اگلا دن معمول کی افراتفری لیے ہوئے تھا۔ حسب معمول اس نے ناشتہ بنایا بھاگم بھاگ بچوں کو تیار کیا ۔بچوں کو اور اظہر کو ناشتہ کروایا ۔ان لوگوں کو روانہ کر کے ۔خالہ کا ناشتہ انہیں دے کے وہ اپنی چائے لے کر روم میں آ گئی ۔وہ صبح صرف چائے پیتی تھی۔سارہ کے بتائے پلان پہ عمل کرنے کا وقت آ چکا تھا۔باہر بیل ہو رہی تھی وہ ٹھنڈی سانس بھرتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔باہر کام والی تھی۔اس کے سر پہ کھڑے ہو کے صفائی کرواتے ہوئے وہ بچوں کی چیزیں سمیٹتی رہی ۔کام والی کو رخصت کر کے اس نے کچن کا رخ کیا ۔ بچوں کے فیورٹ نوڈلز بنا کے اس نے قورمہ اور رائتہ سلاد بھی بنا لیا ۔کام ختم کر کے جب وہ کمرے میں آئی تو خالہ پہلے ہی وہاں بیڈروم چیئر پہ بیٹھی تھیں۔
“نوشی ! بیٹا یہ کیا حال بنایا ہوا ہے کمرے کا؟ ” انہوں نے تنقیدی نگاہ کمرے پہ ڈالی ۔
گیلا تولیہ صوفے پہ گولا بنا کے پھینکا گیا تھا۔اظہر گھر آ کے جو سوٹ پہنتا تھا وہ ویسے ہی بیڈ پہ پڑا تھا جیسے وہ ابھی بدل کے گیا ہو۔اظہر کی عادت تھی بال بنا کے برش کہیں بھی رکھ دیتا تھا ۔ابھی بھی سائیڈ ٹیبل پہ ان کی شادی کی تصویر کے پاس رکھا برش بہت ہی برا لگ رہا تھا ۔جوتا اظہر نے بھاگم بھاگ کمرے کے وسط میں تبدیل کیا تھا۔گھر کی چپل وہیں پڑی تھی ۔باتھ روم بھی اسی ابتری کا شکار تھا ۔زبیدہ بیگم ایک لمحے کے لیے چکرا گئیں ۔وہ جانتی تھیں کہ پھیلاوہ اظہر کی نفیس طبیعت پہ گراں گزرتا تھا ۔آدھا دن گزر گیا تھا ۔ان کے سر میں درد تھا ان کی سب دوائیں ختم تھیں ۔وہ کچن تک گئیں پھر نوشی کو کام میں مصروف دیکھ کے خود نوشی کے کمرے کا رخ کیا ۔اور دل پہ ہاتھ رکھ کے وہیں بیٹھ گئیں ۔
” کیا حال ہے ٹھیک تو ہے سب دیکھیں کہیں ایک بھی جگہ بچوں کی کوئی چیز نہیں بکھری ۔آج میں نے رشیدہ سے گھر بھی تفصیلی صاف کروایا ہے ۔کتنا صاف ہے نا آج؟” انجان بنتے ہوئے وہ تفصیل سے بتانے لگی تو زبیدہ خاتون کو اس کی عقل پہ شبہ ہوا ۔
“تم دیکھ نہیں رہیں ۔اظہر کی ساری چیزیں بکھری ہیں ۔تمھیں پتا ہے نا اسے پھیلاوے سے کتنی چڑ ہے۔انہوں نے تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔تو وہ اطمینان سے بیڈ پہ بکھرے اظہر کے کپڑوں کو زرا سا ہٹا کر بیڈ پہ بیٹھ گئی ۔
“چھوڑیں بھی خالہ جنہیں پھیلاوے سے نفرت ہو ۔وہ اپنی چیزیں آپ کے بیٹے کی طرح ادھر اودھر پھینکتے نہیں ہیں ۔” کمال اطمینان سے ٹانگیں پسارتے ہوئے وہ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا گئی ۔” تم نے بچوں کی چیزیں سمیٹیں تھیں۔ اس کی بھی سمیٹ دیتی روز تو تم کرتی ہو آج کیا ہوا؟” زبیدہ حیران تھیں کہ بیٹھے بٹھائے اس کو کیا ہو گیا۔
خالہ ! میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اب میں تھک جاتی ہوں ۔روز روز والا کام اب نہیں ہوگا ۔آپ کہتی ہیں نا کہ ماں کا فرض ہوتا ہے اولاد کے کام کرنا ۔میں نے شانی اور مانی کی سب چیزیں سمیٹ دی ہیں ۔کوئی ایک چیز بھی ادھر سے اودھر ہو تو مجھے کہیں۔ اس نے بات ختم کرتے ہوئے دانستہ پاس پڑا میگزین اٹھا لیا۔
“تو اظہر کی چیزیں سمیٹنا تمھارا فرض نہیں ہے ؟ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ صرف اس پھیلاوے کی وجہ سے تم لوگوں کا جھگڑا ہو سکتا ہے۔ وہ غصے میں پھر میری بھی نہیں سنتا ۔” انہوں نے پریشان نظر اس پہ ڈال کے اسے سمجھانا چاہا ۔
“وہ غصّہ کرے چاہے گلہ مگر آج سے اسے اپنی چیزیں خود ترتیب سے رکھنی ہوں گی ۔میں شانی ،مانی کے کام کر کے ہی تھک جاتی ہوں ۔ میں مزید بکھیرے نہیں سمیٹ سکتی ۔” حتمی انداز میں کہتی میگزین واپس رکھتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی ۔ تو ناچار زبیدہ بیگم نے کراہتے ہوئے کام کی شروعات کی سب سے پہلے گیلا تولیہ بالکونی میں پھیلایا پھر کپڑے سمیٹ کے باتھ روم میں ٹانگے جوتے شو ریک میں رکھے ۔ برش ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا ۔اتنے میں ہی وہ ہانپنے لگیں ۔بلاشبہ نوشین ایک اچھی بہو تھی ۔جس نے بہو اور بھانجی ہونے کا خوب حق ادا کیا تھا ۔ وہ شوگر اور بی پی کی مریضہ تھیں ۔کبھی شوگر ہائی ہو جاتی تو کبھی بی پی بڑھ جاتا ۔ اس لیے نوشین انہیں ہل کے پانی بھی نہیں پینے دیتی تھی۔ ان کی جب بھی طبعیت خراب ہوتی تھی ۔اظہر سے زیادہ نوشین کے ہاتھ پیر پھول جاتے تھے۔وہ ان سے محبت ہی اتنی کرتی تھی۔ اب بھی وہ بچوں کے اور اظہر کے کپڑے آئرن کر کے آئی تو کمرہ صاف دیکھ کے ٹھٹھک گئی۔
“مجھے معاف کر دیں خالہ! میری وجہ سے آج آپ کو اتنا تھکنا پڑا “۔افسردہ لہجے میں خالہ کو غائبانہ مخاطب کرتے ہوئے وہ کچن کی طرف چل دی بچے بس آنے ہی والے تھے۔