکو بہت افسوس ہورہا تھا
“حوریہ کیوں گئی شہوار” اریبہ نے افسردگی سے کہا حوریہ نے سر اٹھا کر دیکھا پھر واپس سر جھکایا
“میری وجہ سے” حوریہ کی بھیگی ہوئی آواز آئی
“اریبہ وہ مجھے چھوڑ گیا اور شہوار بھی دونوں مجھے بے حد عزیز تھے اریبہ میں مر جاؤں گی” حوریہ رو رہی تھی اور اریبہ اسکو خاموش کروا رہی تھی
حوریہ کو بلانے تائی دروازہ تک آئیں تو حوریہ کی بھیگی آواز اور باتیں سن کر واپس غمزدہ حالت میں لوٹ گئیں
“میرا بیٹا بھی مجھے چھوڑ گیا میری بہو بھی اب انکے بچے بھی۔۔ قیامت کے دن کیا جواب دوں گی میں” دادی مسلسل رو رہی تھیں دونوں تایا انکو چپ کروارہے تھے
بینش کی ماما بابا امریکہ سے کل کی فلائٹ سے آرہے تھی جسپر باقی سب تو نا خوش تھے البتہ تائی کی خوشی دیکھنے لائق تھی جنکی محبت میں انہوں نے یہ سب کیا تھا اب وہی تشریف لارہی تھیں تائی کی خوشی دیدنی تھی
__________________
“شہوار بیٹا یہ دودھ پی لو” کرن شہوار کو بچپن میں بھی دودھ پلاتی تھیں اس میں چاکلیٹ ڈال کر اب بھی وہی دودھ وہی انداز وہی فلیور پھر شہوار حیران ہوئی آج سارا دن اسکیلئے چونکنے کا تھا
“آپ اتنا تکلف مت کریں پلیز میں محبت سے بہت ڈرتی ہوں جس کو بھی میں چاہتی ہوں وہ مجھے چھوڑ دیتا ہے اب ایک آپکا ہی رشتہ ہے میں یہ کھونا نہیں چاہتی” وہ گلوگیر لہجے میں بولی تب کرن نے اسکو سینے میں چھپایا
“میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی سوئیٹی” اب پھر شہوار چونکی سویٹی اسکی ماں ہی بولتی تھی تبھی تو اس نے شایان کو کہا تھا مجھے سویٹی کہا کریں اب میم کی زبان سے سن کر وہ سن رہ گئی
“بھائی بھی یہی کہتے تھے شایان بھی یہی کہتے تھے پر سب نے چھوڑ دیا مجھے توڑ دیا میری ذات بکھیر دی مجھے اکیلا چھوڑ دیا” وہ رونے لگ گئی اور کرن اسکو خاموش کروا رہی تھیں
کتنی بے بسی تھی اپنی اولاد کو دکھی دیکھ کر انکے دل میں جو درد اٹھ رہا تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ ماں ہوکر بھی ماں کا اظہار نہیں کر پارہی تھیں انکو ڈر تھا اگر انکے اظہار پر شہوار نے انکار کردیا تو وہ اپنے آپ کیسے سمیٹیں گی
___________________
“میں مرد ہوں لوگ کہتے ہیں مرد رویا نہیں کرتے میں اور کتنا برداشت کروں میری ذات بکھری میرے ماں باپ نے چھوڑدیا میری بہن اکیلی ہے میری محبت نے اعتبار نہیں کیا بتاؤ کیا میں انسان نہیں ہوں کیا مرد انسان نہیں ہوتے کیا میرے سینے میں دل نہیں ہے کیا مجھے تکلیف نہیں ہوتی میرا بھی دل چاہتا ہے پھوٹ پھوٹ کر روں شہوار کو تو جب تکلیف ہوتی میں اسکو سمیٹ لیتا لیکن مجھے سمیٹنے والی سمیٹنے سے پہلے ہی میرے لئے مرگئی اب میں رونا چاہوں تو دو سکتا ہوں اب شہوار نہیں اب کسی کا ڈر نہیں” اور پھر آسمان نے دیکھا چاند نے دیکھا فیضان مصطفی مضبوط رہتے رہتے تھک گیا اور زندگی میں پہلی بار رو دیا ہاں آج اس نے ضبط کھودیا اس نے قسمت کے آگے ہار مان لی وہ تقدیر سے لڑتے لڑتے تھک گیا اور پھر وہ رو گیا
___________________
اگلے دن تائی کی بہن عالیہ اور انکے شوہر احمد کراچی آگئے بینش ماں باپ سے مل کر بہت خوش تھی تائی کی خوشی بھی دیدنی تھی البتہ گھر میں
باقی سب ناخوش تھے
“یہ گھر میں اتنا سوگ کس بات کا ہے؟” عالیہ کے انداز پر تایا نے ایک سخت نظر ان پر ڈالی
“اس گھر کے چراغ چلے گئے اور جس گھر کے چراغ چلے جائیں وہ بجھ جاتا ہے” تایا کی بات سن کر شایان نے فخر سے باپ کو دیکھا اسکو اپنی خالہ سے ذرا بھی پیار نہیں تھا وہ اپنی خالہ کو پیسوں کا لالچی سمجھتا تھا جو کہ سچ بھی تھا لیکن اپنی ماں کو نہیں سمجھا سکتا تھا انکی آنکھوں پر بہن کی اندھی محبت کی پٹی بندھی ہوئی تھی
سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔سمیہ بیگم بہن کے پاس آئیں
“تم۔تو بڑی خوش ہو مجھے لگا تھا احمد کے ساتھ خوش نہیں ہو تم بھی تو یہی کہتی تھی” سمیہ بیگم نے تعجب سے پوچھا
“ارے آپی لوگوں کے سامنے چہرے پر مسکراہٹ لانی پڑتی ہے” انکی بات کر سمیہ بیگم نے اپنی بہن کو اپنی آغوش میں لے لیا
_________________________
“ماما انکل نہیں آئے دو دن ہوگئے وہ نظر ہی نہیں آئے” کرن کے بے حد اصرار پر شہوار نے آخر ماما بول ہی دیا تھا وہ کچن میں کھانا تیار کر رہی تھیں شہوار کی آواز سن کر چونکیں
“ہاں وہ ایک ہفتے کیلئے دبئی گئے ہیں نا” کرن نے کہا اور شہوار پھر انکو دیکھنے لگی
“ماما ایک بات پوچھوں؟” شہوار کے انداز لر کرن کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی
“پوچھو بیٹا” کانپتی آواز سے کہا
” آپکی گردن پر تل بچپن سے ہے؟” اسکے سوال پر کرن حیران ہوئیں
“تل۔تو بچپن سے ہی ہوتا ہے کیوں پوچھ رہی ہو سوئیٹی” کرن نے مسکرا کر پوچھا
” میرے ماما کے بھی تھا” وہ کہتے ہوئے فورا اٹھ کر چلی گئی اور کرن اپنے دل کی دھڑکن سنبھالنے لگیں
“شہوار ناشتہ کرلو سوئیٹی” کرن شہوار کو اٹھانے اسکے کمرے میں آئیں تو اسکے ہاتھ میں فریم دیکھ کر چونک گئیں
“آرہی ہوں ماما” اس نے بنا سر اٹھائے جواب دیا
“یہ کیا ہے شہوار؟”انہوں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا
“یہ دیکھیں” شہوار نے فریم کا رخ انکی طرف پھیر دیا
“فیضان” وہ بڑبڑائیں
“ارے آپکو میرے بھائی کا نام کیسے پتہ؟” شہوار نے مسکراتے ہوئے پوچھا کرن کو اسکے انداز سے خوف محسوس ہونے لگا
“تت تم نے ہی تو بتایا تھا یونی میں” وہ اپنے آپکو سنبھالتے ہوئے بولیں
“اچھا مجھے تو یاد نہیں پڑتا” شہوار کہنے کے ساتھ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی
“چلیں ماما ناشتہ کرتے ہیں” وہ انکا ہاتھ پکڑ کر ڈائیننگ ٹیبل پر لے آئی
اور انکے کھانے کے انداز دیکھ کر مسکرادی وہ ہمیشہ کھانے کے درمیان باتیں کرنے کی عادی تھیں اب بھی اس کو یونی کی باتیں بتا رہی تھیں اور وہ مسکرا رہی تھی انکی شکل دیکھ رہی تھی
_________________
کتنے مجبور ہیں ہم پیار کے ہاتھوں
نہ تجھے پانے کی اوقات نہ تجھے بھولنے کا حوصلہ
“شہوار خدا کیلئے واپس آجاو میں مر رہا ہوں تھوڑا دل نرم کرلو نا جانتا ہوں میں برا ہوں تمہارے پیار کے لائق نہیں پر ایک بار موقع تو دو تم نے تو جھگڑا بھی نہیں کیا تم نے کوئی شکوہ بھی نہیں کیا ایسے ہی کوئی چھوڑ کر جاتا ہے کیا” وہ شہوار کی تصویر کو ہاتھوں میں پکڑا رو رہا تھا وہ بے بسی کی انتہا پر تھا محبت کتنا بے بس کر دیتی ہے نا۔۔۔۔ وہ جو ایک ایک پل اسکو دیکھتا تھا اب تین دن سے اسکی شکل دیکھنے کیلئے ترس رہا تھا۔۔ہر صبح جسکو دیکھ کر ہوتی تھی اب صبح نئی صبح نہیں بلکہ ایک وبال لگتی ہے اسکو شہوار کے بنا جینا مشکل ترین لگ رہا تھا سچ ہے غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان انسان کا بہت بڑا دشمن ہے جو بہت بڑا نقصان کرا دیتا ہے
مغرب کی آذان ہوئی تو وہ مسجد کی جانب جانے لگا وہ رب کے قریب ہوتا جارہا تھا
________________
“تم نے بات کی اپنی بہن سے” احمر اور عالیہ گیسٹ روم میں تھے تب احمر نے پوچھا
“کیا بات کروں” عالیہ بھی شش و پنج میں تھی
“میں نے بتایا تو تھا کہ اپنی بیماری کا بہانہ کرو اور علاج کے بہانے پیسے لے لو” احمر کا ذہن اس معاملے میں کافی تیز تھا
“وہ تو ٹھیک ہے پر بیماری کیا بتاوں”عالیہ نے آبرو اچکا کر پوچھا
“بولو کینسر ہے اور زیادہ مسکراؤ نہیں کل بھی مسکرائے جارہی تھی جلدی معاملہ نمٹاو پھر واپس چل کر عیش کریں گے اور بینش کو بھی بولو جلدی شایان کو ہڑپ کرے ” احمر نے بیزاری سے کہا
“شایان تو ہاتھ ہی نہیں آرہا” عالیہ نے غصے سے کہا
“آجائیگا آجائیگا تھوڑی چاپلوسی کرو آخر کو اکلوتی خالہ ہو” احمر نے کہا تو عالیہ سوچ میں پرگئیں۔احمر کوئی کام تو کرتا نہیں تھا اسی لئیے عالیہ اور احمر سمیہ بیگم سے پیسے لے لے کر عیش کر رہے تھے
________________
فیضان کو شہوار بہت یاد آرہی تھی وہ اسکو کال کرنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں کر پارہا تھا آج اسکا ضبط جواب دے گیا تھا اس نے ہمت کر کے کال ملائی چار بیل کے بعد فون ریسیو کیا گیا
“ہیلو” حوریہ کی آواز سن کر اندر تک کڑواہٹ آگئی
“شہوار کہاں ہے؟” اس نے اپنا لہجہ حد درجہ سخت کرلیا اور فیضان کی آواز سن کر حوریہ کے آنسو بہنے لگے
“آپ کہاں چلے گئے فیضان؟” حوریہ نے روتے ہوئے کہا
“میں نے کہا ہے شہوار کہاں ہے؟” اسکو حوریہ کے رونے سے فرق نہیں پڑ رہا تھا
” وہ بھی چلی گئی” حوریہ کی بات کر فیضان جو لیٹا ہوا تھا ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا
“کیا کیا مطلب کہاں چلی گئی؟”
“جس دن آپ گئے اسی دن رات کو وہ بھی چلی گئی پتہ نہیں کہاں” حوریہ کی بات کر فیضان نے فون بند کردیا اور اسکا دل پھٹنے لگا
“اووو شہوار کہاں چلی گئی ہے اسکو تو راستے بھی نہیں پتہ ۔۔اللہ یہ کیسی آزمائش ہے میں ان آزمائش کے قابل نہیں ہوں پلیز ان آزمائشوں کو ختم کرے مولا” وہ شہوار جو اسکو جان سے بھی زیادہ پیاری تھی اسکے کھونے پر آنکھوں میں آنسو آنا لازمی تھا اور پھر فیضان آج پھر رودیا
_________________
وہ کرن کے ساتھ بیٹھی تھی اداس سی شکل کئے ہوئے جبکہ کرن کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں
“ماما” شہوار کے اچانک بلانے پر وہ چونکیں
“ہوں”
“ایک بات پوچھوں” شہوار انکے قریب آکر بولی
“ہاں پوچھو؟” وہ بھی مسکرادیں
“آپکا نام کیا ہے؟” شہوار کے اس سوال پر کرن کی سٹی گم ہوگئی
“کیوں پوچھ رہی ہو؟” کرن منمنائی
“ایسے ہی بتائیں نا”شہوار کے اندر عجیب بے چینی تھی
“کرن” انہوں نے آہستہ آواز میں کہا
“کرن مصطفی” شہوار بڑبڑائی
کرن نے سر اٹھا کر دیکھ وہ انکو ہی دیکھ رہی تھی آنکھوں میں آنسو لئیے
“یہ کیسے ممکن ہے؟” شہوار گویا اپنے آپ سے بولی
“تت تم مجھے پہچان گئی؟” کرن نے کچھ خوشی کچھ دکھ سے کہا مبادا کہیں وہ انکار ہی نہ کرے
“میں اسی وقت پہچان گئی تھی جب اٹینڈیس لیتے ہوئے میرا نام لے کر آپ نے مجھے دیکھا تو آپکی آنکھوں میں ممتا کا سمندر آباد تھا” شہوار کہتے کہتے رو گئی اسے اللہ نے اسکو مایوس نہیں کیا تھا کتنا مانگا تھا اس نے اللہ سے اسے پتہ تھا اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ بن مانگے ہی عطا کردیتا ہے تو مانگنے پر کہاں نہیں دییگا
کرن بے اختیار آگے آئیں اور اسکو سینے میں چھپالیا اب کی بار دونوں کیلئے ضبط کرنا مشکل تھا اور دونوں رو دئیے
“ارے کرن رو کیوں رہی ہو اور یہ کون ہے؟” انکو گلے لگ کر روتے دیکھ کر پیچھے سے آتے مصطفی جو کرن کو سرپرائیز دینے کے ارادے سے بغیر بتائے ہی آگئے تھے لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر بوکھلا گئے
دونوں جدا ہوئیں شہوار نے سامنے دیکھا بابا وہی تھے جنکے کندھوں پر وہ چڑھا کرتی تھی
مصطفی کا سامان شہوار کو دیکھتے ہی زمین بوس ہوگیا
“شہوار” وہ بڑبڑائے اور بے یقینی سے اسکو دیکھتے رہے اور شہوار بھاگ کر انکے سینے سے لگ گئی
ماں باپ اور اولاد کے اس زبردست ملاپ پر تقدیر بھی مسکرا رہی تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...